خطاب حضور انور

جماعت احمدیہ ہالینڈ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر18؍جون2006ء بروز اتوارسیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا Nunspeet میں اختتامی خطاب

ہم احمدی جو آج دنیا کے قریباً ہر ملک میں موجود ہیں یا اکثر ممالک میں موجود ہیں ان کو ہمیشہ یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح محمدی کو ماننے کے بعد ہم نے اس مسیح محمدی سے جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا ہے اور ہمیشہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کو بھی اپنانا ہے تا کہ ان اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنیں۔ تا کہ پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنّتوں کے وارث بھی بنیں۔

اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے اہم چیز اس کی عبادت ہے۔ پس اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ہر احمدی کوکوشش کرنی چاہئے اور عبادتوں کا جو طریق ہم مسلمانوں کو بتایا گیا ہے وہ ہے نمازوں کی ادائیگی اور اس کی حفاظت۔

جیسا کہ ہمیں حکم ہے کہ نمازیں باجماعت ادا کرو اوراس کے لئے مسجد میں جانے کا حکم ہے اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ آپ کے ملک ہالینڈ میں آج سے پچاس سال پہلے ہیگ میں ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی اور گزشتہ دنوں اس کے پچاس سال پورے ہونے پر آپ لوگوں نے ایک تقریب منعقد کی اور ملکہ بھی اس میں تشریف لائیں۔ جماعت کو اس وجہ سے میڈیا میں ایک اچھی کوریج ملی۔ ٹی وی اخباروں وغیرہ میں کافی خبر چھپی۔ اس ایک مسجد کے پچاس سال پورے ہونے پر اب آپ کو خوش ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔ جب یہ مسجد یہاں تعمیر کی گئی تھی تو اس وقت یہاں جماعت کی تعداد چند افراد تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سینکڑوں میں ہیں اور انشاء اللہ ہزاروں سے اوپر چلے جائیں گے۔ یہاں کے مقامی لوگ بھی احمدیت میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے۔ اب آپ کو چاہئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیںاور فوری طور پر ایک اور شہر میں جہاں جماعت کی کچھ تعدادہے باقاعدہ مسجد کی پلاننگ کریں۔

اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے، اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کو اپنانا بھی ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کام میں برکت بھی ڈالتا ہے۔

نیکیوں میں سے وہ نیکیاں جو معاشرے کا امن و سکون قائم رکھتی ہیں وہ آپس کا محبت و اتفاق ہے۔ ایک بھائی کا دوسرے بھائی سے محبت اور پیار کا سلوک ہے۔ ایک شخص کے دل میں دوسرے شخص کے لئے نیک جذبات اور احساسات ہیں۔ ایک عورت کے دوسری عورت کے لئے نیک خواہشات اور پیار و محبت کے جذبات ہیں۔ایک دوسرے کے لئے ہر احمدی کے دل میں نیک جذبات ہونے چاہئیں۔ ہر وقت یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جیسے بھی حالات ہوں میری طرف سے دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ کبھی کسی احمدی کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ مَیں اپنے آرام کی خاطر، اپنی سہولت کی خاطر اپنے بھائی کو دکھ پہنچاؤں یا اس کو تکلیف دوں۔ اگر ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزارے کہ میرے بھائی کے میرے پر حقوق ہیں تو کبھی دنیا میں فساد اور لڑائی اور جھگڑے اور بدظنیاں پیدا نہیں ہو سکتیں یا کم از کم جماعت احمدیہ کی جو دنیا ہے اس میں کوئی فساد اور جھگڑے اور لڑائیاں نہیں ہو سکتیں۔

آج ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کو نقصان پہنچانا تو ایک طرف، اُس کا خیال بھی دل میں نہ لائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ جب ہم میں سے ہر ایک کی یہ حالت ہو جائے گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے حُسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق کا اظہار اللہ تعالیٰ کی

