حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ مورخہ 05؍مئی 2017ء

(خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 05؍مئی 2017ء بمطابق05؍ہجرت 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے)

ہم جو احمدی کہلاتے ہیں حقیقی احمدی اُسی وقت بن سکتے ہیں
جب ہم عارضی اور دنیاوی خواہشات اور لذّات کو اپنا مقصد نہ بنائیں

اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں یقیناً مومنوں کے لئے جائز ہیں بشرطیکہ جائز ذریعہ سے حاصل کی جائیں
اور وہ دین کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے راستے میں روک نہ بنیں۔ عبادتوں میں روک نہ بنیں۔

حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔

قرآن و حدیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں دنیاوی لہو و لعب اور تفاخر
اور تکاثر فی الاموال والاولاد میں مبتلا ہونے سے بچنے اور حسنات الدنیا کے حصول کے بارہ میں اہم نصائح

مکرم بشارت احمد صاحب ابن مکرم عبد اللہ صاحب آف خانپور ضلع رحیم یار خان
اور مکرمہ پروفیسر طاہرہ پروین ملک صاحبہ آف لاہور کی شہادتوں کا تذکرہ۔ ہر دو شہداء کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔(الحدید21:) اس کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! جان لو کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل ہے اور دل بہلاوا ہے اور زینت حاصل کرنے اور آپس میں فخر کرنے اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں بڑائی جتانے کا ذریعہ ہے۔ اس کی حالت بادل سے پیدا ہونے والی کھیتی کی سی ہے جس کا اُگنا زمیندار کو بہت پسند آتا ہے اور وہ خوب لہلہاتی ہے مگر آخر تُو اس کو زرد حالت میں دیکھتا ہے پھر اس کے بعد وہ گلا ہوا چُورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں ایسے دنیاداروں کے لئے سخت عذاب مقرر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضائے الٰہی مقرر ہے اور ورلی زندگی صرف ایک دھوکے کا فائدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ اس طرف توجہ دلائی ہے بلکہ تنبیہ کی ہے کہ اس دنیا کی ظاہری زندگی اور اس کی آسانیاں، اس کی آسائشیں، اس کا مال و متاع یہ سب عارضی چیزیں ہیں اور ان کی حیثیت کھیل کود اور دل بہلاوے کے سامان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے غافل اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل انسان تو ان چیزوں اور ان باتوں کی طرف جھک سکتا ہے جو دنیا داری کی باتیں ہیں لیکن ایک مومن جس کے اعلیٰ مقاصد ہیں اور ہونے چاہئیں وہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اور بلند ہو کر سوچتا ہے۔ اور اعلیٰ مقاصد کو اور اللہ تعالیٰ کے قُرب اور اس کے پیار کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم جو اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آئے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کی جماعت میں شامل ہونے اور آپ کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری سوچ یقیناً بہت بلند ہونی چاہئے۔ ہم جو احمدی کہلاتے ہیں حقیقی احمدی اُسی وقت بن سکتے ہیں جب ہم عارضی اور دنیاوی خواہشات اور لذّات کو اپنا مقصد نہ بنائیں بلکہ دنیا جو آجکل ان لذات میں گرفتار ہے اور قدم قدم پر شیطان نے اپنے ایسے اڈے بنائے ہوئے ہیں جو ہر شخص کو جو اس دنیا میں رہتا ہے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس سے پوری کوشش کر کے ہمیں بچنا چاہئے۔ ہمارا مقصد دنیاوی دولت کے حصول کے لئے اور دنیاوی لذات سے فائدہ اٹھانا کبھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان چیزوں کا انجام اچھا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دنیاوی چیزوں کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے یہ پھلنے پھولنے والی فصل کی طرح ہیں مگر آخر کو سوکھ کر چُورا ہو جاتی ہیں اور تیز ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اسی طرح دنیاداروں کا انجام ہوتا ہے۔ نہ ان کے اموال کی کثرت، ان کے مال و دولت ان کے کام آتے ہیں۔ نہ ان کی اولادیں ان کے کام آتی ہیں۔ بعض تو اس دنیا میں ہی اپنے مال و اولاد سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر کسی کا ظاہری انجام دنیاوی لحاظ سے بہتر لگتا بھی ہے تو آخرت میں جو اُن کا حساب کتاب ہونا ہے وہ صرف دنیاوی لہو و لعب میں پڑنے کی وجہ سے اور خدا تعالیٰ اور دین کا خانہ خالی چھوڑنے اور خالی ہونے کی وجہ سے اور اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے انہیں عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ہاں بعض کی بعض نیکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ کر ان سے مغفرت کا سلوک فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے تحت بعض لوگ اپنی بعض نیکیوں کی وجہ سے اس کی رضا، رضائے الٰہی حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم یہ یاد رکھو کہ اس زندگی کو سب کچھ نہ سمجھو۔ اصل زندگی مرنے کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، انجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے حکموں پر چلنا ضروری ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے تو نہ صرف انجام بخیر ہوتا ہے بلکہ یہ دنیا بھی اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضرور فرماتا ہے کہ ان دنیاوی چیزوں کے حصول میں اتنا نہ ڈوب جاؤ کہ تمہیں دینی فرائض اور اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہی نہ رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے‘‘۔ (صرف دنیا ہی ان کے مدنظر نہیں ہوتی۔ اور جب یہ نہیں ہوتا تو فرمایا کہ) ’’اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے‘‘ اور پھر فرماتے ہیں۔ ’’جو لوگ برخلاف اِس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کرلیں مگر آخر ذلیل ہوتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 7صفحہ 317۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

