خطاب حضور انور

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر29؍جولائی 2017ء بروز ہفتہ سیدنا امیر المومنین حضرتخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی( آلٹن) میں دوسرے دن بعد دوپہر کا خطاب

2017-2016ء میں اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے بے انتہا فضلوں اور نصرت و تائید کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ

اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئے ملک HONDURASمیں احمدیت کانفوذ ہوا۔اس طرح اب تک دنیاکے 210 ممالک میں احمدیت کاپودا لگ چکاہے۔

اس سال دنیابھر میں پاکستان کے علاوہ 885نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور 1056نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کاپودا لگادوران سال 417مساجد کااضافہ ہوا۔ان میں سے 155نئی تعمیر ہوئیںاور 262بنی بنائی عطاہوئیں۔اس سال 131مشن ہاؤسزکااضافہ ہوا۔اب مشن ہاؤسز کی کل تعداد 2607ہے۔

امسال قرآن کریم کاڈوگری زبان میں ترجمہ پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ اس طرح اب تک 75زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوچکے ہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کےمختلف زبانوں میں تراجم کاتذکرہ

اس سال 112ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 690 مختلف کتب پمفلٹس وغیرہ 59زبانوں میں 70لاکھ 32ہزار119کی تعداد میںطبع ہوئے

مختلف ممالک میں 421سے زائدریجنل اورمرکزی لائبریریاںقائم ہوچکی ہیں

اس سال 9ہزار 471نمائشوں کے ذریعہ 16لاکھ 33ہزار سے زائداور 12ہزار534بک سٹالز اور بک فیئرز میں شرکت کے ذریعہ 18لاکھ 70ہزار سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا

اس سال 96ممالک میں اسلام احمدیت کے تعارف پر مشتمل مجموعی طور پر ایک کروڑ 20لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے

مختلف مرکزی دفاتر اورشعبہ جات کی کارکردگی کامختصر تذکرہ

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


جماعت احمدیہ پراللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے انعامات اور افضال ہیں،آج کے دن اس وقت ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جو میرے پاس رپورٹس ہیں اس میں سے مختصراً کچھ پیش کروں گا۔

اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نیا ملک ہونڈورس(Honduras) میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے اور اس طرح اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دو سو دس(210) ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ 1984ء کے آرڈیننس کے بعد 33سالوں میں جبکہ مخالفین نے احمدیت کو مٹانے کا دعویٰ کیا تھا، بڑ ماری تھی، اللہ تعالیٰ نے 119 نئے ممالک میں جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا ہے۔

ہونڈورس(Honduras) ملک جو ہے یہ وسطی امریکہ میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں گوئٹے مالا، مغرب میں ایل سلواڈور(El-Salvador)، جنوب میں نکاراگووا(Nicaragua) وغیرہ ہیںاور بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے ساتھ اس کی حدود ملتی ہیں۔ مقامی زبان سپینش ہے اور اس ملک کی آبادی آٹھ کروڑ تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کینیڈا سے ایک داعی الی اللہ صدیق صاحب فروری 2017ء میں گئے تھےاور اسلام کا پیغام پہنچایا۔ میئر کے ساتھ میٹنگز بھی ہوئیں۔ تبلیغی نشستیں بھی ہوئیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے چار افراد کو بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ بعد میں وہاں ہمارے مبلغ سلسلہ ظاہر احمد صاحب کو مقرر کیا گیااور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک 51 بیعتیں ہو چکی ہیں اور باقاعدہ جماعت قائم ہو چکی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے 49 ممالک میں وفود بھیج کر نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے۔ تربیتی پروگرام بنائے گئے اور رجسٹریشن کے حوالے سے بھی جائزہ لیا گیا۔ لیف لیٹس بھی تقسیم کئے گئے اور اس طرح بہت سارے ممالک میں بڑا اچھا اس کا اثر ہوا ہے اور پرانے رابطے جو ہیں وہ بحال ہو رہے ہیں۔

نئی جماعتوں کاقیام

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ مختلف ممالک میں جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 885 ہے ۔اور اس کے علاوہ 1056 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔

نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں غانا سرفہرست ہے۔ یہاں اس سال 147 نئی جماعتیں قائم ہوئیں ۔اس کے بعد دوسرے نمبر پر بینن ہے جہاں 136 مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ پھر سیرالیون ہے یہاں 115 نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔بینن میں 95 جماعتوںکاقیام ہوا۔ پھر آئیوری کوسٹ میں 77 جماعتیں قائم ہوئیں۔ سینیگال میں 51 ہے۔ نائیجیریا، مالی 31،31۔کانگو کنساشا میں 26 ۔ٹوگو میں 23 ۔تنزانیہ میں 15 ۔یوگنڈا میں 13 ،اور گنی کناکری میں اور جرمنی میں 12،12 ۔کونگو برازویل میں 11،گنی بساؤ میں 10 ،گیمبیا اور انڈونیشیا میں 9،9جماعتیںقائم ہوئی ہیں۔ اسی طرح الجیریا میں اور دوسری جگہوںپہ بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔

نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات

نئی جماعتوں کے قیام کے بعض واقعات دلچسپ ہوتے ہیں ۔ان میں سے ایک دو پیش کروں گا۔

کیمرون کے مبلغ انچارج صاحب لکھتے ہیںکہ ہمارے معلم یوسف بیلو صاحب نے شمال مغربی ریجن کے کیپٹل بامِنڈا(Baminda) سے 35 کلو میٹر دور ایک گاؤں سَوپ(Sop) کا تبلیغی دورہ کیا۔ وہاں گاؤں کے امام’ محمدعُمرُو‘ صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہیں جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ ابھی انہیں جماعت کا تعارف کروا رہے تھے کہ انہوں نے اپنا ٹی وی چلا دیا اور اس پر ایم ٹی اے لگا ہوا تھا۔ گاؤں کے امام کہنے لگے کہ ہم گزشتہ دو سال سے ایم ٹی اے دیکھ رہےہیں اور جماعت احمدیہ کے امام کے تمام پروگرام اور اقتباس سنتے ہیں ۔آپ ہمیں جماعت کا تعارف نہ کروائیں بلکہ یہ بتائیں کہ ہم جماعت میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں اور ہمارا جماعت کے ساتھ مستقل رابطہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ان کے علاقہ میں انگریزی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ انہیں شرائط بیعت پڑھ کر سنائی گئیں اور انگریزی زبان میں لٹریچر مہیا کیا گیا۔ اس کے بعد اس گاؤں کے امام محمدعُمرو صاحب نے خود سارے گاؤں میں جماعت کا تعارف کروایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں آٹھ دیہاتوں سے سات ہزار پانچ سو تریسٹھ لوگ بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں اور آٹھ نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس علاقے میں ایم ٹی اے کی مزید ڈشیں لگوائی گئی ہیں تا کہ نومبایعین جلسہ یوکے سے مستفیض ہوں اور عالمی بیعت میں بھی شامل ہوں۔

بینن سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہمارے معلم ایک گاؤںمِیدِ یْیوُنتا(Mediunta) میں تبلیغ کے لئے گئے۔ یہاںکی اکثریت بت پرستی کرنے والی ہے۔ معلم صاحب نے اسلام اور جماعت کا تعارف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف پیش کیا اور تصویربھی لوگوں کو دکھائی۔ اس پر لوگ کہنے لگے کہ اس شخص کے چہرے پر ایک نور ہے اور یقینا ًاس شخص نے جو دعویٰ کیا ہے وہ سچا ہے۔ اور اُسی وقت 150 کے قریب افراد جو وہاں موجود تھے سبھی نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔اس طرح یہاں نئی جماعت کا قیام عمل میںآیا۔

گنی کناکری کے ایک لوکل معلم شریف صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن صبح نماز تہجد میں مَیں نے خوب دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اس راستے پر لے جا جہاں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے منتظر ہوں۔ کہتے ہیں چنانچہ صبح اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے ایک راستے پر چل پڑے ۔راستے میں کئی گاؤں نظر آئے لیکن ہم کہیں نہیں رکے۔ خدائی تقدیر ہی ہمیں لے کر جا رہی تھی۔ چنانچہ ایک گھنٹہ موٹر سائیکل پر چلنے کے بعد ہمیں ایک گاؤں نظر آیا جس کا نام’ گار‘(GAR) تھا۔ اس گاؤں میں داخل ہونے کے بعد جو پہلا شخص ہمیں ملا اس سے ہم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی۔ اس پر اس نے بتایا کہ مَیں مسجد کمیٹی کا ممبر ہوں اور اس گاؤں والے بہت عرصے سے جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی آمد کے منتظر تھے۔ آپ میرے ساتھ مسجد چلیں باقی باتیں امام کی موجودگی میں ہوں گی چنانچہ ہم مسجد میں چلے گئے۔ نماز ظہر پر جب لوگ جمع ہو گئے تو تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب انہیں امام مہدی علیہ السلام اور مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بتایا تو امام سمیت گاؤں کے سارے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو آپ لوگوںکے بہت دیر سے منتظر تھے ۔اس دور دراز گاؤں میں آپ کی آمد ہی ہمارے لئے معجزہ سے کم نہیں ہے۔ ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور یہ بات ہم زبان سے نہیں کہہ رہے بلکہ یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔ وہ اس بات کو مسلسل دہراتے رہے۔کہتے ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس علاقے میں تین ہزار کے قریب بیعتیں ملیں۔

اسی طرح اور بہت سارے ممالک کی رپورٹس میں ذکر ہے۔ اب مَیں ان کا ذکر چھوڑ رہا ہوں۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی بنی بنائی مساجد

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد۔ جماعت کو دوران سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی ان کی مجموعی تعداد 417 ہے جن میں سے 155 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 262 مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں ۔ان کی تفصیل کافی لمبی ہے۔ مختلف ممالک میں کینیڈا میں ،آسٹریلیا میں جرمنی میں، ہندوستان میں اور لائبیریا میں۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں ۔گیمبیا میں تنزانیہ میں مساجد ملی ہیں۔

مساجد کے تعلق سے بعض واقعات ہیں ۔ایک دو پیش کرتا ہوں۔ امیر صاحب گھانا لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں’ نابور‘(Naabur) کے تمام لوگ لامذہب تھے اور اب یہ سارا گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقی اسلام اور احمدیت کی آغوش میں آ چکا ہے۔ پہلے اس گاؤں میںکوئی مسجد نہیں تھی جس پر ہمارے معلم نے پتھروں کی حد بنا کر نماز کے لئے جگہ مختص کر دی اور لوگوں کو مسجد کے آداب سکھائے اور بتایا کہ اس کے اندر جوتے اتار کر عبادت کرنی ہے۔ اس پر گاؤں کے بچوں نے اپنے گھروں میں بھی پتھروں سے جگہ مختص کر کے وہاں نمازیںپڑھنا شروع کر دیں ۔اور پھر تمام گاؤں والوں نے وقار عمل سے مٹی کی مسجد تعمیر کی اور اس میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔