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


جب دنیا سے نیکیاں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جب انسان اپنے نفس کا غلام بننا شروع ہو جاتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق انسان بھولنا شروع ہو جاتا ہے، جب روحانیت کی آنکھ اندھی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی سنّت کے مطابق اپنے خاص بندے جو اس کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوتے ہیں دنیا میں بھیجتا ہے تا کہ دنیا کو دنیا کی غلاظتوں کے بارے میں بتائیں اور انہیں ان کی پیدائش کے مقصد سے آگاہ کریں۔ ان کو تقویٰ کی راہیں دکھائیں اور انہیں اپنے خدا کا عبادت گزار بنائیں۔ انہیں برے اخلاق اور گناہوں سے خبر دار کریں اور انہیں نیکیوں کے راستے دکھائیں۔ کیونکہ اگر دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندے دنیا میں نہ بھیجے اور انسانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے سزا دینا شروع کر دے تو انسان یہ رونا رو سکتا ہے کہ اے اللہ تُوسب انصاف کرنے والوںسے زیادہ انصاف کرنے والا ہے۔ تُو نے ہماری طرف کوئی سیدھا راستہ دکھانے والا تو بھیجا نہیں اور ہمیں ہمارے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ تو اس اعتراض کو، اس رونے کو دُور کرنے کے لئے مختلف اوقات میں ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے جو اپنی قوم کو تقویٰ اختیار کرنے اور نیکیوں پر قدم مارنے کی تلقین کرتے رہے اور پھر شریعت کو کامل کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا جو روئے زمین کے تمام انسانوں اور تمام وقتوں کے انسانوں اور تمام قوموں کے لئے بھیجے گئے۔

لیکن جیسا کہ انسانی فطرت ہے کہ انسان نیکیوںکو، نیک اعمال کو، اللہ کو جلد بھلا دیتاہے اور شیطان کمزور طبیعتوں پر حملہ کرنے کی تاک میں رہتا ہے تو اس حملے کی وجہ سے انسان اس کی گود میں چلا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بھی یہ انسانی فطرت کا عمل جاری رہنا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بتا کر کہ آپ کے بعد بھی ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ دوبارہ دین سے ہٹ جائیں گے، دنیا کی طرف راغب ہو جائیں گے، دین میں بدعتیں آنی شروع ہو جائیں گی اور نفس کی خواہشات کے تابع ہو کر شیطان کی گود میں چلے جائیں گے۔ نہ ان کو حقوق اللہ کی ادائیگی کی فکر رہے گی اور نہ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کی فکر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک علم دینے کے بعد فرمایا لیکن اے نبی! اپنی امت کے اس حال سے تُو مایوس اور غم زدہ نہ ہو۔ تیری اُمّت میں تجدید دین کرنے والے پیدا کرتا رہوں گا جو اپنے اپنے علاقوں میں پیدا ہوتے رہیں گے(سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ حدیث 4291) اور میری اس آخری شریعت کو اس کی اصل حالت میں قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اور پھر مَیں آخری زمانے میں تیرا ایک ایسا عاشق صادق پیدا کروں گا جو تیرے دین کی اشاعت کے لئے ہر وقت بے چین اور بے قرار رہے گا اور وہ میری نصرت و مدد کے ساتھ اسلام کی کھوئی ہوئی تعلیم کو، بُھلائی ہوئی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کرے گا۔ اور اس کی قائم کردہ جماعت تقویٰ پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے بعد خلافت سے وابستہ ہو کر اسلام کی اشاعت اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانے اور نیکیوں اور اعلیٰ اخلاق کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش کرتی رہے گی۔

پس ہم احمدی جو آج دنیا کے قریباً ہر ملک میں موجود ہیں یا اکثر ممالک میں موجود ہیں ان کو ہمیشہ یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح محمدی کو ماننے کے بعد ہم نے اس مسیح محمدی سے جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا ہے اور ہمیشہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کو بھی اپنانا ہے تا کہ ان اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنیں۔ تا کہ پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنّتوں کے وارث بھی بنیں۔

یاد رکھیں جو عہد کیا جائے اس کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی اہمیت بتائی ہے۔ اللہ تعالیٰ متقی کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا(البقرۃ178:)۔ اور جب عہد کرتے ہیں تو عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو عہد کرتے ہو اس کی پابندی کرو ورنہ عہد پورا نہ کرنے کی صورت میں ایک دن تم سے اس کی جواب طلبی ہو گی۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا(بنی اسرائیل35:)۔ اور اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ ہر عہد کی نسبت یقیناً ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جواب طلبی ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب طلبی ہو گی اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب طلبی ہو تو کوئی بہانہ ،کوئی عذر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