یہ بات جو آپ نے فرمائی یہ صرف اس زمانے کی یا پرانی بات نہیں ہے بلکہ آجکل بھی جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کا مالی نظام بڑا مستحکم ہے اور نہ صرف یہ بلکہ بڑے بڑے بینک بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ ہوتا ہے کہ بینکوں کے سہارے کاروبار اور تجارت کرنے والے اپنے کاروباروں اور تجارتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بینک بھی انتہائی نقصان پر جانا شروع ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں روز خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔ کہیں بینکوں نے اپنے ملازمین کو نکال دیا ہے، اس میں کمی کر رہے ہیں۔ کہیں شہروں میں اپنی برانچیں بند کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کو فارغ کرتی ہیں۔ کئی کمپنیوں کو ان کے ملازمین اور پھر بینک بھی جنہوں نے قرضے دئیے ہوتے ہیں عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں جہاں ان کو اپنے کاروباروں کو دیوالیہ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو bankrupt ڈیکلیئر(declare) کرنا پڑتا ہے۔ ان کی جائیدادیں فروخت ہو جاتی ہیں اور وہ کوڑی کوڑی کے محتاج بھی ہو جاتے ہیں۔ 2008ء میں جو معاشی انحطاط ہوا اس کے اثرات ابھی تک چل رہے ہیں۔ بڑے بڑے کاروبار دیوالیہ ہو گئے حتی کہ حکومتیں بھی متاثر ہوئیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک سمجھتے تھے کہ ہماری یہ دولت کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی لیکن ہو گئی۔ ہوا کیا ان کے ساتھ؟ وہاں بھی حکومتوں کو اپنے اخراجات کم کرنے پڑے۔ اپنے ملازموں کو نکالنا پڑا۔ مسلمان ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جس دولت سے نوازا اسے وہاں کے بادشاہوں اور حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنانے کے اپنی عیاشیوں میں لٹایا اور لٹا رہے ہیں۔ جس تیل کی دولت اور دوسری دولت سے انسان کو بچانے اور غریب مسلمان ملکوں اور دوسرے ملکوں کو بھی پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے، اپنے ملکوں کے بھوکوں اور ننگوں کی بھوک اور ننگ ختم کرتے، اس طرف انہوں نے توجہ نہیں دی اور اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مصروف ہو گئے اور ابھی تک یہی حال ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دنیا کے سامنے بھی ذلیل ہو رہے ہیں لیکن سمجھتے نہیں اور اس آخرت پر بھی نظر نہیں کر رہے جس کے عذاب سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے جو سخت اور ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دولت چاہے وہ افراد سے تعلق رکھنے والی ہے یا بڑے بڑے بزنس مَین یا بزنس کی کمپنیوں سے تعلق رکھنے والی ہے یا اس سے حکومتوں کا تعلق ہے۔ اس کا غلط استعمال اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں لاتا ہے۔ چاہے تو وہ اس دنیا میں اور اگلے جہان میں دونوں جگہ عذاب دے۔ چاہے تو لوگ اس دنیا میں عارضی فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور وہ اگلے جہان میں عذاب دے۔

