اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… فجی میں جماعت احمدیہ کا قیام روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍اکتوبر 2011ء میں شامل اشاعت مکرم فضل اللہ طارق صاحب (امیر جماعت فجی) کی محرّرہ ایک رپورٹ میں فجی میں جماعت احمدیہ کے قیام کی گولڈن جوبلی کے موقع پر ہونے والی تقریبات کا احوال قلمبند کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں فجی میں جماعت احمدیہ کے قیام کی مختصر تاریخ بھی پیش کی گئی ہے۔ جزائر فجی (Fiji Islands) میں احمدیت کا نام 1925ء کے قریب پہنچا جب چوہدری کاکے خان صاحب کے بڑے بیٹے چوہدری عبدالحکیم صاحب جنرل مرچنٹ کے کاروبار کے سلسلہ میں فجی آئے اور ناندی میں قیام کیا۔ ان کی خط و کتابت حضرت مصلح موعودؓ سے ہوتی رہی۔ اور اُن کا چندہ پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں براہِ راست پہنچتا رہا۔ الفضل اور دوسرا مختصر لٹریچر بھی انہیں ملتا رہا۔ محدود سطح پر وہ احمدیت کا پیغام بھی پہنچاتے رہے مگر کوئی جماعت اُن کے ذریعہ قائم نہ ہوسکی۔ 1926ء میں تحریک ِ شدھی کا اثر ہندوستان سے فجی میں بھی پہنچا جس کی زَد میں بہت سے مسلمان بھی آگئے۔ اس پر فجی کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مسلم لیگ نے جمعیت العلما ء ہند کو لکھا کہ ہمارے خرچ پر کسی ایسے مسلمان عالم کو فجی بھیجا جائے جو آریہ مذہب سے بھی واقف ہو۔ مگر جمعیت کوئی عملی قدم نہ اٹھاسکی۔ پھر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ایک ممبر مکرم ماسٹر محمد عبداللہ صاحب کی تحریک پر جب فجی مسلم لیگ نے انجمن اشاعت اسلام سے رابطہ کیا تو انجمن کے ایک ممتاز عالم مرزا مظفر بیگ ساطع صاحب 12مئی1933ء کو فجی پہنچے اور انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کے ذریعہ تحریکِ شدھی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف آریوں بلکہ عیسائی پادریوں کو بھی لاجواب کر دیا۔ لیکن فجی مسلم لیگ کو جب معلوم ہوا کہ وہ (لاہوری) احمدی ہیں تو انہوں نے شدید مخالفت شروع کردی اور اپنی مسجد سے بھی بے دخل کردیا۔ تب مرزا صاحب نے اپنے حلقہ ٔ احباب کو تبلیغ کی اور اس طرح فجی میں احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہورکا قیام عمل میں آیا۔ مرزا صاحب قریباً آٹھ ماہ فجی کے سب سے بڑے شہر صووا (جو آجکل فجی کا دارالحکومت ہے) میں رہنے کے بعد ناندی منتقل ہوگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1956ء میں جزائر فجی کے سفر کی تیاری اور ہندی سیکھنے کے لئے محترم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل (سابق مربی چین وایران) کو ارشاد فرمایا۔ دوسری طرف فجی میں چوہدری عبدالحکیم صاحب کے ذریعہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ممبران کو علم ہوا کہ جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہے۔ چنانچہ انجمن اشاعت اسلام فجی کے صدر مکرم محمد رمضان خانصاحب 1959ء میں حج بیت اللہ اور زیارتِ مدینہ کے بعد قادیان سے ہوتے ہوئے 18 ؍جولائی کو لاہور میں اپنے داماد انوار رسول صاحب کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ اس سفر میں ان کی بیگم صاحبہ اور پوتا بھی ہمراہ تھا۔ حاجی صاحب 14؍اگست1959ء کو اپنی بیٹی اور پوتے کے ساتھ ربوہ تشریف لائے اور ایک ہفتہ یہاں قیام کیا۔ اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کی اور جلد ہی بیعت بھی کرلی۔ پھر واپس فجی آکر انہوں نے زورشور سے تبلیغ شروع کی اور جلد ہی 30 افراد پر مشتمل ایک جماعت تیار کرلی۔ نیز انہوں نے محترم مولانا شیخ عبدالواحد فاضل صاحب کے لئے جولائی1960ء میں پرمٹ بھی بھجوا دیا۔ جس پر 6؍اکتوبر1960ء کو شیخ صاحب ربوہ سے روانہ ہوکر 12؍اکتوبر کو ناندی پہنچ گئے۔ فجی میں جماعت احمدیہ کے قیام کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ‘‘ اس رنگ میں بھی پورا ہوا کہ جزائر فجی کے جزیرہ تاوئیونی میں سے انٹرنیشنل ڈیٹ لائن گزرتی ہے۔ یعنی یہاں جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو دنیا میں نئے دن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُ ٹھا یا جا ئے گا ‘‘۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت دَور میں قائم ہونے والا آخری مشن فجی کا ہی تھا۔ مئی2011ء میں جماعت احمدیہ فجی کی گولڈن جوبلی کے جلسہ میں عزت مآب کموڈور جوسیا وُورَنْگَے بَیْنی ماراما، وزیراعظم فجی بھی شامل ہوئے جبکہ مکرم نواب منصور احمد خانصاحب وکیل التبشیر ربوہ کو حضور انور ایدہ اللہ نے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر فرمایا۔ جلسہ میں فجی کے تین وزراء، چیف جسٹس، متعدد سرکاری حکّام اور غیرملکی سفارتکار، کئی غیرسرکاری اور مذہبی تنظیموں کے سربراہان سمیت قریباً چھ سو مہمان شامل ہوئے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات نے اس جلسہ کو مکمل طور پر کوریج دی۔ نیز بیرونی ممالک آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، طوالو، کریباس، ونواتو، کینیڈا اور امریکہ سے بھی احمدی احباب جلسہ میں شامل ہوئے۔ …٭…٭…٭… مکرم میاں عبد المجید صاحب بزاز روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اکتوبر 2011ء میں مکرم آصف مجیدصاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم میاں عبدالمجیدصاحب بزاز کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ محترم میاں عبدالمجید صاحب1931ء میں قادیان کے قریب گائوں ڈلّہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم میاں محمد مستقیم صاحب نے 1912ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی تھی جبکہ آپ کے تایا حضرت میاں فضل دین صاحبؓ نے 1906ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد مکرم میاں عبدالمجید صاحب کا خاندان حافظ آباد شہر میں سکونت پذیر ہوا۔ بے سروسامانی کی حالت تھی۔ بڑی محنت و مشقت سے زندگی گزرنے لگی۔ سائیکل پر روزانہ قبل از نماز فجر تقریباً 12 میل کاسفر کرنا معمول تھا۔ بلکہ حافظ آبادسے فیصل آباد تک کا ایک سو میل کا سفر بھی ایک عرصہ تک بذریعہ سائیکل کرتے رہے۔ آپ کو فرقان بٹالین میں خدمت کی توفیق بھی ملی جس کے نتیجہ میں آپ نے ’تمغۂ خدمت پاکستان‘ حاصل کیا۔ آپ جماعت احمدیہ حافظ آباد کے سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی رہے۔ آپ میں دعوت الی اللہ کا بیحد جذبہ تھا۔ اگرچہ دنیوی تعلیم بالکل نہ تھی لیکن گفتگو بہت مدلّل کیا کرتے تھے جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ آپ اَن پڑھ ہیں۔ 1974ء کے فسادات میں جب گھر کو جلوس نے گھیر رکھا تھا تو اس خوف کی حالت میں بھی آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ آپ کی نیک نامی ایسی تھی کہ اہل محلہ نے اس وقت آپ کا ساتھ دیا اور جلوس کو ناکام جانا پڑا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ میں پکّا احمدی 1974ء میں ہوا تھا۔ خلافت احمدیہ سے عشق تھا۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود MTA پر خلیفۂ وقت کا ہر پروگرام بڑے غور سے دیکھتے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوتا۔ آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ مسجد کافی فاصلہ پر تھی لیکن موسم کی پرواہ کئے بغیر نماز فجر کے لئے بھی مسجد جاتے۔ رمضان کے بعد شوال کے رو ز ے بھی ہمیشہ رکھتے۔ نماز باجماعت کا اتنا خیال تھا کہ آخری بیماری سے پہلے تک نماز جمعہ کبھی نہیں چھوڑی۔ بلکہ جب ہسپتال میں داخل تھے تو جمعہ کے روز ڈاکٹر سے زبردستی چھٹی لے کر جمعہ ادا کرنے گئے۔ گزشتہ 15 سال سے اعتکاف کے لئے بیٹھنا آپ کا معمول تھا۔ اپنے خدا کے ساتھ بہت مضبوط تعلق تھا۔ کبھی کسی مخالفت سے نہ گھبراتے۔ بارہا اظہار کرتے کہ میری اپنے خدا سے بات ہو گئی ہے، میرا فلاں کام اب ہوجائے گا۔ آپ کے ملنے والے یہ اظہار کرتے کہ آپ بہت نیک، وضعدار اور خوش لباس تھے۔ ہمیشہ لوگوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتے۔ جس حد تک ممکن ہوتا ضرورتمند کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی ہمدردیٔ خَلق کا نتیجہ تھا کہ غیراز جماعت احباب آپ کی نمازجنازہ میں بھی شریک ہوئے۔ آپ کی وفات 9ستمبر2011ء کوہوئی۔ …٭…٭…٭… محترم خلیل احمد سولنگی صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اکتوبر 2011ء میں مکرم محمود احمد ملک صاحب کے قلم سے محترم خلیل احمد سولنگی صاحب (شہید لاہور) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ خلیل احمدسولنگی ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ جن کی کسی محفل میں موجودگی خوشگوار ماحول پیدا کردیتی تھی۔ آپ عمر میں مجھ سے پندرہ سال چھوٹا ہونے کے باوجود زندگی کے ہر موڑ پرمیرے مشیر اور مددگار رہے۔ وہ ہر تقریب میں اس طرح شامل ہوتے کہ دیکھنے والا مہمان اور میزبان کا فرق نہ کر سکتا۔ انہوں نے مشکل حالات میں دامے، درمے، قدمے، سخنے میرا ساتھ دیا اور مَیں نے زندگی میں جب بھی ان کی ضرورت محسوس کی ان کو ہمیشہ اپنے قریب پایا۔ ہمہ صفت موصوف تھے۔ خلافت سے عشق کا تذکرہ ہو، مرکز ِسلسلہ سے تعلق کا پیمانہ ہو۔غریبوں سے ہمدردی اور ان کی عملی مدد کا پہلو ہو، دوست احباب سے غم خواری کا بیان ہو۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کا معاملہ ہو۔شہداء کے ورثا کا خیال اور ان کی خبر گیری ہو یا کسی بھی مقامی یا مرکزی تحریک میں شمولیت ہو، خلیل سولنگی ہمیشہ صف اوّل میں نظر آتے تھے۔ آپ چند احباب کے پاس بھی خاصی رقم جمع رکھتے تھے کہ وہ جب بھی کوئی ضرورتمندپائیں اس کی مدد کر دیں اور یہ کہ ان کا نام کسی طور پر ظاہر نہ ہو۔ آپ ایک Self Madeانسان تھے۔ عملی زندگی کا آغاز واپڈا کی ملازمت سے کیا۔ اس کے بعد ایک معمولی درجہ کی کاروباری زندگی شروع کی۔اپنی محنت، ہمت، جانفشانی اور دیانت دارانہ روش سے کاروبار میں دن بدن ترقی کرتے گئے۔ اس دوران جماعت اور خدام الاحمدیہ کے لئے عملی طور پر ہمیشہ وقف رہے۔ کاروبار کے سلسلہ میں پہلے گوجرانوالہ سے لاہور اور پھر پاکستان سے امریکہ شفٹ ہو گئے۔ اور جماعت سے اپنے تعلق کو ہمیشہ پختہ سے پختہ تر کرتے رہے اور ہر جگہ جماعت کی خدمت کا کوئی نہ کوئی موقعہ ڈھونڈ لیتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جس قدر رزق میں فراخی عطا کرتا گیا، صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ میں ان کے اندر اتنی ہی تیزی آتی رہی۔ اس قدر صائب الرائے تھے کہ ہر شخص ان سے مشورہ کر کے مطمئن ہو جاتا تھا کہ اس سے بہتر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ حل اخلاص، کامل مشاہدہ، معاملہ فہمی، تجربہ کاری، دُور اندیشی اور دیانت داری پر مبنی ہوتے تھے۔ جبکہ امراء جماعت کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی خاکساری، عاجزی اور اخلاص پر مبنی ہوتے تھے اور ہر امیر جماعت کے نزدیک وہ جماعت کا اہم اثاثہ تھے۔ جماعتی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور نظام جماعت کی خلاف ورزی ان کے نزدیک سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم تھا۔ جلسہ سالانہ UK کے موقع پر وہ دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوتے اپنی مصروفیات چھوڑ کر فیملی سمیت لندن کا رُخ کرتے۔ …٭…٭…٭… محترم مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ نومبر 2011ء میں مکرم طاہر احمد مبشر صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے اُن کے والد محترم مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب واقف زندگی کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 13؍اکتوبر 2011ء کو 86 سال کی عمر میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ محترم مولوی محمد اسماعیل اسلم صاحب ولد مکرم محمد عبداللہ صاحب (آف مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد) موصی تھے اور حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ کے داماد تھے۔ آپ نے دفاتر تحریک جدید کے مختلف شعبوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ اپنے محلہ میں زعیم خدام الاحمدیہ، زعیم انصار اللہ، سیکرٹری مال اور 25سال سے زائد عرصہ تک صدر محلہ رہے۔ آپ کو بطور نائب صدر عمومی اور کچھ عرصہ قائمقام صدر عمومی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم نے اپنے پیچھے چار بیٹے، تین بیٹیاں اور 21 پوتے پوتیا ں، نواسے نواسیاں یاد گار چھوڑے ہیں جن میں سے 10 تحریک وقف نَو میں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ناصر احمد محمود صاحب (حال ناروے) کو سات سال تک نصرت جہاں سکیم کے تحت سیرالیون میں خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15ستمبر 2011ء میں شامل اشاعت معروف شاعر جناب محمد ابراہیم ذوقؔ کی ایک پُرنصیحت غزل میں سے دو اشعار ہدیۂ قارئین ہیں کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا بڑے موذی کو مارا نفسِ اَمّارہ کو گر مارا نہنگ و اژدھا ئو شیرِ نر مارا تو کیا مارا