خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرتخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16؍ مارچ 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں۔ جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا وہ ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیں کرتا۔صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہو گئے کہ وہ اس کے لئے ہر ایک تکلیف اور مصیبت اٹھانے کو ہر وقت تیار تھے۔

یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا وہ مقام ہے جو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ جب ہم صحابہ کی سیرت کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ان کے عملی نمونوں کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں تب ہی ان کا اہم مقام ابھر کر سامنے آتا ہے اور یہ جو مقام ہے یہ ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ ان کی سیرت، ان کا اُسوہ،ان کے کام، ان کی اطاعت، ان کی عبادت کے معیار ہمارے لئے نمونہ ہیں اور ہم ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض صحابہ حضرت ابو دجانہ انصاری، حضرت محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت عبداللہ بن رواحہ،حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خصائل حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ۔

مکرم الحاج اسماعیل بی کے آڈو صاحب آف گھانا (جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اردو کلاس میں ’بڑا بچہ‘ کے نام سے معروف تھے) کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر صحابہ رضوان اللہ علیہم کا مقام بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں۔ اب کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتا ہے تو وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ضائع کرنا چاہتا ہے۔ پس وہی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی قدر کر سکتا ہے جو صحابہ کرام کی قدر کرتا ہے‘‘

فرمایا کہ’’ جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا وہ ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیں کرتا۔وہ اس دعوی میں جھوٹا ہے اگر کہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور پھر صحابہ سے دشمنی‘‘۔

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 278۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ نے فرمایا کہ’’ صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور وہ آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا۔‘‘

فرماتے ہیں کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہو گئے کہ وہ اس کے لئے ہرایک تکلیف اور مصیبت اٹھانے کو ہر وقت تیار تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 277۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا وہ مقام ہے جو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ جب ہم صحابہ کی سیرت کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ان کے عملی نمونوں کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں تب ہی ان کا اہم مقام ابھر کر سامنے آتا ہے اور یہ جو مقام ہے یہ ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ ان کی سیرت، ان کا اُسوہ، ان کے کام، ان کی اطاعت، ان کی عبادت کے معیار ہمارے لئے نمونہ ہیں اور ہم ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس وقت میں بعض صحابہ کے کچھ واقعات بیان کروں گا ۔

ایک صحابی ابودجانہ انصاریؓ تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شامل ہوئے اور انتہائی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح اُحد کی جنگ میں بھی شمولیت کی انہیں توفیق ملی اور جنگ کا رخ پلٹنے کے بعد، یعنی جب مسلمان پہلے جیت رہے تھے تو پھر رخ پلٹا اور ایک جگہ چھوڑنے کی وجہ سے کافروں نے دوبارہ حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے خلاف ہو گیا تو جو صحابہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہ گئے تھے ان میں حضرت ابودجانہ بھی شامل تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں یہ انتہائی زخمی بھی ہو گئے تھے لیکن ان زخموں کے باوجود یہ پیچھے نہیں ہٹے۔ (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 207 حضرت ابو دجانہ انصاریؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

(الاستیعاب جلد 4 صفحہ 1644 ابو دجانہ ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

یہ واقعہ بھی آپ کے متعلق روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار بلند کر کے ایک موقع پر فرمایا کہ کون ہے جو آج اس تلوار کا حق ادا کرے گا تو حضرت ابودجانہ انصاری ہی آگے بڑھے تھے اور کہا تھا کہ مَیں اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ اس تلوار کا حق ادا کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ جذبہ دیکھ کر ان کو تلوار دے دی۔ پھر انہوں نے دوبارہ جرأت کر کے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس تلوار کا حق ادا کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تلوار کسی مسلمان کا خون نہیں بہائے گی۔ دوسرے اس سے کوئی دشمن کافر بچ کر نہیں جائے گا۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضل ابودجانہؓ … الخ حدیث 6353)

(کنز العمال جلد 4 صفحہ 339 حدیث 10792 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

دشمن کافر، وہ کافر جو دشمنی کرنے والے ہیں، جو اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں یہ ان کے خلاف استعمال کرنی ہے۔ آپ یہ تلوار لے کر بڑے فخر سے اور اکڑ کر میدان جہاد میں آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عام حالات میں تو اللہ تعالیٰ کو بڑائی کا اس قسم کا اظہار جو ہے پسند نہیں ہے۔ لیکن آج میدان جنگ میں ابودجانہ کی اکڑ کر چلنے کی جو ادا ہے یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی ہے۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 93 ابو دجانہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذّاب کے خلاف جنگ کرتے ہوئے آپ نے شہادت پائی۔ انہوں نے بڑی بہادری سے قلعہ کا دروازہ کھولنے کے لئے (وہ قلعہ کے اندر بند ہو گیا تھا اور دروازہ بند کرلیا تھا) ایک تدبیر کی اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مجھے دیوار سے اندر پھینک دو۔ بڑی اونچی فصیل تھی۔ اس طرح جب ان کو پھینکا گیا تو گرنے سے ان کی ٹانگ بھی ٹوٹ گئی لیکن اس کے باوجود بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور مسلمان اندر داخل ہو گئے۔ حیرت انگیز جرأت اور مردانگی کا اظہار تھا جو انہوں نے کیا۔ لیکن بہرحال اس حالت میں لڑتے ہوئے وہ شہید ہوئے۔

(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 551 سماک بن خرشہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

