عالمی خبریں

مختصر عالمی جماعتی خبریں

مرتبہ فرخ راحیل۔ مربیٔ سلسلہ

اس کالم میں الفضل انٹرنیشنل کو موصول ہونے والی جماعت احمدیہ عالمگیر کی تبلیغی و تربیتی مساعی پر مشتمل رپورٹس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

﴿گوئٹے مالا﴾

گوئٹے مالا میں میڈیکل کیمپس کا انعقاد

(خلاصہ رپورٹ مرسلہ عبدالستار خان صاحب،امیر و مبلغ انچارج گوئٹے مالا)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دسمبر 2017ء کے آخری عشرہ اور جنوری 2018ء کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران ہیومینٹی فرسٹ امریکہ کے تعاون سے ہیومینٹی فرسٹ گوئٹے مالانے مختلف مقامات پر کُل تین میڈیکل کیمپس لگائے۔ان تینوں میڈیکل کیمپس کے تحت کُل 4459 مریضوں کا چیک اَپ کیا گیا اور مفت ادویات مہیّا کی گئیں۔ امریکہ سے ڈاکٹرز ، نرسز اور سٹوڈنٹس گروپس کی صورت میں تشریف لاتے اور مقامی ڈاکٹرز، ٹرا نسلیٹرز ، نرسز، سٹوڈنٹس اور ہیومینٹی فرسٹ کے کارکنان کے ساتھ مل کر مریضوں کا معائنہ کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے تینوں کیمپس نہایت کامیاب رہے۔ قارئین الفضل سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ ہیومینٹی فرسٹ گوئٹے مالا کو آئندہ بھی ایسے پروگرامز منعقد کرنے کی توفیق ملے۔ آمین۔

٭…٭…٭

﴿مالی(مغربی افریقہ)﴾

مالی کے ریجن سیگومیں انٹرنیشنل فیسٹیول کے موقع پر جماعت احمدیہ کا بُک سٹال

(خلاصہ رپورٹ مرسلہ تاثیر احمد صاحب مبلغ سلسلہ مالی)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مالی کو سیگو انٹرنیشنل فیسٹیول میں29جنوری تا 4فروری 2018ء جماعتی کتب پر مشتمل بُک سٹال لگانے کی توفیق ملی۔ اس سٹال کے ذریعہ جہاں وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف ہوا وہاں تبلیغ کا بھی ایک وسیع ذریعہ مہیا ہوا۔ فیسٹیول کے دوران کثیر تعداد میں کتب کی فروخت ہوئی اور 7100کی تعداد میں جماعتی پمفلٹس تقسیم کئے گئے۔نیز اس دوران 14 سوال و جواب کی محفلیں منعقد ہوئیں۔ اس سٹال کے ذریعہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 40000 لوگوں تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

٭…٭…٭

﴿تھائی لینڈ﴾

تھائی لینڈ کے 46ویں سالانہ نیشنل بُک فیئر اور16ویں انٹرنیشنل بُک فیئر کے مشترکہ انعقاد پر جماعت احمدیہ کی شمولیت

(خلاصہ رپورٹ مرسلہ مکرم Uung Kurnia صاحب صدر جماعت تھائی لینڈ)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ تھائی لینڈ کو تھائی لینڈ کے 46ویں سالانہ نیشنل بُک فیئر اور 16ویں انٹرنیشنل بُک فیئر کے مشترکہ انعقاد پر شمولیت اختیار کرنے کی توفیق ملی۔Bangkokمیں مشترکہ بُک فیئر کا انعقاد Queen Sirkit Convention Hallمیں 29 مارچ تا 8اپریل 2018ءکو ہوا جس کا افتتاح عزت مآب شہزادی Sirindhornنے کیا۔

