حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جرمنی 2016ء کے موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب۔فرمودہ 4؍ ستمبر 2016ء

آجکل دنیا میں عموماً ایک بہت بڑا طبقہ یہ الزام لگاتا ہے کہ مذہب دنیا کے فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذہب ہماری ضروریات پوری نہیں کرتا۔ مذہب کا کوئی ہمیں مقصد نظر نہیں آتا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مذہب کو مانا جائے اور اس پر قائم ہوا جائے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ مذہب نئے زمانے اور ترقی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

ایسے وقت میں ہم احمدی ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ بدامنی اور فتنہ و فساد مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب سے دُور ہٹنے کی وجہ سے ہے۔ یہ فتنہ و فساد اس لئے ہے کہ مذہب کی حقیقی تعلیم کو توڑمروڑ دیا گیا ہے، اس کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ مسلمان بیشک اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بیشک قرآن کریم اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، لیکن اس کی تعلیمات کو مفاد پرستوں نے غلط تشریحیں کر کے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ پس نہ ہی مذہب کے خلاف گروہ نے مذہب کو سمجھا، نہ ہی مسلمانوں نے یا بظاہر مذہب پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے مذہب کو سمجھا ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم تو ایسی سموئی ہوئی تعلیم ہے اور فطرت کے مطابق تعلیم ہے اور ہر طبقے کے حق کو قائم کرنے والی تعلیم ہے کہ جس کے رحم اور عدل کے معیار یہ ہیں کہ دشمن سے بھی بے انصافی نہ کرو۔

ہم احمدی مسلمان غیروں کو دوسرے مسلمانوں سے کیوں مختلف نظر آتے ہیں؟ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید احمدیوں نے اسلام کی خوبصورتی دنیا کو بتانے کے لئے اس کی تعلیم میں کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں۔ جب ان کو بتایا جائے کہ ہمارا اسلام وہی ہے جو قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت ہوتا ہے تو حیران ہوتے ہیں۔ ان کو ہم بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا بگڑنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا پورا ہونا تھا۔ اور احمدی مسلمانوں کا عمل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے۔ پس احمدی مسلمان اگر دوسروں سے مختلف نظر آتے ہیں تو اسلام کی بنیادی تعلیم میں تبدیلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو حقیقی رنگ میں سمجھنے کی وجہ سے۔ اس تعلیم کو اس طرح سمجھنے کی وجہ سے جو زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں سمجھائی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مذہب کی حقیقت، اس کی ضرورت، غرض و غایت، مذہب اسلام کی صداقت اور دیگر مذاہب پر فضیلت اور روحانی زندگی کے حصول اور دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے اسلامی تعلیمات کا بصیرت افروز بیان۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آجکل دنیا میں عموماً ایک بہت بڑا طبقہ یہ الزام لگاتا ہے کہ مذہب دنیا کے فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ اس وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد مذہب سے دُور ہٹ گئی ہے اور ان دُور ہٹنے والوں میں بہت بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جن کا مذہب عیسائیت تھا۔

ابھی تک یہی کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کسی مذہب کے ماننے والوں میں سب سے بڑی تعداد عیسائیوں کی ہے لیکن عملاً مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ عیسائیوں میںسے ہو رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود کے انکار کرنے والے انہی میں سے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔

اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذہب ہماری ضروریات پوری نہیں کرتا۔ مذہب کا کوئی ہمیں مقصد نظر نہیں آتا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مذہب کو مانا جائے اور اس پر قائم ہوا جائے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ مذہب نئے زمانے اور ترقی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔عیسائیوں میں تو اکثریت نام کے عیسائی ہیں۔ چرچ میں جانے والوں کی تعداد بہت معمولی ہے۔ لوگوں کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے اور بہت سارے دوسرے ایسے مطالبات جو آزادی دلانے والے اور مذہب کے احکامات کے خلاف ہیں ان کے خلاف بولنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہ لوگ اپنی بنیادی تعلیم میں جو پہلے ہی بگڑی ہوئی تھی مزید تبدیلیاں کرتے چلے جا رہے ہیں۔

