خطبہ جمعہ

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر28؍جولائی2006ء بروز جمعۃ المبارکسیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃ المہدی ،آلٹن میں افتتاحی خطاب

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے اِذن سے جلسہ سالانہ کا جب اعلان فرمایا تھا تو وہ مقاصد بھی بیان فرما دئیے تھے جن کے لئے یہ جلسے منعقد کئے جائیں گے اور ان کا خلاصہ وہ دو بڑے مقاصد تھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پہچان اور اس کے حقوق کی ادائیگی اور ایک انسان کے جو دوسرے انسان پر حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ۔ پس ان دنوں میں جو جلسے کے دن ہیں ہر احمدی کو جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے بلکہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا کے احمدی اس میں شامل ہو رہے ہیں یہ باتیں اپنے پیش نظر رکھنی چاہئیں جو آپ ہم میں پیدا کرنی چاہتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے مقاصد کا تذکرہ اور ان کے حصول کی طرف خصوصی توجہ دینے کی تاکید۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(الانفال30)۔


حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے جلسہ سالانہ کا جب اعلان فرمایا تھا تو وہ مقاصد بھی بیان فرما دئیے تھے جن کے لئے یہ جلسے منعقد کئے جائیں گے اور ان کا خلاصہ وہ دو بڑے مقاصد تھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پہچان اور اس کے حقوق کی ادائیگی اور ایک انسان کے جو دوسرے انسان پر حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ۔ اور ان دو امور کی اعلیٰ ترین تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے دی ہے اور اس زمانے میں اس کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست اس تعلیم کا صحیح اور حقیقی فہم و ادراک پا کر ہم پر کھولی ہے اور واضح کی ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کو سمجھ کر اس پر مکمل عمل کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں۔ پس ان دنوں میں جو جلسے کے دن ہیں ہر احمدی کو جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے بلکہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا کے احمدی اس میں شامل ہو رہے ہیں یہ باتیں اپنے پیش نظر رکھنی چاہئیں جو آپ ہم میں پیدا کرنی چاہتے ہیں۔

پہلی بات یہ بتائی کہ ’’دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں‘‘۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) پس یہی وہ نسخہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی بڑھے گا اور جن حقوق و فرائض کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے ان کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ شیطان کے وساوس بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا ہو کر اُسے خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃکر دیتا ہے آخرت کے متعلق ہے کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رد ہو گیا اور دونوں جہانوں سے گیا گزرا ہوا۔ اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر معرفت کے سچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خداترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور پڑ جاتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ 53-54۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس جب تک ہمارے دل آخرت پر یقین کرتے ہوئے اس کی طرف نہیں جھکیں گے، ایک خدا کی طرف نہیں جھکیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے وسوسے پیدا ہوتے رہیں گے اور جب ان وسوسوں کی وجہ سے ایمان اور یقین کی کمی ہو گی تو پھر اُن اعمال کی بجا آوری میں بھی رخنہ پیدا ہو گا جو تقویٰ پر چلانے والے اعمال ہیں جن میں حقوق اللہ بھی ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام جو دوسرے احکامات ہیں ان پر عمل درآمد بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر آخرت پر ایمان میں کمی ہے تو پھر سچی معرفت جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ پیدا نہیں ہو گی۔

پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس زمانے میں وہ امام ملا جس نے اس اہم امر کو ہم پر روشن اور واضح فرمایا جیسا کہ آخرت کے لفظ سے ظاہر ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی پتا لگتا ہے کہ آخرت مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے یا قیامت کا وقت ہے جب سب حساب کتاب ہو گا اور نیک اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گی اور بد اعمال کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے سزا ہو گی اور کسی قسم کی کوئی بے انصافی نہیں ہو گی اور ہر عمل کھلا کھلا آخرت میں سامنے نظر آئے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا یعنی اور جو کچھ انہوں نے کیا ہو گا اسے اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔ پس جب انسان میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میرا کوئی عمل بغیر حساب کے نہیں رہنا اور ہر عمل سامنے آ جانا ہے تو یہی چیز آخرت کے احساس کو اس کے فہم کو دل میں بڑھائے گی اور پھر انسان دونوں قسم کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ تقویٰ کی راہیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوںکے حقوق کے راستے متعین کرتی ہیں۔ اور جب ان راستوں پر چلتے ہوئے آخرت کی فکر ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں خوشخبری دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانٌ(الحدید21:)۔ یعنی ان آخرت کی فکر کرنے والوں اور اس وجہ سے اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضائے الٰہی مقرر ہے۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ آخرت کی فکر رکھتے ہوئے ایسے کام سرانجام دیں اور جلسے کے اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلایا ہے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ کی مغفرت اور رضا کی چادر میں لپٹے رہیں۔ اس آخرت کی طرف جھکنے کے لئے پھر آپ نے مزید کھول کر ہمیں فرمایا کہ یہ آخرت مکمل طور پر تمہارے پیش نظر تب سمجھی جائے گی جب تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو گا۔ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گا۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) زہد اور پرہیز گاری پیدا ہو گی۔ تو تقویٰ یہی ہے کہ اپنے اندر خدا کا خوف رکھتے ہوئے ہر اس چیز سے اپنے آپ کو بچاؤ جس سے بچنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان چیزوں سے بچتے ہوئے اس راستے پر چلو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضا دلانے والی بنے گی۔

پس اگر ہمارے اندر خدا تعالیٰ کا خوف ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہمیں اپنے اندر زُہد پیدا کرنا ہو گا۔ اور زُہد کیا ہے۔ زُہد یہ ہے کہ آخرت کی محبت کی وجہ سے دنیا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دینا۔ یہ ہے عبادت کا وہ معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے۔ اگر ہماری عبادتیں صرف اپنی ضرورت کے وقت، اپنی تکلیفوں کے وقت اپنی خواہشات کے حصول کے لئے ہیں تو یہ عبادتیں ایک زاہد کی عبادتیں نہیں کہلا سکتیں۔ یہ اس لئے نہیں ہیں کہ ہمارے دل آخرت کی طرف بکلّی جھکے ہوئے ہیں۔ یہ عبادتیں اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں۔ ہماری عبادتیں اس لئے نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے عبادت کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ(الذاریات57:)۔ یعنی میں نے جنّ اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں

’’ پس اس آیت کی رو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے‘‘۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414) پس ان دنوں میں جو جلسے کے یہ تین دن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اس زہد کا نمونہ بننے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں خدا تعالیٰ کی خاطر ہوں نہ کہ صرف ضرورت پڑنے پر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہوں۔ اور جب یہ حالتیں ہماری نمازوں، ہماری عبادتوں کی ہو جائیں گی تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اور آپ کی خواہش کے مطابق پرہیزگاری کا بھی نمونہ بنیں گے اور تقویٰ کی راہوں پر بھی چلنے والے ہوں گے۔

پھر آپ ہمیںیہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آخرت کی تمہیں فکر ہو گی تو پھر یقینا ًاللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانیوںکی بھی تمہیں فکر ہو گی اور آپ کا ہمیں اس جلسہ پر بلا کر اس طرف بھی توجہ دلانا مقصود تھا کہ ان مہمات میں جو دین کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ان میں شامل ہوں اور سرگرمی دکھائیں۔

آج یہ دینی مہمات کیا ہیں؟ یہ وہ دینی مہمات ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد اکبر کا نام دیا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد اوّل صفحہ 183 کتاب الایمان مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

