خطاب حضور انور

مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے نیشنل اجتماع کے موقع پرحضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انگریزی زبان میں فرمودہ اختتامی خطاب کا اردو ترجمہ(فرمودہ17ستمبر 2017ء بروز اتوار بمقام Country Market, Kingsley, Bordon ،یُوکے)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ مستحکم ہے وہاںمجلس خدام الاحمدیہ اور دوسری ذیلی تنظیموں کا بھی قیام ہو چکا ہے۔

ذیلی تنظیموں کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر عمر کے احمدیوں کی اخلاقی، دینی اور روحانی تربیت کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ذیلی تنظیموں کو اس لئے قائم کیا گیا ہے

تاکہ ممبران جماعت کو اپنے دین کےقریب لایا جائے اور انہیں ان کی انفرادی ذمہ داریاں سمجھائی جائیں۔نیز ممبرانِ جماعت کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے دنیاوی امور کی سرانجام دہی اورضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لئے رہنمائی کرنا بھی ذیلی تنظیموں کے کاموں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ذیلی تنظیموں کی یہ بھی

ذمہ داری ہے کہ دین اور ملک و قوم دونوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائیں اور یہ خدمت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہونی چاہئے۔

مجلس خدام الاحمدیہ ہمارے 15سے40 سال کے نوجوان مردوں پر مشتمل ہے۔اور اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام چل رہی ہےجو ہمارے نَو جوان لڑکوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کا خیال رکھتی ہے۔ 12سے15 سال کی عمر کے بڑے اطفال یقیناً ایسی عمر میں ہیں جس میں ان کے اَذہان پختہ ہو رہے ہیں اور وہ اپنے دین کی بنیادی باتوں کو اور اپنے کئے ہوئے عہدوں کوبھی سمجھتے ہیں۔ اس کی روشنی میں آج مَیں سب سے بنیادی عہد کے بارہ میں بات کروں گا جو ہر مسلمان کرتا ہے اور وہ ’’کلمہ‘‘ ہے۔ یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم )اللہ کے رسول ہیں۔یہ وہ بنیادی الفاظ ہیں جن پر اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔اور ہماری ذیلی تنظیموں کے عَہدوں میں جن میں خدام الاحمدیہ کا عہد بھی شامل ہے ان سب کا آغاز ایمان کے اس اقرار سے ہوتا ہے۔ پس سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچنے والے ہر خادم اور ہر طفل کو لازماً سنجیدگی کے ساتھ اس عہد کے معانی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کے مختلف پہلوؤں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں

کلمہ طیّبہ کی نہایت پُر معارف تشریح اور اس کے معانی کا بیان اور اس حوالہ سے خدّام و اطفال کو نہایت زرّیں نصائح اور ہدایات۔

(اردوترجمہ فرّخ راحیل)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ مستحکم ہے وہاں مجلس خدام الاحمدیہ اور دوسری ذیلی تنظیموں کا بھی قیام ہو چکا ہے۔اور ذیلی تنظیموں کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر عمر کے احمدیوں کی اخلاقی، دینی اور روحانی تربیت کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ ذیلی تنظیموں کو اس لئے قائم کیا گیاہے تاکہ ممبران جماعت کو اپنے دین کےقریب لایا جائے اور انہیں ان کی انفرادی ذمہ داریاں سمجھائی جائیں۔نیز ممبران جماعت کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے دنیاوی امور کی سرانجام دہی اورضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے رہنمائی کرنا بھی ذیلی تنظیموں کے کاموں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ذیلی تنظیموں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ دین اور ملک و قوم دونوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائیں اور یہ خدمت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہونی چاہئے۔جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ ہمارے 15سے40 سال کے نوجوان مردوں پر مشتمل ہے۔اور اطفال الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام چل رہی ہےجو ہمارے نَو جوان لڑکوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کا خیال رکھتی ہے۔ 12سے15 سال کی عمر کے بڑے اطفال یقیناً ایسی عمر میں ہیں جس میں ان کے اذہان پختہ ہو رہے ہیں اور وہ اپنے دین کی بنیادی باتوں کو اور اپنے کئے ہوئے عہدوں کوبھی سمجھتے ہیں۔ اس کی روشنی میں آج مَیں سب سے بنیادی عہد کے بارہ میں بات کروں گا جو ہر مسلمان کرتا ہے اور وہ ‘‘کلمہ’’ہے۔ یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ و سلم )اللہ کے رسول ہیں۔ یہ وہ بنیادی الفاظ ہیں جن پر اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔اور ہماری ذیلی تنظیموں کے عَہدوں میں جن میں خدام الاحمدیہ کا عہد بھی شامل ہے ان سب کا آغاز ایمان کے اس اقرار سے ہوتا ہے۔پس سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچنے والے ہر خادم اور ہر طفل کو لازماً سنجیدگی کے ساتھ اس عہد کے معانی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔کلمہ کا پہلا حصّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔جس کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

