حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ مورخہ 28؍اپریل 2017ء

(خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28؍اپریل 2017ء بمطابق28؍شہادت 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا کہ ہر قسم کی شدت پسندی اور دہشت گردی اور ظلم اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔

اگر بعض لوگوں کے فعل یا ان کی حرکتیں اسلام کے نام پر دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی ہیں تو یہ اس تعلیم کی وجہ سے نہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی ہے بلکہ اس تعلیم سے دُور ہونے کی وجہ سے ہے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔

جب اس تعلیم کی روشنی میں دنیا کو امن ،بھائی چارے، صلح اور آشتی کا راستہ دکھاتے ہیں تو بے اختیار اکثر شریف الطبع غیر مسلموں کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار میرے جرمنی کے اس دورے کے دوران بھی مختلف فنکشنز میں ہوا جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد کے موقع پر تھا۔

جرمنی کے حالیہ دورہ کے دوران مساجد کے افتتاح اور سنگ بنیاد کی تقریبات میں شامل ہونے والے مہمانوں کے بعض تأثرات کا تذکرہ

جرمنی کے حالیہ دورہ کے دوران مساجد کے افتتاح اور سنگ بنیاد کی وسیع پیمانے پر میڈیا کوریج۔
ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک اندازے کے مطابق 39ملین افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلانے کا وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے اور جماعت کا بڑا تعارف ہوا ہے۔
یہاں یوکے میں جماعتی فنکشنز کے ذریعہ دنیا بھر میں اسلام کا تعارف ہوتا ہے۔

ماہ مارچ 2017ء میں یوکے میں ہونے والی پِیس کانفرنس کی میڈیا کوریج اور اس میں شامل ہونے والے مہمانوں کے تأثرات کا تذکرہ

الجزائر اور پاکستان اور دنیا کے ان ممالک کے احمدیوں کے لئے جہاں احمدیت کے خلاف زیادہ جوش اُبل رہا ہے خاص طور پر دعا کی تحریک۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


جب بھی مجھے دنیا کے پریس کے نمائندوں یا غیر مسلموں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، سوال جواب یا بات چیت کا موقع ملتا ہے تو کسی نہ کسی طریقے سے براہ راست یا بالواسطہ وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں دنیا میں جو خوف ہے اس کی کیا وجہ ہے اور یہ کس طرح دور ہو گا؟ بعض کھل کر اور بعض ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہہ دیتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ شاید اس کی وجہ اسلام کی تعلیم ہے۔ چنانچہ اس دفعہ بھی جرمنی میں ایک جرنلسٹ نے یہ سوال کیا کہ جرمنی میں اسلام سے خوف بڑھ رہا ہے اور پھر ہمارے سے ہمدردی کے رنگ میں یہ بھی کہا کہ اس وجہ سے جو غیر مسلم ہیں، یہاں کے مقامی لوگ ہیں وہ بھی مسلمانوں پر ظلم کر جاتے ہیں۔ وہ پوچھنے لگی کہ سوال یہ ہے کہ آپ کا کیا ردّ عمل ہے؟۔ اس پر آپ کیا ردّ عمل دکھاتے ہیں؟ تو یہ کوئی اس سے خاص نہیں کئی دفعہ پہلے بھی یہ سوال ہو چکا ہے اور یہی سوال جو ہے ہماری تبلیغ کے راستے کھولتا ہے کہ اگر یہ خوف بڑھ رہا ہے تو یہ بعض مسلمان کہلانے والے گروہوں یا افراد کا اسلام کے نام پر غلط حرکات کرنے اور شدّت پسند حملے کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور غیر مسلموں کا جو ردّ عمل ہے یا ان کے تحفظات ہیں وہ بھی ٹھیک ہیں کہ ان میں مسلمانوں کے بارے میں ایک خوف پیدا ہو رہا ہے لیکن ہمارا ردّ عمل کوئی منفی ردّعمل نہیں ہے۔ مَیں تو ہمیشہ ان کو یہی بتاتا ہوں کہ علماء یا نام نہاد علماء کی غلط تربیت کی وجہ سے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسے گروہ اور افراد ابھر رہے ہیں اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم حدیث 100)۔ اور ایسے وقت میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے آنے کی پیشگوئی ہے جنہوں نے اسلام کی صحیح تعلیم دنیا میں پھیلانی تھی اور ہمارے ایمان کے مطابق بانیٔ جماعت احمدیہ وہی موعود ہیں جن کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ پس ہمارا ردّعمل تو ان کی تعلیم کے مطابق ہے جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی کہ اسلام کی امن اور سلامتی کی تعلیم کو پھیلاؤ۔ چنانچہ اسی تعلیم کی روشنی میں ہم دنیا میں ہر جگہ کام کر رہے ہیں۔ ہاں شدت پسند گروہوں کے عمل اور ان مغربی ممالک میں بھی، غیرمسلم ممالک میں بھی دہشت گرد حملوں کی وجہ سے یہاں اسلام کی تعلیم کے متعلق جو تحفظات پیدا ہو چکے ہیں ان کو دُور کرنے کے لئے ہمیں زیادہ محنت کرنی پڑے گی اور اس کے لئے ہم کوشش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا کہ ہر قسم کی شدت پسندی اور دہشت گردی اور ظلم اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ آپ علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ ’’جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستباز یہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقا کے لئے ایک آبِ حیات ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں، اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں وہ اختیار کرو تبھی انسانی زندگی کی بقا ہے اور فرمایا کہ ’’اور انسانوں کی جسمانی اور روحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے کہ وہ خدا کے تمام مقدس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا چشمہ ہیں‘‘۔ پس اللہ تعالیٰ جو سلامتی کا چشمہ ہے وہ ایک مسلمان سے یہی چاہتا ہے اور یہی قرآن کریم کا حکم ہے کہ اس کی صفات کو اپنایا جائے، اس کے اخلاق کو اپنایا جائے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالَموں کا ربّ ہے‘‘۔ فرمایا ’’عَالَم کے لفظ میں تمام مختلف قومیں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں۔ ‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ440)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندے کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا ربّ ہے اور تمام زمانوں کا ربّ ہے اور تمام مکانوں کا ربّ ہے اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیوض کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے۔‘‘ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 442)

یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربّ العالمین کی تفصیل اور تشریح ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ پس جبکہ ہمارے خدا کے یہ اخلاق ہیں تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی اُنہیں اخلاق کی پیروی کریں۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ443)

پس یہی صفات، یہی اخلاق ایک حقیقی مسلمان کو اپنانے چاہئیں۔

پس یہ ہے وہ علم و معرفت جو قرآن کریم کی تعلیم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمائی اور یہی وہ نسخہ ہے جو دنیا میں امن و سلامتی پھیلانے کے لئے ضروری ہے اور یہی وہ بات ہے جو دنیا میں صلح کی بنیاد ڈال سکتی ہے اور یہی پیغام ہے جس کو جماعت احمدیہ کے افراد دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش کرنی چاہئے۔

پس اگر بعض لوگوں کے فعل یا ان کی حرکتیں اسلام کے نام پر دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی ہیں تو یہ اس تعلیم کی وجہ سے نہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی ہے بلکہ اس تعلیم سے دور ہونے کی وجہ سے ہے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔

پس ہم جب اس تعلیم کی روشنی میں دنیا کو امن، بھائی چارے صلح اور آشتی کا راستہ دکھاتے ہیں تو بے اختیار اکثر شریف الطبع غیر مسلموں کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اظہار میرے جرمنی کے اس دورے کے دوران بھی مختلف فنکشنز میں ہوا جو مسجدوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد کے موقع پر تھا۔

ایک شہر والڈ شُٹ (Waldshut) ہے وہاں مسجد تعمیر ہوئی ہے وہاں ایک مسجد کی افتتاحی تقریب میں ایک دوسرے شہر باسل(Basel) سے آئے ہوئے ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ وہ کہنے لگے کہ میری ساری زندگی یہ جستجو رہی کہ مجھے امن پسند مسلمان کہیں مل جائیں۔ آج آپ لوگوں نے میری اس خواہش کو پورا کر دیا۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں کہ آج مجھے یہ لوگ مل گئے ہیں۔

پھر وہاں اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ اپنے دوست کے ساتھ پروگرام میں شامل ہوئیں۔ اس نے بتایا کہ میرا دوست اس پروگرام میں شامل ہونے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ اسلام کے بارے میں اس کے منفی جذبات تھے لیکن پروگرام میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کے بعد اس کا اسلام کے بارے میں نظریہ بالکل بدل گیا یہاں تک کہ اس نے فوراً اپنے موبائل سے اپنے کسی دوسرے مسلمان دوست کو میسج کیا کہ آج مجھے پتا لگا ہے کہ تمہارا مذہب کتنا خوبصورت ہے۔

پھر بوسنیا سے تعلق رکھنے والی تین بڑی تعلیم یافتہ خواتین اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کا پروگرام موجودہ مشکل حالات میں امن کے قیام کے لئے ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے اور امام جماعت احمدیہ کا جو خطاب تھا اس میں آپ نے محبت اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی۔

پھر ایک مہمان نے کہا ’’یہاں آپ کی محفل سے مجھے بھی کچھ برکتوں کو سمیٹنے کا موقع ملا اور یہاں آنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ اگر آج میں یہاں نہ آتا تو یقیناً بہت بڑی چیز سے محروم رہ جاتا۔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ مجھے حقیقی اسلام کا تعارف حاصل ہوا جو ٹی وی میں نفرت اور تشدد والے اسلام کے بالکل برعکس ہے اور یہاں سے مجھے امن اور محبت ملی ہے اور صرف یہ نہیں کہ لفظاً امن اور محبت ملی ہے بلکہ عملی طور پر بھی یہاں ایسے انسان ملے ہیں جو نفرت نہیں چاہتے‘‘۔ پس ہر احمدی کا جو ذاتی فعل اور عمل ہے وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔

پھر ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’آج تک میں سوچتا تھا کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں۔ مختلف مذاہب نے مختلف راستے دکھائے ہیں مگر آج یہاں آ کر معلوم ہوا ہے کہ مذہب نے تو بڑے مشترکہ راستے بتائے ہیں اور امام جماعت احمدیہ نے اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے‘‘۔ کہنے لگا ’’مجھے یہ بات پسند آئی کہ انہوں نے بڑے واضح طور پر باقی تشدد پسند مسلمانوں اور داعش وغیرہ سے دوری کا اظہار کیا اور ہمیں بتایا کہ ان کا اسلامی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جو افسوسناک اعمال دنیا میں ہو رہے ہیں اس میں آپ لوگوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ ان کا ہے جو اس تعلیم کو غلط بیان کرتے ہیں‘‘۔ پھر کہنے لگے کہ ’’یہ ہم سب کا کام ہے کہ محبت اور اخوت سے اس فتنے کے خلاف کھڑے ہوں‘‘۔ کہنے لگے ’’مجھے آپ کی یہ بات بھی بڑی پسند آئی کہ کسی انسان کا خدا پر ایمان نہیں ہو سکتا اگر وہ قتل و غارت کرے کیونکہ ایک لحاظ سے کسی معصوم کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا پر ایمان کو بھی قتل کیا جا رہا ہے‘‘۔

ہمارے سلجھے ہوئے احمدی بچے بھی کس طرح ماحول پر اپنا اثر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس کا اظہار بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ چنانچہ ایک مہمان خاتون نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میرے بچوں کی احمدی بچوں سے دوستی ہے۔ اور جب سے ان کی احمدی بچوں سے دوستی ہے میں نے ان میں ایک مثبت اور اچھی تبدیلی دیکھی ہے۔ اس وجہ سے میں جاننا چاہتی تھی کہ آپ کی تعلیم کیا ہے۔ آج یہاں آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے بچے اچھے دوستوں کے ساتھ ہیں اور محفوظ ہیں‘‘۔

