قادیان اور پاکستان اور متعدد ممالک سے نمائندگان اور مبلغین کرام کی شرکت۔ دونائب وزیر اعظم، 6 منسٹرز، تین شہروں کے مئیر اور دوسری متعدد مذہبی اور سماجی شخصیات کی جلسہ میں شرکت۔ علمی و تربیتی موضوعات پر تقاریر۔الحمدللہ سال 2015ء میں جماعت احمدیہ ماریشس کے قیام پرسوسال مکمل ہوئے ہیں اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے نصف صدی سے زائد عرصہ سے جماعت ماریشس کو باقاعدگی سے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی توفیق مل رہی ہے اورا مسال 54ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد کیا گیا۔ چونکہ جماعت ماریشس اپنی پہلی صدی مکمل کرتے ہو ئے دوسری صدی میں داخل ہو رہی تھی اس لئے یہ جلسہ تاریخی لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل تھا اور اس کے انعقاد کے لئے خصوصی تیاریاں کی گئی تھیں۔ 1915ء میں باوجود انتہائی مشکل حالات اور مالی کمزوری کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُولوالعزم بیٹے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کو ماریشس بھجواکر باقاعدہ طور پر اس جزیرہ پر مشن کا آغاز کیا۔ صوفی صاحب نے روزہل میں کرایہ پر چھوٹا سا مکان لیا اور اس میں مشن کا آغاز کیا جہاں 10 سے 30 تک افراد نے الگ نماز پڑھنی شروع کی۔ پہلی مرتبہ اس جزیرہ پر احمدیوں نے الگ نماز عید پڑھی۔اُس وقت جماعت کے پاس ایک مربع میٹر جگہ بھی اپنی ملکیت نہیں تھی لیکن آج اللہ کے فضل سے ماریشس میں جماعت کے پاس اربوں روپے مالیت کی نہ صرف زمین بلکہ 15 خوبصورت مساجدکا قیام بھی عمل میں آچکا ہے۔اسی طرح ماریشس کے دوسرے جزیرہ روڈرگز میں بھی 2 مساجد اور مشن ہائوس تعمیر ہو چکے ہیں۔ قریبی ممالک میں بھی جماعت ماریشس مساجد اور مشن ہائوس تعمیر کرنے کی توفیق پارہی ہے۔جماعت کے مخلصین اللہ کے فضل سے 50 ملین ماریشن روپے سے بھی زائد سالانہ مختلف چندہ جات ادا کرنے کی توفیق پارہے ہیں۔ اور آج اللہ کے فضل سے ملک کے سب سے اچھے اور مہنگے ترین ہال میں جلسہ کے انعقاد کی توفیق پارہے ہیں جہاں دُنیا بھر سے احمدی اس میں شرکت کے لئے تشریف لارہے تھے۔ یہ سب دیکھ کریقینا دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکرسے بھر جاتا ہے۔ مرکزی نمائندگان اس تاریخی اور یاد گار جلسہ میں شرکت کے لئے حضور انور ایدہ اللہ نے ازراہ ِ شفقت جن مرکزی نمائندگان کی منظوری عطا فرمائی اور اُنہیں اس جلسہ میں شرکت کی توفیق ملی اُن کے نام اس طرح ہیں : 1۔ مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظراعلیٰ و امیر مقامی ربوہ بطورمہمان خصوصی ونمائندہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔2۔ مکرم ومحترم چوہدری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدیدمہمان خصوصی و نمائندہ تحریک جدید۔ 3۔ مکرم شیراز احمد صاحب نائب ناظر اعلیٰ و ناظرتعلیم قادیان (نمائندہ قادیان)۔ 4۔مکرم شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر (نمائندہ عرب ممالک)۔5۔ مکرم محمد بن صالح صاحب امیر جماعت غانا (نمائندہ براعظم افریقہ)۔6۔ مکرم عبد الباسط شاہد صاحب امیر جماعت انڈونیشیا (نمائند ہ جزائر)۔ 7۔ مولانا ابراہیم نونن صاحب مشنری انچارج آئرلینڈ (نمائندہ یورپ)۔ 8۔ مولانا اظہر حنیف صاحب مبلغ سلسلہ (نمائندہ براعظم امریکہ)۔9۔ مولانا صدیق منور صاحب مبلغ سلسلہ فرنچ گیانا (نمائندہ سابق مبلغین ماریشس)۔ جلسہ گاہ جماعت احمدیہ ماریشس کے سو سالہ قیام پر اس تاریخی جلسہ میں کثرت سے پوری دُنیا سے احمدی احباب کی شرکت اور جلسہ کے یادگار انعقاد کے لئے امسال پہلی مرتبہ ماریشس کے سب سے بڑے اور جدید سہولتوں سے آراستہ S.V.I.C.C انٹر نیشنل کانفرنس سنٹر کو تین دن کے لئے کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔مکرم شمس وارث علی صاحب نے افسر جلسہ سالانہ کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے تمام ناظمین اور کار کنان جلسہ کے ساتھ میٹنگ کی اور بھرپور جوش اور ولولہ کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ جلسہ میں شرکت کے لئے دعوت نامے، رجسٹریشن کارڈ اور جلسہ سالانہ کا پروگرام شائع کیا۔ جلسہ گاہ کی تیاری اور مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام کیا گیاتھا۔ مہمانانِ کرام کی آمد جلسہ سالانہ سے چند روز قبل دُنیا بھر سے شرکت کے لئے احمدی احباب اور مرکزی نمائندگان کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیا۔