حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی تقریب تقسیم اسناد کے موقع پرسیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا زرّیں نصائح پر مشتمل نہایت اہم خطاب فرمودہ04مارچ 2017ء

جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہونے والی پانچویں اور جامعہ احمدیہ کینیڈا سے فارغ التحصیل ہونے والی ساتویں شاہد کلاس کے طلباء کی تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا زرّیں نصائح پر مشتمل نہایت اہم خطاب۔فرمودہ04مارچ 2017ء بروز ہفتہ بمقام Haslemere ،جامعہ احمدیہ یوکے

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جامعہ احمدیہ یوکے(UK) اور کینیڈا کی ایک اور کلاس اپنی تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں آ رہی ہے۔اس سال انشاء اللہ جامعہ احمدیہ غانا کے طلباء بھی شاہد کر کے میدان عمل میں آئیں گے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں بھی شاہدین کی کلاس شروع ہو گئی ہے۔ ہر سال جرمنی، کینیڈا اور یوکے (UK) کے اب تقریباً پینتیس چالیس مربیان و مبلغین میدان عمل میں آ رہے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس سال غانا کی کلاس بھی فارغ ہو کر نکلے گی تو اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ گو اس سے ہماری ضرورت تو پوری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ مزید واقفین نَو کو یہ خیال پیدا ہو اور وہ جامعہ میں داخل ہوں تا کہ آئندہ کی ضروریات کو ہم جس حد تک پورا کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں۔

آپ لوگ، جامعہ احمدیہ کے وہ طلباء جنہوں نے سندات حاصل کی ہیں اور میدان عمل میں آئے ہیں آج آپ پر نئی ذمہ داری پڑ رہی ہے۔ اب میدان عمل میں آپ کا مختلف لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ اپنے بھی آپ کے مخاطب ہوں گے اور غیر بھی۔ اپنوں سے بھی آپ کو ملنا ہو گا اور غیروں سے بھی اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اپنوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہو گی اور تبلیغ کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہو گی۔

ایک مربی اور مبلغ جب تبلیغ کے میدان میں ہوتا ہے تو وہاں اس سے مختلف سوال کئے جاتے ہیں۔ اسلام پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ اس لئے دنیا کا عمومی مطالعہ بھی آپ کے لئے ضروری ہے۔ جب تک ہر معاملے کا مثبت اور منفی پہلو آپ کے سامنے نہیں ہوگا آپ حقیقت میں اس کا جواب نہیں دے سکتے یا حکمت سے اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ پس اس کے لئے کوشش کریں۔

دینی تعلیم میں اضافے کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ حضرت مصلح موعود کی تفسیر سے جہاں آپ کو تاریخی اور بعض دوسرے علمی پہلو نظر آئیں گے وہاں روحانی اور علمی پہلو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر میں آپ کو مل جائیں گے۔ اس لحاظ سے دونوں کو پڑھنا ضروری ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ہیں۔ یہ نہ صرف آپ کے علم و عرفان میں اضافے کا باعث بننے والی ہیں بلکہ ایمان کو بھی مضبوط کرتی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ایک بڑا خزانہ ہیں ان کو پڑھیں اور ان سے علم حاصل کریں اور خود اپنے نوٹس بنا کر اپنے پاس رکھیں۔ یہ تربیتی لحاظ سے بھی آپ کے کام آئیں گے۔ تبلیغی لحاظ سے بھی آپ کے کام آئیں گے۔ پس اگر صحیح محنت کے ساتھ چند لیکچر بھی تیار ہو جائیں تو غیر معمولی اثر ہو سکتا ہے۔

پھر ایک بہت اہم بات ایک مربی اور مبلغ کے لئے یہ ہے کہ اس کو کبھی اپنے آپ کو فارغ نہیں سمجھنا چاہئے۔ مربی اور مبلغ کے پاس فارغ وقت ہو تا ہی نہیں۔ پھر جماعت کی تبلیغ اور تربیت کے لئے نئے نئے ذرائع سوچنے ہیں۔اس پر پھر عمل کرنا ہے۔ کس طرح عمل کرنا ہے؟ اس کے طریقے بھی آپ نے نکالنے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے تعلقات بڑھائیں۔ مبلغ کے تعلقات بھی بڑے وسیع ہونے چاہئیں اور تعلقات بڑھانے کا سلیقہ اور طریقہ بھی آنا چاہئے۔آپ خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں اور خلیفۂ وقت کی بات کو سنیں اور ایک جذبے کے ساتھ پھر اس کو آگے پھیلائیں۔ جہاں آپ تھکے کہ تربیت نہیں ہو سکتی وہیں معاملہ ختم ہو گیا۔ اس لئے تھکنا نہیں۔ اگر افراد جماعت کی اصلاح کر لیں گے یا ان میں یہ جذبہ پیدا کر دیں گے کہ ایک احمدی کی حیثیت سے ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں تو تبلیغ کے میدان خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔

یاد رکھیں کہ ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے اور وسائل ہمارے بہت کم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں سے آسانی اور کامیابی مل سکتی ہے۔ اگر جذبہ ہو، محنت ہو اور دعا ہو، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو جو بہت ضروری ہے تو پھر انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ ہر نسل پہلے سے بڑھنے والی ہو تو پھر ترقی قائم رہ سکتی ہے۔

بعض مبلغین ایسے بھی ہیں اور آپ لوگوں کو پہلے ہی سوچ لینا چاہئے کہ آپ نے ایسے نہیں ہونا جو اپنی جگہ پر بعد میں پہنچتے ہیں، پہلے ہی کار کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کام میں تیزی پیدا کرنے کے لئے آجکل کے جو ذرائع ہیں یہ ضروری ہیں اور اگر جماعت afford کر سکتی ہے تو ان کا استعمال کرنا چاہئے۔ لیکن واقف زندگی کی طرف سے مطالبات نہیں ہونے چاہئیں ۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو روک نہیں بننی چاہئیں۔

جس جماعت میں بھی آپ ہوں وہاں کے نوجوانوں کو یا جو نوجوان آپ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کو دین کے قریب کریں۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کر دوں کہ جامعہ احمدیہ کینیڈا کے پرنسپل صاحب کی رپورٹ بڑی لمبی اور بڑی تفصیلی تھی اور یوکے(UK) کی اس کے مقابلے میں مختصر۔ گو لفّاظی اس میں بہت تھی۔ لیکن لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یوکے(UK) جامعہ میں وہ تمام کام نہیں ہوئے جو جامعہ کینیڈا کر رہا ہے۔ ان کی مختلف موقعوں پر رپورٹس پیش ہوتی رہتی ہیں اور سالانہ فنکشن میں بھی۔ ہاں کینیڈا میں ایک چیز زائد ہے کہ وہاں حفظ کلاس ہے جو جامعہ کے ماتحت ہے اور باقی تو وہی کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تمام جامعات میں ہو رہے ہیں جن کی رپورٹ یہاں پیش کی گئی۔ ہادی صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کو کیونکہ میرے سامنے رپورٹ پیش کرنے کا موقع کم ملتا ہے اس لئے انہوں نے تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جامعہ احمدیہ یوکے (UK) اور کینیڈا کی ایک اور کلاس اپنی تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں آ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ربوہ اور قادیان کے علاوہ جو باقی ممالک کے جامعات ہیں جن میں یوکے(UK) کا جامعہ احمدیہ، کینیڈا کا جامعہ احمدیہ، جرمنی کا جامعہ احمدیہ ہے۔ ان میں سے پاس ہو کر ہمارے جامعہ احمدیہ کے طلباء (جو پہلے طالب علم تھے) مربی اور مبلغ بن کر میدان عمل میں آ رہے ہیں اور اس سال انشاء اللہ جامعہ احمدیہ غانا کے طلباء بھی شاہد کر کے میدان عمل میں آئیں گے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں بھی شاہدین کی کلاس شروع ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے صرف پاکستان سے مربیان ملتے تھے یا لوکل معلمین افریقہ کے بعض ممالک اور انڈونیشیا میں مل جاتے تھے لیکن اب ربوہ پاکستان اور قادیان کے علاوہ (قادیان کے مربیان و مبلغین تو عموماً وہیں کھپ جاتے تھے۔ ان کی وہیں ضرورت پوری ہو جاتی تھی سوائے چند ایک کے جو باہر ہیں) لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا ان جامعات سے بھی کافی تعداد نکل رہی ہے اور ہر سال جرمنی، کینیڈا اور یوکے (UK) کے اب تقریباً پینتیس چالیس مربیان و مبلغین میدان عمل میں آ رہے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس سال غانا کی کلاس بھی فارغ ہو کر نکلے گی تو اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ گو اس سے ہماری ضرورت تو پوری نہیں ہوتی۔ جس جس طرح جماعت پھیل رہی ہے ان کے لئے مربیان کی ضرورت ہے اور جس جس طرح اسلام کے خلاف محاذ کھڑے ہو رہے ہیں اس کے لئے مبلغین کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنا پورا وقت اس کام کے لئے دیں کہ انہوں نے ایک طرف تو جماعت کے افراد کی تربیت کرنی ہے اور دوسری طرف اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا میں پہنچانا ہے۔ پس باوجود اس کے کہ ہمیں ان ممالک میں بھی اب مبلغین ملنے شروع ہو گئے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری ضرورت پوری ہو گئی ہے۔ لیکن بہرحال بہت حد تک مدد ہو جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان سے مربیان و مبلغین کو سوائے افریقہ کے، بعض یورپین ممالک میں اور مغربی ممالک میں جانے کے لئے ویزے نہیں ملتے۔ اس لئے افریقہ کی ضرورت تو پاکستان کے مربیان سے پوری ہو رہی تھی اور ہو رہی ہے بلکہ وہاں بھی ابھی کمی ہے۔ لیکن مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں، آسٹریلیا میں، نیوزی لینڈ میں، نارتھ امریکہ میں، امریکہ کے دوسرے جزائر میں وہاں بھی ویزوں کی بڑی سختی ہے۔ یورپ میں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی۔ لیکن یہ جو تعداد نکل رہی ہے اس سے کچھ حد تک جیسا کہ مَیں نے کہا ہماری مدد ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ مزید واقفین نَو کو یہ خیال پیدا ہو اور وہ جامعہ میں داخل ہوں تا کہ آئندہ کی ضروریات کو ہم جس حد تک پورا کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں۔

