(مختصر تاریخ، مبلغین سلسلہ کی مساعی، ملکی اخبارات میں جماعتی خبریں۔ ) مولانا محمد اشرف اسحق صاحب محترم مولانا محمد صدیق شاہد صاحب مرحوم کی روانگی کے بعد مولانا محمد اشرف اسحق صاحب مرحوم و مغفور نے مشن کا چارج سنبھالا۔ ان کے قیام کے دوران ملکی اخبارات میں کثرت سے جماعتی خبریں اور مضامین شائع ہوئے۔ ملک کے مشہور صحافی اور بین المذاہب کونسل سرینام کے صدر (Mr. Nico Waagmeester) مسٹر نیکوواخ میسٹر سے آپ کے دوستانہ تعلقات رہے جس کی وجہ پاکستان میں جماعت پر ہونے والے مظالم اور جماعتی عقائد اور بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے حوالے سے مختلف خبریں اخبار کی زینت بنتی رہیں۔ مورخہ 11؍مئی 1984ء کو روزنامہ (Da Ware Tijd) میں پاکستان میں جماعت پر مظالم شروع ہونے کی خبر شائع ہوئی جس کے ساتھ امام جماعت احمدیہ کی تصویر بھی تھی۔پھر گیارہ جولائی کوجماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دئے جانے کے حوالے سے خبر شائع ہوئی،اس کے بعد چار اگست کواسی اخبار میں اہل پیغام کے ایک نمائندے کا انٹر ویو شائع ہوا جس میں اس نے ضیاء الحق کے بدنام زمانہ آر ڈی نینس کا حوالہ دیا،اور یہ تائثر دینے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا مسئلہ مشتبہ ہے۔اس جسارت کے جواب میں محترم مولانا اشرف اسحق صاحب نے حقیقۃ الوحی کی عبارت کاپی کرواکے تقسیم کی۔پھر 31؍اگست کوجو آرٹیکل شائع ہوا اس میں مسٹر نیکو واخ میسٹر نے لکھا کہ پاکستان میں کلمہ گو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر آذان، نمازاور دینی احکام پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ پھر چھ ستمبر 1984ء کو حجۃالوداع کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع خطبہ کے حوالے سے ایک مضمون شائع ہوا،جو مسڑ نیکو واخ میسڑ نے مولانا اشرف اسحق صاحب سے انٹر ویو لینے کے بعد تیار کیا تھا۔ دسمبر 1984ء میں سرینام کا چھٹا جلسہ سالانہ منعقد ہوا،جس میں محترم مولانا محمد اسلم قریشی صاحب مبلغ ٹرینڈاڈ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل ہوئے۔روز نامہ De Ware Tijd نے مورخہ 29دسمبر1984 ء کو جلسہ سالانہ کی خبر مولانا محمداسلم قریشی کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔ اخبار کی سرخی اس طر ح تھی:’’تاریکی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنا پیغمبر مبعوث فرماتا ہے‘‘اسلام اور ہندو مت کو اپنے پیروکاروں کی صحیح تعلیم وتربیت کے لئے اس ملک میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں مذاہب میں اپنے مذہب کا صحیح علم رکھنے والوں کی کمی ہے، اکثر مذہبی امام خود ساختہ ہیں۔ باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا انہیں کم ہی موقعہ ملتا ہے۔ان حالات میں مذہبی تنظیمیں اپنی اگلی نسلوں کی بہتر رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کا ایک نمونہ احمدیہ جماعت کے منعقد ہونے والے جلسہ میں نظر آیا۔اس جماعت کا ایک باقاعدہ مبلغ یہاں کام کر رہا ہے ایک مبلغ اسلم قریشی صاحب ہمسایہ ملک سے آئے ہیں اور یہ اُن کا اِس ملک کا پانچواں دورہ ہے۔ان مقررین کے علاوہ مقامی افراد نے بھی پروگرام میں حصہ لیا۔ 38 ممالک میں ان کی باقاعدہ جماعت قائم ہے۔اور پانچ سال بعد ان کی جماعت کو ایک صدی پوری ہوجائے گی‘‘۔ مولانا محمد اسلم قریشی صاحب شہید جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے محترم مولانا محمد اسلم قریشی صاحب نے گیانا اور ٹرینڈاڈ میں خدمات کے دوران مہمان کی حیثیت سے سرینام کے پانچ دورے کئے۔ 1984ء کے جلسہ میں شمولیت آپ کا اس ملک کا آخری سفر تھا۔مورخہ 10 اگست 1985ء کی صبح ٹرینڈاڈ میں بعض حملہ آورں نے فائرنگ کرکے آپ کو شہید کردیا۔ اس وقت آپ کی عمر چھیالیس سال تھی اور آپ کو بائیس سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کی توفیق ملی اور میدان عمل میں شہادت کا عظیم رتبہ پایا۔ پاکستان میں کلمہ طیبہ مٹانے کی مہم کے خلاف اور وہاں جماعت پر ہونے والے مظالم سے آگاہی کے لئے، باقی دنیا کی جماعتوں کی طرح سرینام کی جماعت نے بھی منظم کوشش شروع کی ہوئی تھی اس سلسلہ میں گیارہ مختلف وزراء اور سفار تکاروں کو خطوط بھجوائے گئے۔ اور ان کی طرف سے ہمدردی کے پیغامات بھی موصول ہوئے۔ روزنامہ (De Ware Tijd) میں چھ اپریل1985ء کو مساجد سے کلمہ شہادت مٹانے اور کلمہ پڑھنے کے جرم میں گرفتاریوں کی خبر مع تصایرصفحہ نمبر 6پرتفصیل کے ساتھ شائع ہوئی۔ مئی کی نو تاریخ کو محترم مولانا صا حب نے جماعتی وفد کے ساتھ وزیر زراعت راجکمار رنجیت سنگھ اور ان کے ڈائریکٹرسے ملاقات کی، انہیں قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر دیا اور جماعت کا تعار ف کروایا،اور پاکستان کے جماعتی حالات کی تفصیل بتائی۔جون میں وزارت قانون اور قدرتی وسائل کی طرف سے کلمہ طیبہ مٹانے کی ناپاک مہم کے خلا ف لکھے گئے خطوط کے جوابات موصول ہوئے کہ انہوں نے ان خطوط پر ہمدردانہ غور کر کے اپنی رپورٹ وزارت خارجہ کو بھجوادی ہے۔کلمہ طیبہ کی وجہ سے جماعت پر ہو نے والے مظالم اور گرفتاریوں کے حوالے سے مورخہ 25 مئی 1985ء کوروزنامہ (De Ware Tijd) نے دوبارہ خبر شائع کی۔ 25 مارچ 1986 ء کوروزنامہ De Ware Tijd کے صفحہ نمبر 3پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ ایک خبرشائع ہوئی جس میں لکھا تھا کہ 23 مارچ 1889 ء کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمد یہ کی بنیاد رکھی۔آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تمام دعاوی کئے۔اخبار نے ’’چشمۂ معرفت‘‘ میں بیان کردہ ختم نبوت کی تشریح کا حوالہ بھی دیا اور جماعت کی موجودہ ترقیات کی ایک جھلک بھی پیش کی۔ مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کا دورہ سرینام 27ستمبر 1986ء کو محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ مرکز کے حکم پر دو ماہ کے دورے پر سرینام تشریف لائے۔ 18اکتوبر کو اخباری نمائندے مسٹرنیکوواخ میسڑ نے مولانا کلیم صاحب کا انٹر ویو لیا۔یہ انٹرویو آپ کی تصویر کے ساتھ 22؍ اکتوبر کوروزنامہ (De Ware Tijd) میں شائع ہوا۔ منگل چار نومبر کو ریڈیو راپار پر مولانا صاحب نے 15 منٹ کی تقریرریکارڈ کروائی۔ آٹھ نومبر کو روز نامہ (De Ware Tijd) میں سیرت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا۔22 نومبر 1986ء کو اسی روزنامہ میں ’’نبوت کی اقسام اورامّتی نبی کی صداقت کے دلائل‘‘ کے حوالے سے آپ کا مضمون شائع ہوا۔ 24نومبر1986ء کو تقریباً دو ماہ سرینام میں قیام کے بعد مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب واپس امریکہ تشریف لے گئے اور اسی روز ریڈیو راپار پر آپ کی ریکارڈشدہ تقریر نشر ہوئی۔ منتخب آیات ِقرآنی کا ترجمہ قرآن مجید کی منتخب آیات کا مقامی زبان سرانان ٹونگو (Sranan) میں ترجمہ کا کام ایک کریول (Creole) شخص مسڑفاندر ہیلذ (Mr. Edgar van der Hilst) نے 1987ء کے آ خرمیں شروع کیا اور چند ماہ میں اس کام کو مکمل کیا، اور یہ ترجمہ کتابی صورت میں چھاپنے کے لئے مولانا اشرف صاحب نے 9؍فروری1988ء کولندن بھجوایا۔ اور صد سالہ جشن تشکر کے بابرکت اور یادگار سال میں شائع ہوا۔اخبار(De Ware Tijd) نے8 جولائی 1989 ء کو اس کتاب کی تصویر نمایاں طور پر شائع کی اور لکھا کہ یہ پہلا اسلامی لٹریچر ہے جو سرانان زبان میں شائع ہوا ہے۔ 1988ء کا ایک تاریخی واقعہ پاکستان کے ایک مولوی’’شاہ احمد نورانی صدیقی‘‘ متعدد بار سرینام آئے اور ہر باریہاں کی پُرامن مذہبی فضا کو اپنے ناپاک خیالات سے مسموم کرنے کی کوشش کی اور امام الزمان مسیح محمدی کی شان میں توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ اپریل1988ء میں ایک سنّی تنظیم ’’خلافت انجمن‘‘ نے اپنی نوتعمیر شدہ مسجدواقع Crommelinstraat 64 کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے نورانی کو دعوت دی۔ اور بڑی دھوم دھام سے اس تقریب کی تیاری کی گئی۔ ریڈیو راپار (R.B.N)سے نورانی کی تقریر براہ راست نشر کرنے کا انتظام کیا گیا۔ 7؍اپریل1988ء بروز جمعرات مسجد کا افتتاح ہوا۔ نورانی نے اپنے گھٹیا وعظ میں کہا: ’’احمدی غیر مسلم اور واجب القتل ہیں اور خنزیر سے بدتر ہیں۔ ان کی عزتیں اور جائیدادیں لُوٹنا جائز ہے۔ ان کی عبادتگاہیں مساجد نہیں کہلا سکتیں اور انہیں حج کی بھی اجازت نہیں۔ اگر کوئی حج کر بھی لے تو اسے حاجی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ جمعہ کو بھی اس نے اسی دریدہ دہنی سے ملک کی پُرامن مذہبی فضا کو مکدّر کیا۔ احمدیو ں کو واجب القتل قرار دئے جانے کا فتویٰ سن کر S.I.V. کے صدر رشید پیر خان صاحب نے اس تقریر کی ریکارڈنگ لی اور ہفتہ کے روزایک وفد کے ساتھ وزارت انصا ف اور پولیس کے وزیر (Mr.Jules Rattankoemar Ajodhia) مسٹر جولیس رتن کمار آیودیہا کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے۔ اگلے دن جماعت کا چار رکنی وفد مولانامحمد اشرف اسحاق صاحب کی قیادت میں تحریری شکایت لے کر وزیر موصوف کے گھر پر گیا کیونکہ چھٹی کی وجہ سے سرکاری دفاتر بند تھے۔ ان کی گھر پہ عدم موجودگی کی وجہ سے ان کی اہلیہ نے درخوا ست وصول کی۔ وزیر موصوف نے فوراًپراسیکیوٹر جنرل کو کارروائی کا حکم دیا اور پولیس نے اتوار کی رات مسٹر رفیق چراغ علی کے گھر واقع ’’ڈومنی سڑیٹ نمبر سات‘‘ (Domineestraat, 7) سے نورانی کو گرفتار کر لیااورپولیس سٹیشن لے جاکر تحقیق شروع کر دی۔ نورانی کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک میں پھیل گئی اور سنّی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ان کے سرکردہ افراد نے اپنی ہر امید گاہ پر جا کر ماتھا رگڑا اور اس کی رہائی کی بھیک مانگی، لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ (S.M.A) ’’سنّی مسلم ایسو سی ایشن‘‘ کا صدر حاجی مشعل سبحان آرمی چیف ’’ڈی سی بوترز(Mr.Desiré Delano Bouterse) کے پاس گیا اور اُس سے مداخلت کی درخواست کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔تقریباً بیس گھنٹے نورانی پولیس کی تحویل میں رہا اور اسے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کرآئندہ کے لئے سرینام میں داخلے پر پابندی لگا ئی گئی اور منگل 12اپریل 1988ء کو پولیس کی تحویل میں اسے ائیرپورٹ پہنچایا گیا اور پولیس کی نگرانی میں جہاز پر سوار کروایا گیا۔ یوں صدا قت کا یہ دشمن ذلّت اور رسوائیاں سمیٹتا ہوا اور مسیح الزمان کے الہام’’ اِنّی مُھِینٌ مَن اَرَادَ اِھَانَتَک‘‘کی عملی تفسیر بن کر سرینام سے رخصت ہوا۔ پولیس جب نورانی کو ائیر پورٹ لے جارہی تھی تو بیسیوں سنّی اپنی کاروں پر سوار احتجاجی طور پر ہارن بجاتے اس کے پیچھے گئے۔ لیکن وزیر موصوف اور پولیس نے کسی قسم کے دبائو کو قبول نہ کیا۔ اخبارات میں اس واقعہ کا خوب چرچا ہوا اور کئی دن تک اس حوالے سے مختلف خبریں شائع ہوتی رہیں۔ روزنامہ De Ware Tij میں جمعرات 14اپریل کو صفحہ نمبر 1پرنورانی کی تقریر کے الفاظ،گرفتاری اور ملک بدری کی خبر شائع ہوئی۔S.I.V. کی طرف سے شام کے اخبار روز نامہ دی ویسٹ (De West) میں 12اپریل کو انتہائی مہذب الفاظ میں نوارنی کی اس حرکت کی مذمت کی گئی،اور خلافت انجمن کو آئندہ اس قسم کے علماء کو دعوت دینے سے پرہیز کا مشورہ دیا گیا۔ سینئر انسپکٹر اور پولیس کے ترجمان مسٹر ہمفری ناردن Mr. Humphrey Naarden نے 23جنوری 2013ء کو اخباری نمائندوں کو ایک انٹر ویو دیا جس میں گزشتہ سال کے دوران غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم افراد کی ملک بدری کے حوالے سے بات کی۔ اس دوران اس نے یہ بھی ذکر کیا کہ مذہبی منافرت پھیلانے کی بنا پر ملکی تاریخ میں اب تک صرف ایک شخص کو ملک بدر کیا گیا ہے۔ اس وقت مَیں پولیس سروس میں نیا تھا اور میری رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی، جب ایک مذہبی تنظیم کے خلاف نفرت انگیر تقریر کرنے پر ایک غیر ملکی کو گرفتار کیا گیا اورملک بدر کیا گیا۔ یہ انٹر ویو مورخہ 24جنوری 2013ء بروز جمعرات روز نامہ’’ داخ بلاد سرینام‘‘ (Dagbald SURINAME)کے صفحہ 02پر شائع ہوا۔ صد سالہ جوبلی کی تقریبات 1989ء جماعت کی تاریخ میں ایک یاد گار سال تھا جب دنیا بھر میں جماعت کے قیام کے سو سال پورے ہونے کا جشن انتہائی جوش و جذبے اور جماعتی روایا ت کے مطابق منایا گیا اورمختلف تقریبات اور نمائشوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس ضمن میں سرینا م میں جو نمایاں کام ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔ یوم مصلح موعود کے موقع پر18 مارچ 1989 ء کو اخبار(De Ware Tijd) میں پیشگوئی مصلح موعود اور خلافت ثانیہ میں جماعتی ترقی کے حوالے سے ایک مضمون شائع ہوا اور اخبار نے لکھا کہ آپ کے ذریعہ چالیس سے زائد ممالک میں مشنز کا قیام عمل میں آیا۔نیز صدسالہ جشن تشکرکے انعقاد کا پروگرام اور نمائش کتب کا اعلان بھی شائع ہوا۔ شام کے اخبار(De West) میں 23 مارچ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور جشن تشکر کے Logo کے ساتھ یہ اعلان شائع ہوا کہ آج رات 8بجے Ephraimszegenweg 67 پر احمدیہ صدسالہ جشن تشکر کے حوالے سے جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ تین دفعہ روزنامہ(De Ware Tijd) میں جشن جوبلی کے انعقاد کا اعلان کروایا گیا او راس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون بھی اسی اخبار میں شائع ہوا۔ مورخہ 16تا 31 مارچ ٹی وی چینل (STVS) پر احمدیہ جماعت کے سوسال کی سرخی کے ساتھ جشن تشکر کا Logo دکھایا جاتا رہا۔ جشن تشکر کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام مورخہ 24 مارچ کو ریڈیو پر پڑھ کر سنایا گیا۔ 23مارچ کو ایک کامیاب جلسہ اور نمائش کا انعقاد کیا گیا۔یکم اپریل 1989 ء کو اخبار(De Ware Tijd) نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی تصویر کے ساتھ جماعت کے اس جلسہ کی تفصیلی رپورٹ شائع کی۔