حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

جرمنی کے شہر Waldshut-Tiengenمیں مسجد عافیت کی افتتاحی تقریب میں سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب۔فرمودہ 10؍ اپریل 2017ء بروز سوموار

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے، مختلف قوموں کے لئے آئے، مختلف زمانوں میں آئے۔ اور سب اگر اللہ کی طرف سے آئے، اُس خدا کی طرف سے آئے جو اِس دنیا کو پیدا کرنے والا ہے، اُس خدا کی طرف سے آئے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا تو پھر پیغام بھی ایک ہونا چاہئے تھا اور وہ پیغام ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ سے رہو۔

جہاں احمدی مسلمان تبلیغ کرتے ہیں، اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں، وہاں خدمتِ خلق کے کام بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سکول اور ہمارے کالج اور ہمارے ہسپتال دنیا کے مختلف علاقوں میں، غریب ملکوں میں، افریقہ کے ملکوں میں یا ایشیا کے غریب ملکوں میں قائم ہیں اس لئے کہ انسانیت کی خدمت کریں اور بغیر کسی امتیاز کے خدمت کرتے ہیں۔

جماعت احمدیہ جہاں جاتی ہے وہاں مساجد بناتی ہے اور جو’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کا نعرہ ہے اس کو پہلے سے بڑھ کر زور سے لگاتی ہے اور
دنیا کو بتاتی ہے، ہمسایوں کو بتاتی ہے کہ اصل چیز یہ ہے جو ایک مذہب کے ماننے والے کا کام ہے۔

اس مسجد کے بعد احمدی مسلمانوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری ہو گئی ہے کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھیں۔ ان کی تکلیفوں کا خیال رکھیں۔ اور کسی بھی قسم کی نہ روحانی، نہ مادی تکلیف ان کو پہنچائیں اور جب یہ ہو گا تو تبھی اس نام کا بھی پاس کرنے والے ہوں گے اور اس کا اظہار
کرنے والے ہوں گے جو کہ اس مسجد کا نام ہے یعنی کہ عافیت۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

تمام معزز مہمان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ابھی جو تلاوت ہوئی تھی اس کی بنیاد پہ،اور پھر بعض مقررین کے کہنے پہ مَیں نے کچھ نوٹس بنائے تھے۔ لیکن مَیں شکر گزار ہوں مسٹرسٹاک برگر(Stockburger) صاحب کا جو پَرِیسٹ ہیں انہوں نے میرا کام بہت آسان کر دیا اور جو امن کی اور مذہب کے بارے میں بہت ساری باتیں مَیں نے کہنی تھیں وہ انہوں نے میری طرف سے کہہ دیں۔ اس لئے ان کا شکریہ۔

بہرحال یہ بڑی اچھی بات ہےکہ مختلف مذاہب ہونے کے باوجود مختلف لوگ آپس میں مل جل کر رہیں۔ اسی لئے قرآن کریم نے عیسائیوں کو بھی، یہودیوں کو بھی، اہل کتاب کو کہا مسلمانوں کی طرف سے یہ پیغام دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ پیغام دیا کہ آؤ ہم اس بات پر مل جل کر کام کریں، اِس کلمہ پر آ کے ہم اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ مشترک کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

ایک اختلاف مَیں ان سے یہاں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو ایک خدا کو نہیں مانتے۔ اصل میں ہندو بھی باوجود اپنے مختلف دیوتاؤں کے ultimately ایک خدا تک پہنچتے ہیں۔ اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے، مختلف قوموں کے لئے آئے، مختلف زمانوں میں آئے۔ اور سب اگر اللہ کی طرف سے آئے، اُس خدا کی طرف سے آئے جو اِس دنیا کو پیدا کرنے والا ہے، اُس خدا کی طرف سے آئے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا تو پھر پیغام بھی ایک ہونا چاہئے تھا اور وہ پیغام ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارہ سے رہو۔ اسی لئے ہم جوحقیقی مسلمان ہیں وہ تمام انبیاء پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام قوموں میں، تمام مذاہب میں انبیاء آئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ فرستادے اور نیک لوگ آئے جنہوں نے مذہب کو قائم کیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ایک دوسرے سے جنگیں کرو، لڑائیاں کرو، ایک دوسرے سے اختلافات کرو۔ بلکہ اگر قرآن کریم غور سے پڑھیں تو وہاں جب جنگ کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو وہ اجازت ایک لمبے عرصے کی جو persecution مسلمانوں پرہوئی اس کی وجہ سے دی گئی۔ اور اس سے پہلے آپ ہجرت کر کے مدینہ چلے گئےتھے۔ اور جو آیت قرآن کریم میں اس اجازت کے بارے میں ہے اس میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر تم نے ظالموں کے ہاتھوں کو نہ روکا تو پھر یہ ظلم میں بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس لئے ان کو سزا ضروری ہے اور یہ قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے کہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ان کو نہ روکا گیا تو پھر نہ کوئی چرچ باقی رہے گا۔نہ کوئی synagogueباقی رہے گا۔ نہ کوئی ٹیمپل (Temple) باقی رہے گا۔ نہ کوئی مسجد باقی رہے گی جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، جہاں لوگ عبادت کے لئےاکٹھے ہوتے ہیں۔