یہ جہاد کوئی بندوقوں یا توپوں یا گولوں کے استعمال کا جہاد نہیں ہے۔ نہ یہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے شہری آبادیوں کو خون میں نہلا کر معصوم بچوں اور عورتوں کی جانیں ضائع کرنے کا جہاد ہے۔ ہم تو مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں ان چیزوں سے پاک ہیں۔ ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جس جہاد کی طرف بلاتے ہیں اور مسیح محمدی نے جن دینی مہمات میں ہمیں سرگرمی اختیار کرنے کا کہا ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر بھی لاگو کرنا ہے اور دنیا کو بھی بتا نا ہے۔ اپنے آپ کو تبلیغ کے میدان میں جھونکنا ہے۔ اس کے لئے اپنی روحانیت کو تیز کرنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال رہے۔ اور پھر اس جہاد کو کرنے کے لئے قرآنی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اس کی اشاعت کے لئے مالی قربانیوں میں بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور یہ قربانیاں کرتے ہوئے بڑھتے چلے جانے کے طریقے اور سلیقے سیکھنے ہیں۔ یہ تعلیم ہم نے مشرق کو بھی دینی ہے اور مغرب کو بھی دینی ہے۔ مسلمانوں کو بھی پرانی تعلیم کی اعلیٰ قدروں کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے حسن سے روشناس کروانا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ آج جو تم سب اکٹھے ہو کر غریب ملکوں اور اسلامی ملکوں کے حقوق چھین رہے ہو ان کی تباہی کے درپے ہو۔ اور آجکل دیکھ لیں کہ جس طرح اسرائیل نے نہتّے شہریوں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں کا خون کیا ہے اور جس طرح بعض مغربی ممالک کی حکومتیں ان کا ساتھ دے رہی ہیں اور ان پر اپنا ہاتھ رکھا ہواہے اور پھر اس کو حق کی خاطر اور دفاع کی خاطر جنگ کہا ہے۔ یہ حق نہیں بلکہ حق چھیننا ہے۔ ظلم سے فضا کو سیاہ کرنا ہے۔ روشنیوں کو اندھیروں میں بدلنا ہے۔ زید کا گناہ بکر کے سر ڈال کر اس کی معصوم عورتوں اور بچوں کو سسکیوں اور آہوں میں مبتلا کرنا ہے۔ ان لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تمہیں آخرت کی فکر اس لئے نہیں کہ تم سمجھتے ہو کہ یہ سسکیاں اور آہیں بیکار جائیں گی۔ نہیں، ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ مظلوم کی آہیں کبھی بیکار نہیں جاتیں۔ اس لئے ان ظلموں سے باز آؤ۔ اپنی ڈھٹائی اور بیہودگی کو چھوڑ دو۔ آج ہر احمدی کو اپنے ماحول میں ہر ایک کو یہ بتانا ہے کہ ان ظلموں کے خلاف اپنی آواز اٹھاؤ کہ یہ ظلم ایک جگہ پر ٹکے رہنے والے نہیں بلکہ تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے ہیں۔ اس لئے اٹھو اور حق کا ساتھ دو۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ حق لینے اور حق پر چلنے کی تعلیم کیا ہے۔ یہاں بھی معزز مہمان بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ جہاں تک ان کا اثر و رسوخ ہے ان کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے تو پھر حق کی پہچان کریں اور حق کی طرف چلانے کے لئے اپنی حکومتوں کو مائل کریں۔ حق لینے اور حق پر چلنے کی تعلیم تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتائی ہے۔ وہ ہم سے سیکھیں۔ اگر دنیا میں انصاف اور امن کی فضا چاہتے ہیں تو ہماری بات سنیں۔ دنیا میںامن قائم کرنے کے لئے اور حق لینے اور حق دینے کے لئے ہمیں مسلمانوں کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ اے مسلمانو! تم بھی اس مسیح محمدی کے قدموں میں آؤ اور اے مغرب میں رہنے والو اور مختلف مذاہب کے ماننے والو! تم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وجسلم کے اس عاشق صادق کے پیغام کو سنو اور اس کی بات مانو۔