پس سب سے بنیادی اور اوّلین اصول جس کے مطابق ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنی زندگی لازمًا بسر کرنی چاہئے وہ توحید ہے۔یعنی اس کامل ایمان اوریقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ لیکن یہ بات کافی نہیں کہ ان الفاظ کا صرف زبانی اقرار کیا جائے بلکہ اس اقرار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعہ سے اپنےایمان کا اظہار ہونا چاہئے ۔اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اور اعلیٰ ترین عبادت نماز ہے۔ یعنی صلوٰۃ۔قرآن کریم کے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم پنجوقتہ فرض نمازیں ادا کریں۔ پس اگر ہم نمازوں کی ادائیگی میں سُست ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہمارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اقرار بے فائدہ ہے،کسی اہمیت کا حامل نہیں اور جھوٹا اقرار ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نےنہایت خوبصورتی اور حکمت سے اس نکتہ کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچّا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی محبوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان کی خدا تعالیٰ سے ایسی حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرنے والا ہو، تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں۔ ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اس پر اس کے ایمان میں آگئی ہے۔ تب وہ اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا اقرار سچّا ہے اور جھوٹ پر مبنی نہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 59۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )

آپؑ نے تعلیم دی کہ سچّا مسلمان وہی ہے جس کا دل اور روح خدا تعالیٰ کی محبت سے مخمور ہے اور وہ اس ایمان میں رچا ہوا ہے کہ اللہ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں۔پس اس معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انسان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا اقرار صرف سطحی اور اس کے الفاظ کھوکھلے ہیں۔

کلمہ کا دوسرا حصہ اس پختہ ایمان کا متقاضی ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ۔ یعنی محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو واضح کرتے ہوئے فرمایاکہ کلمہ کا جو دوسرا جزو ہے وہ نمونہ کے لئے ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تمام بنی نوع انسان کے لئے بہترین نمونہ ہیں اور آپؐ خدا تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری میں کامل انسان تھے۔ یقیناً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عظیم اخلاق کے مالک تھے اور تمام انسانیت کے لئے اُسوۂ حسنہ یعنی بہترین نمونہ تھے۔پس ہر احمدی مسلمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک نمونہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے نَوجوانوں کو لازمًا یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ وہ سنہری کنجی ہے جس سے ہم کامیابی کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔اور ہم اسی ایک امید پر قائم ہیں کہ اسلام کی اصل حقیقت دنیا کے لوگوں پر ظاہر کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔پس اس کی روشنی میں مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوہ کی چند مثالیں دینا چاہتا ہوں جن سے ہمیں نمونہ حاصل کرنا چاہئے اور انہیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کاعشق الٰہی اتنا زیادہ تھا اور توحید باری تعالیٰ پر اس قدر ایمان تھا کہ غیر مسلم کافر بھی اس کا اقرار کئے بغیر نہ رہ سکے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوے کے بعد مکّہ کے کافر کھلے عام کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) تو اپنے ربّ کا عاشق ہو گیا ہے۔