امیر صاحب کانگو لکھتے ہیں کہ مسجد بیت الاسلام کے افتتاح کے موقع پر جماعت اہل سنّت کے امام صاحب نے کہا کہ مَیں پہلے چاہتا تھا کہ اس شہر میں کسی صورت میں بھی جماعت احمدیہ کی مسجد نہ بن سکے۔ اسی لئے مَیں نے مسجد کا کام رکوانے کے لئے کافی کوشش بھی کی۔ مگر آج اسلام احمدیت کا حقیقی چہرہ دیکھ کر میرا خیال بدل گیا ہے۔ آج میںنے حقیقی اسلامی روح احمدیوں میں دیکھی اور محسوس کی ہے۔ میں اللہ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔

بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ پوبے ریجن کے ایک گاؤں ٹیفی(Teffi)میں تقریباً دس سال قبل جماعت قائم ہوئی تھی اور تب سے ہی مخالفین کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ وہاں سے جماعت ختم کی جائے۔ دوران سال ایک عرب تنظیم کے نمائندے اس گاؤں میںگئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ دس سال پہلے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور ابھی تک جماعت احمدیہ نے آپ کو صرف کچی مسجد بنا کر دی ہے۔ اگر آپ لوگ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں تو ہم آپ کو ایک پکّی اور بڑی مسجد بنا کر دیں گے۔ مگر گاؤں کے تمام احمدی افراد نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جماعت احمدیہ کے مبلغ اور معلم گزشتہ دس سال سے اس جنگل میں آ رہے ہیں اور ہماری تربیت کرتے اور ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی ہمیں اصل اسلام کا چہرہ نظر آیا ہے ۔چنانچہ وہ مخالف وہاں سے ناکام ہو کر واپس چلے گئے اور اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو یہاں پکّی مسجد تعمیر کرنے کی بھی توفیق مل گئی۔

گنی کناکری کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ جب ہم وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ جماعت کے مخالف گروپ نے پورے علاقے کے مولویوں کو ہمارے آنے سے پہلے ہی دعوت دے رکھی تھی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ ہم پر پتھراؤ وغیرہ کرنے کا بھی تھا لیکن انہیں ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ مخالفین کہنے لگے کہ ہمیں کسی مسجد کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہم وہاں سے واپس آ گئے۔ لیکن دل بہت پریشان اور دکھی تھا۔ ابھی اس بات پر دو دن نہیں گزرے تھے کہ ہمیں ایک اور علاقہ کویا (Coyah)سے دعوت ملی کہ ہم وہاں جماعت کا پیغام پہنچانے کے لئے آئیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ایک بڑی تعداد میں لوگ ہمارے منتظر تھے جس میں علاقے کے امام بھی شامل تھے۔ ان کو تفصیل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور ان پر ایمان لانے کے لئے قرآن و حدیث سے دلائل دئیے تو وہ تمام افراد بشمول امام ،جماعت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور قریب ہی ایک مسجد جو کہ زیر تعمیر تھی وہ قانوناً جماعت کے نام کر دی گئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک مضبوط جماعت بھی قائم ہو گئی۔

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال 131 مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا اور مشن ہاؤسز کی کل تعداد اب 2607 ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔ جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز وقار عمل ہے۔ اکثر مساجد اور مشن ہاؤسز اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقار عمل کے ذریعہ سے بنائے گئے ۔چنانچہ اس سال چھیانوے ممالک سے موصولہ رپوٹ کے مطابق کل 71 ہزار474وقار عمل کئے گئے جن کے ذریعہ 24 لاکھ 27ہزارسے اوپر یوا یس ڈالر کی بچت ہوئی۔

وکالت تصنیف یُوکے

وکالت تصنیف یُوکے (UK)کے تحت نئے تراجم کی اشاعت ہوئی۔ اس سال قرآن کریم کا ڈوگری زبان میں ترجمہ پہلی مرتبہ قادیان سے تیار ہو کر طبع کروایا گیا۔ ڈوگری زبان ہندوستان کے صوبہ جموں اور کشمیر میں بولی جاتی ہے۔ یہ ترجمہ تفسیر صغیر کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم کا مکمل ترجمہ اب 74 زبانوں میں طبع کیا جا چکا تھا اور یہ ترجمہ پہلے ہو چکا تھا اب یہ ملا کر کُل 75 زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم مکمل ہو چکا ہے۔

قرآن کریم کے چائنیز ترجمہ کی نظر ثانی کر کے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کاجاپانی ترجمہ بھی بعض درسیتاں کر کے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔ جاپانی ترجمہ میں ہمارے جاپانی احمدی محمد اویس کوبا یاشی صاحب نے بڑے اخلاص اور محنت سے پانچ سال میں یہ کام مکمل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔

تراجم کتب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’حجۃ الاسلام‘ کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’ حقیقۃ المہدی ‘کا اردو اور عربی حصہ کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے۔’ عصمت انبیاء ‘کا انگریزی میںترجمہ کیا گیا ہے۔ The Life and Character of the Seal of Prophets۔ سیرۃخاتم النبیینؑ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جو کتاب ہے اس کے پہلے دو حصوںکا انگریزی ترجمہ تھا ۔اب اس کے تیسرے حصہ کا بھی ترجمہ کر دیا گیا ہے۔

پھر اسی طرح اور لٹریچر ہے جماعت کے مختلف علماء کا، ان کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے۔

