خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبردست قوت قدسی کا روح پرور بیان۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسی سے صحابہ میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ آپ نے انتہائی جاہل، اُجڈ اور نجاست میں غرق لوگوں کو تعلیمیافتہ انسان بنا دیا اور با خدا انسان بنا دیا۔

صحابۂ رسول کی پاکیزہ زندگیوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ اور افراد جماعت کو صحابہ کے اُسوہ کو اپنانے کی تلقین

مکرمہ امۃ المجید احمد صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب (نائب امیر یُوکے اور انچارج مرکزی شعبہ جائیداد) کی وفات۔ مرحومہ کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ ۔

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ میرا مذہب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی۔ اسلام کی ترقی کا راز یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت جذب زبردست تھی اور پھر آپ کی باتوں میں وہ تاثیر تھی کہ جو سنتا تھا وہ گرویدہ ہو جاتا تھا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ جن لوگوں کو آپ نے کھینچا انہیں پاک صاف کر دیا۔ ‘‘

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں کس قسم کی تبدیلیاں پیدا کیں فرماتے ہیں کہ

’’ صحابہ کی حالت کو دیکھتے ہیں تو ان میں کوئی جھوٹ بولنے والا نظر نہیں آتا۔ حالانکہ جب عرب کی ابتدائی حالت پر نگاہ کرتے ہیں تو وہ تحت الثریٰ میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بت پرستی میں منہمک تھے۔ یتیموں کا مال کھانے اور ہر قسم کی بدکاریوں میں دلیر اور بے باک تھے۔ ڈاکوؤں کی طرح گزارہ کرتے تھے۔ گویا سر سے پیر تک نجاست میں غرق تھے‘‘۔ (لیکن ایسا انقلاب آپ نے ان میں پیدا کیا جس کی نظیر دوسری قوموں میں نہیں ملتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معجزہ اتنا بڑا ہے کہ آپ نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ)’’ دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ ایک آدمی کا درست کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ (بہت مشکل ہے کہ کسی ایک آدمی کی بھی اصلاح کی جائے)’’ مگر یہاں تو ایک قوم تیار کی گئی کہ جنہوں نے اپنے ایمان اور اخلاص کا وہ نمونہ دکھایا کہ بھیڑ بکری کی طرح اس سچائی کے لئے ذبح ہو گئے جس کو انہوں نے اختیار کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زمینی نہ رہے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم، ہدایت اور مؤثر نصیحت نے ان کو آسمانی بنا دیا تھا۔ قدسی صفات ان میں پیدا ہو گئی تھیں۔ ….. یہ وہ نمونہ ہے جو ہم اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’ اسی اصلاح اور ہدایت کا باعث تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمدؐ رکھا جس سے زمین پر آپ کی ستائش ہوئی کیونکہ آپ نے زمین کو امن، صلح کاری اور اخلاق فاضلہ اور نیکو کاری سے بھر دیا تھا‘‘۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 84 تا 86۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف سے کام لینے والے اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی جاہل، اُجڈ اور نجاست میں غرق لوگوں کو تعلیم یافتہ انسان بنا دیا اور باخدا انسان بنا دیا۔