(احیاء علوم الدین جلد 1 صفحہ 723 کتاب الآداب السماع والوجد مطبوعہ دار المعرفہ بیروت 2004ء)

مزید بر آں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائیں بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا تھے ۔ ایک دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیا کرتے تھے جو ہر مسلمان کو بار بار پڑھنی چاہئے وہ یہ تھی کہ

’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتاہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔‘‘(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب دعاء داؤد اللھم أنی أسالک ۔۔۔ حدیث 3490)

یہ خوبصورت دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فنافی اللہ ہونے کی کامل حالت کا اظہار کرتی ہے۔ اور ہمیں لازمًا اس روح کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔آجکل کی دنیا میں لوگ دین کو چھوڑ کر اپنی ذاتیات کو اس حد تک ترجیح دیتے ہیں کہ اُن میں اپنے خالق سے پیار اور محبت کا اظہار کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کا احساس پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ہم میں سے بھی بعض کو دنیاوی مال اور دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کا اتنا جنون ہے کہ وہ مقررہ وقت پر نماز ادا کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔یا اپنی فیملی کے معاملات میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اوّلین فرض کو یعنی خدا تعالیٰ سے پیار کرنے اور اس کی عبادت کرنے کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔یہ طرز عمل ایک حقیقی اور سچّے مسلمان کا کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو ہر چیز پر فوقیت دیں گے تب ہی ہم انصاف کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ ہم اپنے ایمان کو مقدم رکھ رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔

مزید بر آں توحید کے قیام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے صدقِ دل سے توحید باری کا اقرار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور افضال حاصل کرنے والا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاایک مسلمان کو توحید کا اقرار اس دعا سے کرنا چاہئے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ۔خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اُسی کی ہے۔تمام تعریفوں کا بھی وہی مستحق ہے اور وہ ہر شئے پر قادر ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے دن میں سو مرتبہ یہ دعا کی ایسے شخص کو دس غلاموں کی آزادی کے برابر ثواب ہو گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں مٹائی جائیں گی۔ توحید باری پر مشتمل یہ ذکر اُس دن شام تک کے لئے شیطان سے اُس کی پناہ کا ذریعہ بن جائے گا اور کوئی شخص اُس سے بہتر عمل والا قرار نہیں پائے گا سوائے اُس شخص کے جو یہ ذکر اِس سے بھی زیادہ کثرت سے کرے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل التہلیل حدیث 6403)

یہ دعا حقیقت میں ہمارے ایمان کے اقرار یعنی لَااِلٰہَ اِلَّااللہکی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ اور جب انسان سنجیدگی کے ساتھ اس طرح دعا کرتا ہے تو ہر حال میں وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے گا ۔اس بات میں ذرّہ بھر بھی کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معیار سب سے اعلیٰ تھا۔خواہ کیسے بھی حالات ہوتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی چیز کو حقوق اللہ کی ادائیگی میں حائل نہ ہونے دیتے۔ مثلاً احادیث میں مذکور ہے کہ انتہائی بیماری یا انتہائی زخمی حالت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عبادت میں مسلسل آگے بڑھتے رہے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھوڑے سے گِر گئے جس کے نتیجہ میں آپ کے جسم کا دایاں پہلو شدید زخمی ہو گیا۔ آپ کھڑے ہو کر نماز ادا نہ فرما سکتے تھے اس لئے بیٹھ کر نماز پڑھائی مگر باجماعت نماز میں ناغہ پسند نہ فرمایا۔(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ فی السطوح والمنبر والخشب حدیث 378)

