خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ13؍ اپریل 2018ء بمقام مسجد بشارت ،پیدرو آباد،سپین

مسلمان دنیا اس وقت سب سے زیادہ فسادوں کی نذر ہو رہی ہے۔ ان کے دینی اور دنیاوی رہنما انہیں اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں اور آپس میں ایک ہی ملک کے رہنے والے شہری ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ا ور اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی دنیا خاص طور پر غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے گروہوں کو لڑانے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے جنگی سازو سامان بھی دے رہی ہیں اور فوجی مدد بھی دے رہی ہیں۔ پس یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اور یہ حالت جہاں ہمیں اپنے لئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے، عامّۃالمسلمین کے لئے جنہوں نے نہیں مانا،

ان کے لئے دعاؤں کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے وہاں ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے، اس طرف توجہ کی بھی ضرورت ہے کہ اپنی عملی حالتوں کو ویسا بنائیں، اپنی روحانی حالتوں کو ویسا بنائیں جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعض ارشادات کا تذکرہ جن میں آپ نے جماعت کو اپنی حالتوں کو بہتر بنانے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا اور صرف اس کی رضا کو حاصل کرنا کوئی آسان

کام نہیں ہے۔ لیکن یہ ایسا امر ہے جس کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی احمدی ہونے کا مقصد بھی حاصل ہو گا۔

قرآن کریم پر غور اور فکر کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تلقین فرمائی تھی اسی طرح آپ کی کتب کو بھی پڑھنے اور دینی علم بڑھانے کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور اسی طرح خلافت سے تعلق جوڑنے کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو ایم ٹی اے کی نعمت دی ہے اس کے ذریعہ رابطہ قائم کرنا چاہئے اور خلیفۂ وقت کے جو تمام پروگرام ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جو لوگ اس تعلق کو ایک خاص توجہ سے قائم رکھے ہوئے ہیں، بہت سارے لوگ ہیں ایم ٹی اے سنتے ہیں اور ایم ٹی اے سے تعلق ہے ان کے مجھے خطوط آتے ہیں کہ ان کے ایمان و یقین میں اس تعلق کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے ہر احمدی کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ کو بار بار پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے۔

اس کے لئے اس کو جہاں پڑھنے اور سنانے کا جماعتوں میں انتظام ہونا چاہئے اور اسی طرح ایم ٹی اے میں بھی پڑھنے کا انتظام ہونا چاہئے۔

ہر ایک کو اس کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنانا چاہئے۔ خود بھی پڑھنی چاہئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

ان دنوں میں خاص طور پر پاکستان کے حالات کے متعلق بھی دعا کریں اور پاکستانیوں کو خود بھی اپنے متعلق اور اپنے لئے بہت دعا کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ عمومی طور پر ملک کے اندر بھی مولویوں کی وجہ سے جو فساد دوبارہ برپا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے شر سے

ملک کو بھی محفوظ رکھے۔ عام طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کریں بڑی تیزی سے یہ اب جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


