حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

کینیڈا جلسہ سالانہ، 08؍اکتوبر2016ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

(جماعت احمدیہ کینیڈا کے40ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر08؍اکتوبر2016ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انٹرنیشنل سینٹر Mississauga میں مستورات سے خطاب)

آجکل جو دنیا کی نئی سے نئی ترقی ہے اس کے ساتھ آزادی کے نام پر مذہب سے دُوری شیطانی کام ہے جس میں انسان روز بروز گرتا چلا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول رہا ہے اور دنیا کی چمک دمک غالب آ رہی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مان لیا اور اس کی بیعت میں شامل ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم شیطان کے ہر حملے کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس پر الٹا دیں گے۔ اس کے ہر بہکاوے پر اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے بچنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ اس کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور احمدی عورت اور لڑکی کی سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس نے صرف اپنے آپ کو ہی شیطان کے حملوں سے نہیں بچانا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی ان حملوں سے بچانا ہے۔

اعتقادی رنگ میں کوئی حقیقی احمدی خواہ وہ عورت ہے یا مرد اپنے مذہب کو دوسری چیزوں پر ترجیح نہیں دے گا۔ لیکن عملی طور پر اگر جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کے باوجود بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی نہیں ہے۔

عورت ہی ہے جو بچوں کی تربیت کر کے قوم کی بنیادیں مضبوط کرتی ہے یا کر سکتی ہے۔ جو قومیں بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتیں وہ زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ ہر احمدی عورت کو اور لڑکی کو اس اہم ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری نسلوں کی ترجیحات کبھی دنیا نہ ہو بلکہ دین ہو ۔

بہت سے بچے واقفینِ نَو ماؤں کی گودوں میں ہیں ان کی تربیت کرنا ماؤں کا فرض ہے ۔اس کے لئے محنت بھی کرنی ہے۔ صرف ایک وعدہ کر دینا کافی نہیں ہے۔

بعض لڑکیاں اچھے رشتے صرف اس لئے گنوا دیتی ہیں کہ ہم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔بیشک اعلیٰ تعلیم بڑی اچھی چیز ہے لیکن اس سے بھی اعلیٰ بات یہ ہے کہ احمدی بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اور دنیاوی لحاظ سے بھی ایک فوج تیار ہو جو اس بگڑے ہوئے زمانے میں اپنی نسلوں کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی ضمانت بن جائے۔

قرآن کریم میں بعض احکامات خاص طور پر عورت کے حوالے سے آئے ہیں جو عورت کے مقام کو قائم کرنے کے لئے ہیں۔ ہر احمدی عورت کو ہر احمدی لڑکی کو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ مثلاً پردہ ہے یہ کوئی ایسا حکم نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آپ کے خلفاء نے جاری فرمایا۔ بلکہ یہ وہ حکم ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور مختلف جگہ پر اس کو بیان کیا ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کی حکمت بیان فرمائی ہے اور بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ اس زمانے کی حالت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے بیان کیا ہے۔ اسلام اصل میں پردے کے ذریعہ عورت کی عزت اور عفت قائم کرنا چاہتا ہے۔پہلے تو مَردوں کو ہی یہ حکم دیا ہے کہ تم عورت کی عزّت اور عفّت کو قائم کرو۔ پھر اگلی آیت میں عورتوں کو بھی کہا کہ ہر قسم کے شر سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھو ۔

بعض احمدی لڑکیوں کو پتا نہیں کیوں احساس کمتری ہے کہ اگر انہوں نے پردہ کیا تو لوگ انہیں جاہل سمجھیں گے۔ پس ایسی لڑکیاں یہ دیکھ لیں کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے یا لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ دنیا کے فیشن کو نہ دیکھیں۔ یہ دیکھیں کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر ہے یا نہیں۔ فیشن کرنا منع نہیں ہے اگر ان حدود کے اندر ہے تو بیشک کریں اور جس ماحول میں کرنے کا حکم ہے اس میں کریں اور ایسی مثالیں قائم کریں کہ دنیا آپ کے پیچھے چلنے والی ہو۔ پس جہاں ہر احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ دعاؤں سے مدد مانگتے ہوئے اپنی اولاد کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کر سکیں وہاں اپنے ہر عمل کو بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