پس اس زمانے میں ہر احمدی کہلانے والے نے زمانے کے امام سے جو بیعت کے عہد کا اعلان کیا ہے یہ اس عہد کا اعلان ہے کہ میں آپ کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کروں گا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کروں گا اور اعلیٰ اخلاق کو بھی اپنانے کی کوشش کروں گا۔ پس ہر احمدی کے لئے یہ بڑا خوف کا مقام ہے کہ اس عہد بیعت کے بعد بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ دوسرے جنہوں نے مسیح موعود کو نہیں مانا وہ تو اس عہد سے باہر ہیں۔ ان کے دین کی حالت کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے؟ وہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن ہم جو احمدی ہیں اگر اس دعویٰ کے بعد کہ ہم نے عہد بیعت کیا ہے پھر اس کو نہیں نبھاتے تو نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے رہیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو عہد کا پاس نہیں رکھتا اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 349 حدیث 12410 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس احمدی ہونے کا دعویٰ بھی ہو اور پھر ہم عہد بیعت پر عمل کرنے کی کوشش بھی ایک تڑپ کے ساتھ نہ کریں تو دنیا کی نظر میں معتوب ہیں کہ مسیح موعود کو کیوں مانا۔ جو لوگ مسیح موعود کو سچا نہیں سمجھتے ان کی نظر میں تو معتوب بن گئے اور عمل نہ کر کے اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہیں اور دین سے بھی خارج ہو رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ کوشش کرتے ہوئے اور ایک درد سے اپنی حالتوں پر غور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرے اور اعلیٰ اخلاق اور نیکیاں اپنانے کی بھی کوشش کرے۔

اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے اہم چیز اس کی عبادت ہے۔ پس اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور عبادتوں کا جو طریق ہم مسلمانوں کو بتایا گیا ہے وہ نمازوں کی ادائیگی اور اس کی حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی(البقرۃ239:)۔ تم تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی۔ اس زمانے میں دنیا کی دوسری مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ نمازوں کی صحیح طرح حفاظت نہیں ہوتی اور یہ جو اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق ہے وہ انسان پوری طرح ادا نہیں کر سکتا اور نہیں کرتا۔ یاد رکھیں گو یہ عبادت اللہ کا حق ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے لیکن یہ جو دنیاوی حقوق ایک دوسرے کے ادا کئے جاتے ہیں یہ اس طرح کا حق نہیں ہے کہ دوسرے حقوق ادا کر رہے ہیں تو اپنی قربانی کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ ایسا حق ہے جس کو ادا کرنے کا فائدہ بھی حق ادا کرنے والے کو ہو رہا ہے۔ جس کا حق ادا کیا جا رہا ہے اس کو بندہ کچھ نہیں دے رہا، نہ ہی کچھ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ تو ہر چیز کا مالک ہے اور وہ ہمارا ربّ ہے۔ ہماری ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ اس نے بندے کی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ کیونکہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہیں نعمتوں سے نوازا ہے، اس لئے میری عبادت کرو اور جو نمازیں فرض کی ہیں ان کی ادائیگی بروقت اور صحیح طریق سے کرو۔ نتیجۃً یہی نمازیں جو ہیں تمہاری حفاظت کرنے والی بنیں گی۔ یہ جو بظاہر تم میرا حق ادا کر رہے ہو یہ اصل میں تم اپنی حفاظت کا انتظام کر رہے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے و الے ہو گے اور شکرگزاری کے طور پر اس کے فضلوں اور انعاموں کے مزید وارث بنو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو اور دیتا ہے، بڑھ کر دیتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے۔ آپ کی زندگی کا ہرلمحہ ذکر الٰہی سے پر تھا۔ آپ جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین ہیں آپ نے اپنی بیماری میں بھی نمازوں کی ادائیگی اور حفاظت کے نمونے اس لئے ہمارے سامنے پیش کئے اور اس لئے قائم فرمائے تا کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس ہوتا رہے۔ پھر آپ نے ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی مَیل رہ جائے گی؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کوئی مَیل نہیں رہے گی۔ آپ نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دور کرتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوات الخمس کفارۃ حدیث 528) تو دیکھیں کہ اس کی اہمیت بتانے کا کتنا خوبصورت انداز ہے۔ فرمایا کہ دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہے۔ یہ نہیں کہ نہانے کے لئے کچھ فاصلہ طے کر کے جانا ہے بلکہ نہر تمہارے دروازے کے پاس ہے۔ پانی ساتھ سے گزر رہا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں پاک کرنے کے لئے تمہاری کمزوریاں دور کرنے کے لئے تمہارے گناہ معاف کرنے کے لئے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ جو تمہارے گھر میں ہی موجود ہے۔ پھر اس انتظام کی قدر نہ کرنا یہ تمہاری بدقسمتی ہے۔ نمازیں بھی کوئی تکلیف اٹھا کر ادا نہیں کی جا رہیں بلکہ جتنی بھی لمبی نمازیں پڑھی جائیں اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں ان کا بھی وہ حق ادا نہیں کر سکتیں۔ اس لئے فرمایا کہ جس طرح نہانے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ہاں جسم پر مل کر اپنی میل اتارنے کے لئے ذرا سے ہاتھ پیر ہلانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح یہ نمازیں ہیں۔ یہ تھوڑا سا وقت جو ہم نمازوں کے لئے دیتے ہیں اس کے مقابلے میں جو فوائد ہیں وہ جیسا کہ مَیں نے کہا اَن گنت ہیں کہ اس وقت کی اس کے مقابلے میںکوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ اس لئے یہ بہانے نہ کرو کہ فلاں مصروفیت کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا یا نماز قضاء ہو گئی۔ اس سے زیادہ سہولت اور کیا ہو سکتی ہے کہ تمہارے گھر کے دروازے تک اللہ تعالیٰ اس نہر کو لے آیا ہے۔ پھر بھی اگر مَیل کچیل سے جسم بھرا رہے۔ سر مٹی سے اَٹا ہو تو ایسا شخص یا تو انتہائی کاہل، سست اور گندہ کہلائے گا یا مخبوط الحواس کہلائے گا جس کے حواس نہ ہوں۔