آپ لوگ، جامعہ احمدیہ کے وہ طلباء جنہوں نے سندات حاصل کی ہیں اور میدان عمل میں آئے ہیں آج آپ پر نئی ذمہ داری پڑ رہی ہے۔ اب آپ لوگ طالبعلمی کے دور سے عملی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور عملی دور میں حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اب میدان عمل میں آپ کا مختلف لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ اپنے بھی آپ کے مخاطب ہوں گے اور غیر بھی۔ اپنوں سے بھی آپ کو ملنا ہو گا اور غیروں سے بھی اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اپنوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہو گی اور تبلیغ کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہو گی۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر پڑ رہی ہے۔ مختلف توقعات آپ سے مختلف طبقات کے لوگ رکھیں گے جن میں احمدی بھی شامل ہیں اور غیر بھی شامل ہیں۔ احمدی آپ کو ایک مربی اور مبلغ سمجھ کر آپ سے توقع رکھیں گے کہ جہاں آپ ان کی تربیتی ضروریات کو پورا کرنے والے ہوں وہاں اپنا نمونہ بھی اس کے مطابق دکھانے والے ہوں۔ غیر آپ سے توقع رکھیں گے کہ آپ ان کو اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو اسلام کے خلاف دلوں میں بے انتہا رنجشیں اور کدورتیں رکھے ہوئے ہیں ان کی بھی آپ نے تسلی کروانی ہے۔ ان کو بھی جواب دینے ہیں اور ان پر اسلام کی برتری اور اعلیٰ تعلیم ثابت کرنی ہے۔ پس اس کے لئے اب آپ کو تیار ہونا ہو گا۔

سات سال آپ نے جو علم حاصل کیا جیسا کہ مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں یہ تو علم حاصل کرنے کا صرف ایک شوق پیدا کرنے کے لئے ہے۔ یہ جاگ لگائی جاتی ہے۔ اس کو بڑھانا اوراس میں وسعت پیدا کرنا اور وسعت پیدا کرتے چلے جانا یہ اب آپ کا کام ہے۔ اور جس جس طرح آپ اس میں وسعت پیدا کرتے چلے جائیں گے اسی طرح آپ کو عملی میدان میں آسانیاں بھی پیدا ہوتی رہیں گی۔ اب دینی علم میں اضافہ آپ نے امتحان کے لئے نہیں کرنا۔ اب آپ نے جو پڑھنا ہے وہ امتحان دینے کے لئے نہیں پڑھنا۔ بلکہ خود کو بھی، اپنے آپ کو بھی اور دنیا کو بھی فیض پہنچانے کے لئے پڑھنا ہے۔ پس آپ کا مطالعہ اب اس سوچ کے ساتھ ہونا چاہئے۔