’ فتح مباہلہ یا ذلتوں کی مار‘ جو کتاب تھی اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے۔ جلال الدین صاحب شمس کی تصنیف Where did Jesus die? اس تصنیف کے کئی ایڈیشن کئی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ موجودہ ایڈیشن میں کتاب میں بائبل کے جو حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں انہیں ٹھیک کیا گیا ہے۔’ عرفان ختم نبوت‘ کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک عیسائی کی طرف سے ایک گندی اور دلآزار کتاب ’امہات المؤمنین‘ شائع کئے جانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کتاب ’البلاغ‘لکھی تھی جس میں مسلمانوں کی اس حوالے سے رہنمائی فرمائی کہ ان کےاعتراض کا مؤثر رنگ میں جواب تیار کر کے شائع کروانا چاہئے۔ اس کتاب کا پورا نام’ البلاغ‘ یا ’فریاد درد‘ ہے۔ ایک حصہ اردو میں ہے اور دوسرا حصہ عربی میں۔ اس کتاب کو عربی احباب کے استفادہ کے لئے اس سال شائع کیا گیا ہے۔

فرنچ کتب’ پیغام صلح‘، گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،’ کشتی نوح‘،’ الوصیت ‘وغیرہ شائع ہوئیں۔

رشین میں کچھ کتب اور بعض میرے ایڈریس اور تقریریں شائع کی گئیں ۔

سواحیلی ڈیسک میں’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘’ استفتاء ‘’لیکچر لاہور‘’ معیار المذاہب ‘’سناتن دھرم‘ ’ پیغام صلح ‘وغیرہ شائع کی گئیں۔

بنگلہ ڈیسک کے تحت ’براہین احمدیہ‘ حصہ اول و دوم اور’ نشان آسمانی ‘کا ترجمہ کیا گیا۔

وکالت اشاعت(طباعت)

بچوں کی بعض کتب شائع کی گئیں اور اس طرح دوسرا مختلف لٹریچر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 112 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال 690 مختلف کتب 59 زبانوں میں شائع کی گئیں جن کی تعداد ستّر لاکھ بتیس ہزار ایک سو انیس(70,32,119) ہے اور ان کی تفصیل ہے۔

جماعتوں کے ذریعہ فری لڑیچر کی تقسیم

جماعتوں کے ذریعہ فری لٹریچر کی تقسیم۔ مختلف ممالک میں مختلف عناوین پر مشتمل 2 ہزار667 کتب، فولڈرز اور پمفلٹ ستّر لاکھ تہتّر ہزار کی تعداد میں مفت تقسیم کئے گئے۔ کل تقریباً پونے دو کروڑ افراد تک اس طرح پیغام پہنچا۔

وکالت اشاعت (ترسیل)

دوران سال لندن سے مختلف اکاون زبانوں میں تین لاکھ اسّی ہزار سے زائد تعداد میں کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بھجوائی گئیں۔

قادیان سے مختلف ممالک کو کتب کی ترسیل

قادیان سے دوران سال آٹھ ممالک کو ان کی لائبریریز اور دیگر ضروریات کے لئے کتب بھجوائی گئیں۔

ریجنل اور مرکزی لائبریوں کا قیام

دنیا کے 79 ممالک سے آمدہ رپورٹ کے مطابق 421 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کامختلف ممالک میں قیام ہو چکا ہے جن کے لئے لندن اور قادیان سے کتب بھجوائی گئیں۔

رقیم پریس یُوکے اور افریقہ کے مختلف ممالک میں احمدیہ پریس

رقیم پریس یُوکے (UK)اور جو افریقہ کے مختلف پریس ہیں ان میں اس سال چھپنے والی کتب کی تعداد تین لاکھ پینتالیس ہزار سے اوپر ہے۔ الفضل انٹرنیشنل رقیم پریس سے شائع ہوتا ہے۔ جماعتی رسائل ہیں، میگزین ہیں، پمفلٹ، لیف لیٹس اور مختلف فولڈرز وغیرہ۔ بعض کتب بھی شائع کی گئیں۔

اسی طرح افریقہ کے جو پرنٹنگ پریس ہیں ان میں کتب کی مجموعی تعداد چھ لاکھ اڑتیس ہزار ہے۔ رسائل اخبارات اور دوسرے لٹریچر کی تعداد پینتیس لاکھ ہے۔

نمائش ،بک سٹال اور بک فیئرز

موصولہ رپورٹ کے مطابق9ہزار 471 نمائشوں کے ذریعہ16 لاکھ 33 ہزار سے اوپر افراد تک اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اس کے علاوہ 12 ہزار534 بک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ 18 لاکھ 70 ہزار سے اوپر افراد تک پیغام حق پہنچا۔

نمائشوں کے حوالہ سے واقعات اور لوگوں کے تأثرات

نمائشوں کے ذریعہ جو واقعات ہیں ان میں ایک بیان کرتا ہوں۔ سیکرٹری تبلیغ نیڈم ہاؤزن (Niedemhausen) جرمنی لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک نمائش کا انعقاد کیا جس پہ بہت سارے جرمن مہمان آئے اور ان میں سے بعض نے اپنے تأثرات کا اظہار بھی کیا۔ کچھ مہمانوں نے کہا کہ یہاں آنےسے پہلے انہیں بہت خوف تھا لیکن اب یہاں سے واپس جاتے وقت دل کو تسلی ہوئی ہے۔ ایک جرمن مہمان نے کہا کہ میرے ذہن میں اسلام کی غلط تصویر تھی لیکن اب وہ ٹھیک ہو گئی ہے۔ نمائش دیکھنے اور اسلامی تعلیمات کو جاننے کے بعد میرے اور میری اہلیہ کے دل میں اب اسلام کے بارے میں کوئی خوف نہیں رہا۔ متعدد مہمانوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ میڈیا کی اسلام کے بارے میں غلط تشریحات کی وجہ سے اسلام کو دہشتگردی اور سفّاکیت کا مذہب سمجھا جاتا ہے اور میڈیا نے اسلام کو داعش کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ لیکن آج ہمیں اسلام کی یہ خوبصورت اور پُرامن تعلیم کا پتا چلا ہے۔ ہمیں جہاد کی حقیقت کا پتا چلا ہے۔ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘کا پیغام دنیا میں سب سے طاقتور ہے۔ ایک بوڑھا شخص نمائش دیکھنے کے لئے آیا اس نے ہمیں ایک پرانا جماعتی دعوت نامہ اور قرآن مجید دکھایا اور بتایا کہ وہ جماعت کے تیرھویں جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر موجود تھا اور آج وہ جماعت کی ترقیات سے بہت خوش ہے۔