پس ایک حقیقی مسلمان جب اپنی مسجد میں عبادت کرنے کے لئے آتا ہے اور جب وہ اپنی مسجد کی حفاظت کی خواہش رکھتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ چرچ کی بھی حفاظت کرے۔ وہ یہودی synagogueکی بھی حفاظت کرے اور ان کے ساتھ بھی پیار اور محبت سے رہے۔ اور یہی وہ تعلیم ہے جس پر عمل ہو تو پھر محبت، پیار اور بھائی چارہ پھیلتا ہے۔

ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھا گیا، تلاوت کی گئی۔ خلاصۃً اس میں یہی بیان کیا گیا کہ تم لوگوں کے حق ادا کرو۔ غریبوں کے حق ادا کرو۔ یتیموں کے حق ادا کرو۔ مسافروں کے حق ادا کرو اور ان کی مدد کرو۔ خدمت خلق کے کام کرو۔ اور پھر یہ بھی اس میں بیان ہوا کہ نمازیں پڑھو اور زکوٰۃ دو۔ زکوٰۃ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے مالوں کو پاکیزہ کرو۔ اور مال پاکیزہ کس طرح ہوتا ہے؟ مال پاکیزہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے رستے میں ان کی خدمت خلق کے کام میں خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔

پس حقیقی مسلمان تو اس بات پر یقین رکھتا ہے اور ہم احمدی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مختلف جگہوں پرجہاں احمدی مسلمان تبلیغ کرتے ہیں، اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں، وہاں خدمتِ خلق کے کام بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سکول اور ہمارے کالج اور ہمارے ہسپتال دنیا کے مختلف علاقوں میں، غریب ملکوں میں، افریقہ کے ملکوں میں یا ایشیا کے غریب ملکوں میں قائم ہیں اس لئے کہ انسانیت کی خدمت کریں اور بغیر کسی امتیاز کے خدمت کرتے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں کے نوّے فیصد مریض عیسائیوں میں سے ہیں۔ ہمارے سکولوں کے طلباء میں سے نوّے فیصد طالب علم عیسائیوں میں سے ہیں یا لا مذہبوں میں سے ہیں یا دوسرے مذاہب میں سے ہیں۔ اور جو اُن میں سے talented ہیں ان کو ہم بغیر کسی امتیاز کے وظیفے بھی دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ایک انسان کا حق ہے کہ اگر بعض حالات کی وجہ سے وہ بعض چیزوں سے محروم کیا گیا ہے تو جس حد تک اس کی مدد ہو سکتی ہے اس کی محرومیت کو ختم کیا جائے اور یہی انسانیت کی خدمت ہے۔

مسجد کا ذکر ہو رہا ہے۔ مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے لیکن قرآن کریم میں یہ بھی ذکر ہے کہ تمہاری نمازیں تمہارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائیں گی۔ کیوں بن جائیں گی ؟ ایک طرف اللہ کہتا ہے کہ میری عبادت کرو اور دوسری طرف کہتا ہے کہ تمہاری عبادت جو ہے، تمہاری نمازیں جو ہیں تمہارے منہ پہ مَیں ماروں گا ، تمہارے منہ پر الٹا دی جائیں گی کیونکہ تم غریبوں کا خیال نہیں رکھتے۔ تم یتیموں کا خیال نہیں رکھتے۔ تم ملک میں فساد پیدا کرنے والے ہو۔ اس لئے تمہاری نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔ پس ایک حقیقی مسلمان تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی قسم کا فتنہ اور فساد اس کی طرف منسوب ہو سکتا ہے یا کسی قسم کے فتنہ اور فساد کے کرنے کا اس کو خیال آ سکتا ہے۔

ابھی جب مَیں نے مسجد کا افتتاح کیا تو یہاں کے نیشنل ٹی وی چینل نے سوال کیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں آپ کیوں مسجد بناناچاہتے ہیں؟ تو مَیں نے اس کو یہی جواب دیا تھا کہ یہاں احمدی رہتے ہیں، یہاں عیسائی بھی رہتے ہیں، یہاں یہودی بھی رہتے ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 120 قومیں یہاں رہتی ہیں۔ تو ہر ایک نے مذہب کے مطابق عبادت کے لئے اپنی اپنی عبادتگاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ پس احمدی مسلمانوں کو بھی ایک عبادتگاہ کی ضرورت تھی جو ہم نے بنائی تا کہ اللہ کی عبادت بھی کریں اور انسانیت کی خدمت کے کام مزید بہتر رنگ میں اور پلاننگ سے کر سکیں۔ اور یہی ہمارا مقصد ہے اور اسی لئے ہم ہر جگہ دنیا میں مساجد بھی بناتے ہیں اور حقیقی اسلام کا پیغام بھی پہنچاتے ہیں۔