جماعت احمدیہ کے سٹال پر قرآن کریم کے مختلف تراجم کے علاوہ تھائی،انگریزی اور چینی زبانوں میں جماعتی لٹریچر رکھا گیا۔ سٹال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لئے تزئین و آرائش roll-upبینرز کے ذریعہ کی گئی جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تصویر کے ساتھ اسلام احمدیت کے پیغام کا خلاصہ درج تھا۔ امسال خاص طور پر اس بات کو محسوس کیا گیا کہ غیر مسلموں نے اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے میں بہت گہری دلچسپی لی اور عصر حاضر کے مسائل کے بارہ میں کئی سوالات کئے۔

قرآن کریم کا تھائی ترجمہ، تھائی اور انگریزی زبان میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘، World Crisis and the Pathway to Peaceنیز لائف آف محمدﷺ اور کتاب ’’God‘‘ کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ تھی۔

تھائی غیر از جماعت مسلمانوں میں سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث کتاب The second coming of Jesus اور کتاب Al-Bushra میں تھی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کاوش کے ذریعہ ہمیں بہترین پھل عطا ہوں۔آمین۔

٭…٭…٭

2017ء کی بعض اہم خبریں

﴿بینن (مغربی افریقہ)﴾

بینن کے ریجن آٹلانٹک کے گاؤں آگلانگبین AGLANGBIN میں احمدیہ مسجد کا بابرکت افتتاح

(خلاصہ رپورٹ مرسلہ مکرم مظفر احمد ظفر صاحب مبلغ سلسلہ بینن )

AGLANGBINگاؤںاٹلانٹک ریجن میں واقع ہے اور ZE(زَے)کمیون کا سرحدی اعتبار سے آخری گاؤںہے۔ اس لئے انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ گاؤںہے۔گاؤں کی آبادی ایزو کہلاتی ہے اور ان کی زبان کا بھی یہی نام ہے۔ان کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی اور ماہی گیری ہے۔بارشوں کے باعث یہ علاقہ 5ماہ پانی میں ڈوب جاتا ہے اس لئے رہائشگاہوں کو ستونوں کے ذریعہ سطح زمین سے بلند کر کے تعمیر کیا جاتا ہے۔گاؤں تک پہنچنا ایک بہت مشکل امر ہے۔اس کے باوجودمحض اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا پیغام اس گاؤں تک پہنچا اور سن2016ء میں جماعت احمدیہ کا پودا اس گاؤں میں لگا۔

جب اس علاقہ کے دیگر مسلمانوں کو پتہ چلا کہ اگلانگبین گاؤںکے لوگوں نے جماعت احمدیہ قبول کر لی ہے تو انہوں نے اپنا وفد بھیجا کہ یہ لوگ جماعت سے دستبردار ہو جائیں۔لیکن گاؤں والوں نے جواب دیا کہ ہم گزشتہ تیس سالوں سے مسلمان ہیں آج تک آپ میں سے کوئی نہیں آیا کہ ہمیں دین سکھائے اور دینی علوم سے واقف کروائے مگر جماعت احمدیہ کے مبلغین او ر معلمین ہیں جو باقاعدہ ہمارے پاس آتے اور ہمیں دینی علوم سکھاتے اور کلاسز کا انعقاد کرتے ہیں اور صرف اسی طرح ہمیں یہ ادراک ہوا ہے کہ اسلام ایک نہایت خوبصورت مذہب ہے اور اسی لئے ہمیں امام الزمان حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو ماننے کی توفیق ملی ہے۔ اس طرح اس وفد کو شرمندہ واپس لوٹنا پڑا ۔

قبول احمدیت سے قبل گاؤں والے گاؤں میں ایک کچی اور بوسیدہ حالت کی ایک مسجد میںنمازیں ادا کرتے تھےاور نماز جمعہ کے لئےافامے شہر جاتے تھے۔قبول احمدیت کے بعد باقاعدہ اسی گاؤں میں نماز جمعہ اور دیگر نمازوں کا انتظام کیا گیا۔مگر پہلے سے تعمیر شدہ بوسیدہ مسجد ان ضروریات کے پیش نظر چھوٹی اور ناکافی تھی۔چنانچہ مقامی جماعت نے 20×25میٹر پر مشتمل قطعہ جماعت کے لئے وقف کیا جس کو قانونی طور پر جماعت کی ملکیت میں شامل کیا گیاہے۔