اس طرح کل 19 ممالک سے 129 مہمان اس جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے۔ مہمانِ خصوصی مکرم و محترم صاحبزادہ مرز ا خورشید احمد صاحب اور مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب جلسہ سے دو روز قبل مورخہ 10 نومبر کو شام پانچ بجے جب ماریشس تشریف لائے تو امیر جماعت ماریشس مکرم موسیٰ تیجو صاحب اور خاکسار بشارت نوید مبلغ انچارج ماریشس نے ائیر پورٹ کے VIP Lounge میں مہمانانِ کرام کا استقبال کیا جہاں سے آپ رہائشگاہ تشریف لے گئے اور جب نماز مغرب وعشاء کے لئے جماعت کی مرکزی مسجد دارالسلام واقع روزہل میں تشریف لائے تو احمدی احباب کی ایک بڑی تعداد نے معزز مہمانوں کا نعرہ ہائے تکبیر سے استقبال کیا۔نماز وں کی ادائیگی کے بعد مکرم امیر صاحب ماریشس نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جس کے بعدمہمانان کرام نے بھی مختصر خطاب فرمایا۔ معائنہ انتظامات جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل مورخہ12 نومبر بروز جمعرات شام 5 بجیمکرم ومحترم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ اورمکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے بغرضِ معائنہ جلسہ گاہ جاتے ہوئے راستے میں مسجد نور پائی کا وزٹ کیا جس کے بعد آپ قبرستان تشریف لے گئے جہاں آپ نے حضرت حافظ عبید اللہ رضی اللہ عنہ شہید مبلغ سلسلہ کی قبر پر دعا کی جس کے بعد آپ جلسہ گاہ S.V.I.C.C انٹر نیشنل کانفرنس سنٹر تشریف لائے جہاں آپ نے جلسہ سالانہ ربوہ، قادیان اور لندن کی روایات کے مطابق جلسہ گاہ اور تمام انتظامات کا معائنہ فرمایا۔ مختلف اسٹالز جس میں اشاعت، وصیت، ہیومینٹی فرسٹ اور کھانے پینے کے ا سٹالز شامل تھے کا معائنہ کرنے کے بعد مردانہ اورزنانہ جلسہ گاہ کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اسی طرح کھانا پکانے کے انتظامات کو بھی دیکھا۔ آخر پر ایک تقریب میں تلاوت اورنظم کے بعدکارکنانِ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مکرم ومحترم مرزا خورشید احمد صاحب نے جلسہ سالانہ کی اہمیت اور کارکنان کو اُن کی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے خدمت کے دوران عبادت اور نمازوں کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ اس کے بعد مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب نے بھی جلسہ سالانہ کے انعقاد کی مناسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار الہامات وَسِّعَ مَکَانَکَ، یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ، وَلَا تَصَعِّرَلِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَاتَسْئَمْ مِنَ النَّاس اور ’’بھوکوں کو کھانا کھلا‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کارکنان جلسہ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔نماز مغرب وعشاء اور اس مختصر تقریب کے بعد مہمانان خصوصی نے کارکنان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔ پہلا روز 13 نومبر بروز جمعہ ایک بجے بعد دوپہر مکرم امیر صاحب ماریشس نے نماز جمعہ پڑھائی۔ خطبہ جمعہ میں آپ نے ان ایّام میں اللہ تعالیٰ کا شکر کر نے اور اُن تمام وفات یافتہ احمدیوں اور مبلغین کو جنہوں نے احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانیاں کیں دعائوں میں خاص طور پر یاد رکھنے کی طرف توجہ دلائی۔آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ماریشس کو گزشتہ 25 سال سے خلیفۃ المسیح کے ہر خطبہ کا کریول میں ترجمہ کرنے اور اگلے آنے والے جمعہ میں تمام مساجدمیں بطور خطبہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے۔اس کے بعدامیر صاحب نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے گزشتہ خطبہ 6 نومبر کا خلاصہ پیش کیا جس میں حضورِ انور نے قرآن کریم کی روشنی میں بتایا کہ نیکی بغیر قربانی کئے حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں کی مثالیں بیان کیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے رضی اللہ عنھم کا خطاب حاصل کیا۔اس کے بعدحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا۔ آخر پر مکرم امیر صاحب نے جلسہ کے ایام میں مہمانوں کا خاص خیال رکھنے اور منتظمین کی کامل اطاعت کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ لوائے احمدیت اور افتتاحی اجلاس تین بجے بعد دوپہر مہمان ِ خصوصی مکرم و محترم مرزا خورشید احمد صاحب نے جلسہ گاہ کے باہر لوائے احمدیت لہرایا اور دعا کروائی۔