پس یہ خاموش تبلیغ جو بچوں کی وجہ سے ہو رہی ہے یہ احمدی والدین پر مزید ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کا معیار بڑھاتے رہیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کریں تا کہ ہمیشہ احمدی بچے دوسروں پر نیک اثر ڈالنے والے ہوں اور ماحول کی برائیوں سے بچتے رہیں۔ یہی نیک اثرات جو ہیں آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ حقیقی اسلام کے پیغام کو پھیلانے میں کردار ادا کریں گے۔ وہی بچے جب ان بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پروان چڑھیں گے اور اگر یہ بچے اپنی حالتوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالے رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ انہی بچوں میں سے جو غیر مسلم بچے ہیں بہت سارے احمدیت میں شامل ہونے والے ہوں گے۔

اسی طرح Augsburg ایک دوسرا شہر ہے جہاں مسجد کا افتتاح ہوا۔ بڑا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں سے بہت پڑھے لکھے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ سیاستدان بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک مہمان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بہت ہی حسین پیغام ہے جو پہنچایا جا رہا ہے۔ میری یہ تمنا ہے کہ آپ کا یہ پیغام اسلامی ممالک کے اکثر لوگوں تک پہنچے۔ اس سے زیادہ امن قائم ہو گا‘‘۔ کاش کہ مسلمان لوگ بھی، مسلمان ممالک بھی اس بات کو سمجھنے والے ہوں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ جو اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ ہونی ہے اس میں اس کے ساتھ شامل ہو کر ان کے ممد و معاون بنیں نہ کہ روکیں کھڑی کریں اور مخالفتیں اور دشمنیاں پیدا کریں۔

ایک جرمن سکول ٹیچر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا  ’’میں اپنے سکول کے بچوں کو اسلام کے حوالے سے ان کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتی تھی کیونکہ میڈیا میں جو کچھ آتا تھا وہ اسلام کے شدید خلاف ہوتا تھا۔ آج اس پروگرام میں امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے مجھے اتنا زیادہ مواد مل گیا ہے کہ میں اپنے طلباء کو اب اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کر سکتی ہوں‘‘۔

پھر ایک خاتون نے کہا کہ ’’آپ کے خلیفہ کی باتیں سن کر میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اسلام کی تعلیم اتنی حسین اور خوبصورت ہے۔ یہ باتیں سن کر میرے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ اتنی حسین تعلیم کے باوجود اسلام اتنا بدنام کیوں ہو گیا ہے؟ میں دعا کرتی ہوں کہ آپ کا اسلام پھیلے اور سب لوگوں تک پہنچے‘‘۔

آگس برگ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کہتے ہیں کہ ’’امام جماعت احمدیہ نے جو کہا اگر واقعی وہ آپ کا پیغام ہے تو آپ کو بہت کامیابی حاصل ہو گی‘‘۔ بتانے والا لکھتا ہے کہ پروفیسر صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ ’’انہوں نے یونیورسٹی میں نمائش لگانے کی پیشکش کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جماعت پبلک میں زیادہ نمایاں ہو اور آپ کا پیغام ہر ایک کو پہنچے‘‘۔

ایک مہمان نے کہا کہ ’’(امام جماعت احمدیہ نے) آج ہمیں وہ مضامین بتائے ہیں جن کی آج ہم سب کو بہت ضرورت ہے اور نہ صرف دینی نقطۂ نگاہ سے بلکہ دنیاوی نقطہ نگاہ سے بھی مسائل کے حل بیان کئے‘‘۔ پھر (ایک مہمان) کہنے لگے کہ یہ بات بھی بڑی درست ہے کہ اگر ہم کھل کر اور مل جل کر محبت اور رواداری سے رہیں گے تو تحفظات ختم ہو جائیں گے۔

اور پھر ایک اور مہمان نے یہ کہا کہ ’’مَیں بہت متاثر ہوا ہوں کہ جہاں دنیا بھر میں اسلام کے بارے میں یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ نفرت کی تعلیم دیتا ہے یہاں پر مسلمان اس کے برعکس امن کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں‘‘۔

ایک مہمان نے کہا کہ ’’خطاب سے یہ بات میرے دل پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے کہ اسلام رواداری پر کتنا زور دیتا ہے۔ میرا یہ جماعت سے پہلا رابطہ تھا اور بہت اچھی اور سکون دہ نشست تھی۔ لہٰذا اب دلچسپی بڑھ گئی ہے اور اب کوشش کروں گا کہ آپ کی مسجد کا بھی چکر لگاؤں اور انٹرنیٹ پر بھی آپ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کروں‘‘۔

ایک ڈاکٹر خاتون نے کہا کہ مجھے خطاب نے بڑا متأثر کیا ہے۔ دل کی گہرائی تک اثر کرنے والا خطاب تھا بالخصوص محبت اور امن کا پیغام۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنے والا بن جائے جیسا کہ اسلامی تعلیم ہے تو دنیا کہیں زیادہ حسین ہو جائے‘‘۔

پھر ایک خاتون نے کہا کہ ’’ہمسایوں کے حقوق کی طرف جو توجہ دلائی ہے یہ خاص طور پر بہت اچھا لگا۔ اگر ہم اس پیغام کے ایک حصہ پر بھی عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا پہلے سے بہت پُر امن اور خوشگوار ہوجائے‘‘۔

پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک ترک مہمان نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کی تقریب اور آپ کے پیغام سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ اگر آپ لوگ اسی طرح اسلام کا پیغام جگہ جگہ دیتے رہے تو عنقریب بہت کامیابی پائیں گے ‘‘۔ پھر کہتا ہے ’’میں پولیس والا ہوں اور ایسا منظم انتظام اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ میں نے آپ کے انتظامات سے بہت کچھ سیکھا ہے‘‘۔