اس زمانے میں دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد برپا ہے۔ کہیں دین کے نام پر فساد برپا ہے تو کہیں دنیاوی طاقت اور برتری ثابت کرنے کے لئے فساد برپا ہے۔ کہیں غربت اور امارت کے مقابلے کی وجہ سے فساد ہو رہا ہے تو کہیں سیاسی جماعتوں کے حکومتی اختیارات سنبھالنے کے لئے فساد پیدا ہوا ہوا ہے۔ کہیں گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے اور فساد ہیں تو کہیں ایک دوسرے کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا ہو رہا ہے۔ کہیں نسلی برتری ثابت کرنے کے لئے فساد کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں اپنا حق لینے کے لئے غلط طریق اختیار کر کے فتنہ و فساد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غرض کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں دنیا فتنہ و فساد میں گھری ہوئی ہے۔ نہ غریب اس سے محفوظ ہے، نہ امیر اس سے محفوظ ہے۔ نہ ترقی یافتہ ممالک اس سے محفوظ ہیں، نہ کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک اس سے محفوظ ہیں۔ گویا کہ انسان جو اپنے آپ کو اس زمانے میں بڑا ترقی یافتہ سمجھ رہا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ یہ علم اور عقل اور روشنی کا زمانہ ہے، حقیقت میں اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول کر دنیا کی تلاش اور اسے ہی اپنا معبود سمجھ کر، اسے ہی اپنا رب سمجھ کر تباہی کے گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایسے حالات میں غیر مسلم دنیا کا دنیا کی چکا چوند میں ڈوبنا تو کچھ حد تک انسان سمجھ سکتا ہے کیونکہ ان کے دین میں تو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ان کا دین جامع اور مکمل حل پیش نہیں کرتا۔ لیکن مسلمانوں پر حیرت ہے جن کے پاس ایک جامع اور مکمل کتاب اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اس زمانے کے امام کو بھیجا ہے جس نے علماء کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے قرآن کریم کی تفسیروں میں یا دین میں جو اختلافات اور غلط رنگ پیدا کر دیا تھا اس کی اصلاح کرنی تھی۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی بات سنیں اور اس بات کی طرف آئیں جو اختلافات اور فسادات کو ختم کرنے والی بات ہے، مسلمانوں کی اکثریت دین کے نام پر فساد پیدا کرنے والے علماء کے پیچھے چل پڑی ہے اور ان کے پیچھے چل کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کے فساد کو ختم کرنے کے لئے اور آپس میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے پہچاننے کے لئے ایک انتظام کیا تھا۔ لیکن مسلمان اس طرف توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان دنیا اس وقت سب سے زیادہ فسادوں کی نذر ہو رہی ہے۔ ان کے دینی اور دنیاوی رہنما انہیں اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں اور آپس میں ایک ہی ملک کے رہنے والے شہری ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ا ور اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی دنیا خاص طور پر غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے گروہوں کو لڑانے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے جنگی سازو سامان بھی دے رہی ہیں اور فوجی مدد بھی دے رہی ہیں۔ پس یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اور یہ حالت جہاں ہمیں اپنے لئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے، عامّۃ المسلمین کے لئے جنہوں نے نہیں مانا، ان کے لئے دعاؤں کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے وہاں ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے، اس طرف توجہ کی بھی ضرورت ہے کہ اپنی عملی حالتوں کو ویسا بنائیں، اپنی روحانی حالتوں کو ویسا بنائیں جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہماری عملی حالتیں ایسی نہیں ہیں جیسا آپ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو جائیں جو فتنہ و فساد میں مبتلا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسلسل اور بار بار اپنی جماعت کے افراد کو نصیحت فرمائی ہے کہ تمہاری حالتیں بیعت کے بعد کیسی ہونی چاہئیں؟ اس کے لئے تم نے کیا طریق اختیار کرنے ہیں یا کرنے چاہئیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات اس وقت مَیں پیش کروں گا جو ان باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اس لئے ہمیں ان کو غور سے سننا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ پہلے بھی کئی مرتبہ سن چکے ہیں یا پڑھ چکے ہیں۔ پڑھ کے اور سن کے بھی بھول جاتے ہیں۔ جس تواتر سے اور جس طرح مختلف پیرائے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں بیان کی ہیں اور سالوں میں پھیلی ہوئی مجالس میں بار بار جماعت کو اپنی حالتوں کے بہتر کرنے کی تلقین کی ہے یہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اپنی جماعت کی کس قدر فکر تھی کہ کہیں وہ اپنے مقصد کو بھول نہ جائیں۔ کہیں بیعت کے بعد پھر ان میں بگاڑ نہ پیدا ہوجائے۔ پھر وہ اندھیرے کی طرف نہ بڑھنے شروع ہو جائیں۔

ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ

’’ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُرآشوب زمانے میں جب کہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔ نہ یہ پتہ ہے کہ ہمارے کیا حق ہیں اور کس طرح ہم نے ادا کرنے ہیں نہ ان باتوں کی پرواہ ہے جس کی ان کو تلقین کی گئی تھی یا جس کی خود وہ وصیت کرتے ہیں یا ان کو وصیت کی گئی۔’’ دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصے کو ترک کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں‘‘۔ ذرا سی بات ہوئی تو نفسانی جذبات غالب آ گئے۔’’ اس وقت تک کہ خدا نے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے‘‘۔ اگر گناہ نہیں کر رہے تو اس لئے کہ کمزور ہیں۔ ڈرتے ہیں کہیں پکڑے نہ جائیں اور سزا نہ ملے۔’’ مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’ آج اس زمانے میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے لیکن چونکہ خداتعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچے تقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اَور فصل پیدا کردیتا ہے‘‘۔ ایک نسل خراب ہو رہی ہے، ایک فصل خراب ہو رہی ہے تو اَور فصل پیدا کر دیتا ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اگر ایک نسل تباہ ہو گی یا کچھ لوگ تباہ ہوں گے یا ایک قوم تباہ ہو گی تو اور قومیں پیدا کر دے گا اور پیدا کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر10:)‘‘کہ ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے، اس قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ فرمایا کہ ’’بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے۔ اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے۔‘‘ اگر برائیاں پھیل رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا تھا، اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا تقاضا تھا کہ اس میدان کو دوبارہ ایسے لوگوں سے بھرے یا ایسے لوگ پیدا کرے جو پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ دین کا اجرا کرنے والے ہوں۔ دین کو پھیلانے والے ہوں۔ دین پر عمل کرنے والے ہوں۔ آپ فرماتے ہیں’’ ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دُور رہیں۔ اس لئے اب ان کے مقابلے میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 395-396۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اگر صحیح بیعت کی ہے تو احمدی کو زندوں میں شامل ہونا ہوگا، روحانی زندوں میں شامل ہونا ہو گا ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔کیا یہ نئی قوم، صرف منہ سے کہہ دینے سے ہم نئی قوم بن جائیں گے۔ نہیں۔بلکہ اس کے لئے عملی حالتوں کی تبدیلی اور سچا تقویٰ پیدا کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم وہ نئی قوم بن سکتے ہیں جو اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والی ہے۔ تبھی ہم وہ لوگ بن سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں۔ تبھی ہم اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔

اسلام کی حقیقت کیا ہے اور اسے ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ 

’’اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصرّفات کے نیچے آ جانے کا نام ہے اور اس کا خلاصہ خدا کی سچی اور کامل اطاعت ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اپنا سارا وجود خدا تعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے بِدُوں کسی امید پاداش کے‘‘۔(بغیر کسی امید کے، بغیر کسی انعام کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا چاہتا ہے)۔ ’’مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ (البقرۃ113:)۔ یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپرد کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور خوشنودی ہو اور تمام نیکیاں اور اعمال حسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقت اور مشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذت اور حلاوت کی کشش ہو۔‘‘ اگر کوئی نیکیاں کرنی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہمارے پہ بڑا بوجھ پڑ گیا بلکہ ہر نیک کام کرنے میں انسان کو ایک لذت، ایک مزا آنا چاہئے۔ خوشدلی سے کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ ’’جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت سے تبدیل کر دے‘‘۔ فرماتے ہیں’’ حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب و مولیٰ پیدا کرنے والا اور محسن ہے اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتا ہے۔ سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں، نہ لذات ہیں تو وہ اپنے اعمال صالحہ اور محبت الٰہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ یہ ہے اللہ تعالیٰ سے بے نفس محبت جو آپ پیدا کرنا چاہتے ہیںکہ کسی بدلے کے لئے نہیں، دوزخ کے ڈر سے نہیں، جنت کو حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خالص محبت ہونی چاہئے۔ چاہے کچھ بھی نہ ملے تب بھی اللہ تعالیٰ سے محبت ہو۔ ’’کیونکہ اس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی شناخت، اس کی محبت اور اطاعت کے لئے بنائی گئی ہے اَور کوئی غرض اور مقصد اس کا ہے ہی نہیں۔ اسی لئے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میں صرف کرتا ہے تو اس کو اپنے محبوب حقیقی ہی کا چہرہ نظر آتا ہے‘‘۔ جب بے نفس ہو کر اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر آتا ہے۔ پھر صحیح تعلق پیدا ہوتا ہے۔ ’’بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاً نظر نہیں ہوتی‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر نظر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے عشق میں اپنی حالت کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’مَیں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلایا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو ایک لذت اور محبت کے جوش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لا انتہا موت سے بڑھ کر دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے…‘‘۔ فرمایا کہ’’ ایک سچا مسلمان خدا کے حکم سے باہر ہونا اپنے لئے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اور آرام کا وعدہ دیا جاوے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’پس حقیقی مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کسی جزا اور سزا کے خوف اور امید کی بنا پر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعی خاصہ اور جزو ہو کر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لئے ایک بہشت پیدا کر دیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے۔ کوئی آدمی بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے۔ اس لئے میں تم کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اسی راہ سے داخل ہونے کی تعلیم دیتا ہوں کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 181 تا 183۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہمارے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کے بارہ میں یہ امید اور توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا اور صرف اس کی رضا کو حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن یہ ایسا امر ہے جس کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی احمدی ہونے کا مقصد بھی حاصل ہو گا۔ چنانچہ آپ نے خود ہی یہ سوال اٹھایا کہ کیا اطاعت ایک سہل امر ہے؟ آسان بات ہے؟ پھر فرماتے ہیں کہ