پس یہ مثال دے کر ہمیں یہ بتا دیا کہ اسلام لانے کے بعد، مومن ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد اگر اپنی کاہلی کا داغ دھونا چاہتے ہو، اپنی روحانی پاکیزگی چاہتے ہو تو اپنی نمازوں کی حفاظت کرو۔ ورنہ تمہارے اور ایک کاہل گندے اور مخبوط الحواس آدمی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنے جائزے لے اور اپنی نمازوں کی حفاظت کے انتظام کرے۔ اپنی روح کو اس مصفّٰی نہر کے پانی سے صاف کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بنے۔

یہاں مَیں اس بات کا بھی اظہارکرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ ہمیں حکم ہے کہ نمازیں باجماعت ادا کرو اوراس کے لئے مسجد میں جانے کا حکم ہے اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔

آپ کے ملک ہالینڈ میں آج سے پچاس سال پہلے ہیگ میں ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی اور گزشتہ دنوں اس کے پچاس سال پورے ہونے پر آپ لوگوں نے ایک تقریب منعقد کی اور ملکہ بھی اس میں تشریف لائیں اور انتہائی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری تعلیم و روایات کا انہوں نے پورا خیال رکھا۔ یعنی ان کے پروٹوکول کے افسر کو پہلے بتا دیا گیا تھا کہ مردوں سے مصافحہ نہیں کرنا تو انہوں نے نہیں کیا۔ جوتے اتار کر مسجد میں جانا ہے۔ عموماًیہ لوگ بوٹوں اور جوتی کے اوپر ہی غلاف سا چڑھا لیتے ہیں لیکن وہ اتار کے گئیں۔ اس سے یہاں کے اخباروں نے اچھے تاثر کا بھی اظہار کیا۔کئی نے تعریف کی اور جو شدت پسند ہیں انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں طنز کرنے کی کوشش بھی کی۔لیکن بہرحال جماعت کو اس وجہ سے میڈیا میں ایک اچھی کوریج ملی۔ ٹی وی اخباروں وغیرہ میں کافی خبر چھپی۔ اس ایک مسجد کے پچاس سال پورے ہونے پر اب آپ کو خوش ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے۔ جب یہ مسجد یہاں تعمیر کی گئی تھی تو اس وقت یہاں جماعت کی تعداد چند افراد تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سینکڑوں میں ہیں اور انشاء اللہ ہزاروں سے اوپر چلے جائیں گے۔ یہاں کے مقامی لوگ بھی احمدیت میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے۔ اب آپ کو چاہئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور فوری طور پر ایک اور شہر میں جہاں جماعت کی کچھ تعداد ہے باقاعدہ مسجد کی پلاننگ کریں۔ ابھی موقع تازہ تازہ ہی ہے تو شاید اس وجہ سے مسجد کے لئے زمین کے پلاٹ کے حصول کے لئے اور تعمیر کے لئے آسانی پیدا ہو سکے۔ خدا کرے کہ ہو جائے۔ لیکن آپ کو کوشش کرنی چاہئے۔ پھر اس کے ساتھ تبلیغ میں بھی تیزی پیدا ہو گی اور آپ لوگوں کو تیزی پیدا کرنی چاہئے۔ آجکل میڈیا کے ذریعہ سے جو تعارف پیدا ہوا ہے اس سے بہترین رنگ میںفائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ جن اخباروں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں ملکہ کے اس عمل پر اعتراض کیا ہے یا اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ان کو نوجوان بھی اور دوسرے بھی خطوط لکھیں۔اور ملکہ کے اعلیٰ اخلاق اور وسعت حوصلہ کی داد دیں، تعریف کریں۔ اسلام کی تعلیم کے بارے میں خطوط لکھیں مختلف طبقوں تک پیغام پہنچانے کا انتظام کریں۔ یہ کام جلدی اور ایک جوش کے ساتھ کریں گے تو اس کا فائدہ ہو گا۔