پس یہ کام ہے احمدی کا اور ان دینی مہمات کو سیکھنے کے لئے ہر احمدی کو اپنے دینی علم میں بھی اضافہ کرنا ہے اور مال اور وقت کی قربانیوں کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور اپنی روحانیت کے معیار کو بھی بڑھانا ہے اور آخرت کی فکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا صحیح عبادتگزار بھی بننا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا ترسی بھی اپنے اندر پیدا کرو اور نرم دلی کا بھی نمونہ بن جاؤ (ماخوذاز شہادۃالقرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) کیونکہ خدا کی خاطر جب اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے نرم دلی کرو گے تو اس سے تمہارے تقویٰ ہی میں ترقی ہو گی۔ نرم دل ہونے سے ہی ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں خاص طور پراس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان جلسوں پر آنے کا مقصد تبھی پورا ہو گا جب تمہارے اندر نرم دلی ہو گی۔ یہ اس لئے کہ دوسروں کے لئے جب نرم گوشہ ہو گا تو ان کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ سے انسان اپنے لئے نرمی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نرم سلوک کو حاصل کرنے کے لئے، اس کی مغفرت چاہنے کے لئے اپنے بھائیوں کے لئے بھی نرم دلی کے نمونے دکھانے ہوں گے ورنہ اللہ تعالیٰ سے کس منہ سے مانگ سکتے ہیں۔ کیا یہ کہہ کر اللہ کے حضور جائیں گے کہ میرا دل تو سخت ہے۔ مَیں تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے دل کو دوسروں کے لئے نرم نہیں کر سکتا لیکن تجھ سے مَیں یہ دعا کرتا ہوں، تجھ سے میں یہ مانگتا ہوں، تجھ سے توقع رکھتا ہوں کہ میرے ساتھ کبھی سخت گیری کا معاملہ نہ کرنا۔ تو یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اپنے لئے تو کچھ اَور توقع رکھتے ہوں اور دوسروں کے لئے کچھ اَور۔ اللہ تعالیٰ کو تو ایسے عمل پسند نہیں ہیں۔ ہمیں تو یہ حکم ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتے اپنے بھائی کے لئے پسند نہ کرو۔ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ نرمی سے ایک دوسرے سے معاملہ کرنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اتنا کسی اور نیکی کا نہیں دیتا۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل الرفق حدیث 6601)

ان دنوں میں جو سخت طبیعتوں والے لوگ ہیں جن لوگوں نے اپنی سخت گیری کی وجہ سے دوسروں سے تعلقات بگاڑے ہوئے ہیں ان کو بھی توجہ کرنی چاہئے وہ اس جلسہ میں آکر اس کی برکتوں سے تبھی فیضیاب ہو سکتے ہیں جب اپنی طبیعتوں میں نرم دلی پیدا کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیار اور محبت کے تعلق قائم کریں۔ مہمان اور میزبان دونوں جلسے کی برکتوں کو سمیٹنے کے لئے کسی بری لگنے والی بات سے بھی درگزر کریں جیسا کہ مَیں خطبہ میں بھی کہہ چکا ہوں۔ حسن سلوک کریں۔ اور کبھی کوئی ایسی بات نہ کریں جو دوسرے کی دلآزاری کا باعث ہو اور پھر اس ماحول میںیہ جو تربیت ہے یا ٹریننگ ہے اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اگر نرم دلی ایک دوسرے کے لئے پیدا ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کی فضا زیادہ تیزی سے پروان چڑھنے لگ جائے گی۔ ہم یہ جو نعرہ لگاتے ہیں ہم اس کا عملی نمونہ بن جائیں گے۔ ہمارا بچہ بھی ہمارا بوڑھا بھی ہمارے جوان بھی ہمارے مرد بھی اور ہماری عورتیں بھی اس کا ایک نمونہ بن جائیںگی۔

اور اس جلسہ کے مقاصد میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک یہ بھی مقصد بیان فرمایا ہے کہ باہم محبت اور مواخات میں ایک دوسرے کے لئے نمونہ بن جائیں۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) یعنی یہ ذمہ داری کسی ایک طبقے یا خاص لوگوں کی نہیں ہے بلکہ ہر مرد عورت جوان بوڑھا اس بات کا خیال رکھے کہ ایک دوسرے سے محبت اور مؤاخات میں بڑھنا ہے۔ محبت کے وہ نمونے جو صحابہ ہمارے سامنے قائم کر گئے ہیں، مواخات کے وہ نمونے جو انصار اور مہاجرین کے نمونے تھے، اس اسلامی بھائی چارے کی محبت نے اس قدر اعلیٰ معیار قائم کئے کہ ان لوگوں نے اپنی جائیدادوں میں شریک ہونے کی بھی پیشکش کر دی۔(صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب فضل المنیحۃ حدیث 2630) یہ نمونے جو اس وقت قائم ہوئے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے قائم ہوئے اور آج یہ نمونے ہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جن کے آنے کا چودہ سو سال سے انتظار ہو رہا تھا قائم کروانا چاہتے ہیں کیونکہ اس نے آ کر آخرین کو پہلوں سے ملانا تھا۔ ان کو قرآن کریم کی تعلیم کا فہم عطا کروانا تھا۔ انہیں پاک کرنا تھا۔ انہیں اعلیٰ علمی، روحانی، اخلاقی حکمتوں سے آگاہ کرنا تھا اور ان حکمتوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے نمونے قائم کروانے تھے۔