ایک مہمان رون ہائیم(Raunheim) کے مہمان تھے جہاں مسجد کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ کہتے ہیں ’’ہمیں یہاں آکر بہت اپنائیت محسوس ہوئی ہے۔ مجھے عیسائیوں کے بھی بہت سے پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے مگر وہاں اس طرح کی اپنائیت محسوس نہیں ہوئی‘‘۔ آخر کہنے لگا کہ ’’عیسائی اس بارے میں آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘‘۔

پس ایک عیسائی کا اس بات کا اعتراف کہ عیسائیوں کو آپ سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے اور خاص طور پر اخلاق، یہ بہت بڑی بات ہے اور ہمارے نوجوانوں کو اس بارے میں مزید اعتماد پیدا ہونا چاہئے کہ کسی بھی قسم کی شرم کی ضرورت نہیں۔ اپنے آپ کو چھپانے کی ضرورت نہیں کہ ہم مسلمان ہیں بلکہ کھل کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا کو بتانا چاہئے۔

پھر وہاں رون ہائیم(Raunheim) میں جہاں مسجد کی بنیاد تھی ایک مہمان یہ کہتے ہیں کہ ’’خلیفہ نے مؤثر انداز میں دنیا کے حالات کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا خاص طور پر اسلام کی پرامن تعلیم کو واضح طور پر سامنے لائے‘‘۔

ایک مہمان نے کہا کہ ’’میں پہلی دفعہ جماعت کے پروگرام میں آیا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ جماعت نے رون ہائیم(Raunheim) میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اب مجھے انتظار ہے کہ جلد آپ کی مسجد بن جائے اور میں اسے دیکھوں‘‘۔ یا تو مخالفتیں ہوتی ہیں یا پھر یہ کہ جب پیغام پہنچتا ہے تو پھر انتظار ہے کہ جلدی مسجد بنے۔

ایک مہمان آئے تو ان کے امن کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بعض تحفظات تھے اور یہ بھی ان کا سوال تھا کہ آپ کا خلیفہ امن کے لئے کیا کوششیں کرتا ہے؟ اور جب خطاب سن لیا تو کہنے لگے کہ ’’ان سب باتوں کا جو میرے ذہن میں تھیں، خطاب میں ذکر کر دیا اور میرے سب تحفظات دور ہو گئے ہیں‘‘۔ اور کہنے لگے کہ ’’آپ لوگ تو امن کے سفیر ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے‘‘۔ اور پھر یہ بھی انہوں نے کہا کہ ’’اب میں اپنے دائرہ کار میں، جو بھی میرا حلقہ ہے اس میں آپ کا یہ پیغام پھیلانے میں پوری پوری کوشش کروں گا‘‘۔

ایک سیرین دوست نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ غیر مسلم احباب یہاں آ کر خطرہ پیدا نہ کریں‘‘ اور پھر کہنے لگے کہ ’’لیکن آپ نے دوسرے مسلمانوں سے بہت بہتر رنگ میں اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں‘‘۔ اور پھر یہ کہنے لگے کہ ’’امام جماعت احمدیہ نے آج اصل اسلامی تعلیم پیش کی۔ احمدیوں کا یہ پہلا پروگرام تھا جس میں مَیں شامل ہوا ہوں ۔اب میں مزید معلومات حاصل کروں گا اور شاید ایک دن میں خود بھی بیعت کر کے اس جماعت میں شامل ہو جاؤں‘‘۔ کہتے ہیں ’’یہاں آنے سے پہلے میں نے سنا تھا کہ احمدیوں کا قرآن اَور ہے لیکن آج یہ بات بھی میرے سامنے غلط ثابت ہو گئی‘‘۔

ایک مہمان کہتے ہیں کہ ’’ایک احمدی تقریب میں شامل ہونے کا یہ پہلا موقع ہے۔ اس سے قبل جماعت کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا مگر اب میں بہت متأثر ہوں۔ مساجد کا اکثر اوقات دہشت گردی سے تعلق بیان کیا جاتا ہے مگر آج معلوم ہوا ہے کہ یہ حقیقت نہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ یہاں پہ ایک مسجد بننے والی ہے اور یہ مسجد امن کا گہوارہ ہو گی‘‘۔

ایک خاتون نے کہا کہ ’’پہلی دفعہ جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہو رہی ہوں۔ بہت پرسکون ماحول ہے اور جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے محبت اور رواداری کے بارے میں ہے۔ امن کے بارے میں ہے اور میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہوں‘‘۔

ماربرگ ایک شہر ہے وہاں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ وہاں کی تقریب میں شامل ہونے والی ایک مہمان خاتون نے کہا کہ ’’ہمسایوں کے حقوق سے متعلق پیغام نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور ایک عیسائی کے طور پر میری خواہش ہے کہ عیسائیت بھی اس تعلیم کو اختیار کرے‘‘۔

پھر ایک اور مہمان نے کہا کہ ’’عورتوں کا جو مقام پیش کیا گیا ہے آپ کے خطاب میں وہ انتہائی خوبصورت مذہبی تعلیم ہے اور آپ کے ہاں مرد اور عورت کے مقام اور حقوق میں جو توازن ہے وہ مجھے بہت پسند آیا‘‘۔

لارڈ میئر نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں پر اتنے زیادہ غلط الزام لگائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے جواب میں دلائل دینے پڑ جاتے ہیں حالانکہ اگر کوئی مغربی دنیا کا بندہ یا عیسائی کوئی ظالمانہ حرکت کرے جیسے ناروے میں ایک قاتل نے عیسائیت کے نام پر قتل کئے تھے تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس مذہب کا قصور ہے‘‘۔

ایک مہمان مسز جولیا (Julia) کہتی ہیں ’’بہت اچھے انداز میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں تقریر کا یہ نکتہ بھی مجھے بہت اچھا لگا کہ اگر بندوں کے حقوق ادا نہ کئے جائیں تو خدا کی عبادت کے کیا معنی ہیں‘‘۔ کہتی ہیں کہ ’’میرا یہاں آنے سے پہلے یہی خیال تھا کہ اسلام بنیاد پرست انتہا پسندی کی تعلیم دیتا ہو گا لیکن آج کی تقریب نے میرے ذہن کو اسلام کے بارے میں منفی فکر سے پاک کر دیا ہے اور میں اسلام کی امن اور محبت کی تعلیم سے بہترین رنگ میں آگاہ ہوئی ہوں‘‘۔