ایک دفعہ بیماری میں اپنے ساتھی کو کہنے لگے کہ شاید میرے دو عمل اللہ تعالیٰ قبول کر لے ۔ ایک یہ کہ میں کوئی لغو بات نہیں کرتا۔ غیبت نہیں کرتا۔ لوگوں کے پیچھے ان کی باتیں نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ کسی مسلمان کے لئے میرے دل میں کینہ اور بغض نہیں ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 420باب ابو دجانہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پھر حضرت محمد بن مَسْلَمَہ کا ذکر ملتا ہے جو ابتدائی انصاری مسلمانوں میں سے تھے۔ بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے۔ اُحد کی جنگ میں محمد بن مسلمہ بھی تھے جو بڑی ثابت قدمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ایک خصوصیت جو ان کو حاصل تھی وہ یہ ہے کہ ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ان کو اپنی تلوار عطا فرماتے ہوئے فرمایا کہ جب تک مشرکین کے ساتھ تمہاری جنگ ہو اس تلوار کے ساتھ ان سے جنگ کرتے رہنا۔ اور جب ایسا زمانہ آئے کہ مسلمان آپس میں لڑنے لگ جائیں تو یہ تلوار توڑ دینا اور اپنے گھر بیٹھ جانا یہانتک کہ کوئی تم پر حملہ آور ہو یا تمہاری موت آ جائے۔

انہوں نے اس نصیحت پر عمل کیا اور یہ عمل حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کیا کہ عملاً اس تلوار کو توڑ دیا اور لکڑی کی ایک تلوار بنائی جو میان میں لٹکاتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟ فرمانے لگے کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ رعب قائم رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل بھی میں نے کر لی ہے کہ اب لوہے کی تلوار نہیں رکھنی اور لکڑی کی تلوار کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ اگر کسی پر فتنہ کا اثر نہیں ہوا یعنی وہ فتنہ جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں شروع ہوا تو اس کا اگر کسی پہ اثر نہیں ہوا تو وہ محمد بن مسلمہ تھے۔ انہوں نے فتنوں سے بچنے کے لئے ویرانے میں ڈیرہ ڈال لیا اور فرماتے تھے کہ جب تک فتنے ٹل نہیں جاتے میرا یہی ارادہ ہے کہ میں ویرانوں میں زندگی گزاروں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 338 تا 340 باب محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جب جنگ کی تو اس لئے کہ مذہب پر حملہ ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مشرکین جو دین کو ختم کرنے کے لئے حملہ کر رہے ہیں ان سے لڑو۔ جب تک مسلمان اس بات پر قائم رہے ان کی طاقت بھی ایسی رہی کہ وہ غالب آتے رہے۔ اور جب آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں، جب منافقین کی باتوں میں آ کر آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے تو بیشک حکومتیں تو چلتی رہیں لیکن وحدت نہیں رہی اور آہستہ آہستہ حکومت بھی کمزور ہوتی گئی۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کےآپس میں جو اختلافات ہیں ان کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ایک دوسری پیشگوئی تھی وہ بھی پوری ہو چکی ہے کہ اندھیرے زمانے کے بعد جب روشنی کا زمانہ آئے، مسیح موعود کا زمانہ آئے تو مسیح موعود کو مان لینا اور جماعت کے ساتھ منسلک ہو جانا کہ اسی میں برکت ہے۔ لیکن اس آنے والے کو نہ مان کر اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے ہی ملکوں میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غیر مسلم دنیا عملاً مسلمانوں پر حکومت کر رہی ہے۔

حضرت محمد بن مسلمہ کے انتہائی صائب الرائے ہونے اور اطاعت گزار ہونے کے بھی واقعات ملتے ہیں اور اس وجہ سے خلفاء ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ خاص طور پر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے انہیں بعض بہت اہم کام دئیے۔ بعض مہمّات سپرد کیں۔ تو بعض دفعہ عُمّال کی جو شکایات آتی تھیں، نظام کی طرف سے جو مختلف کام کرنے والے مقرر تھے، ان کے خلاف جب دوسرے ملکوںسے، دوسری جگہوں سے شکایات آتی تھیں تو حضرت عمرؓ ان کی تحقیق کے لئے محمد بن مسلمہ کو بھیجا کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 47باب ذکر المصریین و حصر عثمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 107 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

ایک ابتدائی صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے۔یہ وہ خوش قسمت تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے وقت ابتدائی زمانے میں مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر قیام فرمائیں اور اُس وقت ہر ایک اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار کر رہا تھا۔ آپ کی خدمت میں درخواست دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو جہاں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو گی یہ ٹھہر جائے گی۔ ابو ایوب انصاری کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اونٹنی ان کے گھر کے سامنے رکی۔ لیکن لوگوں کی تسلی پھر بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر بھی قریب ہیں۔ ہمارے ہاں ٹھہریں۔ اس پر آپ نے قرعہ اندازی کی اور پھر قرعہ اندازی میں بھی حضرت ابوایوب انصاری کا نام ہی نکلا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1 صفحہ 183 ذکر خروج رسول اللہ ﷺ … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 110 ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