دنیا میں جوں جوں تعلیم میں اضافے، نئی ایجادات اور میڈیا کی وجہ سے آپس میں ایک علاقے اور ملک کے لوگوں کو دوسرے علاقے اور ملک کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پتا چل رہا ہے۔ ایک ملک کا واقعہ منٹوں میں دوسرے دور دراز کے ملکوں میں رہنے والوں کو پتا چل جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے رہن سہن اور ترجیحات کو کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں میں رہنے والوں کی اکثریت دیکھ اور سن سکتی ہے۔ جہاں اس کے فوائد ہیں وہاں اس کے بعض نقصانات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ کم وسائل والے لوگوں میں بے چینیاں اور احساس کمتری پیدا ہو رہا ہے۔ مذہب اور اس کی تعلیمات کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے ۔ آزادی کے نام پر مذہبی اور اخلاقی زوال کو قانونی تحفظ دیا جانے لگا ہے۔ ایسی باتیں جن کو مذہبی تاریخ نے قوموں کی تباہی کی وجہ بتایا انہیں آزاد اور ترقی یافتہ معاشرے کا طرّۂ امتیاز بتایا جاتا ہے ان کی خوبی بتائی جاتی ہے۔ بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس سے چھوٹی عمر کے بچوں کا کوئی واسطہ اور تعلق ہی نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعضوں کو سمجھ بھی نہیں آتی کہ ہمیں کہا کیا جا رہا ہے اور بعض بچے اس بات کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ فحاشی کو ترقی یافتہ ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ قدم قدم پر شیطان کے اس اعلان کا اظہار نظر آتا ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ کو کہا تھا کہ اے خدا تُو نے مجھے راندۂ درگاہ کیا ہے، تُو نے آدم کو مجھ پر فوقیت دی ہے تو مَیں اب آدم کے ہر راستہ پر کھڑا ہو کر تیرے حکموں کے خلاف اسے بھڑکاؤں گا۔ دین سے ہٹاؤں گا اور انسانوں کی اکثریت جن میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی شامل ہیں میری پیروی کریں گی۔ یہ شیطان نے اعلان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً یہی فرمایا کہ ٹھیک ہے تُو اپنا کام کر لیکن مَیں تیرے پیچھے چلنے والوں سے جہنم کو بھروں گا۔ جو تیری پیروی کریں گے وہ جہنم میں جائیں گے۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں زبردستی انہیں تیری گود میں گرنے سے روکوں گا۔

پس آجکل جو دنیا کی نئی سے نئی ترقی ہے اس کے ساتھ آزادی کے نام پر مذہب سے دُوری شیطانی کام ہے جس میں انسان روز بروز گرتا چلا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول رہا ہے اور دنیا کی چمک دمک غالب آ رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب بھی زمانے میں دنیاوی ہواو ہوس نے غلبہ پایا، انسان شیطان کی گود میں بے انتہا گرنا شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے اور انبیاء بھیجے جو انسان کو آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جب بھی ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم42:) کے حالات پیدا ہوئے، دنیا میں ہر جگہ خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف عمل نظر آنے لگے، اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور نبی مبعوث ہوئے ۔ یہ مذہب کی تاریخ ہے اور اس کے نظارے ہر قوم نے دیکھے۔ پس کیا اب اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے اپنی رحمت کے جذبے کو ختم کر دیا؟ کیا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف سابقہ قوموں کے لئے تھا؟ کیا خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ شیطان سے ہار مان لی ہے کہ تم جو چاہو کرو؟ میں نے انسان کو پیدا تو کر دیا ہے، اسے اچھے برے کی تمیز بھی دے دی لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا، مجبور ہو گیا ہوں تمہارے ہاتھ۔ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ پہلے کبھی اپنی صفات اور طاقتوں سے محروم ہوا نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ اس نے بیشک انسان کو یہ آزادی تو دی کہ تمہارے عملوں کو مَیں پابند نہیں کرتا لیکن برائیوں سے بچانے کے لئے مَیں رہنمائی کرتا رہوں گا۔ جو برائیوں سے بچیں گے اور نیکیوں کو اختیار کریں گے انہیں مَیں جنت کی نعمتوں سے نوازوں گا۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے حکموں پر چلنے سے اس دنیا میں بھی جنت کے سامان ہوں گے اور اُخروی زندگی میں بھی جنت کے سامان ہوں گے اور جو اس سے دُور جائیں گے وہ جہنم کا ٹھکانہ پائیں گے۔

پس اللہ تعالیٰ جب دنیا میںفساد کی حالت دیکھتا ہے، مذہبی کہلانے والوں کو بھی دین کو دنیاوی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ بنا کر فساد پیدا کرتے ہوئے دیکھتا ہے جیسا کہ آجکل دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بہت ساری تنظیمیں اور علماء یہی کام کر رہی ہیں اور دنیاوی لوگوں کو بھی بے انتہا گراوٹوں میں گر کر فساد میں مبتلا دیکھتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے اور پھر یُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (الروم51:) کا نظارہ دکھاتا ہے۔ زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ زمین میں بسنے والوں پر وہ پانی اتارتا ہے جو روحانی مُردوں کی زندگی کا باعث بنتا ہے۔