پھر دوسرا بڑا مذہب دنیا میں اسلام ہے اور مسلمان چاہے عملاً اسلام کی تعلیم پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن

اِلَّا مَاشَاءَاللہ اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب ضرور کرتے ہیں۔ اور نہیں تو جمعہ یا عید کی نمازیں ضرور پڑھ لیتے ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں جہاں سوال آ جائے دینی روایات کا شعائر اللہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا قرآن کریم کا۔ انہی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے مفاد پرست علماء اور تنظیموں نے مسلمان کہلانے والے ایک طبقے سے غلط کام کروانے شروع کر دئیے۔ انہیں شدت پسند بنا دیا ہے۔ انہیں اپنی حکومتوں کے خلاف غلط رنگ میں ابھار دیا ہے۔ بیشک اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں جن کے غلط رویّوں اور عوام کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے یہ چ ردّ عمل ظاہر ہوا ہے۔ لیکن جو عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے والے ہیں ان کی نیت بھی نیک نہیں ہے۔ وہ بھی اپنے مفادات کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پھر ان دشمنیوں کو، اپنی طاقت کے اظہار کو انہوں نے اپنے ملکوں سے باہر نکل کر مغربی دنیا میںبھی خود کش حملوں اور ظالمانہ قتل و غارت کے ذریعہ پھیلا دیا ہے جس کی وجہ سے ان ملکوں میں بھی اسلام کے لئے خوف پھیل گیا ہے۔ اور جو مذہب کے مخالف ہیں، جو خدا کے وجود سے انکاری ہیں، ان کی تعداد میں ان کو دیکھتے ہوئے بھی مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں مذہب ہی فساد کی جڑ ہے اور خاص طور پر اسلام نعوذ باللہ اس میں اوّل نمبر پر ہے۔

ایسے وقت میں ہم احمدی ہیں جو کہتے ہیں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ بدامنی اور فتنہ و فساد مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب سے دُور ہٹنے کی وجہ سے ہے۔ یہ فتنہ و فساد اس لئے ہے کہ مذہب کی حقیقی تعلیم کو توڑمروڑ دیا گیا ہے، اس کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ مسلمان بیشک اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بیشک قرآن کریم اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، لیکن اس کی تعلیمات کو مفاد پرستوں نے غلط تشریحیں کر کے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

پس نہ ہی مذہب کے خلاف گروہ نے مذہب کو سمجھا، نہ ہی مسلمانوں نے یا بظاہر مذہب پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے مذہب کو سمجھا ہے۔ ان میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اوّل نمبر پر مسلمان ہیں اور بدقسمتی سے انہوں نے اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو موقع دے دیا کہ وہ اسلام پر اعتراض کرنے میں بڑھتے چلے جائیں۔

قرآن کریم کی تعلیم تو ایسی سموئی ہوئی تعلیم ہے اور فطرت کے مطابق تعلیم ہے اور ہر طبقے کے حق کو قائم کرنے والی تعلیم ہے کہ جس کے رحم اور عدل کے معیار یہ ہیں کہ دشمن سے بھی بے انصافی نہ کرو۔