ذاتی طور پر ہم سب اپنی نیتوں اور اپنے عبادت کے معیاروں سے بخوبی واقف ہیں کہ کیا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟یہ انتہائی افسوسناک حالت ہے کہ بہت سے احمدی اپنے ذاتی حقیر کاموں یا محض سستی کی وجہ سے نمازباجماعت کو قربان کر دیتے ہیں۔ اورپھر وہ مسلسل بے شرمی سے اور ذرّہ بھر بھی نادم ہوئے بغیرکلمہ کے الفاظ دہراتے ہیں اور اپنے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا زبانی دعویٰ ہر گز کافی نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ انسان کےاعمال اور اس کا کردار اس کے دعوے کے حق میں لازمًا گواہی دے رہے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے رسول اورمحبوب ترین خادم تھے۔ اس کے باوجودخشیتِ الٰہی آپ پر ہمیشہ حاوی رہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پیروکاروں کو مسلسل ہشیار رہنے کی تلقین فرمائی تا کہیں وہ غفلت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں یا اس کی محبت سے محروم نہ ہو جائیں۔ صحابۂ کرام ؓ کی کئی روایات ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالے کر دیتے تھے۔ مثلاً روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت میں عبادت کرتےہوئے دیکھا تو آپ کی حالت یوں بیان کی کہ گریہ و زاری اور بُکا سے آپ کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔(سنن النسائی کتاب الکسوف باب نوع آخر حدیث 1483) اور بعض صحابہؓ نے نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو یوں بیان کیا کہ گویا چکّی چل رہی ہو ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب البکاء فی الصلاۃ حدیث 904)اور بعض نےآپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا یہ عالَم بیان کیا کہ روتے ہوئے سینے سے ہنڈیا اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی۔(سنن النسائی کتاب السھو باب البکاء فی الصلاۃ حدیث 1215) عبادت، خشیتِ الٰہی اور عشقِ الٰہی کے یہ بے نظیر معیار تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر فرمائے اورجو تمام انسانیت کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ ذکرِ الٰہی اور خدا تعالیٰ کی حمد و شکر میں بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اعلیٰ ترین معیار کو پہنچے ہوئے تھے۔ دن ہو یا رات، عالمِ خواب ہو یا بیداری، خلوت ہو یا جلوت کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خالق کی یادسے غافل نہیں ہوئے ۔صحابہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے بعض دفعہ مَیں ستّر سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ حدیث 6307)

ذرا تصوّر کریں! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی شدّت سے استغفار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو پھر ہمارے لئے مسلسل استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا کتنا ضروری ہو گا۔یقیناً استغفار کی اہمیت پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے کیونکہ استغفار سے ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف مرکوز رہتی ہے اور گناہوں اور بداعمال سے ہم محفوظ رہتے ہیں۔

مزید بر آں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا انتہائی ضروری امر ہےاور نماز شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب التہجد باب قیام النبیؐ اللیل حدیث 1130) ذاتی طور پر نماز سے محبت کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز حقیقی معنوں میں آپ کے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھی(سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث 3391) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلسل دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے میرے ربّ مجھے اپنا ذکر کرنے والا اور شکر کرنے والا بنا‘‘۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب رب اعنی ولا تعن علی … حدیث 3551)

جہاں تک قرآن کریم سے محبت اور اس کی تعلیمات کی پیروی کا تعلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس میں بھی کامل نمونہ تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق قرآن تھے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 305 حدیث 25816 مسند عائشہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)یعنی جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق جاننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ قرآن کریم پڑھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ہر ذرّہ کلام الٰہی سے پیار میں اس قدر لپٹا ہوا تھاکہ کلام الٰہی سنتے وقت آپؐ پر رقّت طاری ہوجاتی اور آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سےفرمایاکچھ قرآن سناؤ! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُلٓائِ شَھِیْدًا(سورۃ النساء42:) ’پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امّت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے۔ اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے‘۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بَہ نکلی۔ ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔ (سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ النساء حدیث 3024)

ایک اَورروایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گِر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی۔ ہر دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم روتے روتے گِر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمٰن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(اتحاف السادۃ شرح احیاء علوم الدین جلد 5 صفحہ 88-89 کتاب آداب تلاوۃ القرآن الباب الثالث مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

پس آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم رحمٰن و رحیم خدا کے آگے جھکیں ، اس کی عبادت کریں، اس کے آگے روئیں، اس کے لئے اپنے دلوں کو کھولیں اور اس کے احسانات اور افضال کے طلبگار ہوں اور یہ دعا کریں کہ ہم کبھی بھی بے نصیبوں میں شامل نہ ہوں۔