’’جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو‘‘۔(ملفوظات جلد 4صفحہ 74۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو محض اسم نویسی سے کوئی جماعت میں داخل نہیں‘‘۔ صرف نام لکھوانے سے جماعت میں داخل نہیں ہو جاتے ’’جب تک وہ حقیقت کو اپنے اندر پیدا نہ کرے‘‘۔ فرمایا’’ آپس میں محبت کرو۔ اتلاف حقوق نہ کرو‘‘۔ ایک دوسرے کے حق نہ مارو’’ اور خدا کی راہ میں دیوانہ کی طرح ہو جاؤ تا کہ خدا تم پر فضل کرے۔ اس سے کچھ باہر نہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 75 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ نے واضح فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے کامل ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس کی عملی مثال ایسی ہی ہے جیسے زبان سے صرف شیرینی یا مصری کہہ دینا یا میٹھا میٹھا کہنے سے منہ میٹھا نہیں ہو جاتا جب تک میٹھا کھایا نہ جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور توحید کا زبانی اقرار فائدہ نہیں دے گا جب تک عملی حصہ نہ ہو اور عملی حصہ اسی وقت ثابت ہو گا جب دنیا کو مقدم کرنے کا بوجھ اتار کر دین کو مقدم کروگے۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو پھر دین کو مقدم کرو۔ اگر خدا کو خوش کرنا ہے تو دین کو مقدم کرو۔ دین تمہاری ترجیح ہونی چاہئے۔ آپ نے انذار فرمایا کہ اگر تمہارے اندر وفاداری اور اخلاص نہیں ہے تو تم جھوٹے ہو اور ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جس میں وفاداری نہیں ہے۔ فرمایا کہ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا۔ اس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 188 تا 190۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ کس طرح تم یہ حاصل کر سکتے ہو اور صحابہ نے کس طرح اسے مقدم رکھا اور تمہیں کس طرح اس کی کوشش کرنی چاہئے آپ فرماتے ہیں کہ 