میں نے کل یہاں غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے سیشن میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں کچھ بتایا تھا تو اس کے بعد اکثر لوگ جن میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور پڑھے لکھے لوگ اور مختلف طبقوں کے لوگ شامل ہیں انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج یہ باتیں سن کر ہمارا اسلام کے بارے میں جو تصور قائم ہوا ہوا تھا وہ یکسر بدل گیا۔ اب ہمیں پتا چلا ہے کہ اسلام کے خلاف بولنے والے جو کہتے ہیں اور اسلام کی جو تصویر میڈیا پیش کرتا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو ہمیں آج یہاں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے حوالے سے سننے کو ملی۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہ بھی کہا کہ میں عیسائی تھا لیکن میرا مذہب مجھے تسلی نہیں دے سکا اور اب میں دہریہ ہو چکا ہوں۔ لیکن آج یہاں آپ کے خلیفہ نے جو باتیں کی ہیں اور یہ مَیں نے سنی ہیں اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مذہب اسلام بالکل مختلف ہے۔ پہلے تو میں عیسائی تھا اور یہ مذہب چھوڑا تھا۔ اسلام کو تو میڈیا نے اس طرح بتایا ہوا تھا کہ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غور کروں۔ لیکن جب میں نے یہ باتیں سنی ہیں تو میرے نظریات بالکل مختلف ہو گئے ہیں اس سے جو ہمیں بتایا جاتا ہے۔ اور کہنے لگا کہ اگر کبھی میں مذہب کی طرف آیا تو احمدی مسلمان بنوں گا۔

ہم احمدی مسلمان غیروں کو دوسرے مسلمانوں سے کیوں مختلف نظر آتے ہیں؟ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید احمدیوں نے اسلام کی خوبصورتی دنیا کو بتانے کے لئے اس کی تعلیم میں کچھ تبدیلیاں کر دی ہیں۔ جب ان کو بتایا جائے کہ ہمارا اسلام وہی ہے جو قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت ہوتا ہے تو حیران ہوتے ہیں۔ ان کو ہم بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا بگڑنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا پورا ہونا تھا۔ اور احمدی مسلمانوں کا عمل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا نشان ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ وعدہ فرمایا تھا کہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں جو مسلمانوں کے بگڑنے کا زمانہ آئے گا اس زمانے میں مذہب کی حقیقت بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلامِ صادق مبعوث ہو گا جو دونوں طرف کے لوگوں کے اعتراضات دُور کرے گا اور رہنمائی کرے گا۔ جو دنیا کو بتائے گا کہ مذہب دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آتا بلکہ مذہب کا تو کام ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت پیدا ہو اور اس کے بندوں سے شفقت کی جائے اور اسلام سب سے زیادہ اس تعلیم کا پرچار کرتا ہے۔ اور اگر قرآن کریم اور احادیث کو دیکھیں تو یہی اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہمیں نظر آتا ہے۔

پس احمدی مسلمان اگر دوسروں سے مختلف نظر آتے ہیں تو اسلام کی بنیادی تعلیم میں تبدیلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو حقیقی رنگ میں سمجھنے کی وجہ سے۔ اس تعلیم کو اس طرح سمجھنے کی وجہ سے جو زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں سمجھائی ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ مذہب سے اگر صحیح طور پر فائدہ اٹھانا ہے تو پہلے یہ سمجھو کہ مذہب ہے کیا۔ پھر اس بات کا ادراک حاصل کرو کہ مذہب کی ضرورت کیوں ہے۔ پھر ہمیں بتایا کہ اگر تم مسلمان ہو تو یہ علم بھی حاصل کرو کہ اسلام کی صداقت باقی مذاہب پر کیا ہے۔ اگر اسلام کی صداقت پر یقین پیدا کر لو تو پھر اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرو جو اسلام اپنے ماننے والوں سے چاہتا ہے۔ اور اس بات کی بھی سمجھ ہونی چاہئے کہ اسلام صرف اپنے ماننے والوں سے مطالبے نہیں کرتا بلکہ دیتا بھی ہے اور اگر دیتا ہے تو کیا دیتا ہے ۔ پھر آپ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں آپ علیہ السلام کے ذریعہ زندگی بخشنے کا مقصد اسلام کس طرح پورا کر رہا ہے۔ روحانی زندگی کس طرح ہمیں حاصل ہو سکتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے ذریعہ کس طرح دنیا کو اُمّتِ واحدہ بنانا چاہتا ہے۔