تعلیمی ترقی اور نئی ایجادات نے جہاں انسانوں کے ذہنوں کو روشن کیا ہے وہاں اکثریت کو روحانی طور پر مُردہ کر دیا ہے۔ حتی کہ مسلمان بھی کامل تعلیم کے باوجود غلط قسم کے علماء کے پیچھے چل کر روحانی طور پر مُردہ ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ ہونا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ہمیں پہلے ہی یہ بتا دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی تھی کہ اس فساد کے زمانے میں، روحانی زوال کے زمانے میں، دنیاوی خواہشات کے بڑھنے کے زمانے میں، اسلامی تعلیمات کو بھلانے کے زمانے میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام دنیا کی رہنمائی کے لئے آئے گا اور احیائے موتیٰ کا ذریعہ بنے گا۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مان لیا اور اس کی بیعت میں شامل ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم شیطان کے ہر حملے کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس پر الٹا دیں گے۔ اس کے ہر بہکاوے پر اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے بچنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ پس آپ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ لیکن یہ شکرگزاری صرف منہ کے اعلان سے ہی مقصد پورا نہیں کر سکتی کہ الحمد للہ ہم شکرگزار ہیں اللہ کے کہ ہم احمدی ہو گئے۔ اس کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور احمدی عورت اور لڑکی کی سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس نے صرف اپنے آپ کو ہی شیطان کے حملوں سے نہیں بچانا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی ان حملوں سے بچانا ہے۔ عورت ہے جس کی کوکھ سے بچہ جنم لیتا ہے۔ عورت ہے جس کی گود میں بچہ پلتا ہے، بڑھتا ہے۔ عورت ہے جو اپنے بچہ کو باہر کے ماحول سے متاثر ہونے سے پہلے اپنے بچے کی اس نہج پر تربیت کر سکتی ہے کہ اسے پتا چل جائے کہ برائی کیا ہے اور اچھائی کیا ہے۔ ایک حقیقی احمدی مسلمان عورت اپنے بچے کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کے علاوہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق کے معیار کیا ہیں۔ ایک احمدی عورت ہے جو اپنے بچہ کو بتا سکتی ہے، اس کے کان میں بچپن سے ڈال سکتی ہے کہ تمہارے احمدی مسلمان ہونے کا مقصد کیا ہے۔ اس موجودہ بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ تربیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ہر احمدی عورت کے لئے، ہر احمدی ماں کے لئے۔ ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔

اس وقت آپ میں سے اکثریت جو میرے سامنے بیٹھی ہیں وہ اس لئے یہاں آئی ہیں کہ ان کے اپنے ملکوں میں ان کو مذہب کی آزادی سے محروم کیا گیا۔ یہاں بعض ایسی بھی ہیں جو معاشرتی بہتری کے لئے آئی ہیں یا پھر بعض دوسرے ظلموں کا نشانہ بنی ہیں۔ جو تو مذہبی مظالم کی وجہ سے آئے ہیں، عورتیں ہوں یا مرد وہ تو کبھی یہ سوچ نہیں سکتے اور مَیں امید رکھتا ہوں کبھی یہ سوچ ہو گی بھی نہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں آ کر مذہب کو ثانوی حیثیت دے دیں، مذہب ان کے لئے ثانوی حیثیت اختیار کر جائے۔ بلکہ وہ بھی جو مذہبی وجوہات کی وجہ سے نہیں آئے، مَرد ہوں یا عورتیں وہ بھی اِلَّا مَاشَاءَاللہ نہیں سوچ سکتے کہ مذہب کو پیچھے پھینک دیں۔

گویا اعتقادی رنگ میں کوئی حقیقی احمدی خواہ وہ عورت ہے یا مرد اپنے مذہب کو دوسری چیزوں پر ترجیح نہیں دے گا۔ لیکن عملی طور پر اگر جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کے باوجود بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی نہیں ہے۔ اور اگر عورتوںکے عمل اس تعلیم کے مطابق نہیں تو بچے بھی پھر وہی نمونے قائم کریںگے۔ وہ مائیں جو بچپن سے اپنے نمونے بچوں کے سامنے رکھتی ہیں اور بچوں کے معاملات میں حکمت سے نظر رکھنے والی ہیں ان کے بچے ہر اچھی بری بات گھر آ کر اپنی ماؤں سے شیئر(share) کرتے ہیں، انہیں بتاتے ہیں۔ اور مائیں پھر حکمت سے جواب بھی دیتی ہیں۔ ایسی ماؤں کے بچے پھر ماحول کے اثر میں نہیں آتے اور جوانی میں بھی ماحول کی برائیوں سے بچنے والے ہوتے ہیں لیکن جو مائیں بچوں کے معاملات میں شروع بچپن سے ہی دلچسپی نہیں لیتیں، وہ سمجھتی ہیں ان کے کھیلنے کودنے کی عمر ہے، کوئی ایسی بات نہیں ہے سیکھ رہا ہو گا۔ ضرورت سے زیادہ حسن ظنی رکھتی ہیں یا بے توجہگی کرتی ہیں یا پھر سختی بھی کرتی ہیں ۔ اگر یہ بچے کوئی بات کریں تو بغیر دلیل کے سختی سے ان کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتی ہیں، صرف معمولی سختی نہیں کرتیں۔ پھر وہ بچے ماؤں کو اپنی باتیں بتانا بند کر دیتے ہیں اور جب تیرہ چودہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو پھر گھر سے زیادہ باہر کا ماحول ان کو اچھا لگتا ہے۔ دین سے زیادہ دنیا ان کی نظر میں اچھی ہوتی ہے۔

مَیں باپوں کو اس تربیت کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتا۔ یقینا باپ بھی ذمہ دار ہیں۔ بعض دفعہ ماؤں کی تربیت کے باوجود باپوں کے عمل کو دیکھ کر بچے بگڑتے ہیں۔ پس باپوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے اور ان کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہوںنے اس ذمہ داری کا حق ادا کرنا ہے۔

لیکن زیادہ وقت بچے ماؤں کے پاس رہتے ہیں اس لئے اسلام ماؤں پر ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کا حق ادا کریں۔