پس بڑے خوف کا مقام ہے جو ہر عقلمند انسان کو ایک حقیقی مسلمان کو، خاص طور پر اس کو جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور صرف ظاہری طور پر ہی نہیں بلکہ عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے کے لئے ایک درد اور کوشش ہونی چاہئے۔ کہنے والے تو کہہ دیں گے کہ ہم تو نمازیں بھی پڑھتے ہیں، عبادتیں کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں اگر ان کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ ایک تو عبادتوں میں اخلاص و وفا ہونا چاہئے۔ یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری عبادتیں بھی اخلاص و وفا والی ہونی چاہئیں۔ دوسرے نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق بھی ادا کرنے چاہئیں۔ ہمارے ہاں کیا ہے؟ ملکوں کے بادشاہ سیروں پر جانے کے لئے جہازوں کا بیڑا ساتھ لے کے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سازو سامان ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کئی ملین ڈالر کے اخراجات ان کے اوپر ہوتے ہیں۔ اور اپنے ملک کے غریب ایسے بھی ہیں جن کو بعضوں کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے مل رہی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دُوری ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا اور دوسرے اس کا نام لے کر پھر اس کے جو حکم ہیں ان سے انکار کرنا، یہ پھر اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بناتا ہے۔ اور یہ لہو و لعب ہے۔ ظاہری کھیل کود ہے اور ظاہری زینت اور تفاخر ہے۔ اپنے مال کا ناجائز اظہار ہے۔

اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 420۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اور ایسے لوگوں کی نمازوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون5:) کہ ایسے نمازیوں پر ہلاکت ہو۔ اور حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ ایسی عبادتیں اور ایسے کام ہم سے چاہتا ہے جو ہماری روحانی حالت میں بہتری پیدا کرنے والے ہوں۔ بندوں کے حقوق اس جذبے کے تحت ہم ادا کرنے والے ہوں جو ہمارے اندر درد پیدا کریں ،نہ کہ ہم کسی پر احسان کر رہے ہوں۔ اور ایسی عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو پھر جذب کرنے والی بنتی ہیں اور ایسی دولت بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کی مال و دولت اور دنیا کمانے سے منع نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں پیدا کی ہیں یقیناً مومنوں کے لئے جائز ہیں بشرطیکہ جائز ذریعہ سے حاصل کی جائیں اور وہ دین کے راستے میں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے راستے میں روک نہ بنیں۔ عبادتوں میں روک نہ بنیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت سے متعلق اس بات کی فکر تھی کہ جو پاک انقلاب آپ نے صحابہ میں پیدا کیا اور انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کو جس طرح سمجھا وہ آئندہ آنے والے مسلمانوں میں مفقود نہ ہو جائے، ختم نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اپنی امّت کے بارے میں جس بات کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں (مجھے خطرہ ہے، خوف ہے یا فکر ہے۔ خوف تو نہیں فکر ہے) وہ یہ ہے کہ میری امّت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی اور ان خواہشات کی پیروی کے نتیجہ میں وہ حق سے دُور چلی جائے گی۔ دنیا کمانے کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ دنیا رختِ سفر باندھ چکی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے۔ دونوں طرف سے سفر شروع ہے۔ دنیا اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے۔ آخر قیامت آنی ہے اور آخرت میں بھی حساب کتاب ہونا ہے وہاں بھی تیاری شروع ہے۔ اَور فرمایا کہ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں۔ دنیا کے بھی کچھ غلام ہیں۔ کچھ آخرت کی فکر کرنے والے بھی ہیں۔ فرمایا پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنو تو ضرور ایسا کرو۔ تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا۔ مگر کل تم آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہو گا۔ (بحار الانوار از الشیخ محمد باقر مجلسی الجزء التاسع والستون کتاب الایمان والکفر حدیث 63 صفحہ 263-264 مطبوعہ الامیرۃ بیروت 2008ء)

جو عمل ہونے ہیں جن کا نتیجہ ملنا ہے وہ اسی دنیا میں ملنا ہے۔ اس لئے اپنے اعمال ٹھیک کرو۔