آپ کو دنیاوی حالات سے بھی آگاہی ہونی چاہئے تاکہ کسی مجلس میں بھی سُبکی نہ ہو۔ ایک مربی اور مبلغ جب تبلیغ کے میدان میں ہوتا ہے تو وہاں اس سے مختلف سوال کئے جاتے ہیں۔ اسلام پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ اس لئے دینی علم کے ساتھ ساتھ دنیا کا عمومی مطالعہ بھی آپ کے لئے ضروری ہے۔ اخبارات کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ آجکل کے جو ایشوز ہیں جن کو انہوں نے ایشو بنا لیا ہوا ہے ان کے بارے میں بھی آپ نے جس حد تک علم وسیع ہو سکتا ہے کرنا ہے۔ دنیا تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے منحرف ہو رہی ہے۔ وہ باتیں جن سے روکنے کے لئے انبیاء آئے تھے اور اسلام نے جس کی تعلیم دی ان باتوں کو سب سے زیادہ قانون کی آڑ میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم جنس پرستی ہے یا اور دوسری ایسی باتیں ہیں جو آزادی کے نام پر رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور حقیقت میں یاد رکھیں کہ یہ آزادی حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ مذہب کے خلاف ایک سوچی سمجھی سکیم ہے اور ایک کوشش ہے جو کی جا رہی ہے تا کہ ہر لحاظ سے مذہب سے آزاد کر دیا جائے۔ پس ایسے حالات میں آپ لوگوں کو جو سامنا کرنا پڑے گا اس کے لئے آپ کو علم بھی ہونا چاہئے اور جواب دینے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے۔ مداہنت نہیں دکھانی۔ خوف نہیں کھانا۔ لیکن ساتھ ہی حکمت سے جواب دینا ہے تا کہ آپ کو مزید جواب دینے کے مواقع ملتے رہیں۔ یہ نہ ہو کہ آپ ایسا جواب دیں جس سے آپ کے رستے میں روکیں حائل ہو جائیں اور آپ کو مزید اپنا کام کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

پس اس کے لئے مختلف طریقے آپ کو آزمانے ہوں گے اور جب تک ہر معاملے کا مثبت اور منفی پہلو آپ کے سامنے نہیں ہوگا آپ حقیقت میں اس کا جواب نہیں دے سکتے یا حکمت سے اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ پس اس کے لئے کوشش کریں۔

دینی تعلیم میں اضافے کے لئے قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ جماعت میں اس وقت جو معروف تفسیر ہے وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے گو یہ تمام قرآن کریم کی تفسیر تو نہیں لیکن کافی حد تک ہے۔ جو دس جلدوں میں آپ نے تفسیر کی ہے اس کو ضرور پڑھنا چاہئے اور اسی تفسیر میں جن سورتوں کی تفسیر نہیں بھی ہوئی ان کی متعلقہ آیات کی تفسیر بعض دفعہ تشریح میں آ جاتی ہے۔

اسی طرح Five volume commentary میں کچھ حد تک تفسیر آ جاتی ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض آیات کی تفسیر کی ہے اس تفسیر کو بھی پڑھنا چاہئے۔حضرت مصلح موعود کی تفسیر سے جہاں آپ کو تاریخی اور بعض دوسرے علمی پہلو نظر آئیں گے وہاں روحانی اور علمی پہلو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر میں آپ کو مل جائیں گے۔ اس لحاظ سے دونوں کو پڑھنا ضروری ہے۔

مَیں اکثر نئے فارغ ہونے والے مربیان کو یہ کہتا ہوں کہ یہ تفسیریں پڑھیں اور اپنی زندگی میں اگر اپنے دینی علم سے فائدہ اٹھانا ہے یا دینی علم کو بڑھانا ہے اور اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے تو یہ تفسیریں پڑھنا بڑا ضروری ہے۔ لیکن جب جائزہ لیا جائے تو جتنا مطالعہ کرنا چاہئے اتنا مطالعہ نہیں کرتے۔ پس اس طرف خاص توجہ دیں۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ہیں۔ یہ نہ صرف آپ کے علم و عرفان میں اضافے کا باعث بننے والی ہیں بلکہ ایمان کو بھی مضبوط کرتی ہیں بلکہ یہی علم و عرفان جو ہے دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بھی بہت بڑا ہتھیار ہے بڑا کارآمد ہے۔ پس ضرور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب زیر مطالعہ رکھیں۔

جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں خواجہ کمال الدین صاحب بڑے عالم گزرے ہیںجو بعد میں خلافت ثانیہ میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے تھے۔ حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے میری کامیابی کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہیں۔ میں دنیا سے بحث کرتا ہوں اور لیکچر دیتا ہوں اور کوئی میرے لیکچروں کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے اپنے لیکچر تیار کرتے تھے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لاتے تھے، ان سے پوچھتے تھے، کچھ درستگیاں کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کی رائے لیتے تھے اور پھر جب ایک لیکچر تیار ہو جاتا تھا تو پھر ہندوستان کے شہروں میں دورے کرتے تھے اور وہاں وہ لیکچر دیا کرتے تھے اور بڑے کامیاب ہوتے تھے ۔ ان کی کامیابی کا راز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہی ہیں گو کہ بعد میں ان لوگوں کی بدقسمتی کہ انہی کتب کے خلاف چلتے ہوئے انہوں نے علیحدہ غیر مبائع کا اپنا ایک گروہ بنا لیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے تھے کہ خواجہ صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر اس طرح کے بارہ لیکچر انسان کے پاس ہوں جو میں تیار کرتا ہوں تو وہ انسان کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی دنیا میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور غیر معمولی شہرت اسے ہو سکتی ہے۔ اور جب حضرت مصلح موعود سے ان کا واسطہ تھا، رابطہ تھا تو یہ بھی خواجہ صاحب نے کہا کہ میں نے ابھی تک سات لیکچر تیار کئے ہیں اور سات لیکچر تیار کرنے کے بعد وہ یہاں یوکے(UK) میں مبلغ بن کے آ گئے لیکن ان سات لیکچروںپر ہی وہ یہاں بڑے مقبول تھے۔ بڑی مشہوری ان کی ہوئی اور بڑے کامیاب تھے۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 26 صفحہ 459) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ایک بڑا خزانہ ہیں۔ان کو پڑھیں اور ان سے علم حاصل کریں اور خود اپنے نوٹس بنا کر اپنے پاس رکھیں۔ تربیتی لحاظ سے بھی آپ کے کام آئیں گے۔ تبلیغی لحاظ سے بھی آپ کے کام آئیں گے۔ پس اگر صحیح محنت کے ساتھ چند لیکچر بھی تیار ہو جائیں تو غیر معمولی اثر ہو سکتا ہے۔

پھر ایک بہت اہم بات ایک مربی اور مبلغ کے لئے یہ ہے کہ اس کو کبھی اپنے آپ کو فارغ نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اب میرے پاس فارغ وقت ہے۔ مربی اور مبلغ کے پاس فارغ وقت ہو تا ہی نہیں۔ وقف زندگی آپ نے کیا ہے اور وقف زندگی کا مطلب ہی یہی ہے کہ چوبیس گھنٹے دن کے، سات دن ہفتے کے اور بارہ مہینے سال کے۔ اس لئے اس سوچ کے ساتھ آپ نے اپنی زندگی گزارنی ہے کہ میرے پاس فارغ وقت کوئی نہیں اور نہ فارغ سمجھنا چاہئے۔ جہاں فارغ سمجھیں گے وہاں دنیاوی شغلوں میں مصروف ہو جائیں گے۔ اگر دنیاوی شغل ہیں بھی، کھیل ہے یا اور تفریح ہے تو وہ بھی اس لئے ہو کہ جسم صحتمند ہو، دماغ تازہ ہو تا کہ پھر کام میں مصروف ہو جائیں۔ اگر کسی کے پاس فارغ وقت ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے پاس کوئی کام نہیں، اوّل تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کام نہ ہو اور اگر سمجھتا ہے کام نہیں تو پھر کام خود نکالنا ہے اور وہ کام نکالنا مطالعہ ہے، چاہے وہ دنیاوی مطالعہ ہو یا دینی علم کا مطالعہ ہو۔

پھر آپ کی توجہ اس طرف ہونی چاہئے کہ جماعت کی تبلیغ اور تربیت کے لئے نئے نئے ذرائع سوچنے ہیں۔ ان ذرائع پر جو سوچیں اس پر پھر عمل کرنا ہے۔ کس طرح عمل کرنا ہے؟ اس کے طریقے بھی آپ نے نکالنے ہیں۔

تربیت کے لحاظ سے یہ کوشش کہ جو میرے سپرد کئے گئے ہیں میں کس طرح ان لوگوں کی تربیت کروں کہ ان کو خدا کے قریب تر کر سکوں۔آپ نے میری پرانی تقریروں سے حوالے لے کر یہاں مختلف بینر لگائے ہیں لیکن صرف یہ لگانے کے لئے نہیں ہیں ہمیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ جب آپ یہ سوچیں گے کہ کس طرح میں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا ہے تو خود بھی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی کیونکہ اگر اپنے عمل نہیں تو آپ کو کامیابی نہیں مل سکتی۔ میں نے جائزہ لیا ہے بہت سے ایسے ہیں جن کی تہجد کے وقت کی طرف توجہ نہیں۔ نوافل کی طرف توجہ نہیں۔ بلکہ فجر کی نماز میں بھی بعض سستی دکھا جاتے ہیں۔ اس سستی کو ترک کرنا ہو گا۔ اب آپ مبلغ ہیں، مربی ہیں اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ بہرحال آپ کو یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا کہ ہم نے دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے اور انقلاب آسانی سے نہیں پیدا ہو سکتے۔ پہلے اپنی حالتوں میں تبدیلی سے پیدا کئے جاتے ہیں۔