’’دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے‘‘ (یا دنیاوی کام کرنا منع ہے۔) ’’نہیں۔ صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے‘‘۔ شیطان ان پر حملہ آور نہیں ہو سکا، شیطان ان پر قابو نہیں پا سکا۔ دنیاوی کام بھی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ یاد رہتا تھا۔ ’’کوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتاہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔‘‘ کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے بچائے گی۔ فرمایا کہ’’ سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے۔ پس مَیں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں زیادہ امید ان پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پا لے۔‘‘ یعنی جن میں مستقل مزاجی نہیں ہے تو پھر دین دنیا پر مقدم نہیں رہ سکتا۔ پھر سستیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ انسان شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’اس لئے کبھی سست نہیں ہونا چاہئے۔ ہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھنا چاہئے تا کہ معرفت میں زیادت ہو۔ پوچھنا حرام نہیں۔ بحیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہئے۔‘‘ اگر کوئی کسی بات کو نہیں مانتا، غیر ہیں تو ان کو تبلیغ کرنی چاہئے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی پوچھیں ’’اور عملی ترقی کے لئے بھی‘‘۔ ایک مومن جو ہے اگر اس کو عملی ترقی کرنی ہے تو علم حاصل کرنا چاہئے اور سوال پوچھنے چاہئیں۔ فرمایا کہ’’ جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھے۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کرے۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے‘‘۔ فرمایا کہ ’’قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 193-194۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک موقع پر جماعت کو تقویٰ کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے۔‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس بات کے لئے بھیجا ہے وہ یہی ہے ’’کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے۔ تقویٰ ہونا چاہئے۔ نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔‘‘ تلواریں نہیں اٹھانی لوگوں کے سر نہیں اڑانے۔ جس طرح آجکل بعض تنظیمیں یا دہشت گرد گروہ اسلام کے نام پر کر رہے ہیں بلکہ دین پھیلانا ہے۔ دین کی تبلیغ کرنی ہے۔ تربیت کرنی ہے۔ تو پہلے اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو۔ تقویٰ ہو گا تو سارے کام بھی آہستہ آہستہ شروع ہو جائیں گے۔ فرمایا تلوار نہیں اٹھانی۔ ’’یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جُزوِ اعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہو سکتی‘‘۔ تلوار سے جنگ نہیں کرنی۔ پہلے تقویٰ پیدا کرنے کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرنی ہے پھر دوسروں کو بھی انسان پیغام پہنچا سکتا ہے اور اس سے لوگ پھر ناراض بھی نہیں ہوں گے۔ فرمایا کہ’’ اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے۔ مگر اب خدا چاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 358-357۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ دنیاوی مقاصد کی طرف تو ہماری زیادہ توجہ نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے تو پھر دین کو مقدم کرنا ہو گا اور دنیاوی مقاصد کو پس ِپُشت ڈالنا ہو گا۔ پس یہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم دین کو مقدم کر رہے ہیں یا دنیا ہمارے دین پر غالب آ رہی ہے۔ تقویٰ میں ہم بڑھ رہے ہیں یا تقویٰ کی کمی ہو رہی ہے۔

اپنی روحانیت بڑھانے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے ساتھ اپنے دینی علم کو بڑھانے کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر آپ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ

’’مُرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔ جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مُرید اپنے مرشد سے۔ لیکن شاگرد اگر استاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ یہی حال مرید کا ہے‘‘۔ استاد سے یا اپنے ٹیچر سے ایک سٹوڈنٹ صرف تعلق رکھتا ہے، اس سے واقف ہے اور علم حاصل نہیں کر رہا یا اس کی باتوں پہ عمل نہیں کر رہا تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ مرید اور مرشد کے تعلق میں صرف یہ کہہ دینا کہ میرا تعلق ہے اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب تک ان باتوں پر عمل نہیں کرو گے جو تمہیں کہی جاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’پس اس سلسلہ میں تعلق پیدا کر کے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہئے۔ طالب حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگز ٹھہرنا نہیں چاہئے ورنہ شیطانِ لعین اَور طرف لگا دے گا۔ اور جیسے بند پانی میں عفونت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘( پانی کچھ عرصہ کھڑا رہے تو پھر اس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے)’’ اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے۔‘‘ اگر صحیح مومن ہو تو ترقی کی طرف قدم بڑھنا چاہئے۔ ایک جگہ کھڑے رہے تو پھر کھڑے نہیں رہو گے بلکہ گر جاؤگے، نیچے چلے جاؤگے۔ فرمایا کہ’’ پس سعادت مند کا فرض ہے کہ وہ طلبِ دین میں لگا رہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا۔ لیکن آپ کوبھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاکی دعا تعلیم ہوئی تھی۔ پھر اَور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔ جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں۔بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں اس بچے کی طرح جو اقلیدس کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتا ہے بالکل بیہودہ سمجھتے تھے۔ لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں اُن کو نظر آئے۔ اس لئے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لئے ہر بات کی تکمیل کی جاوے۔ تم نے بہت سی بیہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں بہت ساری بیہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے ’’اگر تم اس کی بابت پورا علم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوا‘‘۔ یہ کوئی فائدہ نہیں کہ ہم نے بیعت کر لی، احمدی ہو گئے یا ہم پیدائشی احمدی ہیں۔ جب تک خود علم نہیں حاصل کرو گے، اپنے علم کو نہیں بڑھاؤ گے، دینی علم کو نہیں بڑھاؤ گے نہ پیدائشی احمدی ہونا کوئی فائدہ دے گا، نہ خود بیعت کرنا کوئی فائدہ دے گا۔ فرمایا کہ ’’تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی‘‘ اگر علم نہ بڑھایا۔ ’’ذرا ذرا سی بات پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگا جانے کا خطرہ ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 193۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