بک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ بعض واقعات

کولون میں ایک عمر رسیدہ جرمن شخص آیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے بتایا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ پچاس سال بعد جرمنی کا نام کیا ہو گا۔ پوچھنے پرکہنے لگا کہ آج سے پچاس برس بعد جرمنی کا نام اسلامی جمہوریہ جرمنی ہو گا۔ ایک خاتون کولون میں چھٹیاں منا کر اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ واپس جا رہی تھی۔ اس نے ہمارا تبلیغی سٹال دیکھا تو ادھر آ گئی ۔اس خاتون نے بتایا کہ اس نے جماعت احمدیہ کی مسجد کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت تھی اور امام جماعت کی تقریر سنی تھی اور بہت متأثر ہوئی تھی۔ موصوفہ کہنے لگی کہ آپ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیںاور امن کے لئے کام کر رہے ہیں۔

فجی کے شہر’ سینگاٹوکو ‘میں بک سٹال لگایا گیا۔ اس کے ذریعہ ایک لوکل فجیین لوکے (Loke)صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا اور پھر ان کے ساتھ تبلیغی نشستیں ہوتی رہیں جس کے نتیجہ میں موصوف نے اپنے بچوں سمیت بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

پٹیالہ یونیورسٹی میں بک فیئر کے موقع پر غیر احمدی طلباء جویونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہمارے سٹال پر آئے اور ہماری کتب کا مشاہدہ کیا۔ ان کو جماعت کا تعارف کروایا گیا اور جماعتی ویب سائٹ کا ایڈریس دیا گیا۔ اگلے دن یہ طلباء دوبارہ ہمارے سٹال پر آئے اور اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے رات ہماری ویب سائٹ پر وزٹ کیا اور انہیں سمجھ آ گئی کہ جماعت کے بارے میں جو باتیں بتائی جاتی ہیںان میں کوئی صداقت نہیں اور آپ کی جماعت درحقیقت سچی جماعت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام کے تعلق سے بہت سی کتب خریدیں۔ نیز اس بات کا وعدہ کیا کہ انشاء اللہ ہم قادیان بھی ضرور آئیں گے۔

لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم

لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کاجو منصوبہ تھا اس سال چھیانوے ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے اور اس کے ذریعہ سےاڑھائی کروڑ کے قریب افراد تک پیغام پہنچا۔ان میں جرمنی سرفہرست ہے پھر یوکے ہے ۔پھر سپین، میکسیکو وغیرہ۔ کینیڈا۔ ہالینڈ پھر امریکہ، بیلجیئم۔

جامعہ یو کے کے جو فارغ التحصیل طلباء ہیں ان کوسپین بھجوایا جاتا ہے۔ اس سال سات لاکھ انتالیس ہزار کے قریب انہوں نے لیف لیٹس تقسیم کئے۔ اور اسی طرح میکسیکو اور گوئٹے مالا میںبھی فلائرز کی تقسیم ہوئی۔ وہاں بھی جامعہ کینیڈا طلباء جاتے ہیں ۔انہوں نے دو لاکھ سے اوپر لیف لٹس کی تقسیم کی۔

لیف لیٹس کی تقسیم کے دوران بعض واقعات جو پیش آئے۔ آسٹریلیا میں پریس اینڈ میڈیا کے انچارج لکھتے ہیں کہ جب جماعت نے تسمانیہ میں لیف لیٹس تقسیم کئے تو آسٹریلیا کے ایک بڑے نیشنل ٹی وی چینل اے بی سی (ABC) نے اسے خوب نشر کیا اور آسٹریلیا بھر میں یہ نیوز دکھائی گئی۔ چنانچہ ویسٹرن آسٹریلیا کے دور دراز کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے ایک شخص نے جماعت سے رابطہ کیا جو جماعت کی امن، بھائی چارہ، حُبّ الوطنی اور حقیقی اسلامی تعلیمات کے فروغ کی کوششوں سے بیحد متاثر ہوا اور اس کی بہت تعریف کی۔ مزید برآں اس نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ یہ لیف لیٹ اس کے علاقہ میں بھی تقسیم کئے جائیں بلکہ کہنے لگا وہ خود لیف لیٹس تقسیم کرنے میں مدد کرے گا۔

کوئینز لینڈ کے مربی لکھتے ہیںوہاں بھی اس طرح بہت لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا اور مدد کی۔

اظہر گورایہ صاحب مربی سلسلہ نے میکسیکوکے شہر مریڈا(Marida) میں فلائر تقسیم کئے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلائر کی تقسیم کے نتیجہ میں کئی تبلیغی رابطے قائم ہوئے۔ ایک صحافی سے بھی رابطہ قائم ہوا جس نے جماعت کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کر کے مقامی اخبار میں شائع کی جس کے نتیجہ میں ایک بڑی تعداد تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ اس دوران پہلے سے زیر رابطہ افراد میں سے چار احباب کو جماعت احمدیت قبول کرنے کی بھی توفیق ملی۔