ابھی تک مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےمعیارِ عبادت اور تعلق باللہ کے حوالہ سے آپؐ کے کامل نمونہ پر بات کی ہےجس سے ہمیں کلمہ کے پہلے حصہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللہ یعنی’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘کی بہترتفہیم ہوتی ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ساتھ ہی کامل طور پر اپنے معاشرے اور بنی نوع انسان کے حقوق بھی ادا کیا کرتے تھے۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اِس پہلو پر بھی توجہ کریں تاکہ ہمیں’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ‘‘ کی مکمل تفہیم ہو جائے۔ یعنی اس بات کی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔جب ہمیں یہ تفہیم ہو جائے گی تب ہی ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اللہ کے رسول کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے اور آپ کس طرح رحمۃ للعالمین کے طور پر ایک لازوال حقیقی سر چشمہ ثابت ہوئے ۔ آپ کے اخلاق بے عیب،ہر قسم کی تنقید سے بالا اور نمونے کے لحاظ سے حقیقی طور پر کامل تھے۔

مومن کی بنیادی صفات میں صادق اور امین ہونا اور اپنے عہدوں کا ایفا کرنا ہے ۔چنانچہ مخالفینِ اسلام بھی اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صفات میں انسانیت کے لئے بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔مثلاً ابو سفیان کی اُس وقت کی گواہی جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا جانی دشمن تھا بہت اہمیت کی حامل ہے۔قیصر روم نے جب ابو سفیان سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے پیروکاروں کو کیا تعلیم دیتے ہیں تو ابو سفیان نےگواہی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز،سچائی،پاکدامنی، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب دعا النبیؐ الی الاسلام … حدیث 2941)

جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ایک جانی دشمن کا بیان تھا اور یہ اس بات کی گواہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صرف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا پیغام دیتے تھے۔ حالات خواہ کتنے ہی کٹھن ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل سچّائی ، ایمانداری اور دیانتداری ہمہ وقت عیاں ہوتی تھی ۔مثلاً غزوات اور جنگوں میں یہ تصوّر عام تھا کہ فاتح قوم اپنے مدّمقابل کا مال لے سکتی ہے اور اس کے مال و اسباب کو لوٹنا جائز ہے۔تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ذاتی مفاد کی بجائے، اپنے آپ کو اور اپنے پیروکاروں کو مالدار بنانے کی بجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا یہ تقاضا تھا کہ ہر گز کسی قسم کی ناانصافی روا نہ رکھی جائے۔

مثلاًغزوۂ خیبر جو یہودیوں کے خلاف لڑا گیا بہت کٹھن ، مشکل اور طویل غزوہ تھا۔اس وقت بھوک اور فاقے کے ایام بڑھ گئے۔ یہود کے ایک حبشی چرواہے نے اسلام قبول کرلیا اور سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر حال میں امانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ جیسی قربانی دے دی مگرکیامجال کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو۔خداتعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 213-214 باب ذکر المسیر الی خیبر مطبوعہ دار الکتب العربی بیروت 2008ء)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس وقت بھی اپنے مدّمقابل کے حقوق کا خیال رکھا اور اِس طرح امانتوں اور حقوق العباد ادا کرنے کی ایک بےنظیر مثال قائم فرمائی۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی جنگ کے بعد کوئی معاہدہ طے فرماتے تو آپ خود بھی معاہدہ کے پابند رہتے اور اس بات کو یقینی بناتےکہ دوسرے مسلمان بھی اس کے پابند رہیں۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ کے بعد بعض اوقات مسلمانوں کی جانوں کو خطرہ تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم معاہدہ سے کبھی اِدھر اُدھر نہ ہوئے اور مسلسل معاہدہ کا پاس رکھتے خواہ خطرہ کتنا ہی بڑا ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ صرف تعلیم دی بلکہ ہر لحاظ سے عملی طور پر دکھایا کہ کس طرح ہمیں لازمًا دین کو دنیا کے ہر معاملہ پر مقدّم رکھنا ہے۔ اور ہم سب احمدی بار بار یہ عہد دوہراتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ جب بھی کوئی ذاتی معاملہ کھڑا ہوتا ہے تو بہتیرے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہدکو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً سورۃالجمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جائے تو خرید و فروخت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو۔(سورۃ الجمعۃ10:)لیکن ہم میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو اس قرآنی حکم کی پروا نہیں کرتے۔پس میں تمام خدّام کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس تعلیم کو اپنے ذہنوں میں راسخ رکھیں اور دنیاوی معاملات کی بجائے جمعہ پڑھنے کو مقدّم رکھیں ۔