ان کے گھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ان کا جو گھر تھا دو منزلہ تھا۔ اوپر کی منزل میں ابوایوب انصاری رہتے تھے۔ نچلا حصہ سارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ وہاں قیام کا واقعہ ہے کہ ایک رات اوپر کی منزل میں یہ تھے تو پانی کا ایک بڑا گھڑا یا جو برتن تھا وہ ٹوٹ گیا۔ مٹی کے برتن ہوتے تھے، پکی مٹی کے اس میں پانی رکھا جاتا تھا۔ اب بھی تیسری دنیا میں ہمارے غریب ملکوں میں پاکستان میں افریقہ میں ایسے برتنوں میں پانی رکھا جاتا ہے۔ بہرحال وہ ٹوٹ گیا۔ ابوایوب انصاری اور ان کی بیوی ساری رات اپنے لحاف سے اس کو خشک کرتے رہے۔ اگلے دن انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کا واقعہ سنایا اور عرض کی کہ حضور آپ اوپر کی منزل میں رہائش رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کر لی اور تقریباً چھ سات مہینے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں مقیم رہے۔ مہمان نوازی کا بھی انہوں نے خوب حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے یہ کھانا کھاتے تھے۔ روایت میں لکھا ہے کہ جو کھانا بچ کے آتا تھا تو جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشان ہوتے تھے وہاں سے یہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک روز دیکھا کہ کھانے پر آپ کے نشان نہیں ہیں اور کھانا کھایا ہوا نہیں لگ رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور آپ نے آج کھانا نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں کھانا کھانے لگا تو میں نے دیکھا کہ اس میں پیاز اور لہسن ڈالا ہوا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں اس لئے نہیں کھایا۔ حضرت ابوایوب انصاری نے عرض کی کہ جسے حضور پسند نہیںکرتے اسے مَیں بھی ناپسند کرتا ہوںاور آئندہ یہ دونوں چیزیں نہیں کھاؤں گا۔ عجیب عشق و محبت کے قصے ہیں یہ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 781 حدیث 23966 مسند ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت)

(صحیح مسلم الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم … الخ حدیث 5356) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1 صفحہ 183ذکر خروج رسول اللہ ﷺ … الخ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت ابوایوب انصاری تمام غزوات میں شامل ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 369باب ابو ایوب انصاریؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

خیبر کی جنگ میں یہودی سردار جو جنگ میں مارا گیا تھا اس کی بیٹی صفیہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو رخصتانے کے اگلے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح نماز پڑھانے کے لئے باہر آئے تو دیکھا کہ ابو ایوب انصاری باہر پہرہ پر کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ تم پہرے پر کھڑے ہو۔ انہوں نے عرض کی کہ حضرت صفیہ کے عزیز رشتہ داروں کو ہمارے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے۔ کچھ مارے بھی گئے ہیں۔ اس لئے مجھے خیال پیدا ہوا کہ کوئی شرارت نہ کرے۔ کوئی آ کے اپنا بدلہ لینے کی کوشش نہ کرے۔ اس لئے مَیں پہرے کے لئے آ گیا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یوں دعا کی کہ اے اللہ! ابوایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت کے لئے مستعد رہا ہے۔

حضرت ابوایوب جنگ روم میں بھی شامل ہوئے۔ باوجود اس کے کہ آپ بوڑھے ہو چکے تھے لیکن صرف اس لئے شامل ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسطنطنیہ کے بارے میں جو پیش خبری تھی اس کو آپ دیکھ سکیں۔ بہرحال اس دوران میں آپ بیمار بھی ہو گئے۔ جب آپ سے آپ کی آخری خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو میرا سلام کہنا اور میری قبر دشمن کے علاقے میں جہاں تک جا سکتے ہو وہاں جا کر بنانا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد رات کے وقت آپ کا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جایا جا سکتا تھا لے جایا گیا اور وہاں آپ کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر آج بھی ترکی میں ہے اور دیکھنے والے بتاتے ہیں، بعض روایتیں ایسی بھی ہیں کہ لوگوں نے بعض بدعات والی روایتیں بھی بنا لی ہیں کہ ان سے مانگتے ہیں۔ ان سے تو بہرحال نہیں مانگتے لیکن دعا جو اُن کی قبر پہ کی جائے وہ قبول بھی ہوتی ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 65 غزوہ خیبر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء) (اسد الغابہ جلد2صفحہ 123 خالد بن زید بن کلیبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

تو بہرحال بعد میں یہ بعض کہانیاں بھی بن جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی حفاظت اور امان کی جو دعا کی تھی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ نے بہت سی جنگوں میں شمولیت کی اور ہر جگہ غازی بن کر آئے اور بڑی لمبی عمر پائی۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تھے جو عرب کے مشہور شاعر بھی تھے اور شاعرِ رسول کے لقب سے بھی جانے جاتے تھے۔

(سیرۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ409 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

غزوۂ بدر کے ختم ہونے کے بعد فتح کی خبر مدینہ پہنچانے والے بھی آپ ہی تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 398باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عبداللہ بن رواحہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت، محبت اور غیرت کے اظہار کے بھی واقعات ہیں جن کا ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے۔ عُروہ سے روایت ہے کہ حضرت اُسامہ بن زید نے انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا۔ اس کے نیچے فدک کے علاقے کی چادر تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے اُسامہ کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے بنوحارث بن خزرج قبیلہ میں تشریف لے گئے۔ یہ بدر کے واقعہ سے پہلے کی بات ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین اور یہود ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ بن اُبیّ بھی تھا اور اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس کے قریب پہنچے تو وہاں سواری کی وجہ سے تھوڑی سی گرد اڑی۔ عبداللہ بن اُبیّ نے اپنی ناک اپنی چادر سے ڈھانپ لی۔ پھر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ ڈالو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں السلام علیکم کہا۔ پھر ٹھہرے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور ان پر قرآن پڑھا۔ عبداللہ بن اُبیّ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کہ اے شخص یہ اچھی بات نہیں۔ جو تم کہتے ہو اگر سچ ہے تو پھر بھی ہماری مجالس میں ہمیں تکلیف نہ دو اور اپنے ڈیرے کی طرف لوٹ جاؤ اور جو تمہارے پاس آئے اس کے پاس بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ وہاں بیٹھے ہوئےتھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلس میں تشریف لایا کریں۔ ہم یہ پسند کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فی دعا النبیﷺ و صبرہ … الخ حدیث 4659)

انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ یہ جو اُن کا سردار ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ آپ کا غیرت اور محبت کا بے اختیار اظہار تھا جو عبداللہ بن رواحہ نے کیا اور ان سرداروں اور دنیاداروں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔

حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم میں اصحاب کو بھیجا جن میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی شامل تھے۔ جمعہ کا دن تھا۔ مہم میں شامل باقی اصحاب تو صبح کو روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں پیچھے رہ کر جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کر کے پھر ان سے جا ملوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا کہ مسجد میں موجود ہیں تو نماز جمعہ کے بعد ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہونے سے روک رکھا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری بے حد خواہش اور تمنا تھی کہ میں نماز جمعہ میں حضور کے ساتھ شریک ہو کر حضور کا خطبہ سن لوں اور پھر پیچھے سے جا کر اس دستے سے جا ملوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین میں جو کچھ ہے اگر وہ سب بھی تم خرچ کر ڈالو تو جو لوگ حسب ہدایت علی الصبح مہم پر روانہ ہو کر سبقت لے گئے وہ اجر اور ثواب تم ہرگز نہیں پا سکتے۔ (سنن الترمذی ابواب الجمعہ باب ما جاءفی سفر یوم الجمعۃ حدیث 527)۔ تو یہاں ضروری ہے کہ جو اطاعت ہے وہ فرض ہے۔

اس کے بعد روایات میں آتا ہے کہ جب کسی غزوے پر یا مہم پر جانا ہوتا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ سب سے پہلے اس دستہ میں شامل ہوتے اور سب سے آخر میں مدینہ واپس لوٹا کرتے تھے۔

(اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 236 عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

ایک روایت میں آتا ہے اور یہ حضرت عُروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ کو سردار لشکر بنایا اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابی طالب امیر لشکر ہوں گے اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ قیادت سنبھالیں گے۔ اگر عبداللہ بھی شہید ہوں تو مسلمان جس کو پسند کریں اس کو اپنا سردار بنا لیں۔ اس لشکر کی روانگی اور الوداع کا وقت آیا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رونے لگے۔ لوگوں نے کہا کہ عبداللہ روتے کیوں ہو؟ کہنے لگے کہ خدا کی قسم مجھے دنیا سے ہرگز کوئی محبت نہیں ہے۔ اس کا کوئی شوق نہیں۔ لیکن میں نے اس آیت کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا (مریم72:) کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر ایک شخص کو ایک دفعہ ضرور آگ کا سامنا کرنا ہے۔ پس میں نہیں جانتا کہ پل صراط پر چڑھنے کے بعد پار اترنے پر میرا کیا حال ہو گا۔

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

لیکن ان اللہ کا خوف رکھنے والوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین انجام کی جو خبر دی اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ موتہ کے امرائے لشکر کے بارےمیں فرمایا کہ میں نے ان کو جنت میں سونے کے تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 238باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

پس یہ لوگ اپنی مراد کو پانے والے تھے۔ ان کا جذبہ شہادت ان کے ایک شعر سے یوں ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایسے تیر اور نیزے مجھے لگیں جو میری آنتوں سے گزر کر جگر کے پار ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کے ہاں میری شہادت قبول ہو جائے۔ اور جب لوگ میری قبر سے گزریں تو یہ کہیں کہ خدا اس کا بھلا کرے کیسا عظیم غازی تھا۔ جنگ موتہ جس میں یہ شہید ہوئے تھے اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ موتہ کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ غسّانیوں نے مسلمانوں کے خلاف ہرقل شاہ روم سے مدد طلب کی ہے اور اس نے دو لاکھ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے بھجوایا ہے۔ اس موقع پر مسلمان امرائے لشکر نے باہم مشورہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجنا چاہئے کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے کمک بھجوائی جائے یا پھر جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہو اس پر عمل کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے مسلمانوں کے بہت حوصلے بڑھائے اور ان کی رزمیہ شاعری بھی خوب کام آئی۔ مسلمانوں کا تین ہزار کا لشکر دولاکھ کے لشکر کے مقابلے میں اکیلے آگے بڑھا۔