پس یہ دنیا عمل کا گھر ہے اس دنیا کے اعمال اگلے جہان میں جزا یا سزا کا ذریعہ بنیں گے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ دنیا محض لہو و لعب ہے اور زینت کے اظہار اور ایک دوسرے پر اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے فخر کرنا ہے۔ اور اس کی حیثیت کیا ہے؟ کسی سوکھے ہوئے گھاس پھوس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ جو خشک ہوتا ہے اور چُورا چُورا ہو جاتا ہے اور ہوائیں اس کو اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ نیک عمل کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو۔

صحابہ رضوان اللہ علیہم ہر وقت اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اور کون سے ذریعہ سے ہم سیکھیں اور سمجھیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنائیں اور نیک عمل کرنے والے بنائیں۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھتے بھی تھے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا کام بتائیے جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ مجھے چاہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ہو جائے اور بندے بھی مجھے پسند کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے یعنی دنیاوی مال و متاع۔ اس کی خواہش چھوڑ دو۔ لوگوں کی طرف حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگوں کے مالوں کو حریص نظر سے نہ دیکھو۔ لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4102)

دنیا سے بے رغبتی یہ نہیں ہے کہ معاشرے سے انسان کٹ جائے یا دنیا سے بالکل کٹ جائے۔ شادی بیاہ بھی نہ کرو۔ اولاد کے حقوق بھی ادا نہ کرو۔ بیوی کے حق بھی ادا نہ کرو۔ جس کاروبار میں ہو اس کو بھی چھوڑ دو اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاؤ۔ دنیاوی کاموں میں محنت نہ کرو۔ سادھو بن جاؤ۔ ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں۔ اسلام یہ نہیں چاہتا۔ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ہے۔ آپ نے شادی بھی کی۔ آپ نے بیویوں کے حق بھی ادا فرمائے۔ آپ کی اولاد بھی ہوئی۔ آپ نے اولاد کے حق بھی ادا فرمائے۔ آپ کے پاس مال و دولت بھی آیا۔ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس ہوتے تھے جو روایتوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ آپ نے بغیر کسی فکر کے ایک کافر کو دے دئیے کہ اگر تمہیں اتنے ہی پسند ہیں اور اتنی حرص سے دیکھ رہے ہو تو اسے لے جاؤ اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی سخائہ ﷺ حدیث 6020)

لیکن آپ نے ان ساری چیزوں کے ہونے کے باوجود اللہ اور بندوں کے حق ادا کئے اور ان چیزوں کو صرف سامنے نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا میری سنّت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ سادھو نہیں بن جانا۔ دنیا میں بھی رہنا ہے۔ ان چیزوں کو سامنے بھی رکھنا ہے کیونکہ میں یہ کرتا رہا ہوں۔ (سنن النسائی کتاب النکاح باب النھی عن التبتل حدیث 3219)

پس ہمیں سمجھنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ہماری عبادتوں میں آڑے نہ آئے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے نہ روکے۔ مال و دولت کی کمائی میں مصروفیت ہمیں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے سے غافل کرنے والی نہ ہو اور اسی طرح دوسرے کی دولت اور جائیداد پر حرص کی نظر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ حرص کی نظر ہی ہے جو پھر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی سوچ بھی پیدا کرتی ہے اور دنیا میں جو فساد ہے وہ بھی اسی حرص کی وجہ سے ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں چھوٹے ملکوں پر صرف اس لئے نظر رکھ رہی ہیں کہ یہ ہمارے زیرِ نگیں ہوں گے اور ان کی جو دولت ہے، ان کے جو قدرتی وسائل ہیں ان سے ہم فائدہ اٹھائیں۔ پس جب دوسروں کی دولت پر نظر ہو تو دنیا میں یہ فساد بھی اسی لئے پیدا ہوتا ہے چاہے وہ افراد کے درمیان میں ہو یا بڑی حکومتوں کے درمیان میں ہو۔ اس لئے فرمایا تم میں قناعت پیدا ہونی چاہئے۔ دوسروں کو حرص سے نہ دیکھو۔ ہاں اپنی صلاحیتوں اور اپنے ہنر کو کام میں لاؤ۔ محنت کرو۔ اور جب انسان محنت کرے تو پھر دولت کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ مال اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے میں بھی روک نہ بنے۔

دنیا کی بے رغبتی کی وضاحت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے۔ فرمایا کہ دنیا سے بے رغبتی اور زُہد یہ نہیں کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے۔ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام کرنا یہ دنیا سے بے رغبتی کا مطلب نہیں ہے۔ اور نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہے اس کو برباد کر دو۔ فرمایا بلکہ زُہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو۔ اپنے مال پر اعتماد نہ رکھو۔ اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہو۔ اس پر توکل ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر و ثواب ملنا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعۂ ثواب سمجھو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الزھد فی الدنیا حدیث 4100)