سیکرٹری خارجہ فرانس لکھتے ہیں کہ فرانس میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اس کے اختتام پر ایک مقامی دوست نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں دہریہ ہوں اور کسی مذہب اور خدا کی ہستی پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن اس کانفرنس کے بعد مَیں یہ کہنے میں ذرا بھی تردّد محسوس نہیں کرتا کہ آج اس ملک میں جماعت احمدیہ جیسی کوئی دوسری ایسوسی ایشن نہیں اور نہ ہی کوئی مذہب آپ جیسی تعلیم پیش کر سکتا ہے ۔نیز بڑی بھرّائی ہوئی آواز میںجذباتی رنگ میں کہنے لگا کہ میں خود تو دہریہ ہوں لیکن میں نے آپ کے فلائرز لے لئےہیں۔ مَیں اپنے تمام جاننے والوں کو بتاؤں گا کہ جماعت احمدیہ کیا ہے۔

عربک ڈیسک

عربی ڈیسک کے تحت گزشتہ سال جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہوئے ان کی تعداد تقریباً 124 ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’البلاغ‘ پرنٹنگ کے لئے بھجوا دی گئی ہے اور کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 12 جس میں سراج منیر ،استفتاء، حجۃ اللہ، تحفہ قیصریہ، محمود کی آمین ،سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب یہ بھی پرنٹنگ کے لئے تیار ہے ۔اور بعض کتب کا ترجمہ نظر ثانی ہو رہا ہے اور کافی لٹریچر اللہ کے فضل سے انہوں نے پیدا کیا ہے۔

بعض عربو ں کے قبول احمدیت کے واقعات

عربوں میں بعض قبولیت کے واقعات۔ محترمہ مرو صاحبہ لکھتی ہیں کہ دو سال قبل تہجد میں دعا کر رہی تھی کہ اس جماعت کے بارے میں رہنمائی فرما ۔اس کے بعد سو گئی اور خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے سوال کا جواب میرے موبائل پر میسج کے ذریعہ دیا ہے جس میں لکھا تھا خدا سے تعلق پیدا کرو تمہیں علم صرف خدا تعالیٰ سے ہی ملے گا۔ کہتی ہیں اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ بات تو بالکل واضح ہے۔ پھر میں نے بیعت کر لی اور مشاہدہ کیا کہ جب بھی میں کسی چیز کی خواہش کرتی ہوں تو بہت جلد پوری ہو جاتی ہے خواہ وہ دنیاوی چیز ہو یا دینی۔ اس سے مجھے خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین ہو گیا۔ میں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کے وجود کو محسوس کیا۔

وسیم بشیر صاحب سیریا کے ہیں۔ آجکل ترکی میں ہیں۔ کہتے ہیں خاکسار احمدیت سے متعارف ہونے سے قبل ہمیشہ رو رو کر دعا کیا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے پر چلائے اور اس غرض سے اسلام اور دیگر ادیان کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا۔ ایک دن خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور پھر قریب آ کر مجھے بوسہ دیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی شکل مبارک تبدیل ہوگئی اور آپ ابھی تک مسکرا رہے تھے۔ مَیں حیران تھا کہ یہ دوسرا چہرہ کس کا ہے۔ کہتے ہیں یہ 2002ء کی بات ہے۔ اس کے بعد ایک دن انٹرنیٹ پر احمدیت کا نام پڑھا لیکن ساتھ ہی مخالفین احمدیت کی تحریریں پڑھیں جن کی بنا پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر 2009ء میں اتفاقاً دیکھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی جو ہو بہو ویسی ہی تھی جیسی مَیں نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا چہرہ دیکھا تھا۔ کہتے ہیں مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ امام مہدی اور مسیح موعود ہیں جو سو سال پہلے آئے اور گزر گئے لیکن ہمیں پتا بھی نہ چلا۔ اس کشمکش میں رات گزری۔ فجر کی نماز میں مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اس شخص کی حقیقت بتا دے۔ اسی دن جب میں کام پر گیا تو وہاں ایک ساتھی نے کہا کہ کل رات میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم مسیحی بن گئے ہو لیکن نصاریٰ سے مختلف ہو۔ تم مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو لیکن تم مسیحی ہو گئے ہو۔ یعنی مسلمان مسیحی ہو گئے ہو۔ کہتے ہیں مَیں نے دل میں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے پیغام ہے۔ چنانچہ میں نے زیادہ توجہ سے دیکھنا شروع کر دیا اور مخالفین کی کتابیں بھی پڑھنے لگا۔ پھر میں دنیاداری میں کھو گیا اور ایم ٹی اے بھی غائب ہو گیا۔ لیکن اچانک 2013ء کے آخر میں دوبارہ ایم ٹی اے سامنے آیا تو مجھے لگا کہ جیسے مجھے ایک خزانہ مل گیا ہو۔ جماعتی ویب سائٹس سے کتب بھی پڑھیں جس سے مجھے تسلی ہو گئی اور میں نے ویب سائٹ پر ہی 2014ء میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ بیعت قبول ہو گئی اور مجھے ایک اطمینان حاصل ہو گیا۔

اخلاص و وفا کے اظہار اور اطمینان قلب حاصل ہونے کے بارے میں بعض خطوط ہیں۔ سعودیہ سے ایک صاحب مجھے لکھتے ہیںکہ اگر کوئی دلیل نہ بھی ہو تو احمدیت قبول کرنے کے بعد اطمینانِ قلب کا شعور اور یہ احساس کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے یہی حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ السلام کی صداقت کے لئے بطور دلیل کافی ہے۔ تزکیہ، تعلیم الکتاب اور حکمت خدا تعالیٰ کی طرف سے صادق مرسل کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