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

حضرت عبداللہ بن رواحہ کی تمنائے شہادت کا ذکر حضرت زید بن ارقم یوں بیان کرتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ مجھے اپنی اونٹنی کے پیچھے سوار کر کے غزوہ موتہ میں ہمراہ لے گئے۔ زید بن ارقم کو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایک یتیم بچے کے طور پر لے کر پالا اور ان کی تربیت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا جس میں اپنے اہل خانہ کی یاد کے ساتھ یہ ذکر تھا کہ اب میں کبھی لَوٹ کر واپس گھر نہیں جاؤں گا۔ بڑے مزے سے وہ شعر گنگنا رہے تھے جن میں حضرت عبداللہ اپنی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جمعرات کی وہ شام جب تم نے میرے اونٹ کے پالان کو سفر جہاد کے لئے درست کیا تھا اور آخری دفعہ میرے قریب ہوئی تھی تیری وہ حالت کیا خوب اور مبارک تھی۔ تجھ میں کوئی عیب یا خرابی تو نہیں مگر اب مَیں اس میدان جنگ میں آ چکا ہوں اور اس سے لَوٹ کر میں تمہاری طرف کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ گویا اپنے اہل خانہ کو یہ ان کا غائبانہ الوداع تھا۔ کم سن زید نے یہ سنا تو افسردہ ہو کر رو دئیے۔ حضرت عبداللہ نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اے ناسمجھ! اگر اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائے تو تیرا کیا نقصان بلکہ تم تو میری سواری لے کر اکیلے آرام سے اس پر بیٹھ کر واپس لوٹو گے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236-237باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

میدان جہاد میں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ حضرت نعمان ؓبن بشیر بیان کرتے تھے کہ حضرت جعفر کی شہادت ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحہ لشکر کے ایک جانب تھے لوگوں نے ان کو بلایا۔ وہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے میرے نفس! کیا تم اس طرح لڑائی نہیں لڑو گے کہ جان دے دو۔ موت کے تالاب میں تم داخل ہو چکے ہو۔ شہادت کی جو خواہش تم نے کی تھی اسے پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ اب اگر جان کا نذرانہ پیش کرو تو شاید نیک انجام پا جاؤ۔

مصعب بن شیبہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زید اور حضرت جعفر بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ میدان میں آگے تشریف لائے۔ جب انہیں نیزہ لگا تو خون کی ایک دھار جسم سے نکلی۔ آپ نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور ان میں خون لے کر اپنے منہ کے اوپر مل لیا۔ پھر وہ دشمن اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان گر گئے مگر آخری سانس تک سردار لشکر کے طور پر مسلمانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور نہایت مؤثر جذباتی رنگ میں مسلمانوں کو انگیخت کرتے ہوئے اپنی مدد کے لئے بلاتے رہے کہ دیکھو اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی کا لاشہ دشمنوں کے سامنے پڑا ہوا ہے۔ آگے بڑھو اور دشمنوں کو اپنے اس بھائی کے راستے سے دور کرو اور ہٹاؤ۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس موقع پر بڑے زور کے ساتھ کفار پر حملہ کیا اور پے در پے حملے کرتے رہے یہاں تک کہ اس دوران حضرت عبداللہ کی شہادت بھی ہو گئی۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 237-238باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

ان کی ایک خصوصیت کے بارے میں ان کی بیوہ نے ان کی شہادت کے بعد بتایا۔ ان کی بیوہ کی شادی ہوئی تو اس شوہر نے کہا کہ عبداللہ بن رواحہ کی پاکیزہ سیرت کے بارے میں مجھے کچھ بتاؤ۔ تو اس خاتون نے کیا ہی خوبصورت گواہی دی۔ کہنے لگیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کبھی گھر سے باہر نہیں جاتے تھے جب تک کہ دو رکعت نفل نماز ادا نہ کر لیں۔ اسی طرح جب گھر میں داخل ہوتے تھے تو آپ کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ وضو کر کے دو رکعت نفل نماز ادا کیا کرتے تھے۔

(الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد 4 صفحہ 74 عبداللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

یہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں اور ہر وقت یاد رکھنے والے تھے۔

ان کی اطاعت کے معیار کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابولیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس دوران آپ نے فرمایا کہ لوگو! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ مسجد سے باہر خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو رہے تھے۔ وہ وہیں پر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ زَادَکَ اللہُ حِرْصًا عَلَی طَوَاعِیَۃِ اللہِ وَطَوَاعِیَۃِ رَسُوْلِہٖ۔ کہ اے عبداللہ بن رواحہ! اللہ اور رسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے۔

دینی باتیں کرنے، دینی مجالس لگانے، بامقصد گفتگو کرنے، ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کے لئے ان لوگوں کے کیا معیار تھے۔ اس بارہ میں حضرت ابودرداء بیان کرتے تھے کہ میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے اوپر کوئی ایک ایسا دن آئے جب میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یاد نہ کروں۔ ہر روز میں ان کو یاد کرتا ہوں اور اس کی وجہ ان کی، حضرت عبداللہ بن رواحہ کی، یہ خوبی ہے کہ جب بھی میرے سے ملاقات ہوئی اگر وہ پیچھے سے آ رہے ہوتے تو اپنا ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیتے اور سامنے سے آ رہے ہوتے تو سینے پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے کہ اے ابو درداء! آؤ ذرا مل بیٹھیں اور ایمان تازہ کریں۔ کچھ ایمان کی باتیں کریں۔پھر وہ میرے ساتھ بیٹھتے اور جب تک ہمیں موقع ملتا ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ پھر فرماتے کہ اے ابودرداء! یہ ایمان کی مجالس ہیں۔‘‘

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 236باب عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