انسان پر مصیبتیں آتی ہیں۔ مشکلات آتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جو مال ضائع ہوا ہے اس کے اوپر رونے دھونے نہ لگ جاؤ بلکہ سمجھو کہ اس وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے اور اس کا بھی مجھے ثواب ملے گا۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ دنیاوی مالوں کے نقصان پر اتنی جزع فزع انسان نہ کرے جس سے شرک کی بُو آنے لگے۔ کئی کاروباری لوگ ہوتے ہیں جو مالی نقصان پر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ پر توکّل ہو اور قناعت ہو تو کبھی یہ حالت پیدا نہیں ہوتی۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سے، مومنین سے، اپنی اُمّت کے افراد سے زُہد اور دنیا سے بے رغبتی کے یہ معیار چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے یہ ادراک عطا فرمایا ہے کہ دنیا کے نقصان ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے بڑھ کر رجوع کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اور بعض اور جگہوں پر بھی احمدیوں کے لاکھوں اور کروڑوں کے کاروبار مخالفین نے تباہ کئے اور جلائے بلکہ ایک وقت میں پاکستان کے ایک وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا اور اب یہ مانگتے پھریں گے کیونکہ میں نے کشکول پکڑا دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھنے والے ان احمدیوں نے نہ حکومت سے مانگا، نہ کشکول لے کر کسی اَور سے مانگا بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کی وجہ سے اُن کا ہزاروں اور لاکھوں کا جو کاروبار تباہ ہوا تھا وہ کروڑوں میں بدل گیا۔

پس یہ مثالیں جہاں احمدیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ہیں وہاں اپنے حالات کی وجہ سے باہر نکلے ہوئے احمدیوں کے لئے، دوسرے ممالک میں، ترقی یافتہ ممالک میں آئے ہوئے احمدیوں کے لئے یہ احساس پیدا کرنے والی بھی ہونی چاہئے کہ پاکستان سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ نے جو مالی لحاظ سے بہتری عطا فرمائی ہے یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ پس جب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی برکت کی وجہ سے ہے تو پھر ہمارے بہتر حالات کسی قسم کے تفاخر کا ذریعہ نہیں ہونے چاہئیں۔ ہمیں اس پر کوئی فخر نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں مال اور دولت پر دنیاداروں کی طرح گرنا نہیں چاہئے۔ ہمیں حریص نظر سے دوسروں کے مال کو دیکھنا نہیں چاہئے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر کسی چیز کو رشک کی نگاہ سے دیکھنا ہے تو دینی لحاظ سے اپنے سے بہتر کو ہمیں دیکھنا چاہئے۔ (سنن الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع باب منہ حدیث 2512)۔ اور اسے دیکھ کر پھر دینی لحاظ سے ویسا بننے کی کوشش کرنی چاہئے یا اس سے بھی بہتر بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بڑی تفصیل سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ہمیں دنیا کے شغلوں اور مالوں کو کس حد تک اپنانا چاہئے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سمجھتے ہوئے سب سے زیادہ فہم اور اِدراک تو آپ کو تھا۔

چنانچہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے دنیا کے شغلوں کو جائز رکھا ہے کیونکہ اس راہ سے بھی ابتلاء آتا ہے۔‘‘ (مطلب یہ ہے اگر دنیاوی کام کوئی نہیں کر رہا۔ مالی حالات بہت برے ہیں تو تب بھی ابتلاء آ جاتا ہے۔ انسان مشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ اسی ابتلاء کی وجہ سے انسان پھر چور بھی بن جاتا ہے۔ قمار باز بھی بن جاتا ہے۔ جؤا کھیلنے لگ جاتا ہے۔ ٹھگ بن جاتا ہے۔ ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بری عادتیں اختیار کر لیتا ہے۔ مالی کمزوری بھی برائیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔) فرمایا ’’مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ دنیوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لئے مدد کا سامان پیدا کر سکیں اور مقصود بالذات اس میں دین ہی ہو‘‘۔ (یعنی اس سے تمہارا مقصد دین حاصل کرنا ہو۔ یعنی کہ دین کبھی بھی ثانوی حیثیت نہ رکھے۔ دنیا کماؤ، دنیا سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کا تقویٰ تمہارے سامنے ہو۔ دین کی تعلیم تمہارے سامنے ہو۔) فرمایا کہ ’’پس ہم دنیوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ دن رات دنیا کے دھندوں اور بکھیڑوں میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کا خانہ بھی دنیا ہی سے بھر دو۔‘‘ (یعنی خدا یاد ہی نہ رہے۔ عبادتوں کے وقت بھی دنیاوی چیزوں میں ملوّث ہو۔ نمازوں کے وقت میں انٹرنیٹ پر مصروف ہو۔ فلمیں دیکھنے میں مصروف ہو یا کوئی اور دنیاوی پروگرام دیکھ رہے ہو۔ یہ نہیں۔) فرمایا کہ ’’اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے۔‘‘ (پھر دعویٰ ہے، حقیقت کی بیعت نہیں ہے۔ ایمان نہیں ہے۔) ’’الغرض زندوں کی صحبت میں رہو تاکہ زندہ خدا کا جلوہ تم کو نظر آوے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 73۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کوئی غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔ یہ بزدلوں کا کام ہے۔‘‘ (دنیا سے ہٹ کے رہو گے تو یہ بھی بزدلوں کا کام ہے۔) ’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں‘‘ (کہ دنیا کے تعلقات بھی ہوں لیکن دنیا مقصود بھی نہ ہو) ’’کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتی ہے، نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر۔ ‘‘

پھر اس تسلسل میں آپ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی اس دعا کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً(البقرۃ202:) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً ۔ اس میں بھی دنیا کو مقدّم کیا ہے۔ لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کو۔‘‘اس دنیا کی حسنات کو، ایسی دنیا کو’’ جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جاوے۔ اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصولِ میں حسناتُ الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصولِ دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو، نہ ہم جنسوں میں کسی عار و شرم کا باعث۔ ایسی دنیا بیشک حَسَنَۃُ الْآخِرَت کا موجب بن جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 91-92۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر عذاب اور جہنم کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’سمجھنا چاہئے کہ جہنم کیا چیزہے؟ ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے اور دوسرے یہ زندگی بھی اگر خدا تعالیٰ کے لئے نہ ہو تو جہنم ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لئے متولّی نہیں ہوتا۔ یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت، مال و عزت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟‘‘ (یعنی یہ چیزیں سکینت کا موجب نہیں ہوتیں نہ ان سے جنت ملتی ہے۔) فرمایا ’’ہرگز نہیں‘‘۔ (ایسی چیزیں بہشت نہیں مہیا کرتیں۔ فرمایا کہ) ’’وہ اطمینان اور وہ تسلی اور تسکین جو بہشت کی انعامات میں سے ہیں ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے۔‘‘ (وہ تبھی مل سکتی ہے جب ہر وقت اللہ تعالیٰ سامنے ہو۔ دنیاوی حسنات بھی انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق حاصل کرے تو آخرت کی حسنات بھی تبھی مل سکتی ہیں۔ اور وہ خدا جب تک سامنے نہ ہو اور ہر وقت یہ خیال نہ ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اس وقت تک انسان پھر عمل بھی نہیں کر سکتا۔ )فرمایا ’’جس کے لئے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی یہی وصیت تھی کہ لَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ(البقرۃ133:)۔‘‘ (کہ ہرگز نہیں مرو مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے اب انسان کو تو نہیں پتا۔ نہ مرنا اور جینا انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام پر نظر ہو اور آخرت کی فکر ہو۔) فرمایا ’’لذّاتِ دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ (دنیا کی لذّات کیا ہیں۔ دنیا کی طلب اور پیاس کو بڑھانے والی ہیں۔) ’’استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی۔‘‘ (جس طرح ایک مریض جس کو پیاس کی بیماری ہو اور پانی پیتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ پانی پی پی کے ختم ہو جاتا ہے اور اس کی پیاس نہیں بجھتی اسی طرح دنیا کی طلب کا معاملہ ہے۔ دنیا کی طلب تو کبھی ختم ہی نہیں ہو گی) فرمایا ’’یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بے جا آرزوؤں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کے ہے۔‘‘ (دنیاوی آرزوئیں ہیں۔ حسرتیں ہیں تو یہ بھی آگ ہے اور یہ جہنم ہے۔) فرمایا کہ ’’جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطان و پیچان رکھتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند (بیوی اور بچے) کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور ازخود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میںایک حجاب پیدا ہو جاوے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ سے دُوری نہ پیدا ہو جائے ان چیزوں کی وجہ سے۔) فرمایا کہ ’’مال اور اولاد اسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے۔ ان سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ نَارُ اللہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ(الہمزۃ7:تا8)‘‘ (یعنی اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جا پہنچتی ہے)۔ فرمایا کہ ’’منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے۔ یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 101-102۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ کے علاوہ بھی کوئی محبت ہے تو وہ آگ بن جاتی ہے۔ اس دنیا میں جہنم بن جاتی ہے۔