چند سال ہوئے ایک یہودی سکالر مجھے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ باوجود اس کے کہ یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مَیں وہاں گیا تھا اور ساری دیکھ کر آیا ہوں ۔ انہوں نے اس کو دیکھنے کی جو تفصیل مجھے سنائی وہ تو بڑی لمبی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ وہاں دکھانے والا جو نگران تھا اس کو کئی دفعہ مجھ پر شک ہوا کہ یہ مسلمان نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر دفعہ مَیں نے کوئی ایسی بات کی جس سے ان کا مسلمان ہونا ظاہر ہوتا تھا یہاں تک کہ وہاں کے نگران کو تسلی دلانے کے لئے یہ یہودی کہنے لگے کہ میں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کا کلمہ بھی پڑھ دیا۔ خیر جب مَیں مسجد اچھی طرح دیکھ چکا تو پھر وہاں کے نگران نے مجھے کہا کہ بیشک آپ نے کلمہ بھی پڑھ دیا ہے لیکن مجھے ابھی بھی آپ کے مسلمان ہونے میں شبہ ہے۔ مجھے تسلی نہیں ہوئی۔ اب دیکھ تو چکے ہیں، اب مجھے حقیقت بتائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ کہتے ہیں مَیں نے ان سے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ مَیں مسلمان نہیں ہوں اور یہودی ہوں۔ جہاں تک کلمہ پڑھنے کا سوال ہے تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پر مَیں یقین رکھتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور جو میں نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کہا تو وہ بھی مَیں مانتا ہوں کیونکہ مَیں عربوں کی تاریخ سے واقف ہوں کہ اس زمانے میں عربوں کی کیا حالت تھی۔ عربوں کی جو حالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے سے پہلے حالت تھی اسے ایک نبی ہی ٹھیک کر سکتا تھا۔ کوئی دنیا دار لیڈر وہ حالت نہیں بدل سکتا تھا۔ اس لئے باوجود اس کے کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤںمَیں ان کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نبی سمجھتا ہوں۔ بہرحال اس نے باوجود دنیاداری کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم انقلاب لانے کو تسلیم کیا۔

پس آج بھی اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو صحابہ میں جو غیر معمولی تبدیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے پیدا ہوئیں وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ واقعی آپ خدا کے رسول تھے۔ صحابہ کے بارے میں، ان کے غیر معمولی مقام کے بارے میں، ان میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ 

’’صحابہ کی نظیر دیکھ لو۔ دراصل صحابہ کرام کے نمونے ایسے ہیں کہ کُل انبیاء کی نظیر ہیں۔ خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں۔ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جانیں دیں۔ اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم علیہ السلام سے چلی آتی تھی‘‘۔ (یعنی جو شکل اور صورت اور مقام نبوت کا ایک تصور ہے وہ آدم کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ لیکن) فرماتے ہیں کہ ’’اور سمجھ نہ آتی تھی مگر صحابہ کرام نے چمکا کر دکھلا دیا اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں ‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ پھر جیسی بے آرامی کی زندگی انہوں نے بسر کی اس کی نظیر بھی کہیں نہیں پائی جاتی ۔ صحابہ کرام کا گروہ عجیب گروہ قابلِ قدر اور قابلِ پیروی گروہ تھا۔ ان کے دل یقین سے بھر گئے ہوئے تھے ‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ جب یقین ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ اوّل مال و غیرہ دینے کو جی چاہتا ہے۔ پھر جب بڑھ جاتا ہے تو صاحبِ یقین خدا کی خاطر جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 42۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر صحابہ کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
لا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔(النور38:)‘‘۔ (قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل کرتی۔) آپ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ ایک ہی آیت صحابہ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں کہ ان کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے۔ بادیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت تعجب آتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ 304۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرماتے ہیں کہ ’’وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یاد الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بَیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہو سکتیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، جلد اوّل صفحہ 617 حاشیہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔ جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو، مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 7صفحہ 20-21۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے وہ سچا تعلق اور عشق خدا تعالیٰ سے پیدا کر لیا تھا کہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کسی طرح بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوں یا کسی بھی قربانی سے وہ دریغ کرنے والے ہوں۔ صحابہ کی بہت سی مثالیں ہیں۔