پس ان ایمان کی مجالس لگانے والوں نے وہ نمونے قائم کئے ہیں جو ہمارے لئے اُسوہ ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی باتوں اور مجلسوں کو کس طرح سند عطا فرمائی۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو عادت تھی کہ جب اپنے کسی صحابی سے ملتے تو ان کو یہ تحریک کرتے تھے کہ تَعَالَ نُؤْمِنْ بِرَبِّنَا سَاعَۃً۔ آؤ تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں۔ ایک دن انہوں نے یہی بات ایک آدمی سے کہی تو وہ غصہ میں آ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! ابنِ رواحہ کو تو دیکھئے۔ یہ لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے موڑ کر تھوڑی دیر کے لئے ایمان کی دعوت دے رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایَرْحَمُ اللہُ ابْنَ رَوَاحَۃ۔ کہ اللہ عبداللہ بن رواحہ پر رحم کرے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ان مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 676 حدیث 13832 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیہ بیروت 1998ء)


آپ ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کے شعراء میں حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسّان بن ثابت کے علاوہ یہ تیسرے بلند پایہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری رزمیہ تھی۔ معجم الشعراء کے مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ زمانہ جاہلیت کی شاعری میں بھی بہت قدر و منزلت رکھتے تھے اور زمانہ اسلام میں بھی ان کو بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک شعر حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایسا کہا کہ اسے آپ کا بہترین شعر کہا جا سکتا ہے۔ وہ شعر آپ کی دلی کیفیت کو خوب بیان کرتا ہے جس میں حضرت عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

لَوْلَمْ تَکُنْ فِیْہِ آیَاتٌ مُّبَیِّنَۃٌ کَانَتْ بَدِیْھَتُہُ تُنْبِیْکَ بِالْخَبَرِ

(الاصابۃ فی تمیز الصحابہ جلد 4 صفحہ 75 عبد اللہ بن رواحہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر سچائی اور صداقت کا اظہار کرنے کے لئے وہ تمام کھلے کھلے اور روشن نشانات نہ بھی ہوتے جو آپ کے ساتھ تھے تو بھی محض آپ کا چہرہ ہی آپ کی صداقت کے لئے کافی تھا جو خود آپ کی سچائی کا اعلان کر رہا تھا۔ یہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھ کر ہی حق کو پہچانا۔

پھر تاریخ میں ہمیں دو چھوٹی عمر کے بھائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے جن کی جرأت حیرت انگیز تھی۔ حضرت مُعاذ بن حارث بن رفاعۃ اور حضرت مُعَوَّذ بن حارث بن رفاعۃ۔ غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ ابوجہل کے قتل میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ بدر کا جو میدان تھا اس میں شدید جنگ ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے سامنے ان سے تین گنا زیادہ جماعت تھی جو ہر قسم کے سامان حرب سے آراستہ تھی اور اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ ہم نےاسلام کا نام و نشان مٹا دینا ہے۔ مسلمان بیچارے تعداد میں تھوڑے تھے۔ اس سارے واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبیین میں لکھا ہے۔ اور مسلمانوں کی غربت اور بے وطنی کی حالت تھی۔ ظاہری اسباب کے لحاظ سے اہل مکہ کے سامنے جو مسلمان لوگ تھے یہ چند منٹوں کا شکار تھے مگر توحید اور رسالت کی محبت نے انہیں ایسا بنا دیا تھا۔ وہ ایسے اس جذبہ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ جس سے زیادہ اس وقت طاقتور دنیا میں اور کوئی چیز نہیں تھی اور یہ ایمان تھا۔ ان کا زندہ ایمان جس نے ایک غیرمعمولی طاقت ان کے اندر بھر دی تھی۔ اس وقت میدان جنگ میں وہ خدمت دین کا ایک ایسا نمونہ دکھا رہے تھے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر ایک شخص دوسرے سے بڑھ کر خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے بیقرار نظر آتا تھا۔ انصار کے جوش کا، اخلاص کایہ عالم تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی۔ مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو میں کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کہ ایسی جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر انحصار ہوتا ہے اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔ مگر عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مَیں اس خیال میں ہی تھا کہ یہ بچے میری کیا حفاظت کریں گے کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھے آہستہ سے پوچھا جیسے دوسرے سے اپنی بات چھپانا چاہتا ہو کہ چچا! وہ ابو جہل کہاں ہے جو مکّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا۔لڑکا کہنے لگا میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ میں اسے قتل کروں گا یا قتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا۔ کہتے ہیں میں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا تو مَیں ان کی جرأت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کیونکہ ابوجہل گویا سردارِ لشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی موجود تھے۔ بڑے تجربہ کار سپاہی تھے۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اور اس کے ساتھی دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل کو نیچے گرا لیا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا۔ وہ اپنے باپ کو تو نہیں بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پر ایسا وار کیا کہ ان کا دایاں بازو کٹ گیا اور لٹکنے لگا۔ معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ گئے۔ چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں روک پیدا کر رہا تھا تو معاذ نے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا اور پھر لڑنے لگ گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 362)