پس ہمیں ان ملکوں کی آسائشیں اور آرام خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل کرنے و الے نہ ہوں۔ اس کے حق ادا کرنے سے محروم کرنے والے نہ ہوں۔ ہمارے اچھے حالات، ہمارے بہتر مالی حالات جو ہیں ہمیں اپنے کمزور مالی حالات رکھنے والے بھائیوں کے حق ادا کرنے سے کبھی محروم کرنے والے نہ ہوں۔ اسی طرح اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھی ہم اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں۔ نہ کہ اس مقصد کو بھول جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کئے جائیں اور بندوں کے بھی حق ادا کئے جائیں اور تبلیغ کا جو حق ہے، اشاعت اسلام کا جو مقصد ہے اس کو پورا کیا جائے۔ اسی سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا مقصد ہم پورا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہیں اور اس دنیا کی دھوکے والی زندگی کبھی ہم پر حاوی نہ ہو۔ ہم اس دنیا کی جہنم سے بھی بچنے والے ہوں اور آخرت کی جہنم سے بھی بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا ہمارے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنا دے اور آخرت میں بھی ہم جنت حاصل کرنے والے ہوں۔

ابھی نماز کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ مکرم بشارت احمد صاحب ابن مکرم محمد عبداللہ صاحب خانپور ضلع رحیم یار خان کا ہے جن کو 3؍مئی کو شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ بشارت احمد صاحب شہید کا گھر خانپور میں گرین ٹاؤن میں ہے اور ان کا کاروبار ان کا پٹرول پمپ تھا جو چار پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ 3؍مئی کو یہ رات کو آٹھ بجے حسب معمول اپنے پٹرول پمپ سے موٹر سائیکل پر گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ ابھی ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ نامعلوم افراد نے روک کر بڑے قریب سے آپ کو گولی ماری جو دائیں طرف کی کنپٹی کے قریب سے لگ کر دوسری طرف نکل گئی جس سے موقع پر ہی آپ شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دس منٹ بعد ان کے داماد بھی پٹرول پمپ سے گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں جا کے انہوں نے دیکھا کہ رستے میں لوگ کھڑے ہیں، رَش پڑا ہے۔ یہ بھی رکے۔ دیکھا تو ان کے سسر وہاں گرے پڑے تھے۔ انہوں نے فوری طور ایمبولینس بلائی لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی شہید کی وفات ہو چکی تھی۔ ان کے داماد پہلے تو یہی سمجھتے رہے کہ یہ سڑک کا کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے لیکن بعد میں رات کو ایک احمدی ڈاکٹر نے دیکھا اور پھر بتایا کہ یہ تو ان کی کنپٹی پہ گولی لگی ہوئی ہے۔ پھر دوبارہ پولیس کو بتایا گیا۔ پھر پوسٹ مارٹم ہوا اور پھر پولیس نے یہی کہا کہ یہ ٹارگٹ کلنگ(target killing) ہے اور احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کو شہید کیا گیا ہے۔ وہاں جائے وقوعہ سے پولیس نے بعد میں جا کے پھر گولی کے خول بھی حاصل کر لئے۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم محمد عبداللہ صاحب کے ذریعہ سے ہوا۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر پاکستان بننے سے پہلے بیعت کی تھی اور 1947ء میں آپ کا خاندان قادیان سے ہجرت کر کے میانوالی پاکستان شفٹ ہو گیا۔ 1955ء میں بھکر میں ان کی (شہید کی) پیدائش ہوئی تھی۔ وہیں اپنے گاؤں میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر اس کے بعد چنیوٹ، احمد نگر ربوہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد تربیلا ڈیم میں آپ نے کچھ عرصہ ملازمت کی۔ پھر کچھ عرصہ کے لئے آپ دبئی چلے گئے۔ وہاں سے واپس آ کر کراچی رہائش اختیار کی اور وہاں کاروں وغیرہ کا اپنا کچھ کاروبار کیا اور 1985ء میں کراچی کے خراب حالات کی وجہ سے خانپور شفٹ ہو گئے اور وہاں اپنا پٹرول پمپ بنایا۔ شہید مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 62 سال تھی۔ مختلف عُہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ تین سال تک صدر جماعت خانپور رہے ۔ ایک لمبا عرصہ سیکرٹری امور عامہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ بیشمار خوبیوں کے حامل تھے۔ انتہائی مخلص ہنس مکھ انسان تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ جو بھی جماعتی ذمہ داری ان کو دی جاتی اس کو پوری محنت اور شوق سے انجام دیتے۔ جماعت احمدیہ کی خانپور مسجد جو ہے وہاں بھی اس کی نگرانی وغیرہ کے کافی کام کرتے تھے اور اس کو بڑا صاف ستھرا رکھنا، اس کے لان وغیرہ کا خیال رکھنا، صفائی کا انتظام کرنا، پودے لگانا سب کچھ اپنی جیب سے یہ کرتے رہے۔ چندہ دینے میں بڑے باقاعدہ تھے۔ اسی طرح اپنے خاندان کے چندہ دینے میں باقاعدہ تھے اور لین دین کے معاملے میں ہمیشہ صاف تھے۔ نمازوں کی پابندی ان کی ہمیشہ رہی۔ خلافت سے بڑا تعلق تھا اور بچوں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ خلافت سے جڑے رہنا۔ ان کی اہلیہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ہمیشہ احمدیت سے وابستہ رکھے۔