یہ جگہ جو ایک زمانے میں مارکیٹ تھی آج اس کو مسجد میں convert کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اَور شہر میں، اس کا نام بھول رہا ہوں،جرمنی میں ہی ایک جگہ پہلے مارکیٹ تھی بعد میں اس کو مسجد میں بدل دیا گیا۔ وہاں بھی ان کو مَیں نے یہ کہا تھا کہ ایک مارکیٹ تھی جہاں لوگ آتے تھے، مادی چیزیں خریدتے تھے۔ اب یہ جگہ مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہے تا کہ یہاں وہ لوگ آئیں جو روحانی چیز یںخریدنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام سننے والے ہوں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے ہوں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد بن گئی تو اب یہ مسلمان اکٹھے ہو کر پتا نہیں کیا منصوبہ بندی کریں گے؟ کس طرح شہر کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نقصان پہنچائیں گے؟ یہ بڑا غلط تصور ہے۔ جماعت احمدیہ جہاں جاتی ہے وہاں مساجد بناتی ہے اور جو’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کا نعرہ ہے اس کو پہلے سے بڑھ کر زور سے لگاتی ہے اور دنیا کو بتاتی ہے، ہمسایوں کو بتاتی ہے کہ اصل چیز یہ ہے جو ایک مذہب کے ماننے والے کا کام ہے۔ مذاہب فتنے پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا مذاہب کے بانی اور تمام نبی محبت اور پیار پھیلانے کے لئے آئے تھے۔ اس خدا کی طرف سے آئے تھے جو اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔

پس جماعت احمدیہ کا یہ پیغام ہے اور آپ لوگوں کو بھی مَیں یہ پیغام دیتا ہوں۔ ہمارے ہمسائے اب دیکھیں گے کہ اس عمارت کو مارکیٹ سے مسجد میں جب تبدیل کیا گیا ہے تو یہاں جہاں خود عبادت کرنے والے روحانی فائدہ اٹھائیں گے وہاں یہاں عبادت کرنے کے لئے آنے والے لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول میں محبت اور پیار بھی بانٹیں گے۔ پہلی مارکیٹ میں آپ رقم دے کر چیزیں خریدتے تھے لیکن یہاں بغیر کچھ خرچ کئے آپ کو محبت اور پیار کے نمونے ملیں گے۔ محبت اور پیار کے تحفے ملیں گے۔ پہلے آپ اپنی جیب میں سے خرچ کر کے ایک مادی چیز خریدتے تھے۔ اب یہاں وہ لوگ جو اس مسجد میں عبادت کرتے ہیں اپنی جیب سے خرچ کر کے اپنے ہمسایوں کے لئے محبت اور پیار بانٹیں گے اور یہی ایک اسلامی حقیقی تعلیم کا نمونہ ہے اور یہی احمدیوں کو یہاں دکھانا چاہئے۔ اگر یہ نمونہ نہیں دکھائیں گے تو وہ احمدی مسلمان کہلانے کے قابل نہیں۔ اور اب اس مسجد کے بعد احمدی مسلمانوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری ہو گئی ہے کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھیں۔ ان کی تکلیفوں کا خیال رکھیں۔ اور کسی بھی قسم کی نہ روحانی، نہ مادی تکلیف ان کو پہنچائیں اور جب یہ ہو گا تو تبھی اس نام کا بھی پاس کرنے والے ہوں گے اور اس کا اظہار کرنے والے ہوں گے جو کہ اس مسجد کا نام ہے یعنی کہ عافیت۔

اللہ تعالیٰ کی بھی ایک صفت عافیت ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی عافیت میں انسان آتا ہے تو ہر شر سے محفوظ ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا کہ مَیں اپنے بندوں کو یہ کہتا ہوں کہ جو میری صفات ہیں ان کو تم اپنی اپنی استعداد کے مطابق اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت عافیت جو ہے یہ ہم سے مطالبہ کرتی ہےکہ ہم احمدی جو اس علاقے میں رہتے ہیں اس شہر کے ہر باسی کو اور خاص طور پر ہمسایوں کو اپنی طرف سے جس حد تک عافیت میں رکھ سکتے ہیں، حفاظت میں رکھ سکتے ہیں ان کی حفاظت کریں اور کبھی بھی کوئی شر ہمارے سے ان کو نہ پہنچے۔ مجھے امید ہے کہ اگر یہ کام کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دلوں میں کچھ تحفظات ہیں، گو یہ کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے تعاون کیا، ہمسایوں نے بھی تعاون کیا، لیکن اس شہر کے بہت سے لوگ جماعت احمدیہ کو اس طرح نہیں جانتے جس طرح کہ باقی شہروں میں تعارف ہے۔ یہ بھی مجھے بتایا گیا ہے۔ تو اس مسجد کے بننے سے یہ مزید تعارف بڑھے گا۔