اردن سے ایک صاحب قاسم صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی سب سے خوبصورت اور عظیم دلیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خلافت کی محبت اور اطاعت میرے دل میں خود پیدا کر دی ہے۔ کہتے ہیں چند سال قبل جب میں نے بیعت کا فیصلہ کیا تو میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ کیا واقعی جماعت اب تک حق پر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد پر گامزن ہے یا نہیں۔ اس وقت تک مجھے خلافت کا کچھ علم نہ تھا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے خواب میںمجھے دکھایا کہ خلیفۃ المسیح سلامتی اور امن پھیلا رہے ہیں اور لڑائی جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ پر رکھا اور انگوٹھی کو بوسہ دیا۔ اس وقت میں نے آپ کی شفقت اور مہربانی کو محسوس کیا اور میرے دل میں آپ کے لئے غیر معمولی محبت پیدا ہو گئی جو دن بدن بڑھ رہی ہے ۔مَیں تجدید بیعت کرنا چاہتا ہوں اور آپ کی اطاعت سے نکلنے والے ہر شخص سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔

اسی طرح تیونس سے ایک صاحب بشیر انصاری صاحب کہتے ہیں کہ دعا کریں ہم آسمان پر احمدی لکھے جائیں۔ اللہ کے فضل سے ہم کسی تکلیف سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ڈر ہے، تو صرف یہ ہے کہ ہماری کسی تقصیر سے جماعت کو نقصان نہ پہنچے۔ دعا کریں کہ ہم جماعتی ترقی میں روک نہ ہوں بلکہ اس کے لئے فدا ہوں۔ اگر ہم مسیح موعود کے دار سے محروم ہو گئے تو اور کہاں پناہ لیں گے۔ احمدیت ہی ہماری زندگی ہے۔

خطبات کا اثر

بعض لوگ اپنے تأثرات خطبات سننے کے بعد بھی لکھ دیتے ہیں۔ ترکی سے عبداللہ صاحب مجھے لکھتے ہیں کہ زندگی کا مزہ اور سکون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور خلافت سے جڑنے کے بعد ہی نصیب ہوا ہے۔ آپ کے خطبات سن کر ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ 23؍ دسمبر 2016ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کلام سن کر تو آنکھوں میںآنسو آ گئے جہاں حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اے عزیزو! صدق اور اخلاص کے بغیر کوئی مقام نہیں ملتا۔ مصفی قطرہ بنو کہ وہی جوہر بنتا ہے۔

پھر صابر جابر صاحب فلسطین سے لکھتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے خلافت کی نعمت عطا کی ہے ۔ خلیفۂ وقت کا وجود ایک باپ کی طرح ہے جو سب بچوں کا خیال رکھتا ہے اور وہ اس کے گرد اکٹھے رہتے ہیں۔ خلیفہ وقت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ خلیفہ وقت کے احکام کی تکمیل کے لئے میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ کہتے ہیں کہ بارہ مئی 2017 کے خطبہ میں آپ نے صبر و تحمل اور بدلہ نہ لینے اور دلوں کی طہارت اور ہر قسم کے کینوں سے پاک ہونے اور رواداری میں ایک نمونہ بننے کی نصیحت فرمائی ۔اس سے اگلے دن ایک مخالف احمدیت شخص کے ساتھ میرے ایک جھگڑے کے تصفیہ کے لئے شریف عودہ صاحب کے ساتھ ایک میٹنگ تھی ۔ اس نے میرے ساتھ لڑائی کی تھی اس کے نتیجہ میں مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ شریف صاحب نے مجھےخطبہ کی روشنی میںاطاعت کی نصیحت کی۔ چنانچہ میں نےیہ فیصلہ کیا کہ غصہ نہیںکروں گا اور بدلہ نہیں لوں گااور اپنا حق چھوڑ دوں گا اور پھر ایسا ہی کیا۔

الجزائر میں جو ابتلاء ہے اس میں بھی مختلف لوگ اپنے واقعات لکھتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں جو غریب سے آدمی ہیں۔ ان کا نام عبد الحمید ہے۔ کہتے ہیں عدالتی کارروائی کے دوران جج نے کہا کہ تمہیں جماعت احمدیہ کا تعارف کیسے ہوا؟ انہوں نے کہا مَیں اَن پڑھ آدمی ہوں میری دو گائیاں ہیں جنہیں میں چَراتا ہوں۔ جب شام کو واپس لوٹتا ہوں تو ایم ٹی اے دیکھنے لگ جاتا ہوں۔ اس چینل کی باتیں مجھے اپنی طرف کھینچتی اور میرے دل میںگھر کر جاتی ہیں۔ جج نے کہا کہ تم دوسرے چینل کیوں نہیںدیکھتے۔ وہاں پر بڑے بڑے علماء ہیں جو الجزائری لہجہ میں بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جج صاحب دونوںمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ احمدیوں کی باتیں دل کی گہرائیوں میںاترتی ہیں جبکہ دوسرے علماء کی باتیں سمجھ ہی نہیں آتیں ۔اس پر جج نے غضبناک ہو کر کہاکہ تم اپنے ٹی وی سے احمدی چینل کو ختم کر دو۔ مَیں نہیں چاہتا کہ تم اسے کبھی دیکھو۔