پس اس محبت کا تقاضا ہے جو ایک احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے روحانی فرزند سے ہے اور ہونی چاہئے کہ اگر اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو یہ اعلیٰ نمونے دکھائیں اور ان دنوں میں آپس کی رنجشوں کو بھی اگر کوئی ہیں تو ختم کریں اور دنیا میں بھی محبت اور پیار کا پیغام پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ہمیشہ صلح کی بنیاد ڈالیں۔ان دنوں میںصلح کے حصول کی کوشش بھی کریں اور دعا میں اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں۔ بھائی بھائی کے گناہ بخشنا سیکھے۔ خاوند بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے کے عزیز رشتہ داروں کے حقوق بھی اداکریں تا کہ محبت کی فضا قائم ہو۔ ان محبتوں سے رشتوں کی دُوریوں کو سمیٹ کر قریب لائیں۔ کاروباری رنجشوں اور جھگڑوں کو دور کریں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر نقصان بھی اٹھا رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے پورا کر دے گا۔ لیکن نیت یہی ہونی چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کرنا ہے خدا کی خاطر کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرنا ہے۔ اس لئے کرنا ہے کہ اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی نے اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ توقعات وابستہ کی ہیں کہ ان کے دل اس دنیاکے بجائے آخرت کی طرف مائل ہو جائیں۔ اس دنیا کمانے کو بھی منع نہیں کیا گیا لیکن اس دنیا کو مقصود بنا کر محبتوںکے بجائے نفرتوں کے بیج بونے سے منع کیا گیا ہے۔

پس اس جلسہ میں آنے کا مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم میں سے ہر ایک ایک دوسرے کی طرف محبت اور اخوت کا ہاتھ بڑھائے گا۔ جن کی رنجشیں ہیں وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ جن کی اجنبیت کے تعلقات ہیں وہ ان کو محبت اور اخوت کے تعلقات میںبدلیں گے۔ اس جلسہ کی فضا کو ایسی پُر محبت فضا بنا دیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی پسندیدہ ہو جائے اور وہ اپنے پیار اور محبت کی بارش ہر آن اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر برساتا رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے سب کو۔

پھر ان مقاصد میں سے ایک مقصد آپ نے یہ بیان فرمایا کہ انکساراور تواضع پیدا ہو۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) یہ خُلق ایسا ہے کہ جب انسان میں پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہتی ہے۔ جب انسان میں انکسار اور تواضع کی حالت پیدا ہوتی ہے تو یہ چیزیں اس میں عقل اور ہوش بھی پیدا کرتی ہیں۔ دنیا میں آج جتنا فتنہ و فساد ہے انفرادی لڑائیاں ہوں یا ملکوں کی لڑائیاں ہوں یا قوموںکی لڑائیاں ہوں یہ سب تکبر کی وجہ ہے۔ اگر تکبر ختم ہو جائے اور انکسار اور عاجزی پیدا ہو جائے تو یقیناً ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہو گی کیونکہ اس سے عقل اور ہوش پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ایسے لوگ اپنی عقل کو عقلِ کُل نہیں سمجھتے بلکہ دوسرے کی بات سننے کا بھی ان میں حوصلہ ہوتا ہے اور یہی چیز پھر اختلاف رائے سننے کا بھی موقع پیدا کرتی ہے اور مشوروں کی طرف بھی توجہ رکھتی ہے جو کہ جماعتی زندگی کی ایک اہم کڑی ہے اور جماعت احمدیہ میں اس کا معیار بہت اونچا ہونا چاہئے۔ پھر ذاتی زندگیوں میں لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے اور پیار اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان64:)۔یعنی رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں۔ انکسار اور تواضع سے چلتے ہیں۔ بغیر تکبر کے چلتے ہیں۔ اور جب جاہل کوئی ایسی بات کریں جو جہالت کی اور فساد بھڑکانے والی ہو تو لڑائی اور جھگڑا اور فساد نہیں شروع کر دیتے بلکہ سَلَامًا کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ تمہاری ان جہالتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے بلکہ ہم تو اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے پیار اور محبت کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں اور حقیقت میں عباد الرحمن بننا چاہتے ہیں جس کی طرف زمانے کا امام ہمیں بلا رہا ہے کیونکہ اسی میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رحمان کے بندے عاجزی سے زمین پر چلتے ہیں کیونکہ کبر تو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں ذرہ بھر بھی تکبر ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ پھر پوچھنے پر فرمایا کہ اچھا پہننا اچھا رہنا یہ تکبر نہیں ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے۔ دوسروں کو ذلیل سمجھا جائے۔ ان سے حقارت کا سلوک کرے اور صحیح طرح پیش نہ آئے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث 265)