اس علاقہ کا براہ راست زمینی راستہ تعمیراتی سامان کی ترسیل کے لئے انتہائی کٹھن ہونے کے باعث بذریعہ کشتیاں اور آخر پر بذریعہ موٹر سائیکلز کے ٹنوں سیمنٹ، ریت،بجری اور لکڑی وغیرہ کی ترسیل کی گئی۔

15مارچ 2017ء کو اس مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی۔علاقہ میں پانی کے چڑھاؤ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے مسجد کو زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند کنکریٹ کے ستونوںپرتعمیر کیا گیا۔مکرم مظفر احمد ظفر صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم منتظر احمد صاحب مبلغ سلسلہ کی نگرانی میں مسجد کی تعمیر کی گئی اور جولائی کے شروع میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔

راستہ کی مشکلات اور پانی کے چڑھاؤ کے باعث ماہ نومبرکی24تاریخ کومسجدکے باقاعدہ افتتاح کا پروگرام رکھا گیا۔ مرکزسے مکرم رانا فاروق احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ بینن، مکرم منتظر احمد صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم مظفر احمد ظفر صاحب مسجد کی افتتاحی تقریب کے لئے کوتونو سے گاڑی پر روانہ ہوئے۔115کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد کشتیوں میں پانی کا راستہ عبور کر کے موٹر سائیکلوں کے ذریعہ گاؤں پہنچے۔احباب جماعت نے والہانہ طور پر وفد کا استقبال کیا۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع ایزو اور فرنچ ترجمہ سے ہوا۔ عربی قصیدہ کے بعد مقامی صدر صاحب نے مہمانوں اور مرکزی وفد بالخصوص امیر جماعت احمدیہ بینن کا شکریہ ادا کیا۔آپ نے کہا کہ اب ہم نمازیں اور نماز جمعہ بہ سہولت ادا کرسکتے ہیں۔

٭…بعد ازاں امام صاحب نے تقریر کی اور کہا کہ گزشتہ تیس سالوںسے اس علاقہ میں مسلما ن آبادی موجود ہے مگر کسی مسلمان تنظیم کو یہ توفیق نہیں ملی جو جماعت احمدیہ کو ملی ہے۔

٭… گاؤن کے چیف صاحب نے جماعت کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ اب ہمارے گاؤں کی پہچان یہ خوبصورت مسجد ہے۔مسجد کی تعمیر سے ہمارے گاؤںکا تعارف مزید بڑھا ہے۔

٭… VEDEKOکے کِنگ(بادشاہ) نے کہا کہ مَیں نے لوکل معلم نورالدین صاحب کی کاوشوں سے احمدیت قبول کی ہے۔میرا نام عبدالجبار رکھا گیا ہے۔میں اس علاقہ کے احمدیوں سے کہتا ہوں کہ مسجد میں باقاعدگی سے نمازیں ادا کریںاور جماعت کی پُرامن تعلیم کا پرچار کریں۔

٭… معلم نورالدین صاحب نے اپنی تقریر میں مالی قربانی کی اہمیت بیان کی۔

آخر پر مکرم رانا فاروق احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ بینن نے قرآن کریم کی روشنی میں مساجد کی تعمیر کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر مسجد سیمنٹ، ریت اور بجری سے بنتی ہے لیکن اس کی حقیقی خوبصورتی نمازوں اور نمازیوں سے ہے۔

خطاب کے بعد فیتہ کاٹ کر آپ نے مسجد کا افتتاح کیا۔تمام احبا ب کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ جمعہ کی ادائیگی کے بعد حاضرین کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔

علاقہ کی اس پہلی مسجد کا مسقف حصہ 10×8میٹر پر مشتمل ہے۔

اس تقریب میں 6جماعتوں کے 310 احباب نے شرکت کی۔جن میں نومبایعین کی کثیر تعداد تھی۔

اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس مسجد کو علاقہ کے لئے باعث برکت بنائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button