یہ تمام باتیں اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے ہی آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ مذہب کیا ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’یقینا سمجھو کہ خدا ہے اور اس کا ایک قانون ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مذہب کہتے ہیں۔ اور یہ مذہب ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتا رہا اور پھر ناپدید ہوتا رہا اور پھر پیدا ہوتا رہا۔ مثلاً جیسا کہ تم گیہوں وغیرہ اناج کی قسموں کو دیکھتے ہو کہ وہ کیسے معدوم کے قریب ہو کر پھر ہمیشہ از سرِ نَو پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ بیج ڈالا جاتا ہے، زمین میں بیج پڑتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بیج سے پودا نکلتا ہے پھر وہی دانہ بن جاتا ہے اور سینکڑوں دانوں میں بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’اور بایں ہمہ وہ قدیم بھی ہیں ان کو نَوپیدا نہیںکہہ سکتے۔ یہی حال سچے مذہب کا ہے کہ وہ قدیم بھی ہوتا ہے اور اس کے اصولوں میںکوئی بناوٹ اور حدوث کی بات نہیں ہوتی اور پھر ہمیشہ نیا بھی کیا جاتا ہے۔‘‘

(البلاغ۔ فریادِ درد، روحانی خزائن جلد13 صفحہ397)

یعنی آپ نے بیان فرمایا کہ تمام انبیاء ایک قسم کی تعلیم لاتے ہیں۔ ایک ہی قسم کی تعلیم ہوتی ہے جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرو اور اس کے بندوں سے شفقت کی تعلیم ۔ یہی سب انبیاء بیان کرتے رہے۔ حضرت نوح بھی، حضرت ابراہیم بھی، حضرت موسیٰ بھی، حضرت عیسیٰ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ لیکن جب سب دین بگڑ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پھر ایک کامل دین ہوا۔ تعلیم وہی تھی جس کو نئے سرے سے اور زیادہ نکھار کر پیش کیا گیا جس نے پھر ان بگڑے ہوئے دینوں کی اصلاح کر دی اور اس زمانے میں پھر آپ کے غلام کو بھیجا جو تجدید دین کر رہا ہے، اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جو مذہب کا ہے جو خدا تعالیٰ کا قانون ہے جسے خدا زمین میں پھیلانا چاہتا ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مذہب کو تم نے کس طرح سمجھنا ہے کہ یہ کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’مذہب کی جڑھ خدا شناسی اور معرفتِ نعماء الٰہی ہے۔ اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو ربّ اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ281)

پس فرمایا اگر یہ باتیں حاصل ہو جائیں یا اس کو سمجھ آ جائیں کہ یہ کیا ہیں تو مذہب کی بھی سمجھ آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنی ضروری ہے۔ اس کوشش میں رہو کہ اللہ کیا ہے۔ اس کو پہچانو۔ اس کی جو نعمتیں ہیں ان کی معرفت حاصل کرنی ہے۔ ان پہ غور کرنا ہے۔ اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ ہیں۔ ان کو اس پودے کو پھیلانے کے لئے، پھولنے کے لئے اعمال صالحہ پیدا کرنے پڑیں گے تب اس کو وہ شاخیں لگیں گی اور پھر اس پر پھول لگیں گے۔ جو اعلیٰ اخلاق ہیں وہ اس کے پھول ہیں۔ اور جو روحانی برکات حاصل ہوں گی اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پھر ایک خاص مقام حاصل ہو گا وہ اس کا پھل ہے۔ اس کی برکات پھر تمہیں ملیں گی ۔ اور یہ ایسی باریک اور گہری محبت ہے جو بندے اور خدا میں پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ لیکن یہ پھل حاصل کرنے کے لئے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ نے فرمایا کہ روحانی تقدس اور پاکیزگی حاصل ہو گی تو تبھی تمہیں یہ پھل ملیں گے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نہایت درجہ قدوس ہے۔ وہ اپنی تقدیس کی وجہ سے ناپاکی کو پسند نہیں کرتا اور چونکہ وہ رحیم و کریم ہے اس واسطے نہیں چاہتا کہ انسان ایسی راہوں پر چلے جن میں اس کی ہلاکت ہو۔ پس یہ اس کے جذبات ہیں جن کی بناء پر مذہب کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘(ملفوظات جلد10 صفحہ427۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اللہ تعالیٰ تو مذہب کو بھیج کر انسانوں کو ہلاکت سے بچانا چاہتا ہے نہ کہ فتنہ و فساد میں ڈالنا۔ جن کا تعلق حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ سے ہے وہ فتنہ و فساد کے قریب بھی نہیں جاتے۔ جب اس بات کی سمجھ آ جائے تو پھر انسان یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ مذہب کی ضرورت کیا ہے بلکہ وہ مذہب کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’ یاد رہے کہ محض خشک جھگڑے اور سبّ وشتم اور سخت گوئی اور بدزبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے۔‘‘