حضرت خَبَاب بن اَلْاَرت کے بارے میںآتا ہے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ کا اتنا خوف اور خشیت تھی کہ انہوں نے اپنا کفن دیکھنے کے لئے منگوایا اور دیکھا تو وہ ایک عمدہ کپڑے کا کفن تھا۔ اپنے عزیزوں سے کہا کہ اتنا عمدہ کفن مجھے دوگے؟ اور رو پڑے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کو ایک چادر کفن کے لئے میسر ہوئی تھی اور وہ بھی اتنی چھوٹی کہ پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر پاؤں کو گھاس سے ڈھانپ دیا گیا۔ پھر انتہائی خشیت سے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دینار یا درہم کا بھی میں مالک نہیں تھا اور آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی وجہ سے، ان قربانیوں کو قبول کرنے کی وجہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے کہ میرے گھر کے کونے میں جو صندوق پڑا ہے اس میں ہی چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اعمال کی جزا اس دنیا میں ہی نہ دے دی ہو اور کہیں آخری زندگی میں جو اجر ہے، اخروی زندگی کے جو اجر ہیں ان سے میں کہیں محروم نہ کر دیا جاؤں۔ ان کی آخری بیماری میں جب صحابہ ان کی عیادت کے لئے گئے اور انہیں یہ تسلی دی کہ لگتا ہے آپ بھی اپنے بزرگ صحابہ سے ملنے والے ہیں تو رو پڑے۔ اور ساتھ ہی یہ کہنے لگے کہ یہ نہ سمجھنا کہ میں موت کے ڈر سے رویا ہوں بلکہ اس لئے رویا ہوں کہ جن صحابہ کا تم نے مجھے بھائی کہا ہے ان کا مقام بہت بلند تھا۔ پتا نہیں میں ان کا بھائی ہونے کا اہل بھی ہوں یا نہیں۔ کہنے لگے وہ لوگ جو ہم سے پہلے گزر گئے انہوں نے دنیاوی مال و متاع جس سے ہم فیض اٹھا رہے ہیں اس سے فیض نہیں اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ کا یہ مقام تھا کہ اپنے آپ کو انتہائی کمزور سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف تھا، فکر تھی کہ مرنے کے بعد خدا تعالیٰ راضی بھی ہوتا ہے کہ نہیں اور یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد3 صفحہ 88-89 خباب بن الارتؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

آپ کی قربانی اور دین کے لئے خدمت کسی سے کم نہیں تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ تھے تو حضرت علیؓ نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ اور ان کے بارے میں تاریخی کلمات کہے۔ ان الفاظ سے ہی حضرت خباب کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خباب پر رحم کرے۔ انہوں نے نہایت محبت اور رغبت سے اسلام قبول کیا اور پھر ہجرت کی توفیق پائی۔ پھر جو زندگی انہوں نے گزاری وہ ایک مجاہد کی زندگی تھی۔ وہ شدید ابتلاؤں میں سے گزرے اور انتہائی صبر اور استقامت کا نمونہ دکھایا۔ حضرت علی نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اجر ضائع نہیں کرتا جو نیک اعمال بجا لانے والے ہوں۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 677 خباب بن الارتؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

حضرت خباب کا جو مقام حضرت عمرؓ کی نظر میں تھا وہ بھی دیکھیں کیسا عظیم تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓنے حضرت خباب کو بلا کر اپنی مسند پر بٹھایا اور کہا۔ خباب! آپ اس لائق ہیں کہ میرے ساتھ اس مسند پر بیٹھیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ سوائے بلال کے میرے ساتھ اس مسند پر بیٹھنے کا کوئی اور مستحق ہو۔ انہوں نے یعنی حضرت بلال نے بھی ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کر کے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ حضرت خباب نے عرض کیا کہ یا امیر المومنین بیشک بلال بھی حقدار ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بلال کو مشرکین سے بچانے والے موجود تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا۔ لیکن میرا تو کوئی بھی نہیں تھا جو مجھے اس ظلم سے بچاتا۔ اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ مجھے کافروں نے پکڑ لیا اور آگ میں ڈال دیا اور ایک ظالم نے میرے سینے پر پاؤں رکھ دیا جس سے میرے لئے اس آگ سے نکلنا ممکن نہ رہا۔ میری پیٹھ کوئلوں پر پڑے پڑے جل گئی۔ کوئلے دہکا کر انہیںاس پہ لٹا دیا۔ پھر حضرت خباب نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا کر دکھایا جہاں سفید لکیروں کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ دہکتے کوئلوں پر لیٹنے کی وجہ سے یہ نشان پڑے ہوئے ہیں۔ چربی پگھل گئی تھی۔ کھال پگھل گئی تھی۔ اس کے بعد یہ سفید کھال نیچے سے نکل آئی۔ حضرت خباب جو تھے وہ جنگ بدر اور خندق میں بھی شامل ہوئے۔ اُحد میں بھی شامل ہوئے۔ اس سب کے باوجود وفات کے وقت فکر ہے کہ پتا نہیں اللہ تعالیٰ راضی بھی ہوتا ہے یا نہیں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 88 خباب بن الارتؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