ڈاکٹر حجاز کریم صاحب کہتے ہیں کہ ایک صاحب جن کی عمر ستّر سال ہے اور ان کی بیوی کے خلاف مقدمہ جاری ہے۔ خاتون کو قید کیا گیا اور پردہ اتارنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اس خاتون نے میری بیوی کو عید کے دن فون کر کے بتایا کہ وہ بخیریت ہیں البتہ ان کے خاوند اس مقدمہ کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ انہیں گردوں کی تکلیف ہے اور ہفتہ میں تین دفعہ گردے صاف کروانے پڑتے ہیں ۔عدالت میں حاضری والے دن گردوں کی صفائی رات کے وقت کرواتے ہیں اور اس تاخیر کی وجہ سے ان کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور ذہن پر بھی اثر ہو جاتا ہے، بھولنے لگتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی بہت مخلص ہیں اور دونوں کے لئے دعا کی درخواست ہے۔

اللہ تعالیٰ الجزائر کے احمدیوں پر فضل فرمائے۔ بہت سارے ان کے واقعات ہیں ۔بڑی مشکلات میں گرفتار ہیں اور بڑی ثابت قدمی سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفین کا اور حکومت کے کارندوں کااور ججوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور ان کی مشکلات بھی جلد دُور فرمائے۔

مختلف زبانوں کے ڈیسکس

رشین ڈیسک کے تحت بھی کتابوں کے ترجمہ اور خطبات کے ترجمہ اور رشین ویب سائٹ کا کام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی وسیع پیمانے پر یہ کام ہو رہا ہے اور وسیع پیمانے پر یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشیا میں اور رشین بولنے والی سٹیٹس میںپہنچ رہا ہے۔

فرنچ ڈیسک کے تحت بھی کچھ کتب شائع ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔

بنگلہ ڈیسک نے بھی کچھ خطبات کا ترجمہ کیا ہے۔ کچھ کتابوں کا ترجمہ کیا ہے۔

چینی ڈیسک میںبھی ترجمہ کا کام ہو رہا ہے۔ ٹرکش ڈیسک نے بھی سبز اشتہار اور توضیح مرام کا ترجمہ کیا ہے اس طرح اور مختلف لٹریچر ہے۔

پریس اینڈ میڈیا

یہاں لندن میں جو واقعات ہوئے تھے ان کے بعد پِیس سمپوزیم کے ذریعہ بھی جو ہر سال منعقد ہوتا ہے اور پریس اینڈ میڈیا کو جماعت کا مؤقف پیش کرنے کا موقع ملا اور 554 نیوز رپورٹس شائع ہوئیں جن کے ذریعہ کل دوسو تہتّر ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ اس میں بی بی سی نیوز، سی این این، سکائی نیوز ،آئی ٹی وی، چینل فور اور چینل فائیو کو لائیو انٹرویو کے ذریعہ سے پیغام پہنچے۔ اخبارات میں گارڈیئن، بی بی سی آن لائن ،ٹیلی گراف اور مِرر اور ڈیلی میل اور دیگر نیشنل پرنٹ اور آن لائن اخبارات کے ذریعہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے جماعت احمدیہ کا جو مؤقف ہے وہ شائع کرنے کی توفیق ملی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس شعبہ کے تحت کافی وسیع پیمانے پر جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور تعارف حاصل ہورہا ہے اور تقریباً تمام ہی نوجوان عمر کے مربیان ہیں یا دوسرے لڑکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے۔

الاسلام ویب سائٹ

الاسلام ویب سائٹ جس کے انچارج ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب ہیں، امریکہ سے چلتی ہے اس کے رضا کار امریکہ ،کینیڈا، پاکستان، بھارت، یُوکے اور جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کے نئے ایڈوانس سرچ انجن کا اجراء کیا گیا ہے۔ اس سرچ انجن کے ذریعہ سے عربی، اردو، انگریزی، جرمن، فرنچ اور سپینش زبانوں میں سرچ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کے تینتالیس تراجم اور تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نیا ایڈیشن ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایک سو سے زائد اردو اور انگریزی کتب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تین کتب کا آئی بکس(iBooks) اور کِنڈل(Kindle) پر اجراء کیا گیا ہے۔ کل کتب کی تعداد اکیس ہو چکی ہے۔ خطبات جمعہ پوڈکاسٹ پر دستیاب ہیں۔Friday Sermon app کا نیا ورژن آ چکا ہے۔ خطبات جمعہ اٹھارہ زبانوں میں آڈیو اور وڈیو کی صورت میں آن لائن دستیاب ہیں۔ اسی طرح میری باقی تقاریر بھی جو ہیں اور خطبات، خطابات بھی اس میںشامل ہیں۔

ریویو آف ریلیجنز

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا اجراء فرمایا تھا۔ اور پہلا شمارہ جنوری1902ء میں شائع ہوا تھا۔ اس رسالہ کا ایک سو سولہواں (116)سال چل رہا ہے۔ سولہ ہزار کی تعداد میں ہر ماہ شائع ہوتا ہے اور دنیا کے سو ممالک میں بھجوایا جاتا ہے ۔اس سال ریویو آف ریلیجنز کے مختلف سوشل میڈیا ہینڈ لز ٹوئٹر، فیس بک ،یُوٹیوب کے ذریعہ تیس لاکھ افراد تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا۔ جرمن اور فرنچ کے شمارے کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ پہلے صرف برکینا فاسو سے فرنچ شمارہ شائع ہوتا تھا اب یہاں سے بھی شائع ہونے لگ گیا ہے۔ اور اسی طرح یہ رسالہ جرمن زبان میں بھی شائع ہونے لگ گیا ہے ۔اور جرمن زبان میں ریویو آف ریلیجنز شائع کرنے کے لئے ایک عیسائی جرمن نے ہمارے ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کو کہا تھاکہ تم لوگوں کوجرمن زبان میں بھی شائع کرنا چاہئے ۔ اس کے کہنے پر یہ قدم اٹھایا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو رہا ہے۔

… …… … … …(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button