پھر ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’’آج کے تاریک دور میں یہ پیغام آسمان پر ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانیت کے بارے میں جب آپ نے بات کی تو میری آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے‘‘۔

پھر ماربرگ سے ہی ایک صاحب کہتے ہیں کہ ’’خطاب کے اس حصہ سے میں بہت متاثر ہوا ہوں جس میں اسلام کی مذہبی رواداری کی تعلیم بیان ہوئی ہے۔ میں اور کسی ایسے مذہب کو نہیں جانتا جس کی ایسی تعلیم ہو۔ دوسرے مذاہب جو ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے مذہب تک ہی محدود ہے اور دوسرے مذاہب سے تعلق پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں‘‘۔

پھر ماربرگ شہر کی ایک سرکاری ملازم تھیں۔ کہتی ہیں کہ بطور عیسائی ان کے لئے ہمسائے کے حقوق جو اسلام کی تعلیم دیتی ہے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

پھر میئر کے دفتر کے ایک سٹاف نے کہا کہ ’’جو باتیں سننے کے لئے مَیں آئی تھی خواہش تھی کہ یہ یہ باتیں ہوں وہ سب آج بیان ہو گئیں‘‘۔

ایک بڑی عمر کے مہمان جو میرے وہاں پہنچنے سے پہلے کہہ رہے تھے کہ میری ساڑھے چھ بجے appointment ہے تو میں چلا جاؤں گا اور جب پروگرام شروع ہوا تو ہیڈ فون لگا کے سنتے رہے۔ پھر میری تقریر کے دوران ہی کہنے لگے۔ وقت ہو گیا اب میں جانے لگا ہوں اور ہیڈ فون اتار کر اٹھنے لگے۔ پھر خیال آیا تو دوبارہ بیٹھ گئے اور سننا شروع کر دیا اور پوری تقریر سن کر گئے۔

تو بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے بلکہ اکثر یہی ہے کہ ہم تو تھوڑی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ زبردستی بعض لوگوں کو پیغام سنانا چاہتا ہے اور سنواتا ہے۔ اور وہاں بہت سارے ایسے لوگ تھے۔ اس کی چند ایک مثالیں مَیں پیش کرتا ہوں۔

ملک فِن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے نو سالہ بیٹے کے ہمراہ اس تقریب میں شامل ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ ’’اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر آئی ہوں۔ میری دلی خواہش ہے کہ اس کے کان میں آپ لوگوں کی بھی آواز پڑے اور آپ کی پیش کردہ تعلیمات سے کچھ سیکھ سکے اور آپ لوگوں جیسا خدا کا نیک وجود بن سکے‘‘۔ پھر کہتی ہیں ’’مَیں خطاب سے بہت متاثر ہوئی۔ یہی میرے نزدیک سچا اسلام ہے اور باقی تمام مسلمانوں کو انہی کے پیچھے چلنا چاہئے۔ خاص طور پر رواداری اور ہمسایوں کے حقوق کے متعلق جب اسلامی نقطہ نگاہ پیش کیا گیا تو مجھ پر بہت اثر ہوا۔ آپ کا یہ پیغام، یہ تعلیمات ہرگز غلط نہیں ہوسکتیں‘‘۔ پھر کہنے لگیں کہ ’’اب میری خواہش ہے کہ آپ کی جماعت میں سے کوئی امام یا کوئی شخص میرے اس نو سالہ بیٹے کو قرآن کریم پڑھنا سکھا دے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ قرآن کریم پڑھے اور نیک فطرت بنے۔ تو اس حد تک بھی اثر ہو جاتا ہے۔ اب کیا یہ انسانی کام ہے؟ یقینا ًاللہ تعالیٰ ان کے مزاجوں میں یہ تبدیلی پیدا کر رہا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ اس لئے اس سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔

پھر ایک خاتون نے کہا کہ ہمسائیگی کے بارے میں اسلام کی تعلیم مجھے بڑی اچھی لگی۔ کہتی ہیں ’’کاش ہمارے ہاں بھی ایسی تعلیم ہوتی۔‘‘

پھر ایک اور خاتون تھیں وہ یہ کہتی ہیں کہ ’’عورتوں کے حقوق کو جس طرح امام جماعت نے بیان کیا ہے وہ بہت بہتر ہے بہ نسبت ان کلچروں کے جہاں عورت کے حقوق سلب کئے جاتے ہیں۔ ‘‘

تو بے شمار اس طرح کے تأثرات تھے۔ چند ایک مَیں نے بیچ میں سے لئے۔

اسی طرح پریس میں، میڈیا میں ان چیزوں کی کوریج بھی بہت ہوئی اور مسجد بیت العافیت کے افتتاح کے موقع پر ایک ٹی وی چینل اور دو اخبارات نے کوریج کی۔ جو ٹی وی چینل ہے وہ نیشنل ٹی وی چینل ہے کہتے ہیں کہ اس کو دیکھنے والے اور خاص طور پر اس کی خبریں سننے والے لوگ بائیس تئیس لاکھ افراد ہیں۔

اسی طرح مسجد بیت النصیر آگس برگ (Augsburg)کے افتتاح کے موقع پر تین ٹیلی ویژن چینل، چار ریڈیو چینل اور اٹھارہ اخبارات نے کوریج دی۔ یہ بڑا شہر ہے اور یہ کہا جاتا ہے ان ریڈیو چینلز اور اخبارات کے ذریعہ بھی تین کروڑ سے اوپر لوگوں تک مسجد کے افتتاح کی خبر پہنچی اور اسلام کا پیغام پہنچا۔