تو ان لڑکوں میں غیرت ایمانی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق تھا جس نے انہیں نڈر بنا دیاکہ وہ شخص جو اسلام کو ختم کرنا چاہتا تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی سال تک تکلیفیں دیتا رہا اس کا انجام ہمارے ہاتھوں سے ہو۔ یہ آجکل کے نام نہاد جہادیوں کی طرح نہیں تھے جو نوجوانوں کو، بچوں کو ریڈیکلائز (radicalize) کرلیتے ہیں کہ آؤ اور اسلام کے لئے جنگ کرو بلکہ ان کا ایک مقصد تھا کہ دشمن اگر ہمیں اب امن نہیں دیتا باوجود اس کے کہ ہم علیحدہ ہو گئے ہیں تو پھر اس کے لئے ہمیں ہر قربانی دینی چاہئے تا کہ امن کا قیام ہو۔ نہ کہ فتنہ پیدا ہو۔ آجکل تو حکومتوں پہ قبضہ کرنے کے لئے نوجوانوں کو زبردستی اغوا کیا جاتا ہے۔ پھر ریڈیکلائز (radicalize) کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں یہ خبر تھی کہ سیریا میں چودہ سال کا ایک لڑکا ان سے بچ کے نکل کے آیا تو کہنے لگا کہ میں سکول سے آ رہا تھا مجھے اغوا کر لیا اور اغوا کر کے پھر زبردستی مجھے ٹریننگ دی۔ پہلے میں نہیں مانا تو مجھ پر سختی کی گئی۔ آخر مجھ سے جنگ کروائی جاتی تھی اور بڑی مشکل سے پھر میں وہاں سے بچ کے آیا ہوں۔ تو مسلمان اسلام کے نام پر اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں جو سراسر اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اسلام نے اگر جنگ کی، اسلام نے اگر جانیں دیں اور ان لوگوں میں قربانی دینے کا جذبہ تھا تو اس لئے کہ دین کو بچانا ہے اور دنیا میں امن قائم کرنا ہے۔ پس آجکل کے جہادیوں میں اور ان جہاد کرنے والوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’مَیں یہی نمونہ صحابہ کا اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو وہ مقدم کر لیں اور کوئی امر ان کی راہ میں روک نہ ہو۔ وہ اپنے مال و جان کو ہیچ سمجھیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کے کارڈ آتے ہیں۔ کسی تجارت یا اور کام میں نقصان ہوا یا اور کسی قسم کا ابتلا آیا تو جھٹ شبہات میں پڑ گئے‘‘۔ (کہ پتا نہیں ہم نے مسیح موعود کو مان کے غلطی تو نہیں کر لی۔ تو اس قسم کے شبہات دین کے بارے میں، خدا تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں، حضرت مسیح موعود کے بارہ میں آتے ہیں۔) آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ایسی حالت میںہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اصل مطلب اور مقصد سے وہ کس قدر دُور ہیں۔ غور کرو کیا فرق ہے صحابہ میں اور ان لوگوں میں۔ صحابہ یہ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں خواہ اس راہ میں کیسی ہی سختیاں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں۔ اگر کوئی مصائب اور مشکلات میں نہ پڑتا اور اسے دیر ہوتی تو وہ روتا اور چِلّاتا تھا‘‘۔ (یعنی صحابہ میں سے وہ سمجھتے تھے کہ مشکلات میں پڑنا اللہ تعالیٰ کا قرب دلائے گا۔ وہ یہ سمجھ چکے تھے) فرماتے ہیں کہ ’’وہ سمجھ چکے تھے کہ ان ابتلاؤں کے نیچے خدا تعالیٰ کی رضا کا پروانہ اور خزانہ مخفی ہے‘‘۔ آپ نے ایک فارسی کا شعر یہاں بیان فرمایا کہ

ہر بلا کِیںقوم را حق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است‘‘

کہ جو بھی آزمائش خدا تعالیٰ کی طرف سے اس قوم پر آئے اس کے نیچے خدا کے کرم کا ایک خزانہ چھپا ہوتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں

’’ قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے۔ اسے کھول کر دیکھو۔ صحابہ کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عملی ثبوت تھا۔ صحابہ جس مقام پر پہنچے تھے اس کو قرآن شریف نے اس طرح پر بیان فرمایا ہے۔ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ (الاحزاب24:) یعنی بعض ان میں سے شہادت پا چکے اور انہوں نے گویا اصل مقصود حاصل کر لیا اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ چاہتے ہیں کہ شہادت نصیب ہو۔ صحابہ دنیا کی طرف نہیں جھکے کہ عمریں لمبی ہوں اور اس قدر مال و دولت ملے اور یوں بے فکری اور عیش کے سامان ہوں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ میں جب صحابہ کے اس نمونے کو دیکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کمالِ فیضان کا بے اختیار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں بالکل رُوبخدا کر دیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