پس یہ باتیں ہیں جو ہم نے جلسے کی برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئےاپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو تقویٰ پر چلانے والی ہیں اور جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں بلا رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں

’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے‘‘۔(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)

پھر آپ فرماتے ہیں’’کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جائیں‘‘ (یعنی بڑھ بڑھ کے باتیں کرنا اور شیخیاں بگاڑنے والی چیزیں اور تکبر یہ سب دور نہ ہو جائیں) فرماتے ہیں ’’خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘۔

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 396)

اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے والے اور عاجزی اختیار کرنے والے ہوں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جن کو مبارکباد دیتے ہوئے اور ان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ’’ مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیںکرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں‘‘۔

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)

اللہ کرے کہ یہ جلسہ ہمیں ان باتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پھر جن نیکیوں کو آپ ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ایک راستبازی کا پیغام ہے۔ سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غلط بیانی اور جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور جس میں شرک کی بُو آ جائے اس کو آخرت کی فکر کرنے والا کس طرح کہا جا سکتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا تو اپنے عمل سے آخرت پر یقین کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ بعض دفعہ ذرا سی بات پر غلط بیانی کر دی جاتی ہے یا جھوٹی گواہی دے دی جاتی ہے۔ اس کو معمولی چیز سمجھا جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو فسق و فجور کی طرف لے جانے والا قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ فسق و فجور سیدھا آگ کی طرف لے جاتاہے۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب قول اللہ تعالیٰ یایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ … الخ حدیث 6094) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے محفوظ رکھے۔

بعض دفعہ باتوں کے مزے لینے کے لئے بھی لوگوں کو اِدھر سے اُدھر باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ ان کا شغل ہوتا ہے کہ یہاں کی بات وہاں کی اور وہاں کی بات دوسری جگہ کر دی۔ یہ برائی بھی ایسی ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ قرار دیا ہے کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔(صحیح مسلم مقدمۃ الامام مسلمؒ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع حدیث 7)

پس ان باتوں سے بچنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔ یہ تمام باتیں جو آپ نے بیان فرمائی ہیں جن کی ہم سے توقع رکھی ہے اور جس کے معیار قائم کرنے کے لئے آپ نے جلسہ کا آغاز فرمایا تھا تقویٰ میں بڑھنے سے ہی ملتی ہیں۔ پس ہر احمدی کو ان دنوں میں کوشش کرنی چاہئے کہ تقویٰ کے معیار بڑھائے اور آخرت کی فکر کرے۔ جتنا زیادہ ہم اس فکر میں رہیں گے اتنی زیادہ نیکیاں کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی ہمیں توجہ رہے گی۔ دین کی خاطر قربانیاں کرنے کی ہمیں توجہ رہے گی۔

پس ان جلسے کے دنوں میں خاص طور پر اس مقصد کے حصول کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو آیت مَیں نے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں بھی یہی فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوْا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ(الانفال30:)کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لئے ایک امتیازی نشان بنا دے اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(الانفال30:)۔