پھر جرمنی کے دو شہر روئن ہائم(Raunheim) اور ماربرگ میں مساجد کے سنگ بنیاد رکھے گئے اور یہاں بھی ٹی وی چینل اور بائیس اخبارات نے کوریج دی۔ اور ٹی وی چینل اور اخبارات کے ذریعہ ان مساجد کے سنگ بنیاد کی خبر تقریباً دو کروڑ افراد تک پہنچی۔

مساجد کی مجموعی طور پر جو میڈیا کوریج ہے۔ اس میں مختلف ٹی وی اور ریڈیو چینلز اور اخبارات کے ذریعہ جن کی تعداد 54 بنتی ہے ان میں 136 خبریں شائع ہوئیں۔ا ور میڈیا کی ان خبروں کے ذریعہ ایک اندازے کے مطابق 39 ملین افراد تک پیغام پہنچا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی جماعت کا تبلیغ کا شعبہ کافی فعّال ہے اور جو دوسری تنظیمیں ہیں وہ بھی سارا سال کام کرتی ہیں اور اچھا کام کر رہی ہیں اور اُن کے جو پیغام دوران سال پہنچتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملین میں پہنچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہاں مخالفت بھی ہو رہی ہے اور خاص طور پر ایسٹ جرمنی میں بڑھ رہی ہے۔ لیکن ہم نے تو اس کے باوجود اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ کام جاری رکھنا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

مَیں جب دورے پر جاتا ہوں تو جس ملک میں جاؤں اس ملک کے کچھ حالات بیان کر دیتا ہوں لیکن یہاں یوکے(UK) میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام ہو رہا ہے اور یہاں کیونکہ خاص طور پر کوئی دورہ نہیں ہوتا اس لئے بیان بھی نہیں کیا جاتا۔ اس لئے شاید بعضوں کو خیال ہو کہ یہاں کام نہیں ہوتا جبکہ یہاں بھی وسیع پیمانے پر اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کا کام ہو رہا ہے۔ مختلف تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔ جماعت کا تبلیغ کا سیکشن بھی اللہ کے فضل سے کام کر رہا ہے اور خاص طور پر حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ’’لائف آف محمدؐ ‘‘ جو انگریزی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ہے، اس کی یوکے(UK) میں شاید سب سے زیادہ تقسیم کی گئی ہے اور لوگوں تک یہ پہنچی ہے۔ جس میں انصار اللہ نے بڑا کام کیا ہے۔ اسی طرح دوسری کتب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑے وسیع پیمانے پر پھیلائی گئی ہیں اور جماعت کا بڑا تعارف ہوا ہے بلکہ یہاں کے جو مختلف جماعتی مرکزی فنکشنز ہیں ان کے ذریعہ سے دنیا میں بھی اسلام کا تعارف ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں کے احمدی، یوکے(UK) کے احمدی بیشک باقی دنیا کے پروگراموں کو یا ترقیات کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں لیکن یہ خیال نہ کریں کہ یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ بعض جو ان پروگراموں میں اتنے زیادہ شامل نہیں ہوتے ان کا خیال ہوتا ہے کہ شاید یہاں ہم بہت پیچھے ہیں۔ نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی اچھا کام ہو رہا ہے۔ مثلاً یہ پِیس کانفرنس جو پچھلے دنوں پچھلے مہینے مارچ میں ہوئی ہے اس میں بھی بڑے وسیع پیمانے پر نہ صرف یوکے(UK) میں بلکہ دنیا میں بھی اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔

یہاں میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بھی بعض تأثر بتا دینے چاہئیں کیونکہ اس کا ذکر کبھی نہیں کیا گیا۔

ایک چرچ کی وارڈن تھیں وہ یہاں پِیس سمپوزیم میں آئی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں ’’بہت دلچسپ اور زبردست پیغام تھا۔ اتحاد کا پیغام تھا جس کی آج کے معاشرے میں ضرورت ہے۔ مجھے یہ بات بھی بہت پسند آئی جو امام جماعت نے قرآن کریم کی ایک آیت پیش کر کے بیان کی کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو آپس کی مشترک باتوں پر اتفاق کرنا چاہئے۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر عمل ممکن ہے اور اس میں غیر مذہبی لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مجھے آج اسلام اور عیسائیت میں مشترک باتوں کا علم ہوا ہے۔ عبادت کا یہ مفہوم بھی مجھے بہت پسند آیا کہ پانچ وقت عبادت ضروری ہے لیکن اگر ساتھ مخلوق کی خدمت نہیں تو عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

پھر ایک نرس فیونہ (Fiona) صاحبہ تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’امام جماعت نے دکھایا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا اور دہشت گرد غلط طور پر اسلام کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ مجھے یہ بات بھی پسند آئی کہ انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں لندن میں ہونے والے دہشت گردی کی واقعہ کی مذمت کی اور واضح کیا کہ ان حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے صرف سوال ہی نہیں اٹھائے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے ہتھیاروں کی فروخت کا ذکر کیا اور یہ بھی ہمیں بتایا کہ ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی بات سننی چاہئے۔‘‘

پھر ایک صاحب آئے ہوئے تھے کہتے ہیں کہ ’’آج یہ معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں ویسٹ منسٹر میں دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس کی وجہ اسلام نہیں بلکہ ایک فرد کا قصور تھا جو ایک امن پسند مذہب کے پیچھے چھپتا ہے۔ آج مجھ پر یہ ثابت ہو گیا کہ وہ دہشت گرد ایک پاگل آدمی تھا اور حقیقی مسلمان نہیں تھا‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’آپ کے خلیفہ نے انتہائی واضح طور پر بتایا کہ ہر قسم کی دہشت گردی غلط ہے اور قرآنی آیات کے ذریعہ اس بات کو ثابت کیا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی لگی جب انہوں نے کہا کہ صرف آج پر نظر نہیں رکھنی چاہئے بلکہ کل کو بھی دیکھنا چاہئے اور یہ بھی کہ ہمیں دیواریں نہیں بنانی چاہئیں جو ہمیں تقسیم کریں بلکہ پُل بنانے چاہئیں‘‘۔