جہاں تک دنیاداری اور دنیاوی مال کے حصول کاتعلق ہے اس کے لئے ہمیں اس حدیث کی طرف بہت توجہ دینی چاہئےکہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بازار تشریف لے گئے ،لوگ آپؐ کے دائیں بائیں تھے۔ آپؐ ایک چھوٹے کانوں والے مُردہ بکروٹے کے پاس سے گزرے ، آپؐ نے اس کا کان پکڑ کرصحابہ سے فرمایا کہ تم میں کوئی اسے ایک درہم میں لینے کو تیار ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہم اسے کیا کریں گے ؟ہمیں ہرگز یہ کسی چیز کے عِوَض لینا بھی گوارا نہیں ۔آپ ؐ نے پھر فر مایاکہ کیا تم پسند کرو گے کہ تم اسے لے لو ؟ انہوں نے پھر جواب دیا کہ اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو چھوٹے کانوں کا عیب اس میں تھا۔ اب مردہ ہونے کی حالت میں بھلا اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ اس پر آپؐ نے فرمایا’’خدا کی قسم ! دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکروٹے سے بھی زیادہ ذلیل اورحقیر ہے‘‘۔(صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الدنیا سجن المومن … الخ حدیث 7418)اس لئے دنیاداری کے حصول میں نہ لگے رہو بلکہ ہمیشہ قُربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کو ترجیح دو۔

مزید برآں دنیادار لوگوں میں یہ سوچ عام ہے کہ کسی حد تک تجارت اور کاروبار میں جھوٹ اور دھوکہ بازی جائز ہے۔ ایسا رویّہ بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دنیا کو دین پر مقدم رکھا جا رہا ہے نہ کہ دین کو دنیا پر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے جھوٹ اور دھوکہ بازی کو گناہ قرار دیا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہؓ کونصیحت فرمائی کہ سودا کرتے وقت کسی جھوٹ یا لغو بات کا بھی امکان ہوتا ہے اس لئے کوئی بھی سودا کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے دینا چاہئے تاکہ ہرقسم کے ضرر سے محفوظ رہیں۔ (سنن النسائی کتاب الایمان والنذور باب فی اللغو والکذب حدیث 3830)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی بازار میں تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے اس بازار اور جو اس کے اندر ہے اس کی بھلائی کا طلبگار ہوں اور میں اس بازار اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ ! میں اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں کہ بازار میں کوئی جھوٹی قسم کھاؤں یا گھاٹے والا سودا کروں‘‘۔(مستدرک للحاکم کتاب الدعاء والتکبیر جلد 2 صفحہ 753 حدیث 1977 حدیث رافع بن خدیجؓ مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز ریاض 2000ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ یاد دلاتے رہتے تھے کہ ایک تاجر دھوکہ کی بنیاد پر، اشیاء کی قیمت یا معیار کو بڑھا چڑھا کر تو بیچ سکتا ہے لیکن ایسی تجارت میں کوئی برکت نہیں پڑ سکتی۔ اس کے برعکس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے امانتدار اور سچے مسلمان تاجر کو خوشخبری دی ہے کہ وہ قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا۔