پھر معاذ بن جبل ایک صحابی تھے ان کے بارے میں آتا ہے کہ تہجد ادا کرنے والے اور لمبی عبادت کرنے والے تھے۔ ان کی تہجد کی نماز کا ان کے قریبیوں نے یوں نقشہ کھینچا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے کہ اے میرے مولیٰ اس وقت سب سوئے ہوئے ہیں۔ آنکھیں سوئی ہوئی ہیں۔ اے اللہ تُو حیّ و قیّوم ہے میں تجھ سے جنت کا طلب گار ہوں مگر اس میں کچھ سُست رَو ہوں۔ یعنی عمل کرنے میں میں سست ہوں۔ اور آگ سے دور بھاگنے میں کمزور اور ناتواں ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ جہنم کی آگ بھی ہے اور اس کے لئے نیکیاں کرنی پڑتی ہیں لیکن اس سے بچنے کے لئے میں بہت کمزور ہوں۔ اے اللہ تُو مجھے اپنے پاس سے ہدایت عطا کر دے اور وہ ہدایت دے جو مجھے قیامت کے دن بھی نصیب ہو جس دن تُو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہت خرچ کیا کرتے تھے اور خرچ کرنے کی وجہ سے ان پر قرض بھی چڑھ جاتا تھا۔

(اسد الغابہ جلد4 صفحہ 402معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

حضرت کعب بن مالک کے بیٹے حضرت معاذؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت معاذؓ کے ساتھ عجیب سلوک تھا۔ وہ نہایت حسین بھی تھے۔ بہت سخی بھی تھے۔ ان کی دعائیں بھی بہت قبول ہوتی تھیں۔ جو اللہ تعالیٰ سے مانگتے اللہ تعالیٰ انہیں عطا بھی کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے خاص معاملہ تھا۔ اگر قرض چڑھتے بھی تھے تو اترنے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ فرما دیتا تھا۔ ایک عجیب فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہوئی تھی۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 20 صفحہ 30 تا 32 حدیث 44 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)

اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے ان صحابہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت تھی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ سے بھی محبت پیدا ہوئی تھی کیونکہ آپ کی قوت قدسی نے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا اِدراک ان لوگوں میں پیدا کیا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے ان میں ایک انقلاب پیدا کیا تھا ورنہ یہ عشق و محبت کی داستانیں جو ہیں کبھی رقم نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی وہ بھی ایسی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ذکر کیا ہے ۔

چنانچہ حضرت شمّاس بن عثمان کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ایک مثال بن گیا اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے۔ جنگ اُحد میں جہاں حضرت طلحہؓ کی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپ کو نہ لگے وہاں حضرت شمّاس نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا ہے۔ حضرت شمّاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماس کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ اُحد کے میدان میں میرے لئے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا۔ وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر ڈالتے آپؐ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا۔ جب دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے میں کامیاب ہوگیا اور آپ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپ گر گئے۔ تب بھی شمّاس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ نے کہا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں مَیں ان کی قریبی ہوں، رشتہ دار ہوں اس لئے میرے گھر میں ان کی تیمار داری اور علاج وغیرہ ہونا چاہئے۔ لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 131 شماس بن عثمانؓ ، صفحہ 115 طلحہ بن عبیدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