پھر تبلیغ کے ذرائع سوچنے ہوں گے اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ ان ذرائع کا استعمال کس طرح کرنا ہے؟ صرف روایتی تبلیغ نہیں ہے کہ سٹال لگا لیا، پمفلٹ تقسیم کر دئیے۔ ہر جگہ، ہر ملک میں، ہر علاقے میں وہاں کے حالات کے مطابق ذرائع سوچیں تبھی آپ کی کامیابی ہو سکتی ہے۔

پھر اس کے علاوہ اپنے تعلقات بڑھائیں۔ مبلغ کے تعلقات بھی بڑے وسیع ہونے چاہئیں اور تعلقات بڑھانے کا سلیقہ اور طریقہ بھی آنا چاہئے۔ پس ایک مربی اور مبلغ کے لئے فارغ وقت آرام کے لئے نہیں، کام کرنے کے لئے ہے۔ سوچنے کے لئے ہے۔ پڑھنے کے لئے، علم حاصل کرنے کے لئے ہے اور پھر ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ اس پر عمل کرنے کے لئے ہے۔ روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کرنی بھی ضروری ہے۔ علم میں اضافے کے لئے کوشش کرنا ضروری ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو۔(ماخوذ از ہدایاتِ زریں انوار العلوم جلد 5 صفحہ 599) اب یہ آگ لگانا پٹرول چھڑک کر تِیلی سے آگ لگانا نہیں۔ ایک جذبہ ہو۔ ایک جوش ہو۔ آجکل تو آگ کے نام سے اگر کسی مسلمان کے حوالے سے یہ آ جائے اور میڈیا میں آ جائے کہ میں نے کہہ دیا کہ آگ لگا دو تو کہہ دیں گے دیکھو ہم تو پہلے ہی کہتے تھے سارے مسلمان ایک جیسے ہیں۔ یہ احمدی بھی اوپر اوپر سے کچھ ہیں اندر سے اپنے مربیوں کو کہتے ہیں آگ لگا دو۔ تو ایسی آگیں نہیں لگانیں بلکہ آگ دل میں لگانی ہے۔ ایک جذبہ ہو ایک شوق ہو تا کہ جس علاقے میں آپ جائیں ان کو پتا ہو کہ یہاں احمدی مبلغ رہتا ہے اور تبلیغ کر کے اس علاقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا چرچا کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ پیدا ہو۔

اسلام کی تعلیم کے ایسے پہلو ہیں کہ اگر لوگوں کو بتائے جائیں تو وہ سنتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔ کینیڈا میں ایک جگہ میں نے غیر مسلموں سے خطاب کیا ۔وہاں ایک ایسا شخص بھی تھا جو کسی مذہب کو نہیں مانتا بلکہ مذہب کے خلاف تھا اور اسلام کے خلاف تو سارے ہیں ہی۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ اگر میں نے کبھی کسی مذہب کو مانا تو وہ احمدیت ہو گی۔ احمدی اسلام ہو گا۔ کیونکہ آپ کی باتوں میں ایک ایسی چیز ہے جو اسلام کے حسن کو نکھار رہی ہے۔ پس کوشش کریں کہ جس علاقہ میں بھی آپ ہوں حکمت سے اس علاقہ میں احمدیت کا تعارف کروا دیں۔ انقلاب کی بات، آگ لگانے کی کیا بات ہے۔ ابھی تو ہمارا یہ حال ہے کہ افراد جماعت اپنے اندر بھی جو انقلاب ہونا چاہئے وہ بھی پیدا نہیں کر سکے۔ مربیان ابھی تک یہی لکھتے ہیں کہ فلاں کا یہ حال ہے۔ اس کی تربیت میں کیسے کروں؟ میدان عمل میں آپ بیٹھے ہیں اور پوچھ مجھے رہے ہیں کہ کس طرح کروں۔ آپ نے ذرائع تلاش کرنے ہیں کہ کس طرح ہر ایک کی اپنے اپنے مزاج کے لحاظ سے تربیت کرنی ہے۔