اس ملک میں بھی اسلام کے بارے میں بڑا غلط تأثر پایا جاتا ہے اور اسلام کے بارے میں ایک طبقہ کا بڑا سخت رویّہ ہے۔ اب مسلسل اس تأثر کو دھونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن جیسا کہ مَیں ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور یہی ہمیں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے، اس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے اور اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے اپنے ماحول میں قائم کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچائیں گے، یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا انشاء اللہ۔ اوربعض لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یہاں تبلیغ مشکل ہے۔ یہ لوگ دنیا داری کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ آپ کا خیال یہی ہے کہ مائل ہیں سنتے نہیں باتیں۔ لیکن اگر دعاؤں کے ساتھ، ایک کوشش کے ساتھ، شوق کے ساتھ یہ کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ ان میں سے ہی آپ کو کئی سعید فطرت عطا فرما دے گا اور ہر سال ملتے بھی رہتے ہیں۔

پھر یہاں دوسری قومیتوں کے لوگ ہیں ان میں بھی تبلیغ کا کام تیز ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کو اپنانا بھی ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کام میں برکت بھی ڈالتا ہے۔ جب آپس میں بھی ایک دوسرے سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا ہو اور ماحول میں بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کا تأثر ہو اور یہی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نشانی بتائی ہے کہ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰت(المؤمنون62:)۔ یعنی نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں۔ جلدی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس نیکیوں میں آگے بڑھنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور یہ نیکیاں بیشمار ہیں جن کے کرنے کا ہمیں حکم ہے۔ میں یہاں چند ایک کا بیان کر دیتا ہوں۔

سب سے بڑی نیکی جو معاشرے میں ایک انسان کا اثر قائم کرتی ہے وہ اس کا ہرحالت میں سچائی پر قائم ہونا ہے اور جھوٹ سے نفرت ہے۔ اور یہ ایک ایسا وصف ہے کہ اگر کسی میں قائم ہو جائے تو ماحول اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کی برائی کو شرک کے برابر قرار دیا ہے کیونکہ جھوٹ بولنے والا اس کے ذریعہ سے اپنے خیال میں اپنے مفاد حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک غلط بات کو ایک ایسی گواہی کو جو بالکل جھوٹی ہو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جائے تو ظاہر ہے ایسے شخص نے جھوٹ کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج31:)۔ یعنی پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج31:)۔ دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اَور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دُور نہیں ہوتا‘‘۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 350۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جب عادت پکی ہو جاتی ہے پھر اتنی آسانی سے دُور نہیں ہوتی۔ اس لئے عادت ڈالنی ہی نہیں چاہئے۔ ذرا سی غلط بیانی سے بھی بچنا چاہئے اور اگر کسی کو عادت ہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ انتہائی خطرناک برائی ہے جو نہ صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کے لئے کی جاتی ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے دلوں میں بھرے بغضوں اور کینوں کی وجہ سے دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگلے کو نیچا دکھا دیا ہے اس کا یہ حشر کر دیا اور وہ کر دیا کہ یاد رکھے گا۔ یہ سوچتے ہی نہیں کہ اس جھوٹ کی وجہ سے ایک ایسے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں جو شرک کے برابر ہے اوراللہ تعالیٰ نے مشرک کے لئے بڑی سخت سزا رکھی ہے۔ پس اس برائی کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے مردوں کو اور عورتوں کو یکساں کوشش کرنی چاہئے ورنہ ہم بھی ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن کا ظاہر کچھ اَور ہوتا ہے اور باطن کچھ اَور ہوتا ہے۔ نعرہ تو ہم یہ لگا رہے ہوں گے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں میں ہمارا شمار ہونے لگا ہے۔ لیکن قدم قدم پر ہماری غلط بیانیاں، اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے ذرا ذرا سی بات پر جھوٹ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دُور کر رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقت میں اللہ کا صحیح عبد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اس برائی سے بچائے۔