بچوں کی تربیت کی ذمہ داری جیسا کہ میں نے کہا کہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے اور اس بگڑے ہوئے معاشرے میں جہاں ہر قدم پر شیطان نے دنیاوی ترقی کے نام پر اپنی طرف کھینچنے کے سامان کئے ہوئے ہیں اور پھر جب بچے اپنے ساتھ کے غیر بچوں کو بعض کام کرتے دیکھتے ہیں خاص طور پر جب بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان میں بے چینیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پس یہ تربیت جو ماں کرتی ہے اور جس محنت سے اس طرف توجہ دیتی ہے یہ جہاد سے کم نہیں ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے سوال کرنے پر کہ ہم جہاد پر تو جا نہیں سکتیں کیا، گھروں کو سنبھالنے اور بچوں کی تربیت کرنے پر جہاد جیسا ثواب کمائیں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقینا یہ تمہارا جہاد ہے اور اس کا ثواب تمہیں جہاد جتنا ہے۔

(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 11 صفحہ 177-178 حدیث 8369 مطبوعہ الرشد ناشرون ریاض2004ء)

دیکھیں کتنا مقام ہے بچوں کی تربیت کا اور کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس مقام کا احساس دلایا ہے۔ عورت ہی ہے جو بچوں کی تربیت کر کے قوم کی بنیادیں مضبوط کرتی ہے یا کر سکتی ہے۔ جو قومیں بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتیں وہ زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔

اخبار ہر سال یہ تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ مذہبی لحاظ سے مثلاً عیسائی ممالک میں ایک بڑی تعداد ہر سال عیسائیت سے لاتعلق ہو رہی ہے، اسے چھوڑ رہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ پر یقین ہی ختم ہو رہا ہے۔ کیوں عیسائیت میں جتنی بھی وہ باتیں ہیں جو بائبل میں برائیاں اور بداخلاقیاں لکھی گئی ہیں آج ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے حتی کہ بعض پادری بھی یہ بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں فلاں برائی اب کوئی برائی نہیں رہی کیونکہ لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ لوگوں کی مخالفت کا سامنا نہیں کر سکتے۔ ملکی قوانین، جمہوریت اور آزادی کے نام پر اللہ تعالیٰ کے قوانین میں تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں اس لئے کہ لوگ مذہب کی اقدار اور تعلیم کو بھلا رہے ہیں اور اس سے لا تعلق ہو رہے ہیں۔ اس لئے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ماؤں نے اپنے بچوں کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ ماں بھی گھر سے باہر ہے اور باپ بھی گھر سے باہر ہے نتیجۃً بچے کے لئے گھر میں نہ گھریلو ماحول ہے، نہ دینی ماحول ہے۔

مسلمانوں میں بگاڑ کی بھی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمان عورتوں کی اکثریت دینی علم سے بے بہرہ ہے۔ ان کو علم ہی نہیں ہے۔ ان سب میں یہ بگاڑ پیدا ہونا بھی تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے علاوہ کسی مذہب کو ہمیشہ کے لئے اپنی تعلیم پر قائم رہنے کے لئے نہیں بھیجا اور اسلام کو جو تاقیامت قائم رہنے کے لئے بھیجا اور شریعت مکمل کر کے بھیجا تو اس کے لئے یہ سامان بھی کر دئیے کہ اس فساد کے زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجا جنہوں نے عورتوں اور مَردوں دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا کہ اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بچیوں کی ایسی دینی تربیت کرو کہ آئندہ نسل کی مائیں اپنے بچوں کے ذہنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے حکم کو بٹھاتی چلی جائیں اور اپنے لڑکوں کی ایسی تربیت کرو کہ آئندہ بننے والے باپ دین کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں اور یوں اپنے بچوں کے لئے بہترین نمونہ بنیں۔

پس ہر احمدی عورت کو اور لڑکی کو اس اہم ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری نسلوں کی ترجیحات کبھی دنیا نہ ہو بلکہ دین ہو ۔ آج ہم اپنے آپ کو پڑھا لکھا تو سمجھتے ہیں لیکن ایمان کی وہ حالت نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ عورتوں کی اکثریت بچوں کی دنیاوی تعلیم اور تربیت پر توجہ تو دیتی ہے۔ ان کے لئے بڑی فکر کا بھی اظہار کرتی ہے لیکن دینی تعلیم و تربیت پر نہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنا بیمار بچہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور کہا کہ ڈاکٹروں نے تو اسے لا علاج قرار دے دیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا کہ میں تو مسلمان ہوں بچہ بھی مسلمان پیدا ہوا ہے لیکن میرا یہ بچہ اب عیسائیت کے زیر اثر عیسائی ہو گیاہے۔ آپ ایک تو اس بیماری کا علاج کریں لیکن جو بات بڑی اصرار سے اُس اَن پڑھ عورت، غریب عورت نے کہی وہ یہ تھی کہ آپ ایک دفعہ اس سے کلمہ پڑھوا دیں پھر بیشک یہ مر جائے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے کو بیماری کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس بھیجا کہ اس کا علاج کریں اور ساتھ ہی کچھ تبلیغ بھی کریں۔ زبردستی تو کسی کو مسلمان بنایا نہیں جا سکتا۔ تبلیغ کریں۔ اس کے دل میں بات بیٹھ جائے تو ہو سکتا ہے وہ دوبارہ مسلمان ہو جائے۔ لیکن وہ لڑکا بھی عیسائیت میںبڑا پکّا تھا۔ وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر ایک رات علاج چھوڑ کے قادیان سے چپکے سے بھاگ گیا۔ رات کو ہی اس کی ماں کو بھی پتا چل گیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑی اور بٹالے کے نزدیک جا کے اسے پکڑ کے واپس لے آئی۔ماں دعا بھی کر رہی تھی۔ دینی علم تو اتنا نہیں تھا لیکن اللہ پہ یقین تھا اس لئے دعا ضرور کرتی تھی۔ آخر خدا نے اس ماں کی دعا کو سنا اور اس کا بیٹا ایمان لے آیا۔ بعد میں گو وہ جلد فوت بھی ہو گیا مگر اس ماں نے کہا کہ اب میرے دل کو ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔ موت سے پہلے اس نے کلمہ تو پڑھ لیا اور دل سے پڑھا ہے، زبردستی نہیں پڑھایا گیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے صحیح تربیت اور یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے۔