آپ خلیفۂ وقت کے نمائندے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی بات کو سنیں اور ایک جذبے کے ساتھ پھر اس کو آگے پھیلائیں۔ جہاں آپ تھکے کہ تربیت نہیں ہو سکتی وہیں معاملہ ختم ہو گیا۔ اس لئے تھکنا نہیں۔ اپنی جماعت کے ہر فرد کو جب تک ہماری تعلیم پر عمل کرنے والا نہیں بنا لیں، اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا نہیں بنا لیں چَین سے نہ بیٹھیں۔ اگر افراد جماعت کی اصلاح کر لیں گے یا ان میں یہ جذبہ پیدا کر دیں گے کہ ایک احمدی کی حیثیت سے ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں تو تبلیغ کے میدان خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ جہاں افراد جماعت میں یہ جذبہ اور شوق ہے وہاں تبلیغ کے میدان خود بخود کھل رہے ہیں۔

پس یاد رکھیں کہ ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے اور وسائل ہمارے بہت کم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں سے آسانی اور کامیابی مل سکتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اپنے آپ کو اس کے مطابق بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام اور پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے کیا ہوا ہے اور یہ انشاء اللہ تعالیٰ ہو کے رہنا ہے لیکن اپنا حصہ لینے کی کوشش ہمیں کرنی چاہئے۔ ہم دوسروں کو تبھی کہہ سکتے ہیں جب ہم خود بھی کوشش کر رہے ہوں تا کہ اس کے حصہ دار بھی بنیں اور اس سے ثواب حاصل کرنے والے بھی بنیں۔

پرانے مبلغین، pioneer مبلغین جو شروع میں افریقہ میں گئے ان کے پاس تو سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی۔ کھانا بھی مشکل سے ملتا تھا یا دودھ اگر میسر آ گیا تو ایک گلاس دودھ پی لیا یا میں نے بعض مبلغین سے مثلاً مولوی شریف صاحب سے یہ بھی سنا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ الاؤنس توپورا ہوتا نہیں تھا تو توس پانی میں ڈبو کے کھا لیا کرتے تھے یا توس کھا لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ تو یہ ان کے حالات تھے۔ جبکہ اُسی زمانے میں عیسائی مشنریوں کو تمام سہولیات میسر تھیں۔ مَیں بھی جب گھانا میں رہا ہوںتو ہمارے گھر میں رات کو جلانے کے لئے ایک کیروسین کا لیمپ ہوتا تھااور عیسائی چرچ جو ساتھ تھا ان کے جنریٹر بھی چل رہے تھے۔ لائٹیں بھی جل رہی ہوتی تھیں۔ ان کے پاس کاریں بھی اور ٹرک بھی اور پک اَپس(Pickup) بھی اور موٹر سائیکل بھی تھے اور وہ لوگ تبلیغ کرتے تھے۔ تو یہی حال ان پرانے مبلغین کے زمانے میں تھا کہ ان کو ساری سہولتیں نہیں تھیں۔ گو شروع میں عیسائی مبلغین نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں اور عیسائیت کو وہاں افریقہ میں پھیلایا ہے۔ لیکن 1921ء کے زمانہ میں جب ہمارے مبلغین گئے ہیں اور اس کے بعد کے زمانے میں اس وقت عیسائی مبلغین اسٹیبلش(establish) ہو چکے تھے اور ان کے پاس تمام سہولتیں تھیں لیکن اس کے باوجود ہمارے مبلغین کی کوششیں اور دعائیں تھیں جنہوں نے وہاں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ تھی آگ لگانا۔ خود عیسائیوں نے اعتراف کیا کہ ہماری ترقی میں اب احمدی مبلغین روک بن رہے ہیںا ور جس تیزی سے عیسائیت پھیل رہی تھی وہ رک گئی ہے بلکہ مغربی افریقہ میں ویسٹ کوسٹ کے سارے علاقہ میں عیسائیوں کی اکثریت تھی اور انہی میں سے احمدی ہوئے ہیں۔ گھانا کی لاکھوں میں بہت بڑی تعداد جو شروع کے احمدیوں کی تھی وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے تھے۔ پس بغیر کسی سہولت کے انہوں نے ایک انقلاب پیدا کیا۔ اگر جذبہ ہو، محنت ہو اور دعا ہو، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو جو بہت ضروری ہے تو پھر انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ ہر نسل پہلے سے بڑھنے والی ہو تو پھر ترقی قائم رہ سکتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آپ کو ماننے والے جو لوگ تھے وہ ملیریا کے مریض بڑے غریب لوگ تھے۔ علاقے میں مچھر تھے۔ ہر ایک کو ملیریا بخار ہوتا تھا۔ جن کو ملیریا ہو ان کو پتا ہے کہ کس طرح کمزوری ہو جاتی ہے۔ غربت کی وجہ سے خوراک بھی کوئی نہیں تھی۔ ایک وقت شاید روٹی ملتی ہو مگر اخلاص اور قربانی اس قدر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے کوئی لفظ سنتے۔ حکم ہوتا کہ آج فلاں کام کر کے آؤ تو فوراً تعمیل کرتے اور راتوں رات اسی حالت میں پیدل ہی بٹالہ یا گورداسپور یا امرتسر پہنچ جاتے اور کام کر کے واپس آتے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اور یہ بڑی صحیح بات ہے کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور اگر ہماری ترقی ہے تو یہ ہے کہ ہم اس سے زیادہ سفر کرنے والے ہوں۔ اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشکلات برداشت کرنے کے عادی بنانے والے ہوں اور اگر یہ نہیں ہے تو پھر قابل فکر بات ہے۔(ماخوذ از انوار العلوم جلد 18 صفحہ 474)

