متفرق شعراء
April 23 2003
نیم جاں ، مضمحل ، تھکن سے چُور
غم کے آسیب اور شب دیجور
سسکیاں گونجتی ہیں یادوں کی
کوئی رخصت ہوا مکاں سے ضرور
ہر سلام اور پیام سے آگے
دیکھو وہ جا چکا ہے کتنی دور
تیرے قدموں پہ اب نثار کریں
جس قدر ہے سمندروں میں وفور
پیاس ان کی بجھائیں اشک کہاں
پیتے آئے ہوں جو شراب طہور
وسوسے ،خوف اور شبِ تاریک
صبح صادق سے ہو گئے کافور
دل کے نالے جو آسماں پہ گئے
لے اُترے وہاں سے چادر نور
"چل رہی ہے نسیم رحمت کی”
دل مچلنے لگے، خدا کے حضور
امن اُترا تو ، خوف دور ہوا
شکر تیرا ، ہمارے ربِّ غفور
سارے فضلوں کی ہو گئی تجسیم
قدرت ثانیہ کا ہے یہ ظہور
اس کے در پر پڑے تھے غم زد گاں
دکھ کے مارے ہوئے ، تھکن سے چُور
میزبانی کو تھا غفور و رحیم
کس طرح دیکھتا ہمارے قصور
زہر فرقت سے جو پڑے تھے نڈھال
شربت وصل سے ہوئے مخمور
لب بہ لب پھر عطا ہوئی ہے شراب
ہو گیا سارا کارواں ، مسرور
(طاہر احمد بھٹی)