(سنن الترمذی ابواب البیوع باب ما جاء فی التجار …حدیث 1209)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےرشتہ داروں سے حسن سلوک کی اہمیت اور صلہ رحمی کی برکات پر بھی بہت زور دیا ہے۔اس حوالہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’صلہ رحمی یہ نہیں کہ رشتہ داروں کے حسن سلوک کا بدلہ دیاجائے۔ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ توڑنے والے سے جوڑنے کی کوشش کرے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 373 حدیث 15703 مسند معاذ بن انسؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) یقیناً آج یہ ایک انتہائی اہم اور زرّیں اصول ہے اور اگر ہمارے نوجوان اس اصول پر توجہ کریں تو بہت سے گھریلو مسائل ختم ہو جائیں۔ مخلوق کی ہمدردی کے حوالہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نمونہ سب سے اعلیٰ تھا۔ آپ کبھی بھی کمزور اور حاجتمندوں کی مدد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور یہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرے گا اور اگر وہ کسی مسلمان بھائی کی مشکل دُور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی مشکلات دُور کرے گا اور اگر وہ اپنے مسلمان بھائی کی غلطی کی پردہ پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ (صحیح البخاری کتاب المظالم والغضب باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ حدیث 2442)

ایک بہت اہم حدیث جس کا علم ہم سب کو ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ اورسلامت رہیں۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ حدیث 10)آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ان الفاظ کو جاننے کے باوجود ہم میں سے بہت سے ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر لوگ اس تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے تو نجّی سطح پر بھی اور معاشرتی سطح پر بھی نفرتوں اور تنازعات کا خاتمہ ہو جاتا۔ اس حدیث میں مسلمانوں کو صرف یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں بلکہ یہ حدیث انہیں رفاہی کاموں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کیونکہ حدیث کے گہرے معانی تقاضا کرتے ہیں کہ مسلمان فعّال ہو کر انسانیت کی مدد اور خدمت کرے۔ اس کا اعلیٰ ترین نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود تھے جو ہر لحظہ خود اپنے ہاتھوں سےحاجتمندوں کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتے اور معاشرے کے تمام محروم اور غیرمحفوظ لوگوں پر پیار اور محبت کی بارش برساتے تھے۔

کئی مواقع پر غریب اورمستحق لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد جاتے وقت یا راہ چلتے روک لیا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی نہ چِڑتے اور نہ ہی بے صبری کا مظاہرہ کرتے بلکہ انتہائی محبت ، لگن اور توجہ سے اُن کی باتوں کو سنتے اور اُنہیں حوصلہ دیتے اور ان کی مدد فرماتے۔ حقیقت میں ہمیں لازمًا اس پاک نمونہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ ایک حقیقی مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے دُکھ اور درد کو اپنا سمجھنے والا ہے۔

گھر میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بہترین عملی نمونہ قائم فرمایا اور اپنے اہل و عیال کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا خیال رکھا۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فیملی کو رات کے وقت نماز کے لئے جگاتے(صحیح البخاری کتاب الاعتکاف باب العمل فی العشر الأواخر من رمضان حدیث2024) اور دوسرے مسلمانوں کو بھی تلقین فرماتے کہ ایسا کیا کریں۔(سنن ابو داؤد ابواب قیام اللیل باب قیام اللیل حدیث 1308) پس ہمارے مَردوں کو نہ صرف خود مقررہ وقت پر نماز ادا کرنی چاہئے بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے افراد بھی بر وقت نماز ادا کر رہے ہیں اور نمازِ فجر کے لئے اُٹھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی طرف مجلس خدام الاحمدیہ کو خاص توجہ دینی چاہئے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال کے گھر میں بھی بہترین نمونہ قائم فرمایا اور عورتوں کے حقوق قائم فرمائے۔ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زور دیا کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ پیار ، محبت اور شفقت سے پیش آیا کرے اور اُس کی عزت کیا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور مَیں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی فضل ازواج النبیؐ حدیث 3895) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بعض اوقات مرد اور عورت کے درمیان کسی عیب یا کسی عادت کی وجہ سے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا اُس کی کوئی ادا ناپسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی، اُن کو مدّنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے۔(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 3645)اس تعلیم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت ہی خوبصورت اور حکمت سے پُر نصیحت فرمائی کہ کس طرح اپنے گھروں میں امن و سکون قائم رکھا جاسکتا ہے۔