بعض مبلغین ایسے بھی ہیں اور آپ لوگوں کو پہلے ہی سوچ لینا چاہئے کہ آپ نے ایسے نہیں ہونا جو اپنی جگہ پر بعد میں پہنچتے ہیں اور پہلے ہی کار کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کام میں تیزی پیدا کرنے کے لئے آجکل کے جو ذرائع ہیں یہ ضروری ہیں اور اگر جماعت afford کر سکتی ہے تو ان کا استعمال کرنا چاہئے۔ لیکن واقف زندگی کی طرف سے مطالبات نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو روک نہیں بننی چاہئیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ پرانے مبلغین نے سائیکلوں سے ہی ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ لوگ سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر جاتے تھے یا پیدل چل کر جاتے تھے۔ بعض دفعہ جنگلوں میں ان کو بڑے بڑے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ کامیاب ہوئے۔ مقامی امراء کو بھی مبلغین کا خیال رکھنا چاہئے اور سہولتیں دینی چاہئیں اور مرکز کو بھی خیال رکھنا چاہئے اوربغیر کسی مطالبہ کےسہولتیں دینی چاہئیں۔ بجائے اس کے کہ ان کو مطالبہ کرنے والا بنائیں، جس حد تک جماعت کے وسائل ہیں ان کی ضروریات پوری کریں۔ لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو ایک مبلغ اور مربی کو کسی قسم کی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ بس اس کا ایک مقصد ہو کہ میں نے ایک انقلاب پیدا کرنا ہے اور جیسے بھی حالات ہوں کام کئے جانا ہے اور اس میں سستی نہیں پیدا کرنی۔ تبھی آپ خلیفۂ وقت کی نمائندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

گزشتہ سالوں میں مختلف convocations میں مَیں نے بڑی تفصیل سے بعض باتیں کہی ہیں ان کو بھی پڑھیں اور علاوہ ان باتوں کے جو مَیں اَب کہہ رہا ہوں وہ بھی اپنے سامنے رکھیں۔

اب جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کا سیکھنے کا دَور ختم ہوگیا ہے۔ اس طرح سیکھنا جو امتحان کے نقطۂ نظر سے ہو لیکن ویسے سیکھنے کا دَور اور علم حاصل کرنے کا دَور کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم تو پنگھوڑے سے لے کے مرتے دم تک(تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ 275 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)، قبر تک انسان کو حاصل کرنا چاہئے اور وہ آپ نے حاصل کرنا ہے۔ اب سیکھنے کے دور کے ساتھ آپ کا سکھانے کا دور بھی ہے۔ پس ہر بات جو آپ نے سیکھنی ہے اس نقطۂ نظر سے سیکھنی ہے کہ آگے سکھانی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔ جس جماعت میں بھی آپ ہوں وہاں کے نوجوانوں کو یا جو نوجوان آپ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کو دین کے قریب کریں۔ نوجوانوں میں دنیاداری بہت زیادہ پیدا ہو رہی ہے اور آپ جو نوجوان مربی اور مبلغین ہیں ان کو دین کے قریب تر لا سکتے ہیں۔ دنیا سے دور کریں۔ نوجوانوں میں اور نئی نسل میں قربانی کی روح پیدا کریں۔ دین کی اہمیت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ ہر ایک اپنے آپ کو یا ہر ایک اپنے ہاتھ کو، ہر مربی اور ہر مبلغ اپنے ہاتھ کو اب طلحہ کا ہاتھ سمجھے کہ اگر وہ پیچھے ہٹا تو اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے تبھی آپ اپنے انتہائی مقصد کو پا سکتے ہیں جو آپ کے سامنے ہے۔ پس ان باتوں کو ہمیشہ توجہ دیں، غور کریں اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button