(ماخوذ از انوار العلوم جلد 22 صفحہ 16-17)

پس اس قسم کی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں وہ صرف اپنا فائدہ نہیں کر رہی ہوتیں، اپنی اور اپنے بچوں کی دنیاو عاقبت نہیں سنوار رہی ہوتیں بلکہ قوم کو اور جماعت کو بھی فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہیں۔

بہت سے بچے واقفینِ نَو ماؤں کی گودوں میں ہیں ان کی تربیت کرنا ماؤں کا فرض ہے ۔ بہت سارے بچے بڑے ہو کر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ کہلانے والے وقفِ نَو ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم وقف نہیں کرنا چاہتے۔ اگر شروع میں دینی تربیت ہوتی تو کبھی یہ سوچ ان بچوں میں پیدا نہ ہوتی جن کی ماؤں نے بڑی دعاؤں کے ساتھ اپنے بچوں کو وقف کیا تھا۔ پس اس کے لئے محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ صرف ایک وعدہ کر دینا کافی نہیں ہے۔ دنیاوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی ہر وہ شخص جو دنیا میں ایک مقام حاصل کرتا ہے اس میں اس کی ماں کا حصہ ہوتا ہے۔ دنیاوی سوچ رکھنے والی مائیں یا عام مائیں تو کہہ سکتی ہیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت میں لگی رہیں تو ہم اپنی پڑھائی سے کس طرح اونچا مقام حاصل کریں گی۔ ہم نے بہت ساری ڈگریاں بھی لی ہیں، سرٹیفکیٹ بھی لئے ہیں، میڈل بھی لئے ہیں، یہ مقام ہمیں کس طرح ملیں گے۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ تم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر دینی تعلیم میں اپنے آپ کو انتہائی رنگ میں بڑھا کر جب اپنے بچے کی صحیح پرورش اور تربیت کرتی ہو اور تمہارا بچہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت دکھا کر ایک مقام حاصل کرتا ہے اور اچھا سائنسدان بنتا ہے، اچھا ریسرچ سکالر بنتا ہے۔ اچھا وکیل بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے، اچھا ڈاکٹر بن کر انسانوں کی صحت کے سامان کر تا ہے۔ اچھا لیڈر اور سیاستدان بن کر اور اس میں مقام حاصل کر کے دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی نیکیوں کے ثواب میں اس کی ماں بھی شامل ہو گی۔ ایک مومن ماں اپنے بچے کے لئے اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی جنت بنا رہی ہوتی ہے اور جن کو جنت بنانے کا مقام اللہ تعالیٰ نے دے دیا اس کے اپنے لئے کتنے بڑے بڑے اجر اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوں گے۔

پس یہ سوچ ہونی چاہئے کہ ہم نے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہماری تعلیم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔ ہمارا علم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔ پس دنیادار ماں اور مومن ماں کی سوچ میں بڑا فرق ہے۔