دوسرا جنازہ پروفیسر طاہرہ پروین ملک کا ہے جو ملک محمد عبداللہ صاحب مرحوم کی بیٹی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں یہ پروفیسر تھیں۔ ان کو 17؍اپریل کو ان کی یونیورسٹی کے ایک ملازم نے ہی چاقو سے وار کر کے شہید کر دیا۔ گو کہ چوری کی نیت سے وہ آیا تھا اور جب کچھ دیکھا کہ انہوں نے دیکھ لیا ہے تو اس وجہ سے (شہید) کیا۔ لیکن پاکستان میں احمدی ہونا تو دوسروں کو ویسے ہی ایک لائسنس دے دیتا ہے کہ تم بیشک ان کو مار دو تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اور اسی وجہ سے اس ملازم میں بھی جرأت پیدا ہوئی اور جب اس نے دیکھا کہ میں پکڑا گیا ہوں۔ اور یہ گھر میں اکیلی رہتی تھیں تو چاقو کے وار کر کے ان کو شہید کر دیا۔ ان کے خاوند اور خاوند کا خاندان جماعت سے دُور ہو گیا تھا اور اسی وقت سے انہوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اکیلی رہتی تھیں۔ بہت لائق تھیں۔ گزشتہ سال ریٹائر ہونے کے باوجود یونیورسٹی نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو ری ایمپلائی کیا ہوا تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا حضرت ملک حسن محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی تھی۔ ان کے والد ملک عبداللہ صاحب بھی واقف زندگی تھے اور لمبا عرصہ ان کو مختلف دفاتر میں بڑی خدمت کی توفیق ملی اور تعلیم الاسلام کالج میں بھی دینیات پڑھانے کی توفیق ملی۔ قیام پاکستان کے وقت ان کے والد کو شعبہ حفاظت میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1953ء میں ان کے والد اسیر بھی رہے تھے۔ بڑی لائق خاتون تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ربوہ سے حاصل کی۔ پھر اس کے بعد لاہور کالج فار ویمن سے بی۔ ایس۔ سی کیا۔ پھر زرعی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی اور پھر کیلیفورنیا سے انہوں نے بوٹنی(Botany) اور پلانٹ سائنس(Plant Science) میں ایم فِل کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ ہمیشہ ان کا جو صدمہ تھا وہ ان کی بیٹی تھی جو اپنے والد کے ساتھ ہی جماعت سے علیحدہ ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کو توفیق دے کہ دوبارہ جماعت میں شامل ہو جائے اور ان کی دعائیں اس کو لگیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا جنازہ بھی جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button