ایک صحابی سعید ؓبن زید تھے یہ حضرت عمر کے بہنوئی تھے اور وہی ہیں جن کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مارنے کے لئے جب حضرت عمرؓ نے ہاتھ اٹھایا تو ان کی بیوی اور حضرت عمر کی بہن سامنے آ گئیں اور زخمی ہو گئیں جس کا اثر حضرت عمر پر بھی ایسا ہوا کہ اسلام قبول کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ مائل ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 251-252 اسلام عمر بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت سعید کے غنیٰ اور خوفِ خدا کے معیار کے بارے میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ان کی ایک جاگیر پر گزر بسر تھی۔ زمین تھی۔ کچھ رقبہ تھا اسی پہ گزارہ ہوتا تھا۔ ایک عورت کا رقبہ بھی آپ کے ساتھ ملتا تھا۔ اس عورت نے ان کی زمین پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا کہ آپ نے اس میں سے میرا کچھ رقبہ دبایا ہوا ہے۔ حضرت سعید نے کہا کوئی مقدمہ لڑنے کی ضرورت نہیں اور اپنی اس پوری زمین سے ہی دستبردار ہو گئے۔ رقبہ اس عورت کو دے دیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص ناحق کسی کی زمین ایک بالشت بھی لیتا ہے اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تو میں یہ الزام اپنے اوپر نہیں لینا چاہتا اور لڑنا بھی نہیں چاہتا۔ لیکن دنیا یہ بھی نہ کہے کہ کسی کی زمین پر قبضہ کیا ہے۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ آپ نے ایک عورت کی زمین پر قبضہ کیا ہے اور اب یہ پتا لگ گیا ہے تو زمین واپس دے رہے ہیں آپ بہت زیادہ صاحب دعا گو تھے۔ اس لئے اپنے آپ کو اس بات سے، اس الزام سے بری کرنے کے لئےآپ نے اس عورت کے لئے یہ دعا کی کہ اگر یہ مظلوم نہیں ہے اور یہ ظالم عورت ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پکڑے اور اس کا بدانجام ہو۔ چنانچہ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ عورت اندھی ہو کر ہلاک ہوئی اور عبرت کا نشان بنی۔ (صحیح مسلم کتاب الفرائض باب تحریم الظلم … الخ حدیث 4134)

حق بات کہنا اور کسی سے نہ ڈرنا صحابہ کا شیوہ تھا۔ حضرت سعیدؓ بن زید کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن کوفہ میں امیر معاویہ کے مقرر کردہ جو گورنر تھے وہ گورنر ایک دن وہاں جامع مسجد میں بیٹھے تھے۔ حضرت سعید بھی وہاں تشریف لائے۔ گورنر نے بڑی عزت اور تکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اپنے ساتھ بٹھایا۔ اسی دوران وہاں کوفہ کا ایک شخص آیا اور اس نے حضرت علیؓ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حضرت سعیدؓ اس پر سخت ناراض ہوئے۔ یہ نہیں کیا کہ گورنر کے سامنے بول رہے ہو تو حکمت اسی میں ہے کہ مَیں چپ رہوں۔ اور فرمایا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر بن عوام، سعد اور عبدالرحمن بن عوف جنت میں ہوں گے اور کہنے لگے کہ دسواں بھی ہے۔ اس کا نام میں نہیں لیتا۔ جب زور دے کر پوچھا گیا تو بتایا کہ وہ دسواں میں یعنی سعید بن زید ہوں۔

(سنن ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث 4649-4650)

آپ سے ایک یہ حدیث بھی مروی ہے کہ سب سے بڑا سود یعنی حرام چیز مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ حدیث 4876)

آج اسی چیز کو مسلمانوں نے بھلا دیا ہے اور بڑے پیمانے سے لے کر چھوٹے معاملات تک ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان مسلمان کی عزت پر اپنے مفادات کے لئے حملے کرتا ہے۔