آپ فرماتے ہیں کہ’’ خلاصہ یہ کہ ہمارا فرض یہ ہونا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے جویا اور طالب رہیں اور اسی کو اپنا اصل مقصود قرار دیں۔ ہماری ساری کوشش اور تگ و دَو اللہ تعالیٰ کے رضا کے حاصل کرنے میں ہونی چاہئے خواہ وہ شدائد اور مصائب ہی سے حاصل ہو۔ یہ رضائے الٰہی دنیا اور اس کی تمام لذات سے افضل اور بالا تر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 82-83۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں یہ فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نماز کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم الحاج اسماعیل بی۔کے آڈو صاحب کا ہے۔ غانا کے احمدی تھے۔ 84 سال کی عمر میں 8؍مارچ کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ پیدائشی احمدی تھے اور ان کے والد کا نام اسماعیل Kwabena آڈو اور والدہ کا نام جنت آڈو تھا۔ ان کے والد پہلے عیسائی تھے۔ 1928ء میں انہوں نے بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئے۔ اسماعیل آڈو صاحب کی والدہ کا انتقال چھوٹی عمر میں ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے ٹی آئی احمدیہ سکول کماسی سے سیکنڈری سکول کی تعلیم حاصل کی۔ پھر 1964ء میں انگریزی میں بی اے کیا۔ بعد میں ٹیچر ٹریننگ کالج گھانا سے اپنی پیشہ وارانہ تعلیم مکمل کی اور پھر مختلف جگہوں پر ٹیچر مقرر ہوئے اور 1980ء تک اسسٹنٹ ہیڈ ٹیچر رہے۔ سالٹ پانڈ سینٹرل ریجن کے ایک سکول میں منتقل ہو گئے اور وہاں انگلش کے سکول ٹیچر رہے۔ جس سکول میں ہوتے تھے وہاں مسلمان طلباء کے لئے ان کی سہولتوں کا انتظام کرتے تھے۔ انہوں نے وہاں مسلمان طلباء کے لئے مسجد بھی بنوائی۔ پھر Nkrumah یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جو تھی اس میں یہ انگریزی کے استادلگے۔ پھر مختلف کالجوں میں ان کو پڑھانے کا موقع ملا۔ پھر انہوں نے انگریزی پڑھانے کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی جو غانا اور نائیجیریا میں بڑی مشہور ہوئی جو پڑھائی جاتی ہے۔ محکمہ سے اس سلسلہ میں ان کو سکالرشپ ملا اور یُوکے کی یونیورسٹی آف بینگور (Bangor) ویلز میں انہیں بھجوایا گیا اور یہاں یُوکے میں آ کے انہوں نے انگریزی زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ پھر ان کی جماعتی خدمات یہ ہیں کہ غانا میں متعدد جماعتی عہدوں پر فائز رہے۔ 1980ء میں غانا کی حکومت نے آپ کو Addis Ababa ایتھوپیا کے لئے بطور سفیر منتخب کیا اور اسی عہدہ پر تھے کہ UN نے آپ کو بحیثیت چیئرمین او ۔اے ۔یُو (OAU) لبریشن کمیٹی مقرر کیا جس کی وجہ سے آپ نے موزمبیق اور انگولا کی ریاستوں کو آزادی دلوانے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ آپ لیبیا میں بھی بطور سفیر مقرر ہوئے۔ ان کی خصوصیت تھی، جہاں بھی گئے ان کا اپنا ایک ہمیشہ خاص وصف تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور اپنی یہ پہچان ہمیشہ قائم رکھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہجرت کے بعد، آپ کے یُوکے آنے کے بعد انہوںنے اپنے سیاسی کیریئر کو بھی الوداع کہا اور پھر یہیں آ گئے تا کہ اپنے بچوں کے ساتھ خلافت کے قریب رہ سکیں اور یہاں آ کے پھر آپ سکول میں بطور ٹیچر کام کرتے رہے۔ ان کو خلافت سے، ہر خلافت سے ایک خاص عشق تھا۔ انہوں نے بڑے پیار اور محبت کا سلوک اور اطاعت کا نمونہ دکھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے سلمان رشدی کے خلاف کتاب لکھنے والی جو ایک کمیٹی بنائی تھی اس کا ان کو بھی ممبر بنایا تھا۔ تبلیغ کے میدان میں بھی ان کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ مختلف جگہوں پر تبلیغی سٹال لگاتے تھے۔ ریڈیو پر تبلیغی پروگرام کرتے تھے۔ مختلف جماعتی مجالس میں سوال و جواب کی مجلس بھی لگاتے تھے اور اسی طرح 1986ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے پَین افریقن احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن قائم کی تو ان کو پہلا صدر مقرر کیا۔ یہاں پیکم(Peckham) جماعت کے پہلے صدر بھی مقرر ہوئے تھے۔ 1994ء میں ایم۔ٹی۔اے کے اجراء کے بعد اردو کلاس کے یہ خاص شاگردوں میں سے تھے اور اس وقت اردو سیکھنے کے لئے بڑی محنت کرتے تھے۔ جو بھی جتنی بھی کوشش کر سکتے تھے کرتے تھے۔ اور اردو کلاس میں یہ ’بڑے بچے‘ کے نام سے مشہور تھے۔ لوگ ان کو جانتے ہیں۔ گھانین تھے اور ان کی دو بیویاں تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات کے موقع پر جو مجلس انتخاب خلافت تھی اس کے بھی یہ رکن تھے۔ جامعہ کا جب اجراء ہوا ہے تو یہاں یُوکے میں کچھ عرصہ انہوں نے جامعہ میں بھی انگریزی پڑھائی ہے۔ ان کو وہاں مقرر کیا تھا۔ تقویٰ پر چلنے والے، بڑے عبادت گزار، صابر اور شاکر، رحم دل اور نہایت مشفق انسان تھے۔ عبادت کا بھی جوش تھا۔ ان کے گھر والوں نے یہ بتایا ہے کہ تہجد کی نماز ہمیشہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ اگر بیمار ہوتے تب بھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے اور درد کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی بہت ساری آیات ان کو یاد تھیں اور ان کا ترجمہ اور پھر تفسیر بھی یاد کیا کرتے تھے تا کہ آگے تبلیغ میں کام آئیں یا تربیت میں کام آئے بلکہ بعض گھانین کہتے ہیں کہ ان کے گھروں میں قرآن کریم کے ایسے نسخے موجود ہیں جن میں آڈو صاحب کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس بھی ہیں۔ 2005ء میں ان کو اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ حج کرنے کی سعادت ملی۔ بڑے ہنس مُکھ اور سادہ انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے دس بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ تیئس پوتے پوتیاں۔ اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو بھی نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھے اور جماعت سے وابستہ رکھے۔ ابھی نمازوں کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button