بہت سارے لوگ جو پیچھے ہٹ جاتے ہیںیا جن کو اعتراضات پیدا ہو جاتے ہیں یا جو بعض لوگ صرف اس لئے احمدیت پر یا دین پر قائم ہوتے ہیں کہ ہمارے رشتہ دار احمدی ہیں ان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر وہ علم حاصل کریں تو جتنے شکوک و شبہات ہیں وہ دور ہو سکتے ہیں اور پھر قدم نہیں ڈگمگائیں گے۔ پھر شیطان حملہ نہیں کرے گا۔

پس جیسا کہ پہلے قرآن کریم پر غور اور فکر کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تلقین فرمائی تھی اسی طرح آپ کی کتب کو بھی پڑھنے اور دینی علم بڑھانے کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور اسی طرح خلافت سے تعلق جوڑنے کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو ایم ٹی اے کی نعمت دی ہے اس کے ذریعہ رابطہ قائم کرنا چاہئے اور خلیفۂ وقت کے جو تمام پروگرام ہیں ان سے فائدہ اٹھاناچاہئے۔ جو لوگ اس تعلق کو ایک خاص توجہ سے قائم رکھے ہوئے ہیں، بہت سارے لوگ ہیں جو ایم ٹی اے سنتے ہیں اور ایم ٹی اے سے تعلق ہے ان کے مجھے خطوط آتے ہیں کہ ان کے ایمان و یقین میں اس تعلق کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے ہر احمدی کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔

آپس میں محبت اور پیار کرنے اور ایک دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوتی‘‘۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سب برابر ہوں۔’’ کیا ساری گندم تخم ریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے؟‘‘ ہم زمین میں گندم کا بیج ڈالتے ہیں تو سارے بیج تو نہیں نکلتے۔’’ بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں۔ بعض کسی اَور طرح قابل ثمر نہیں رہتے‘‘۔ ان کو پھل نہیں لگتا۔’’ غرض ان میںسے جو ہونہار ہوتے ہیں‘‘( جو اچھے ہوتے ہیں، اُگنے کی صلاحیتیں ان میں ہوتی ہیں) ’’ان کو کوئی ضائع نہیں کرسکتا۔ خدا تعالیٰ کے لئے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی کَزَرْعٍ ہوتی ہے۔‘‘ ( کھیتی کی طرح ہوتی ہے) ’’اسی لئے اس اصول پر اس کی ترقی ضروری ہے‘‘۔ کوئی دین کے علم میں زیادہ ہے کوئی کمزور ہے۔ کوئی کسی لحاظ سے بہتر ہے کسی میں کوئی نیکی ہے اور اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق وہ پنپتے ہیں۔ جو کمزور ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا ان کا کام ہے جو بہتر ہیں۔ فرمایا کہ’’ پس یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے ۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی۔‘‘ کہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ فرمایا کہ’’ کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ‘‘۔ عملی کمزوریاں ہیں تو ان میں بھی شریک ہو جاؤ۔ کس طرح ہو جاؤ کہ ان کی عملی کمزوریاں اختیار کر لو!؟ نہیں۔ ان کو دُور کرنے کی کوشش کرو۔ایمان میں ان کی کمزوریاںہیں تو اگر تمہارا ایمان مضبوط ہے تو ان کے ایمان کو بچانے کی کوشش کرو۔ مالی کمزوریاں ہیں تو ان کی مالی مدد اگر کر سکتے ہو تو وہ کرو۔نہیں تو نظام جماعت کو بتاؤ کہ جس حد تک نظام جماعت کر سکتا ہے مدد کرے۔ فرمایا کہ ’’بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔‘‘ صحت کی حالت نہیں ہے، ظاہری بیماریاں ہیں ان کا بھی علاج کرو۔ فرمایا’’ کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے‘‘۔ ایک دوسرے کے عیب بتانے کی بجائے پردہ پوشی کی جائے۔’’ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو۔ کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت اور ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں‘‘۔ کوئی ایک دوسرے کو کھا تو نہیں سکتا۔ یہاں کھانے سے مراد یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم چغلیاں کرتے ہو، بدظنیاں کرتے ہو تو اسی طرح ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہو۔ پس برائیاں نہ دیکھو۔ ہر ایک کی اچھائیاں دیکھو۔ فرمایا کہ ’’وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں‘‘ (اس کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں) ’’اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہئے۔ بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آ جاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’اور خَلق کو‘‘ (اس وجہ سے پھر) ’’گمراہ کرتے ہیں‘‘۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ دیکھو ان میں یہ یہ برائیاں ہیں اور عام لوگ تحقیق تو کرتے نہیں اور گمراہ ہو جاتےہیں۔ فرمایا ’’لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکہ دے۔ کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے‘‘۔ کہ ایک کا قصور دیکھ کے اس کی پردہ پوشی کرنی چاہئے نہ کہ اس کے عیبوںکا اظہار کیا جائے، اس کی کمزوریوں کو باہر نکالا جائے۔ آجکل یہ عجیب رواج پیدا ہو گئے ہیں۔ اب خاوند بیوی بھی ایک دوسرے کی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ گئے ہیں اور اس کے لئے ریکارڈنگ کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ فرمایا کہ’’ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 347 تا 348۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر بھائی چارے اور ہمدردی کی نصیحت فرماتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں کہ