پس یہ تقویٰ ہی ہے جو مومن اور غیر مومن میں فرق ظاہر کرتا ہے اور جب ایک مومن تقویٰ پر چلتے ہوئے آخرت کی فکر کرتا ہے تو نیک اعمال کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے اور برائیاں چھوڑنے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش یہی ہے کہ پہلی برائیاں دور ہو جائیں اور آئندہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملے۔ پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کے حصول کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمت اور مدد مانگیں تا کہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ان مقاصد کو حاصل کرنے والا بنائے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا۔ کوشش بہرحال ہماری طرف سے پہلے ہو گی تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ مدد فرمائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پا سکتی۔ خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا۔ یہی سبب ہے کہ بعض ان صحابہ میں سے جن جن سے بڑے بڑے کام لینے تھے وہ سب سخت سے سخت خطروں میں بھی بچائے گئے‘‘۔(ملفوظات جلد 5 صفحہ 458۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا ’’گھروں کو ذکر اللہ سے معمور کرو۔ صدقہ و خیرات دو۔ گناہوں سے بچو تا اللہ تعالیٰ رحم کرے‘‘۔ فرماتے ہیں’’ جو لوگ دنیا کے معاملات میں مستغرق رہتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں گویا انہوں نے بیعت ہی نہیں کی۔ یاد رکھو اور عمل کرو جو جس سے پیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 459۔460۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس یقین پر قائم ہو کر ہمیں تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مسیح موعود کی جماعت کے ساتھ جُڑنے سے یقیناً ہمارے نیک اعمال پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی نظر ڈالے گا اور ہمیں اپنے ان انعاموں سے نوازے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں جن کے نظارے ہم نے نہیں دیکھے یا نہیں دیکھ رہے۔ بیشمار مثالیں ایسی ہیں جو تقویٰ پر چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دکھائی ہیں۔ اپنی تائید و نصرت کے ایسے نشانات دکھائے جنہوں نے ماحول کے احمدیوں کو بھی ایمان اور یقین میں ترقی دی۔ اگر ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے عملوں کو اس کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور برکتوں کی چادر میں لپیٹ لے گا اور ہماری نسلوں پر بھی بے شمار فضل فرمائے گا۔ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ نیک اعمال بجا لانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کی حقیقت کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ان اعمال کو بجا لانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر وہ اخلاص اور نیک نیتی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے ساتھ کی گئی قربانیاں اور عمل اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہر لمحہ کو، ہر گھڑی کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ جوڑے رکھے۔ ہمارے اندر وہ ایمان پیدا کرے جو اللہ تعالیٰ کے مقرّبین کا خاصہ ہے۔ ہماری اولاد در اولاد کو بھی ایسا یقین اور ایمان عطا فرمائے جو کبھی انہیں غفلتوں اور سستیوں میں مبتلا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دین و دنیا کی ترقیات دکھاتا رہے اور اپنے فضل سے راستے کی تمام روکوں کو دور فرمائے۔ اللہ کرے کہ ہم اس فیض سے جس کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پایا دنیا کو بھی احسن رنگ میں روشناس کرانے والے بنیں۔

جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ آجکل اسرائیل اور مغرب کے بعض ملکوں نے لبنان اور بعض مسلمان ملکوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اس کے لئے بھی دعا کریں۔اللہ تعالیٰ اُمّتِ مُسلمہ کو محفوظ رکھے۔ خود ان ظلموں کا بدلہ لے۔ معصوم انسانیت سے کھیلنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کی بھی آنکھیں کھولے۔ ان کی لیڈر شپ میں بھی یہ احساس پیدا کرے کہ اپنے ذاتی مقاصد اور دلچسپیوں پر اُمّت کے مسائل کو ترجیح دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی تقویٰ کا نور عطا فرمائے اور ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ اُمّت کی خاطر انہیں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنا چاہئے۔ اللہ کرے کہ ان کو عقل آ جائے۔ اللہ تعالیٰ دشمنان اسلام کو ناکامی اور نامرادیوں کا منہ دکھائے۔ آج احمدی ہی ہیں جنہوں نے اُمّتِ مسلمہ کا درد رکھتے ہوئے ان کے لئے بغیر کسی بناوٹ اور تصنع اور ذاتی مفاد کے دعا کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج دنیا کی بقا مسیح محمدی کے ماننے والوں کی دعاؤں سے ہی ہے۔ پس دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب پہلے دعا کر لیں۔ (دعا)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button