ایک مرد کا اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت سے بات کرنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالہ سے حضرت عائشہؓ نے گواہی دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم ۔ عام آدمیوں کی طرح بِلاتکلف گھر میں رہنے والے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اُٹھایااور نہ ہی کبھی کسی خادم کو مارا۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب مباعدہ للآثام … حدیث 6050)حالانکہ آپ ایک ایسے دَور میں رہتے تھے جس میں ایسا کرنا عام سمجھا جاتا تھا۔ افسوس کہ آج بھی کئی مردوں کو چھوٹی چھوٹی حقیر باتوں کی وجہ سے اپنی بیویوں پر غصہ آ جاتا ہے۔ مَیں مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اَناؤں کو چھوڑ دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کو اپنائیں کیونکہ آپؐ عاجزی میں سب سے اعلیٰ تھے۔یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ وہ مرد جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک نہیں کرتا تقویٰ شعار لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔

مَیں نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی چند خوبیوں کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی لا تعداد مثالیں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل نمونہ کو زندگی کے ہر حصہ میں ظاہر کرتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوہ کی باتیں سُن لینا یا پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ ہم سب کو لازمًااپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپؐ کے نمونہ کو اپنانے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایسا کرنے والے ہوں گے تب ہی ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے حقیقی معانی اور مقام کو سمجھنے والے ہوں گے۔ اور تب ہی ہم یہ دعویٰ کرنے کے لائق ہوں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مانا ہے اور ہم اپنی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کے عہد کو پورا کر رہے ہیں ۔ اور مسلمانوں کی زندگی کی جو بنیاد ہے یعنی کلمہ اس کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں۔

آخر پر مَیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں آپ نے اپنی جماعت سےوابستہ توقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہےکہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائراﷲ کی حرمت نہیں کرتے۔پس مَیں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔یہ نکمّی حالت ہے۔خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔وہ گویا اپنے عمل سے میری عدمِ ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے،تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کروجس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔قرآن شریف کے صحیح منشاءکو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔‘‘

فرمایا’’خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہےوہ عمل کے بِدُوں زندہ نہیں رہ سکتی۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ 282۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اس کےمطابق ہمیں ہمیشہ اپنی حالتوں کو بہتر بنانے ، اپنی اصلاح کرنے اور مخلص مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جب ہم یہ الفاظ کہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘ تو ہم اس کے حقیقی معانی سمجھنے والے ہوں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے از خود متحرک ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مشن تھا کہ دنیا اپنے خالق کو پہچانے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو مانے اور یہ کہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرے۔ ہمیں ذاتی طور پراز خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیاکی اکثریت اسلام کو ایک شدّت پسند مذہب تسلیم کرتی ہے اور دہشتگردی کو ہَوا دینے والا مذہب سمجھتی ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مشن کو آگے بڑھانے کی سعی کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو سمجھ آ جائے کہ اسلام درحقیقت ایک امن پسند مذہب ہے جو یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے خالق کو پہچانے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے۔

اللہ کرے کہ ہم اپنے طرزِ عمل سے دنیا کو اس بات پر قائل کرنے والے ہوں کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو پیار کے پُل بنانا چاہتے ہیں اور جو معاشرے کی ہر سطح پر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔اللہ کرے کہ ہم اپنے عملی نمونہ سے یہ ظاہر کرنے والے ہوں کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو ہر بدامنی اور ہر تنازعہ کو دنیا سے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس عظیم مقصد کو پورا کرنے والے ہوں، اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور دنیا کے ہر حصہ میں اسے پھیلانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ یُوکے کو مسلسل برکت دیتا چلا جائے اور ہر لحاظ سےدنیا میں تمام خدّام کو برکت دے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button