پھر ایک صحابی حضرت صہیبؓ بن سنان رومی کا ذکر ملتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے اِذن سے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت ہوئی تو حضرت صہیب نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا۔ آپ آئے تو ایک غلام کی حیثیت سے تھے پھر آزاد ہوئے۔ پھر ترقی کی اور تجارت شروع کی اور آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے بڑے مالدار تاجر ہو گئے۔ تجارت کے ذریعہ سے بڑا مال کمایا۔ جب ہجرت کر کے جانے لگے تو اہل مکہ نے کہا کہ تم ایک مفلس غلام کے طور پر ہمارے شہر میںآئے تھے ہم تمہیں یہاں سے کمایا ہوا مال ہرگز نہیں لے جانے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا میں اپنا مال چھوڑ دیتا ہوں۔ اگر مال چھوڑ دوں تو اب تو جانے دو گے۔ بہرحال انہوں نے اپنا نصف مال اہلِ مکہ کے حوالے کیا اور ہجرت کا پروگرام بنایا۔ جب آپ اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو بعض قریش نے آپ کا پیچھا کیا۔ صہیب بہت بہادر انسان تھے۔ تیر اندازی بھی بڑے اچھے طریق سے کرتے تھے۔ تیر اندازی میں بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے کفار کو دیکھ کر اپنے ترکش سے تمام تیر نکال کر زمین پر پھیلا دئیے اور ان لوگوں کو دیکھ کر کہا کہ اے قریش! تم جانتے ہو کہ میں تم سے بہتر تیر انداز ہوں۔ میرا آخری تیر ختم ہونے تک تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کے بعد میری تلوار ہے اس کے ساتھ تمہیں مجھ سے لڑنا پڑے گا۔ تم مجھے امن سے جانے دو بہتر یہی ہے اور اس کے عوض جو میرا باقی مال ہے جو میں نے فلاں جگہ رکھا ہوا ہے وہ لے لو۔ چنانچہ انہوں نے بڑی حکمت سے اور اپنے مال کی قربانی کر کے اپنے بچوں کو بھی بچایا اور خود بھی امن سے پہنچ گئے۔ صہیب جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ کس طرح وہ سارا مال دے کر جان اور ایمان بچا کر یہاںآ گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ گھاٹے کا سودا نہیںکیا۔ بڑا اچھا سودا ہوا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 121 صہیب بن سنانؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

ہر صحابی کا اپنا اپنا انداز ہے۔ ایک موقع پر حضرت عمر ؓنے حضرت صہیبؓ سے کہا کہ تم کثرت سے لوگوں کو کھانا وغیرہ کھلاتے ہو مجھے ڈر ہے کہ اس میں اسراف نہ ہوتا ہو۔ حضرت صہیبؓ نے کہا کہ یہ جو میں کھانا کھلاتا ہوں یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہے۔ آپ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کو رواج دیتے ہیں۔ لوگوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کہنا یہ ایک نیکی ہے اور بہترین لوگوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نشانی بتائی ہے۔ کہتے ہیں یہ نصیحت جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی جو مدینہ آنے پر آپ نے مجھے فرمائی تھی تو میں نے اس کو پلّے باندھ لیا ہے اور میں سوائے جائز حق کے مال خرچ نہیںکرتا، اسراف نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 924 حدیث 24422 مسند صہیب بن سنانؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

حضرت صہیبؓ کا مقام حضرت عمرؓ کی نظر میں بھی بہت بڑا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنا جنازہ حضرت صہیبؓ سے پڑھوانے کی وصیت فرمائی تھی اور جب تک اگلا خلیفہ منتخب نہ ہو نمازوں کی امامت بھی یہی کرواتے رہے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3صفحہ 423 عبید اللہ بن عمرؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

حضرت اُسامہؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کے بیٹے تھے۔ حضرت اسامہ وہ خوش قسمت تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیار کی سند دی تھی ۔

(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 91 اسامہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اتنا پیار کرتے تھے کہ اُسامہ خود بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین اور انہیں دونوں کو دونوں رانوں پر بٹھا لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! ان دونوں سے محبت کر۔ مَیں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 3 صفحہ 47 حدیث 2642 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)