اور خلیفہ وقت کے پُرمعارف پیغام کا کچھ حصہ بھی شائع کیا۔ مولانا اشرف اسحق صاحب نے محترم مولاناحسن بصری صاحب کے ہمراہ وزیر تعلیم(Mr. Venetiaan) سے ملاقات کی اور انہیں ڈچ ترجمہ والے قرآن مجید کے علاوہ متعدد کتب پیش کیں۔ نیز وزارت تعلیم کی لائبریری اور کلچرل سنٹر سرینام کی لائبریری کو اس یادگار موقعہ کی مناسبت سے چند جماعتی کتب کا تحفہ دیا گیا۔ اس تقریب کی خبر مع تصویر روز نامہ (De Ware Tijd) میں مورخہ 5اگست1989ء کو شائع ہوئی۔ مولانا حسن بصری صاحب مولانا حسن بصر ی صاحب کا نومبر 1987ء میں سرینام کے لئے تقر ر منظور ہوا اور آپ 9؍اگست1988 ء کو سرینام پہنچے۔ ایک سال محترم مولانا اشرف اسحق صاحب کے ساتھ مل کر کام کیا اور اگست 89 ء کے آغاز میں ان سے مشن کاچارج لیا۔ مورخہ 17 اگست1989 ء کو برازیلین سفارتخانے کی قونصلر (Mr.Eduardo R.Gradusne) سے ملاقات کی اور انہیں قرآن مجید اور پرتگالی زبان کا کچھ جماعتی لٹریچر پیش کیا۔ 26 ستمبر 89 19ء کو جماعتی وفد کے ساتھ بھارتی سفیر مسڑ اندر ورما چوپڑا (Mr. I. V. Chopra) سے ملاقات کی انہیں جماعت کا تعارف کروایا،قرآن مجید اور دیگر جما عتی لٹریچر پیش کیا۔ سرینام جماعت کا پہلا موصی مورخہ26 اگست1989ء کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں مبلغ سلسلہ نے نظام وصیت کی وضاحت کی اور ممبران عاملہ کو اس میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی۔اس تحریک پر سب سے پہلے سیکرٹری تبلیغ مکرم مرتضیٰ چراغ علی صاحب نے لبّیک کہا اور اسی شام مشن ہائوس تشریف لائے اور وصیت فارم پُر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔تمام ضروری امور کی تکمیل کے بعد ان کا فارم پُر کروایا گیا، اور اس طرح اس بزرگ کو سرینام کا سب سے پہلا موصی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1989 ء کا سال جماعتی تاریخ میں جشن تشکر کے حوالے سے ایک یاد گار سال ہے۔اس سال مسیح محمدی کی جماعت کو قائم ہوئے سو سال مکمل ہو ئے،دنیا بھر میں جماعتوں نے یہ سال مختلف دینی پروگراموں میں گزارا۔ چار نومبر 89 ء کو سرینام کا دسواں جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔اس جلسہ میں مہمانوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ اس موقعہ پر ایک وسیع نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جسے شاملین جلسہ نے بڑے شوق سے دیکھا۔ مولانا مبارک احمدنذیر صاحب کا دورہ مکرم مولانا مبارک احمد نذیرصاحب مبلغ سلسلہ کینڈا ابن مولانا نذیر احمد علی دسمبر 1990 ء کے آواخر میں مختصر دورے پر سرینام تشریف لائے۔وزیرداخلہ مسڑ ولم شیخ کریم صاحب آپکی ملاقات کروائی گئی، آپ نے انہیں قرآن مجید اور دیگر جماعتی کتب پیش کیں۔ نیز آپ نے کچھ دوسرے جماعتی پرو گرامز میں بھی شرکت کے علاوہ معروف صحافی (Mr.Nico Waagmeester)مسڑ نیکو واخ میسڑسے بھی ملاقات کی اور سوالات کے جوابات دئے۔ آپ کا یہ انٹر ویو روزنامہ (De Ware Tijd) میں 30دسمبر 1990ء کو شائع ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 29مئی 1991ء تا 4 جون1991ء سرینام کا دورہ فرمایا۔ حضوررحمہ اللہ تعالیٰ کی آمد سے قبل مورخہ 25مئی 1991ء کوملک کے مشہور اخبار De Ware Tijdمیں حضرت خلیفۃ المسیح الر ابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصویر کے ساتھ حضور کے تعارف اور جماعتی عقائد کے حوالے سے خبر شائع ہوئی۔ (باقی آئندہ)