پھر ایک جی پی(GP) اور وہ چرچ کے لیڈر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ’’خطاب جو میں نے سنا ایک راہ دکھانے والی روشنی کی طرح تھا جس نے دکھایا کہ اسلام عظیم الشان امن کا مذہب ہے‘‘۔ پھر کہتے ہیں ’’بات چیت کو بڑھانے کے متعلق پیغام بڑا درست تھا، بالکل درست تھا۔ دشمنیاں بڑھانے کے بجائے ہمیں ایک دوسرے کے مختلف خیالات کو برداشت کرنا چاہئے اور انہوں نے بالکل ٹھیک کہا کہ آج کی دنیا میں برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

ایک کمپنی کی ڈائریکٹر صاحبہ جو ایک خاتون تھیں یہاں آئی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں ’’میں ایک دفعہ آپ لوگوں کے چوتھے خلیفہ سے مل چکی ہوں۔ اس لئے آپ کی جماعت کے متعلق کچھ علم ہے اور آج بھی میں ملی ہوں۔ اور آج کی تقریر جو میں نے سنی اس کی ضرورت تھی کیونکہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہر چیز کا الزام اسلام اور مسلمانوں پر نہیں ڈالنا چاہئے اور یہ کہ آج کی دنیا میں بہت سے مسائل ہمارے یعنی مغربی ممالک کے خود پیدا کردہ ہیں۔ ہتھیاروں کی تجارت کے متعلق بھی خلیفہ کی باتیں مجھے بہت پسند آئیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جہاں آ کر ہمارے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں اور بزنس کے فوائد کو ترجیح دی جاتی ہے‘‘۔ پھر کہتی ہیں ’’مجھے امید ہے کہ ہماری حکومت اس بات کو نوٹ کرے گی۔ اور دنیا کے مستقبل کے متعلق امام جماعت احمدیہ کے الفاظ اوران کی دعا سن کر میں بہت جذباتی ہو گئی تھی کہ ہم اپنے پیچھے ایک اچھی دنیا چھوڑ کر جائیں۔ اس کے ساتھ وہ فکر مند بھی تھے کہ کہیں ہم اپنے پیچھے معذور بچوں کی دنیا نہ چھوڑ جائیں‘‘۔

یہاں جماعت کو بھی توجہ دلا دوں کہ آجکل دنیا کے حالات بہت زیادہ بگڑتے چلے جا رہے ہیں اور بہت دعا کی ضرور ت ہے۔ بڑی طاقتیں بھی اور چھوٹے ملک بھی جنگی جنونی ہو رہے ہیں۔ جو لوگ پہلے بڑے خوش فہم تھے، ان کے لیڈر اور سیاست دان اور تجزیہ نگار عالمی جنگ کو دُور کی بات سمجھتے تھے وہ بھی اب کہنے لگ گئے ہیں کہ اس امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا بلکہ جنگ کے زیادہ امکان ہیں اور پھر جنگ میں جیسا کہ امریکہ اور کوریا کا آجکل مسئلہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ گو چین اب کردار ادا کر رہا ہے کہ کسی طرح ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ اسی طرح مسلمان لیڈر بھی ظلم کر رہے ہیں اور یہاں بھی بلاک بن رہے ہیں۔ جنگوں کے میدان بہرحال وسیع ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ایٹمی جنگ کے سدّباب کے لئے ایک دفعہ ہومیوپیتھک کا جو ایک نسخہ بتایا تھا اس کو بھی جماعت کو چاہئے کہ اب کم از کم چھ ہفتے کے لئے استعمال کر لے۔ ایک دفعہ ایک دوائی کارسینو سین(Carcinosin) اور پھر دوسری دوائی ریڈیم برومائڈ(Radium Bromide)۔ (ماخوذ از ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل صفحہ 703)۔ اس کا اعلان ہو جائے گا۔

اسی طرح ایک اَور تبصرہ بھی پیش کر دوں۔

پرتگال کے ایک پروفیسر ڈاکٹر پولو موریئس (Paulo Morais) تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’آج آپ کی باتیں سن کے ثابت ہو گیا کہ انصاف اور امن مترادف الفاظ ہیں جن کا ایک ہی مطلب ہے اور ایک کے بغیر دوسرے کا حصول ممکن نہیں‘‘۔ کہتے ہیں ’’چنانچہ دنیا میں انصاف کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے امن نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کو دہشت گردی اور جنگوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہمیں اس کی جڑ تک پہنچنا چاہئے جو کہ دنیا میں انصاف کی کمی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ امام جماعت نے اسلامو فوبیا پر بات کی کیونکہ لوگ اس کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں آگ پر پٹرول نہیں چھڑکنا چاہئے اور ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہئے اور استہزاء نہیں کرنی چاہئے۔‘‘

اسی طرح پرتگال کی کیتھولک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر تھے وہ کہتے ہیں کہ مجھے جو بات پسند آئی وہ یہ تھی کہ خلیفہ کے الفاظ ثبوت پر مبنی تھے۔ انہوں نے قرآن کے حوالوں کے ذریعہ دکھایا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور انہوں نے دنیاوی حوالوں سے بھی بتایا کہ ہر بری چیز کی وجہ اسلام کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی لگی کہ ہمیں آج کے ساتھ ساتھ کل پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔‘‘

پھر ایک سیاستدان تھے انہوں نے کہا کہ تعزیت کا پیغام پُرخلوص تھا۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ جنگ یقینی نظر آ رہی ہے کہتے ہیں کہ مَیں پُرامید ہوں کہ کم از کم عالمی جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے جیسے ہم پچھلے ستّر سال سے کر رہے ہیں۔ تاہم میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب جنگ شروع ہو جائے تو اس میں شامل ہونے سے بچنا ممکن نہیں۔ ہمیں عالمی تعلقات میں انصاف قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پیغام ہے جو میں لے کے جا رہا ہوں ۔