جو قائمقام لارڈ میئر محترمہ نے اظہار کیا کہ مسجد کی مثال ہیرے کی ہے اور میرا خیال ہے غالباً انہوں نے ہی کہا تھا۔ اور یہ ہیرا یقیناً ہے۔ لیکن اگر احمدی مسلمان اس ہیرے کی پہچان کروانے والے ہوں گے تبھی ہیرا نظر آئے گا۔ اگر اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کریں گے، اگر اپنے شہر میں ہم فتنہ و فساد پیدا کرنے والے ہوں گے تو لوگ کہیں گے جس کو ہم ہیرا سمجھے تھے یہ تو جعلی چیز نکلی۔ پس اس مسجد کے بننے سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ جہاں مَیں آپ مہمانوں کو کہوں گا کہ آپ بے فکر رہیں، آپ کو کسی قسم کی تکلیف انشاء اللہ احمدی مسلمانوں سے نہیں پہنچے گی بلکہ مسجد ایک امن اور سلامتی اور پیار اور محبت کا symbol بن کر ابھرے گی۔ وہاں احمدیوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور ہمسایوں کے حقوق بہت وسیع ہیں۔ اس حد تک وسیع ہیں کہ بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس حد تک ہمسایوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک وقت میں مَیں سمجھا تھا کہ شاید وراثت میں بھی ہمسائے کا حق شامل کر لیا جائے گا۔ پس یہ اہمیت ہے اسلام میں ہمسائے کی۔ جب یہ اہمیت ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم ہمسایوں کی تکلیفوں کو دُور کرنے کے لئے، دوسرے مذاہب کے ساتھ مل جل کر کام کریں گے۔ اور ہماری طرف سے کوئی خوف اور کوئی اس قسم کی شر کی امید نہیں رکھنی چاہئے کہ شاید یہ بھی باہر کے مسلمانوں کی طرح نہ ہوں کیونکہ مسلمان آجکل بدنام ہیں۔ ایک مقرر نے مثالیں دیں بیلجیم میں ظلم کی، قتل کی، سٹاک ہوم میں ظلم کی، حملے کی، لندن میں حملے کی لیکن یہی چیزیں اسلام کے نام پر بعض مسلمان اپنے ملکوں میں کر رہے ہیں۔ مسلمان مسلمان کو بھی قتل کر رہے ہیں۔ تو یہ نہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو قتل کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے جو بھی سامنے آتا ہے جو کہ ان سے اختلاف کرنے والا ہے اس کو قتل کرتے ہیں۔ اس لئے بے شمار مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو رہے ہیں۔ پس آج اگر دنیا کو ضرورت ہے تو پیار اور محبت اور بھائی چارے کی، اُس نعرے کی جو ہم لگاتے ہیں۔’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘۔ اور یہی نعرہ ہے اگر اس کو ہم سمجھ سکیں تو پھر مسلمان مسلمان کے بھی حق ادا کرے گا اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حق ادا کرے گا۔ اور اصل بنیاد یہ ہے جو بانیٔ جماعت نے کہا کہ میرے آنے کے مقصد دو ہیں جس کی وجہ سے مَیں اپنی جماعت قائم کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ بندے کو یہ بتاؤں کہ ایک خدا ہے اور تم اس خدا کو مانو اور اس کی عبادت کا حق ادا کرو جس طریقے سے بھی ادا کر سکتے ہو اور اس کے قریب آؤ۔ دوسرے یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق پہچانے قطع نظر اس کے کہ کوئی عیسائی ہے، یہودی ہے، ہندو ہے یا کوئی اور مذہب ہے یا مسلمان ہے۔ ہر انسان کے حقوق ہیں اور ایک انسان کو قطع نظر اس کے مذہب کے اس کا حق ادا کرنا چاہئے اور جب بھی اسے خدمت کی ضرورت ہو اس کی خدمت کرنی چاہئے۔

اللہ کرے کہ ہم احمدی اس شہر میں بھی اس بات پر عمل کرنے والے ہوں اور آپ لوگوں کی صحیح خدمت کرنے والے ہوں اور یہاں کے لوگ جن کے دل میں ذرا سے بھی تحفظات ہیں ان کے تحفظات دور ہوں اور وہ سمجھیں کہ احمدی مسلمان حقیقت میں پیار محبت اور بھائی چارے کے symbol ہیں۔ شکریہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button