بعض لڑکیاں اچھے رشتے صرف اس لئے گنوا دیتی ہیں کہ ہم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ بیشک اعلیٰ تعلیم اچھی چیز ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے بعض بہت اچھی پڑھی لکھی احمدی لڑکیاں ڈاکٹر بھی ہیں اور دوسرے اعلیٰ مقام پر پہنچی ہوئی ہیں لیکن جب اچھے رشتے آئے تو انکار نہیں کیا۔ شادیاں ہو گئیں۔ اس کے بعد خاوند کے ساتھ ایسی اچھی understanding بھی ہو گئی۔ بچے جب تربیت کے وقت سے نکل گئے تو دوبارہ انہوں نے اپنی پڑھائی کو جاری کیا اور پھر اپنی اس مہارت میں مزید اس کو بڑھانے کا شوق بھی پورا کر لیا۔ بیشک اعلیٰ تعلیم بڑی اچھی چیز ہے لیکن اس سے بھی اعلیٰ بات یہ ہے کہ احمدی بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اور دنیاوی لحاظ سے بھی ایک فوج تیار ہو جو اس بگڑے ہوئے زمانے میں اپنی نسلوں کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی ضمانت بن جائے۔ اپنی نسل میں سے ایسی مائیں پیدا کریں جو بہترین بیویاں ہوں اور بہترین ساسیں ہوں اور بہترین نندیں ہوں اور بہترین بھابھیاں ہوں۔ اور ایسے لڑکے پیدا کریں جو بہترین خاوند ہوں، بہترین باپ ہوں، بہترین سسر ہوں اور بہترین بیٹے ہوں۔ اگر یہ ہو جائے تو نہ کبھی کوئی بچی اپنے سسرال میں مظلوم ہو گی۔ بہت بڑی وجہ اس مظلومیت کی یہی جہالت ہے۔ اگر بچوں کی صحیح تربیت ہو تو کوئی بچی اپنے سسرال میں مظلوم نہیں ہو گی۔ نہ کوئی بیوی اپنے خاوند کی محبت سے محروم ہو گی۔ نہ کسی ساس کو اپنی بہو سے کوئی شکوہ ہو گا اور یہی وہ حالت ہے جو دنیا کو بھی جنت بنا دیتی ہے اور فسادوں کو ختم کرتی ہے۔ بہت سارے جھگڑے، عائلی جھگڑے اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ ساسیں اپنا زمانہ بھول جاتی ہیں۔ بہوؤں پر ظلم کر رہی ہوتی ہیں۔ بہوئیں اس خوف سے کہ ساسیں کہیں ان پر ظلم نہ کر دیں پہلے ہی دن سے اپنا رعب ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے اور چاہے چند ایک مثالیں ہوں، بہت تھوڑی مثالیں ہیں لیکن جماعت میں بھی یہ مثالیں اب بڑھ رہی ہیں اس لئے بہرحال فکر کی بات ہے۔ اچھی مائیںا ور اچھی ساسیں اور اچھی بہوئیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے آرام سے اپنے گھروں میں رہ رہی ہیں۔ ساسوں نے بہوؤں کو اپنی بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا ہے۔ لیکن جو بگاڑ پیدا کرنے والی ہیں ان کے ایسے ایسے بعض دفعہ سلوک ہوتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ ایک احمدی مومن ماں بھی اس طرح کر سکتی ہے۔ پس اگر جنت بنانی ہے تو ماؤں نے ہی بنانی ہے اور فسادوں کو ختم کرنا ہے تو ماؤں نے ہی کرنا ہے۔ عورت نے ہی کرنا ہے۔ لڑکی نے ہی کرنا ہے۔ اور یہی ایک حقیقی مومنہ سے توقع کی جاتی ہے۔

دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اصل میں پہلی بات کا ہی تسلسل ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ہی تسلسل ہے، تربیت کا ہی تسلسل ہے وہ مومن عورتوں اور مومن مردوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ آپ نے ابھی تلاوت بھی سنی اس میں بھی بہت سارے احکامات ہیں جن پر انسان غور کرے تو اپنی حالت بہتر کر سکتا ہے۔ اس میں یہ آیت جو مَیں نے لی ہے یہ آپ نے سنی کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا(الفرقان74:)اور مومن مرد اور عورتیں ایسی ہوتی ہیں جب ان کو خدا تعالیٰ کی باتیں بتائی جاتی ہیں تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گزر جاتے۔ یعنی مومن چاہے مرد ہو یا عورت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے حوالے سے جب کوئی بات سنتا ہے تو اس پر فوری عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔پس یہ ہے وہ معیار جو اللہ تعالیٰ نے مومن کا مقرر کیا ہے ورنہ مومن یا مومنہ ہونے کا اعلان صرف ایک اعلان ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

قرآن کریم میں بعض احکامات خاص طور پر عورت کے حوالے سے آئے ہیں جو عورت کے مقام کو قائم کرنے کے لئے ہیں۔ ہر احمدی عورت کو، ہر احمدی لڑکی کو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ مثلاً پردہ ہے یہ کوئی ایسا حکم نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا آپ کے خلفاء نے جاری فرمایا۔ بلکہ یہ وہ حکم ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور مختلف جگہ پر اس کو بیان کیا ہے۔ اس کی اہمیت اور اس کی حکمت بیان فرمائی ہے اور بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ اس زمانے کی حالت کو بھی سامنے رکھتے ہوئے بیان کیا ہے۔ اس لئے جب لڑکیوں کو پردے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو کہہ دیتی ہیں کہ یہ کیا پرانی دقیانوسی باتیں ہیں۔ بلکہ بعض عورتیں جو پاکستان سے آئی ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پردے ان ترقی یافتہ ممالک میں آ کر ان کے بچے چھڑوا دیتے ہیں۔ مردوں کو زیادہ اس بات میں کمپلیکس ہے کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے، یہاں تو تمہیں پولیس پکڑ کے لے جائے گی اور وہ مائیں بیچاری جو ساری عمر پردہ کرتی رہتی ہیں پولیس کے خوف سے پردہ چھوڑ دیتی ہیں۔ اسلام اصل میں پردے کے ذریعہ عورت کی عزت اور عفت قائم کرنا چاہتا ہے اور جب اس بات کی تلقین کرتا ہے تو پھر اس سے پہلے سورۃ نور کی آیت 31 میں اس تقدس اور عصمت کو قائم کرنے کے لئے پہلے مَردوں کو حکم دیا ہے کہ مومن مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ جہاں عورت کو دیکھا فوراً نظریں اٹھا کر گھور گھور کے اسے دیکھنے کی بجائے اپنی نظروں کو نیچے رکھو۔ بعض مردوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے اور یہ پتا بھی ہوتا ہے کہ عورت پردہ کر رہی ہے اور حیا دار ہے پھر بھی اگر آنکھیں پھاڑ کے نہ سہی تو کوشش ہوتی ہے کسی طرح ہماری نظر پڑ جائے۔ اس لئے ان نظروں سے بچنے کے لئے اسلام کہتا ہے کہ اپنے آپ کو تم بچاؤ۔