کہتے ہیں مذہب جھگڑے پیدا کرتا ہے، فساد پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ جھگڑے جو ہیں، گالی گلوچ جو ہے، ایک دوسرے پر بدزبانی کرنا جو ہے، یہ سب نفسانیت کی بناء پر ہیں مذہب کی بناء پر نہیں ہیں۔ یہ تو تمہاری اندرونی دل کی جو حالت ہے اس کو ظاہر کر رہی ہیں اور یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ تمہارا اپنے اس محبوب سے، اس خدا سے سچا تعلق نہیں ہے۔ اور اگر سچا تعلق ہے تو کتّوں کی طرح ایک دوسروں پے حملہ نہ کرو، ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہو، بلا وجہ انسانوں کو معصوم جانوں کو مارو نہ معصوموں کی جانیں نہ لو۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے۔ بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور ناپاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے ذاتی جذبات ہوتے ہیں ،مفادات ہوتے ہیں اور مذہب کا نام رکھ دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم آجکل مسلمانوں میں سے بعض لیڈروں کی، علماء کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ ’’اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بداخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا اُن کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں۔‘‘ جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور غیر مسلم بھی شامل ہیں۔

’’وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مردے کا جنازہ ہے جو صرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے۔ سہارا الگ ہؤا اور وہ زمین پر گرا۔ ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصّب۔ اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے بالکل اُن کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسے شخص کا اُن سے مقابلہ پڑے جو ان کے مذہب اور عقیدے کا مخالف ہو تو فقط اسی قدر مخالفت کو دل میں رکھ کر اس کی جان اور مال اور عزت کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ اور اگر ان کے متعلق کسی غیر قوم کے شخص کا کام پڑ جائے تو انصاف اور خدا ترسی کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہیں کہ اس کو بالکل نابود کردیں‘‘۔ انصاف ہی کوئی نہیں رہتا۔ غیروں کے ساتھ واسطہ پڑ جائے تو چاہتے ہیں ان کو ختم ہی کر دیں۔ یہ حال ہم آجکل علماء کا بھی دیکھتے ہیں۔ غیروں کی بات تو الگ رہی، مسلمانوں میں یہ حالت ہے۔’’اور وہ رحم اور انصاف اور ہمدردی جو انسانی فطرت کی اعلیٰ فضیلت ہے بالکل ان کے طبائع سے مفقود ہو جاتی ہے اور تعصب کے جوش سے ایک ناپاک درندگی ان کے اندر سما جاتی ہے اور نہیں جانتے کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔ اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہی بدکردار لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور سچی معرفت اور سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور صرف نفسانی جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ تمام وقت فضول لڑائی جھگڑ وں اور گندی باتوں میں صَرف کرتے ہیں اور جو وقت خدا کے ساتھ خلوت میں خرچ کرنا چاہئے وہ خواب میں بھی ان کو میسّر نہیں ہوتا۔‘‘

(نصرۃ الحق، روحانی خزائن جلد21 صفحہ28-29)
(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button