تو یہ چند حوالے مَیں نے پیش کئے ہیں ورنہ تو اس تقریب پہ بھی تقریباً چھ سو سے اوپر لوگ آئے ہوئے تھے اور سب کے بڑے اچھے تأثرات تھے ۔ اس کی میڈیا کوریج بھی کافی تھی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس تھا۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک، نیو سٹیٹس مین (New Statesman) میگزین، NHK جاپان کی براڈکاسٹنگ کارپوریشن ہے۔ سنڈے ٹائم۔ ABC ارجنٹینا کا میڈیا ہے۔ ERT ٹیلی ویژن گریس کا ہے۔ 365 آئس لینڈ کا ایک نیشنل نیوز پیپر ہے۔ ساؤتھ ویسٹ لندن ٹیلی ویژن۔ سپوتنک (Sputnik) انٹرنیشنل۔ اَور بھی بہت سارا پریس کوئی بیس اکیس کے قریب تھا۔ اس کے علاوہ اس میں فری لانس جرنلسٹ بھی تھے اور دوسرے ملکوں کے جو (نمائندے) آئے ہوئے تھے ان لوگوں نے خبریں دی ہیں۔ اس میں آسٹریا کا نیشنل ٹی وی تھا۔ آٹھ منٹ کی انہوں نے رپورٹ دی۔ پھر گریس کا نیشنل ٹی وی تھا انہوں نے نیوز رپورٹ دی ۔ آئس لینڈ کے نیوز پیپر میں چھپا۔ انڈیا ٹوڈے(India Today) پر ٹی وی رپورٹ تھی۔ پھر اٹلی نیوز پیپر نے اس کو شائع کیا۔ ارجنٹینا نیشنل نیوز پیپر نے شائع کیا۔ لیٹن (Latin) امیریکن نیوز پیپر کینیڈا نے شائع کیا۔ سپین کے دو اخباروں نے کیا۔ اسی طرح پرتگال نے بھی شائع کیا ۔ اس طرح تقریباً نو ملین سے اوپر یہ پیغام بھی جو یہاں تھا باہر کے ملکوں میں منتشر ہوا تھا۔ تو بڑے وسیع پیمانے پر یہاں کی پِیس کانفرنس کی پبلسٹی ہوتی ہے اور اس حوالے سے اسلام کی تعلیم کا دنیا کو پتا چلتا ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعہ سے بھی 3.8 ملین کی کوریج ہوئی۔ تقریباً دس گیارہ کے قریب باہر کے نمائندے تھے۔

جس جس طرح جماعت کا پیغام پھیل رہا ہے ہماری مخالفت بھی بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں مخالفت بڑھ رہی ہے۔ الجزائر میں گزشتہ چند ماہ سے خاص طورپر بہت زیادہ مخالفت ہے اور یہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ان کے بارے میں مَیں دعا کے لئے بھی کہہ چکا ہوں۔ الجزائر میں 24 تاریخ کو شاید ان کا ایک سیمینار تھا۔ وہاں کے وزیر اوقاف کے ایک سابق مشیر تھے انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ اپنا مؤقف دے تو میں اس مجلس میں، سیمینار میں صدر کو پیش کروں گا۔ تو ایک تو یہ ہے کہ پہلے انہوں نے جماعت کے بارے میں جاننے کے لئے سیمینار منعقد کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے کہہ دیا بلکہ یہ فیصلہ کر لیا کہ نہیں جماعت کے بارے میں ہم نے نہیں جاننا اور جماعت کے خلاف ہی وہاں تقریریں ہوئیںاور اس کا عنوان یہ رکھ دیا ’’قادیانیت ایک ایسا فرقہ جو برطانوی استعمار کی پیداوار ہے‘‘ ۔وہی پرانے گھسے پٹے الزام تھے جو یہ ہم پر لگاتے رہتے ہیں۔ اور جو ہمارا مؤقف تھا وہ پڑھ کے نہ سنایا گیا بلکہ مؤقف پیش کرنے والے کو کہا گیا کہ تم تو بڑے عقلمند انسان تھے پہلے جماعت کے خلاف بولتے رہے ہو اب کیوں حق میں بول رہے ہو؟ تو بہرحال جب ان کی پریس سے بات ہوئی جو غیر ملکی پریس تھا تو اس میں انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں۔ جماعت احمدیہ کو تو ہم بڑا اچھا سمجھتے ہیں۔ وہ تو مسلمان ہیں اس پہ کوئی ظلم نہیں ہو رہا۔ صرف چند وہ لوگ جو ملک کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کے خلاف ہم نے کارروائی کی ہے۔ لیکن جب اپنا پریس سامنے آیا تو وہی باتیں کہ یہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور سازشی ہیں اور داعش کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور فلاں فلاں فلاں۔ تو یہ مخالفت ایک طرف سلفیوں کی وجہ سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بہرحال یہ تو ہونا تھا اور اس کی وجہ سے بھی الجزائر کی جو خبریں ہیں وہاں کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ پریس کی وجہ سے الجزائر میں بھی جماعت کا تعارف بڑا وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور بعض لوگ جماعت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ تو جہاں پیغام ہم نہیں پہنچا سکتے تھے وہاں ان مخالفین نے پہنچا دیا۔

بہرحال ایک طرف دنیا اسلام کے پیغام سے متأثر ہو رہی ہے جو جماعت احمدیہ پھیلا رہی ہے اور یہ بھی اظہار کرتے ہیں کہ عیسائیت کو بھی ان سے سیکھنا چاہئے۔ اور دوسری طرف مسلمان ممالک ہیں جن کی طرف سے مخالفت ہو رہی ہے۔ پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ آجکل جو شدت ہے الجزائر میں بہت زیادہ ہے۔ الجزائر کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ پھر پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کریں۔ پھر اور دنیا میں جن ممالک میں احمدیت کے خلاف زیادہ جوش ابل رہا ہے وہاں کے احمدیوں کے لئے دعا کریں ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو حفاظت میں رکھے اور خاص طور پر الجزائر کے جو احمدی ہیں وہ زیادہ پرانے احمدی نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور ان کی مشکلات کو جلد دور بھی فرمائے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button