پس پہلے تو مَردوں کو ہی یہ حکم دیا ہے کہ تم عورت کی عزّت اور عفّت کو قائم کرو۔ پھر اگلی آیت میں عورتوں کو بھی کہا کہ ہر قسم کے شر سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھو ۔ حیا کو قائم کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ہر مومن مرد اور مومن عورت کے ایمان کا حصہ ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9)

پس جس میں حیا نہیں اس میں اس ارشاد کے مطابق ایمان بھی نہیں۔ پھرقرآن کریم میں اسی آیت کے تسلسل میں فرمایا کہ اپنی زینت کو چھپائیں۔ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا(النور32:)کہ سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو۔ اس میں قد کاٹھ ہے۔ جسم کا موٹا پتلا ہونا وغیرہ شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ پردہ کرو تو چادر اوڑھنے کا کہا تھا جس سے جسم ڈھانکا جاتا ہے۔ برقعہ کا رواج تو بعد میں عورتوں نے اپنی سہولت کے لئے اختیار کر لیا۔ اس میں بھی اب نئی نئی بدعات شامل ہو رہی ہیں۔ بعض تو سادہ برقعے ہوتے ہیں۔ بعض ضرورت سے زیادہ کڑھائی اور موتی لگا کے پہنے جاتے ہیں۔ گویا نظروں سے بچنے کے لئے پردہ کرنے کا حکم جو دیا گیا تھا اسے توجہ کھینچنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ اس میں بھی فیشن آ گیا ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ بعض لوگوں کے برقعے اتنے تنگ ہوتے ہیں یا سردیوں میں اس پہ بعض کوٹ کے نام پر جو پہنتی ہیں وہ اتنے تنگ ہوتے ہیں جو زینت کو چھپانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس کا حکم دیا ہے اس کو ظاہر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ کوئی پردہ نہیں ہے۔ پھر ایک نیا فیشن شروع ہو گیا ہے کہ تکونے اور آڑے ترچھے عجیب شکلوں کے برقعے بنائے جاتے ہیں۔ پھر اکثر برقعے کوٹ تو پہن لیتی ہیں لیکن ایسی بھی نظر آ جاتی ہیں جن کے آگے سے بٹن کھلے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ بڑا رواج ہو گیا ہے اور نیچے تنگ جین اور ٹراؤزر اور انتہائی اونچی قسم کے پاجامے شلواریں پہنی جاتی ہیں اور اس کے اوپر ٹی شرٹ نما یا چھوٹی قمیض پہنی ہوتی ہے۔ یہ تو سب چیزیں پردے کے ساتھ مذاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ مذاق ہے۔ اسی طرح جس طرح سکارف ہے، حجاب ہے یا نقاب لیا ہوتا ہے تو اس میں نہ بالوں کا پردہ ہوتا ہے نہ صحیح طرح چہرے کا۔ بعض دفعہ نئی آنے والی مسلمان عورتیں یہ اعتراض کرتی ہیں کہ تمہاری احمدی عورتوں میں جو پہلے احمدی ہیں ان کے تو پردے صحیح نہیں ہوتے، بال نہیں ڈھکے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اوڑھنیوں کو اس طرح لو کہ چہرہ نظر نہ آئے۔ کم از کم پردہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ماتھا ڈھکا ہو، بال نظر نہ آئیں، نہ آگے سے نہ پیچھے سے۔ ٹھوڑی جو ہے یہ ڈھکی ہو اور گال ڈھکے ہوں۔

(ماخوذ از ریویو آف ریلیجنز جنوری 1905ء جلد 4 نمبر 1 صفحہ 17)

لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ اگر منہ کھلا رکھنا ہے تو سنگھار نہ کیا ہو۔ سادہ چہرہ ہو۔ اس میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب بھی ہے، ان کا بھی اعتراض دور ہو جاتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ہم ناک بند کریں تو ہمارا سانس رکتا ہے۔ پھر بعض سر پر سکارف یا حجاب لے کر تو بڑا اچھی طرح ڈھانک لیتی ہیں لیکن نیچے چھوٹی قمیص اور تنگ سی جِین پہنی ہوتی ہے۔ پھر بعض یہ فیشن شروع ہو گئے ہیں پاکستان میں جو نظر آتے ہیں اور یہاں بھی یقیناً آ گئے ہوں گے کہ شلواروں میں اور ٹراؤزر میں پنڈلیوں کے قریب لمبے لمبے کٹ(cut) دے دئیے جاتے ہیں اور چلتے ہوئے ننگ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی بھی کئی شکایتیں مجھے آتی ہیں۔ میں نہ بھی دیکھوں تو لوگ اپنی شکایتیں لکھ کے بھیج دیتے ہیں۔ میرے سامنے تو کوئی نہیں آتا اس طرح لیکن لوگ شکایتیں کرتے ہیں۔ ان سب لغویات سے احمدی لڑکی اور عورت کو بچنا چاہئے۔ جین پہننا منع نہیں ہے، بیشک پہن لیں لیکن اس کے ساتھ کم از کم گھٹنوں تک قمیص ہونی چاہئے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ جو محرم رشتے ہیں ان سے پردے کا حکم نہیں ہے۔ باپ ہے، سسر ہے، بھائی ہے، بھانجے ہیں، بھتیجے ہیں، خاوند لیکن حیا دار لباس کا ضرور حکم ہے اور حیا جو ہے وہ عورت کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ہمارے فنکشنز پر بھی یہاں کی مغربی عورتیں بھی، غیر مسلم عورتیں بھی آتی ہیں اور ان کو ہمارے فنکشن کا تقدس پتا ہے اور بعض اپنا پورا لباس پہن کر آتی ہیں۔ بہت خیال رکھنے والی ہیں بلکہ سکارف بھی اوڑھ کر آتی ہیں جب کہ باہر جا کے نہیں اوڑھتیں۔ تو یہ دو عملی نہیں ہے۔ اس لئے آتی ہیں کہ ان کو ہمارے ماحول کے تقدس کا خیال ہے۔ اس لئے آتی ہیں کہ وہ اس ماحول میں سموئی جائیں۔ پس جب غیر مسلم ہو کر بھی غیر اس قدر لحاظ رکھتے ہیں، جن کے لئے کوئی حکم نہیں ہے تو پھر ہمیں، ہماری عورتوں اور بچیوں کو کس قدر اس بات کا خیال رکھنا ہو گا ۔

بعض احمدی لڑکیوں کوپتا نہیں کیوں احساس کمتری ہے کہ اگر انہوں نے پردہ کیا تو لوگ انہیں جاہل سمجھیں گے۔ پس ایسی لڑکیاں یہ دیکھ لیں کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے یا لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو ماننا ہے یا اس کی باتوں پر اندھے اور بہروں کی طرح گزر جانا ہے، جیسے سنا ہی نہیں یا دیکھا ہی نہیں ۔ غیر احمدی عورت تو کہہ سکتی ہے کہ ہمیں تو ان احکامات کاپتا نہیں۔ ہمیں قرآن کریم کا علم نہیں۔ ہم نے تو تفصیل سے احکامات نہیں پڑھے۔ لیکن احمدی لڑکی اور عورت نہیں کہہ سکتی کہ ہم نے سنا نہیں اور دیکھا نہیں۔ مستقل انہیں پوری تفصیل کے ساتھ اس بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور تمام خلفاء نے سمجھایا۔ میں عرصے سے سمجھا رہا ہوں۔ پس اس طرف لجنہ کی تنظیم کو بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور خود ہر لڑکی اور عورت کو بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ آہستہ آہستہ پھر یہ فیشن اور لاپرواہیاں بالکل ہی ننگا کر دیں گی ۔ اگر ابھی ایک دو چار بھی ہیں تو ان کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور جو نہیں ہیں ان کو کسی قسم کے احساس کمتری میں، کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا دین ایک بہترین دین ہے اور دنیا میں پھیلنے کے لئے آیا ہے۔ پس اس کو پھیلانے کے لئے ہم میں سے ہر عورت اور مرد کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب صرف ننگا نہیں ہو جائیں گی بلکہ اس ذمہ داری سے بھی لاپرواہ ہو جائیںگی جو اولاد کی دینی تربیت کے لئے ہے اور بچے جب دیکھیں گے کہ میری ماں کی بعض حرکتیں تو اس سے مختلف ہیں جو قرآن کریم نے حکم دیا ہے تو پھر ظاہر ہے ان پر منفی اثر پڑے گا۔

پس جہاں اعتقادی لحاظ سے ہر عورت اور لڑکی نے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے، ایمان میں بڑھنا ہے وہاں عملی لحاظ سے بھی مضبوط کریں۔ اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردے اور حیا کا تصور پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔حیا دار حجاب کی جھجھک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دور کرنا چاہئے اگر اس کی عمر ایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہو گا۔

پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو سکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔

بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ کل جمعہ میں بھی مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے توجہ دلائی تھی کہ کس طرح ہمیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی کمزوری زیادہ بڑھنی شروع ہو جائے، معاشرے کا اثر اس پر زیادہ ہونا شروع ہو جائے تو پھر اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے میں توجہ دلا رہا ہوں۔ دوسروں کا مطمح نظر کچھ اَور ہو گا تو ہو گا۔ ایک احمدی کا مطمح نظر یہی ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ یہی قرآن کریم نے ہمیں سکھایا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات۔ ہم نے دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے۔ پس دنیا کے فیشن کو نہ دیکھیں۔ یہ دیکھیں کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر ہے یا نہیں۔ فیشن کرنا منع نہیں ہے۔ اگر ان حدود کے اندر ہے تو بیشک کریں اور جس ماحول میں کرنے کا حکم ہے اس میں کریں اور ایسی مثالیں قائم کریں کہ دنیا آپ کے پیچھے چلنے والی ہو۔ پس جہاں ہر احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ دعاؤں سے مدد مانگتے ہوئے اپنی اولاد کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کر سکیں وہاں اپنے ہر عمل کو بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے جتنے بھی احکامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔ (دعا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button