’’ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں‘‘۔ اگر پھلناپھولنا ہے تو پھر آپس میں سچی ہمدردی ہونی چاہئے۔’’ جو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔‘‘ جس کو بھی طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ فرماتے ہیں کہ’’ مَیں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہئے تو یہ کہ اس کے لئے دعا کرے۔ محبت کرے اور اسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے۔ مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کو یہ (حرکتیں) منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرکے پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہوکر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھایا جاتا ہے۔ … کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لئے اشتہار دے۔‘‘ اپنے بیٹے کی کوئی برائی دیکھتا ہے تو دنیا میں اس کی برائیاں نہیں پھیلاتا۔ قریبی تعلق والا ہو تو اس کی برائیوں کو چھپایا جاتا ہے اس کو پھیلایا نہیں جاتا۔ فرمایا کہ’’ پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟‘‘ یہاں بھائی سے مراد ہر قریبی رشتہ ہے۔’’ دنیا کے بھائی اخوّت کا طریق نہیں چھوڑتے‘‘۔ اپنے رشتہ داروں کی مثال دی کہ ’’میں مرزا نظام الدین وغیرہ کو دیکھتا ہوں۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ دار تھے مرزا نظام الدین وغیرہ جو آپ کے مخالف بھی تھے اور دین سے بھی ہٹے ہوئے تھے ’’کہ ان کی اباحت کی زندگی ہے۔ مگر جب کوئی معاملہ ہو تو تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ فقیری بھی الگ رہ جاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ بعض وقت انسان، جانور، بندر یا کتّے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔ یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو۔ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریقِ نعمت و اخوّت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوّت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوّت وہ یہاں قائم کرے گا‘‘۔ فرمایا’’ خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی امیدیں ہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے۔ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ(آل عمران56:)۔‘‘ یعنی ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا رکھنے والا ہوں، فوقیت دینے والا ہوں۔ فرمایا کہ’’ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی مگر یہ دن جو ابتلاء کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں‘‘۔ اس زمانے میں کمزوری کے ایام تھے۔ آجکل پھر خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کو اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ یہ جو اُن کے کمزوری کے حالات ہیں اور حکومت بھی اور قانونی ادارے بھی اور انتظامیہ بھی ان کے خلاف پہلے سے بڑھ کر حرکتیں کر رہے ہیں۔ ان دنوں میں خاص طور پر اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ فرمایا کہ’’ کمزوری کے ایام ہیں ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔ دیکھو ایک دوسرے کا شکوہ کرنا، دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔ اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔ پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر غریب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں۔ مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 348تا 349۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ نے ہماری اصلاح کے لئے اپنی کتاب’’ کشتی نوح‘‘ پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کو بار بار پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ

’’ میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔ قشر پر صبر کرنے والا مغز سے محروم ہوتا ہے‘‘ ۔ صرف ظاہری شیل(shell) کو دیکھنا کافی نہیں ہے جب تک اس کے اندر جو چیز ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ فرمایا کہ’’ اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ جب کوئی طبیب کسی کو نسخہ دے اور وہ نسخہ لے کر طاق میں رکھ دے تو اسے ہرگز فائدہ نہ ہو گا‘‘ ۔ اسی طرح ہے جس طرح ڈاکٹر سے نسخہ لے کے اس کو استعمال نہ کرو اور کہو کہ میں ٹھیک نہیں ہوا۔ یہی حال روحانی مریضوں کا ہے۔ اگر باتیں سن کے پھر عمل نہیں کرو گے تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ فرمایا’’ ہرگز فائدہ نہ ہو گا کیونکہ فائدہ تو اس پر لکھے ہوئے عمل کا نتیجہ تھا جس سے وہ خود محروم ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ کشتی نوح کا بار بار مطالعہ کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بناؤ۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس10:)۔‘‘ یقیناً وہ فلاح پا گیا، کامیاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا۔ فرمایا کہ ’’یوں تو ہزاروں چور، زانی، بدکار، شرابی، بدمعاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر کیا وہ درحقیقت ایسے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اُمّتی وہی ہے جو آپ کی تعلیمات پر پورا کاربند ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 232-233۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر اس’’ کشتی نوح‘‘ کو جماعتوں میں پڑھ کر سنانے اور پڑھنے کی طرف توجہ دلانے، اس کا التزام کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ’’ کشتی نوح میں مَیں نے اپنی تعلیم لکھ دی ہے اور اس سے ہر ایک شخص کو آگاہ ہونا ضروری ہے۔ چاہئے کہ ہر ایک شہر کی جماعت جلسے کر کے سب کو یہ سنا دے۔ ایک مستعد اور فارغ شخص کو بھیج دی جاوے جو پڑھ کر سنا دے اور اگر یونہی تقسیم کرنے لگو تو خواہ پچاس ہزار ہو کافی نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس ترکیب سے اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی اور وہ وحدت جو ہم چاہتے ہیں جماعت میں پیدا ہونے لگے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 408۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس کے لئے اس کو جہاں پڑھنے اور سنانے کا جماعتوں میں انتظام ہونا چاہئے اور اسی طرح ایم ٹی اے میں بھی پڑھنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ ہر ایک کو اس کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنانا چاہئے۔ خود بھی پڑھنی چاہئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

برائیوں سے بچنے کی تلقین اور حقیقی احمدی کی نشانی بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ’’ تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الٰہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ۔ اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی مگر تم خواہ نخواہ ان پر مغرور نہ ہو جاؤ۔ ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق و فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔‘‘ (انجام متقیوں کا ہی ہے۔) ’’اس لئے متقی بننے کی فکر کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 283۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی احمدی بننے اور آپ کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بھی ہوں۔ اپنی عملی اصلاح کرنے والے بھی ہوں۔ اپنے علم میں اضافے کی طرف توجہ دینے والے بھی ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔

ان دنوں میں خاص طور پر، پہلے بھی مَیں نے اشارہ کیا، پاکستان کے حالات کے متعلق بھی دعا کریں اور پاکستانیوں کو خود بھی اپنے متعلق اور اپنے لئے بہت دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ عمومی طور پر ملک کے اندر بھی مولویوں کی وجہ سے جو فساد دوبارہ برپا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ملک کو بھی محفوظ رکھے۔ عام طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کریں بڑی تیزی سے یہ اب جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ روس اور امریکہ دونوں تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اور اصل میں تو یہ اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں اور نام یہ ہے کہ ہم مظلوموں کا حق دلوانا چاہتے ہیں۔ اصل میں تو یہ مظلوموں کو حق دلوانے کے نام پر جس میں مسلمان ممالک شامل ہیں مسلمان ملکوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور یہ ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے کی بجائے خود اپنے فیصلہ کرنے والے ہوں۔ اپنے عوام کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ عوام اپنی حکومت کے حق ادا کرنے والی ہو۔ اور یہ دہشت گرد گروپ جو اسلام کے نام پر حرکتیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بھی پکڑ کرے اور دونوں فریقوں کو عقل اور سمجھ دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں کیونکہ اس کے بغیر اب کوئی اور چارہ نہیں کہ یہ بچ سکیں گے یا ان کی کسی بھی صورت میں بقا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور مسلمان ان ظلموں کا حصہ بننے کی بجائے اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق محبت اور پیار اور بھائی چارے کی تعلیم کو عام کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button