پھر نیکیوں میں سے وہ نیکیاں جو معاشرے کا امن و سکون قائم رکھتی ہیں وہ آپس کا محبت و اتفاق ہے۔ ایک بھائی کا دوسرے بھائی سے محبت اور پیار کا سلوک ہے۔ ایک شخص کے دل میں دوسرے شخص کے لئے نیک جذبات اور احساسات ہیں۔ ایک عورت کے دوسری عورت کے لئے نیک خواہشات اور پیار و محبت کے جذبات ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے ہر احمدی کے دل میں نیک جذبات ہونے چاہئیں۔ ہر وقت یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جیسے بھی حالات ہوں میری طرف سے دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش نظر رہنا چاہئے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسرے کے لئے بھی وہی چیز پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث 13) یعنی کبھی کسی احمدی کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ مَیں اپنے آرام کی خاطر اپنی سہولت کی خاطر اپنے بھائی کو دکھ پہنچاؤں یا اس کو تکلیف دوں۔ اگر ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزارے کہ میرے بھائی کے میرے پر حقوق ہیں تو کبھی دنیا میں فساد اور لڑائی اور جھگڑے اور بدظنیاں پیدا نہیں ہو سکتیں یا کم از کم جماعت احمدیہ کی جو دنیا ہے اس میں کوئی فساد اور جھگڑے اور لڑائیاں نہیں ہو سکتیں۔ ہر وقت یہ سوچ ہو کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے، ہم اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک اور پاک جذبات کی قدر کرتا ہے اور اپنی شفقت اور پیار اور رضا کی چادر میں لپیٹ کر اپنے بندوں کو پھر انعامات سے نوازتا ہے۔

حضرت ابوھریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں مَیں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل الحب فی اللہ تعالیٰ حدیث 6548)

پس آج ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کو نقصان پہنچانا تو ایک طرف، اُس کا خیال بھی دل میں نہ لائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ جب ہم میں سے ہر ایک کی یہ حالت ہو جائے گی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے حُسن سلوک اور اعلیٰ اخلاق کا اظہار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنے والے ہوں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ بھی اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔

پس ہر احمدی کو ہر وقت یہی اپنا مقصد اور مطمح نظر رکھنا چاہئے کہ تمام وہ اعلیٰ اخلاق جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے یا اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے یا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے ان پر پوری طرح عمل کرنے والے ہوں۔ اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں اور اپنی نسلوں میں بھی ان کو جاری رکھنے والے ہوںتا کہ یہ جو نیکیوں کی جاگ ہے نسلاً بعد نسلٍ چلتی چلی جائے اور اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی سربلندی کے لئے تاقیامت ہماری نسلیں کوشش کرتی چلی جائیں۔ ہمارے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگیوں کے معیاروں کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ بھی جلد از جلد اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی ہے جسے شریعت کاملہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اور جس کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو اس زمانے میں زمانے کی اصلاح کے لئے اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ آپ نے اس جلسہ میں مختلف موضوعات پر علمی اور تربیتی تقریریں سنی ہوں گی۔ ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ یہی اس جلسہ کا مقصد ہے اور یہی آپ کے یہاں بیٹھنے کا مقصد ہونا چاہئے۔ تبھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد سے فیض پانے والے ہو سکتے ہیں جس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کا آغاز فرمایا تھا اور آج جماعت احمدیہ اس کی اِتّباع میں تمام دنیا میں یہ جلسے منعقد کرتی ہے۔ پس اس روحانی مجلس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کریں گے اور اپنے اخلاق کے معیار بھی بلند کریں گے اور آپس کے تعلقات کو پہلے سے بڑھ کر نبھانے کی کوشش کریں گے چاہے وہ میاں بیوی کے تعلقات ہوں، بھائی بھائی کے تعلقات ہوں، دوست دوست کے تعلقات ہوں۔ ایک احمدی کے دوسرے احمدی کے ساتھ تعلقات ہوں۔ ہمیشہ یہ پیش نظر رکھیں کہ ہم نے ہر لمحہ تقویٰ کو مدنظر رکھنا ہے۔ تقویٰ میں بڑھنا ہے۔ عبادتوں میں ترقی کرنی ہے۔ نیکیوں پر قائم ہونا ہے اور آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنی ہے تا کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو سفرِ آخرت مکروہ نظر نہ آئے۔ اللہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو آپ نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو آپ نے اپنی اُمّت کے لئے کی ہیں اور ہم کبھی بدنصیبوں میں شمار نہ ہوں۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button