لیکن جہاں تربیت اور دین کا معاملہ ہے وہاں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں۔ پھر وہ یہ ذاتی محبت ختم ہو جاتی ہے۔ حضرت اسامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھوٹی عمر کے تھے بلکہ وفات کے وقت بھی ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ لیکن بعض لڑائیوں میں شمولیت کا موقع انہیں ملا۔ ایک واقعہ آتا ہے کہ جب جنگ میں ایک کافر اُسامہؓ کے سامنے آیا تو اس نے فوراً کلمہ پڑھ دیا۔ لیکن آپ نے اسے پھر بھی قتل کر دیا کہ موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھ رہا ہے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کے کلمہ پڑھنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کی کہ اس نے محض بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟ اور پھر فرمایا کیا تُو نے اسے کلمہ شہادت پڑھنے کے باوجود قتل کر دیا؟ اسامہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ اتنی بار دہرایا کہ میں نے چاہا کہ کاش آج سے پہلے مَیں مسلمان نہ ہوتا۔ اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے عہد کر لیا کہ آئندہ کبھی بھی کسی شخص کو جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھے گا قتل نہیں کروں گا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث النبیﷺ اسامہ بن زیدؓ … الخ حدیث 4269)

(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 91-92 اسامہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

کاش کہ یہ باتیں آج کے مسلمانوں کو بھی سمجھ آ جائیں۔ اسلام کے نام پر غیروں پر تو جو ظلم کر رہے ہیں وہ کر ہی رہے ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر ہے لیکن آپس میں مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے۔ اب شام کی جنگ ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں میں جب سے یہ شروع ہوئی ہے لاکھوں لوگ وہاں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ مسلمان نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ جو کلمہ گو ہیں وہی دوسرے کو مار رہے ہیں یا اس کے نام پر مار رہے ہیں۔ یمن میں کلمہ گوؤں کو مارا جا رہا ہے۔ دوسرے ظلم روا رکھے جا رہے ہیں۔ ٹارچر دئیے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ صحابہ کی محبت اور رسول کی محبت کے صرف نعرے نہ لگائیں بلکہ ان کے عمل کے مطابق عمل کرنے والے بھی ہوں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنی اَناؤں کی تسکین کر رہے ہیں۔ ان کو اسلام کا، اسلام کی تعلیم تو الف ب کا بھی پتا نہیں ہے۔ اپنی برتری ثابت کرنا ان کی کوشش ہے۔ منہ پر تو اللہ تعالیٰ کا نام ہے لیکن دل میں صرف اور صرف ان کی اپنی ذات ہے۔ دنیا میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی تقویٰ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ پس ان مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہ ان کی تو اصلاح ہو نہیں سکتی جب تک یہ قبول نہ کریں، ہمیں شکر گزاری کرنی چاہئے اور شکر گزاری کے جذبات سے ہمیں بڑھنا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ اس رہنما کو مانا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام صادق بنا کر بھیجا۔ آپ نے ہمیں صحابہ کے مقام کے بارے میںبھی بتایااور ان کے پیچھے چلنے کے لئے بھی نصیحت فرمائی۔ یہ بتایا کہ صحابہ کے نمونے کس قسم کے ہیں۔ تمہیں انہیں اُسوہ سمجھنا چاہئے اور ان کے پیچھے چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پس یہی ایک ذریعہ ہے جسے ہم اگر اپنے سامنے رکھیں اور آپ کی باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو حقیقی مسلمان بھی بن سکتے ہیں۔

آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی خواہشوں اور اغراض سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں آتا ہے وہ کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ لیکن جب وہ تمام نفسانی خواہشات اور اغراض سے الگ ہو جاوے اور خالی ہاتھ اور صافی قلب لے کر خدا تعالیٰ کے حضور جاوے تو خدا اس کو دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ انسان مرنے کو تیار ہو جاوے اور اس کی راہ میں ذلت اور موت کو خیرباد کہنے والا بن جاوے۔ ‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں

’’دیکھو دنیا ایک فانی چیز ہے مگر اس کی لذت بھی اسی کو ملتی ہے جو اس کو خدا کے واسطے چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے‘‘۔( اب صحابہ کے واقعات میں ہم نے دیکھا کہ جب خدا کے لئے چھوڑا تو خدا تعالیٰ نے بہت نوازا لیکن پھر بھی ان کو اپنے انجام کی فکر ہے۔ اس نوازے جانے کے باوجود اپنی آخرت کی فکر ہے گویا کہ مکمل طور پر خدا کے ہو گئے تھے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے خدا تعالیٰ دنیا میں اس کے لئے قبولیت پھیلا دیتا ہے۔ یہ وہی قبولیت ہے جس کے لئے دنیادار ہزاروں کوششیں کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی خطاب مل جاوے یا کسی عزت کی جگہ یا دربار میں کرسی ملے اور کرسی نشینوں میں نام لکھا جاوے۔ غرض تمام دنیوی عزتیں اسی کو دی جاتی ہیں اور ہر دل میں اسی کی عظمت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے اور کھونے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف آمادہ بلکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے اور وہ نہیں مرتے ہیں جب تک وہ اس سے کئی چند نہ پا لیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کسی کا قرض اپنے ذمہ نہیں رکھتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان باتوں کو ماننے والے اور ان کی حقیقت پر اطلاع پانے والے بہت ہی کم لوگ ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 398-399۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حقیقی پیروی کرنے والے اور احکامات پر عمل کرنے والے ہو جائیں۔

نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ حاضر پڑھاؤں گا جو مکرمہ امۃ المجید احمد صاحبہ کا ہے جو چوہدری ناصر احمد صاحب نائب امیر یُوکے اور مرکزی جائیداد شعبہ کے انچارج بھی ہیں، کی اہلیہ تھیں۔ 9؍جنوری 2018ء کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پڑپوتی تھیں۔ شادی کے بعد 1978ء سے فضل مسجد کے قریب رہائش پذیر تھیں۔ صوم و صلوۃ کی پابند تھیں۔ چندوں میں باقاعدہ۔ بہت ہمدرد، ملنسار، مہمان نواز، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ سب کے دکھ درد میں شامل ہوتی تھیں۔ خلافت سے بہت زیادہ تعلق تھا۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ اس تعلق کو قائم رکھنے کے لئے تلقین کرتیں۔ نماز کی پابندی کی تلقین کرتیں۔ بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی محلے کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی بھی توفیق پائی۔ لجنہ یُوکے میں خدمت خلق اور ضیافت کے شعبوں کے علاوہ جلسہ سالانہ یُوکے پر بطور ناظمہ مہمان نوازی خدمت کی توفیق پائی۔ پسماندگان میں ان کے میاں چوہدری ناصر احمد صاحب اور چار بیٹیاں ہیں۔ موجودہ صدر صاحبہ لجنہ یُوکے اور سابقہ شمائلہ ناگی صاحبہ جو ہیں ان دونوں نے یہ لکھا ہے کہ نہایت محبت کرنے والی خاتون تھیں اور ان کی بے لوث محبت کو ہر ملنے والا محسوس کرتا تھا۔ جلسہ پر لمبا عرصہ ناظمہ مہمان نوازی کا کام سنبھالا۔ بڑے اخلاص اور محنت سے یہ خدمت سرانجام دی۔ سیکرٹری ضیافت کے طور پر بھی خدمت بجا لانے کی توفیق پائی اور بڑی عاجزی سے یہ کام کیا۔


اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور ان کی نیکیاں اللہ تعالیٰ ان کی بیٹیوں میں بھی جاری فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ نمازوں کے بعد جنازہ حاضر ہے۔ باہر جا کے جنازہ پڑھاؤں گا۔ احباب یہیں صفیں درست کر لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button