اس موقعہ پر امیر صاحب ماریشس نے ملکی پرچم لہرا یااوراحباب جماعت نے اسلام اور احمدیت کے نعرے لگائے۔اس کے ساتھ ہی جلسہ سالانہ کا افتتاحی اجلاس مہمان ِ خصوصی مکرم و محترم مرزا خورشید احمد صاحب کی صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم نور محمد تراب علی طالب علم جامعہ احمدیہ غانانے کی اور ترجمہ مکرم فواد لال بہاری صاحب نے پیش کیا۔مکرم شاہد ہولاش صاحب نے نظم’’ لوگو سنو کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں ‘‘ ترنم سے پڑھی جس کے بعدمہمان خصوصی نے افتتاحی خطاب فرماتے ہوئے حاضرین جلسہ کو ماریشس میں احمدیت کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر مبارک باد پیش کی اور مختصر طور پر 1915 میں جماعت کے قیام کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے اُس دور کا ذکر کیا جبکہ آپ ایک گمنامی کی زندگی بسر کررہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو خبر دے رہا تھا کہ ایک ہجوم تیری طرف آئے گا اور تو نے لوگوں کی ملاقات سے تھکنا نہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں وہ وقت آیا جب آپ نے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا اور صرف 75 افراد اُس میں شامل ہوئے اور آج وہ وقت ہے کہ دُنیا کے کونے کونے میں یہ جلسے منعقد کئے جارہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان میں شرکت کر رہے ہیں۔ آپ نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جلسہ کے قیام اور مقاصد سے متعلق تحریرات پڑھ کر سُنائیں۔ اور بتایا کہ جلسہ کے انعقاد کے مقاصد اور بھی بہت ہوں گے لیکن ان تحریرات سے جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہیں : 1۔ ملاقات۔2۔ فکر ِمعاد۔3۔ خوفِ خدا۔ 4۔ زُہد۔ 5۔ تقویٰ۔ 6۔ خدا ترسی۔ 7۔ پرہیز گاری۔ 8۔ نرم دلی۔ 9۔ باہم محبت۔ 10۔ مؤاخات۔ 11۔ انکسار۔ 12۔ تواضع۔ 13۔ راستبازی۔ 14۔ دینی مہمات میں سرگرمی۔ آ پ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار بشمولہ شہادۃ القرآن سے اقتباسات پڑھ کر جلسہ کے قیام اور مقاصد کی اہمیت پر بڑے پیارے انداز میں روشنی ڈالی۔ اسی طرح آپ نے اشتہار 7دسمبر 1892ء سے جلسہ میں شرکت کرنے والوں کے لئے دعائیں بھی پڑھ کر سُنائیں۔ اس خطاب کے آخر پر جبکہ شام کے پانچ بج رہے تھے تمام حاضرین نے جلسہ گاہ میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست خطبہ جمعہ سنا اور دیکھا۔اس خطبہ کا ساتھ ساتھ کریول زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ کے آخر پر جلسہ سالانہ ماریشس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’آج ماریشس کا جلسہ سالانہ ہورہا ہے اور ماریشس میں جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی سینٹنری (centenary) منا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا یہ جلسہ بھی ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور یہ سو سال آئندہ وہاں نئی ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوں اور نئے سے نئے منصوبے کریں۔ وہاں بعض فسادی لوگ بھی ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بھی جماعت کو محفوظ رکھے اور ہر شر سے بچائے اور ہر لحاظ سے جلسے کو اور ان کے پروگراموں کو بابرکت فرمائے۔‘‘ شام چھ بجے حضور ِانور کے خطبہ جمعہ کے ساتھ ہی جلسہ کے پہلے روز کی کارروا ئی ختم ہوئی۔حاضرین جلسہ کو رات کا کھانا پیش کیا گیا۔ نماز مغرب و عشاء ادا کرنے کے بعد سب لوگ ا سپیشل بسوں اور اپنی کاروں کے ذریعہ گھروں کو روانہ ہوئے۔ دوسرا روز 14 نومبر بروز ہفتہ جلسہ کے دوسرے روز مرکزی مسجد دارالسلام روزہل میں اجتماعی نماز تہجد مکرم شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر نے پڑھائی اوربعد نماز فجر مکرم الیاس منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے قرآن کریم سے سورۃ الاحقاف آیت 16کی تلاوت کی اوراس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے والدین کے حقوق اور تربیت اولاد کرنے کے ساتھ ساتھ دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی۔درس کے بعد سب نے اجتماعی ناشتہ میں شرکت کی۔ دوسرا اجلاس یہ اجلاس صبح دس بجے مکرم مولانا مظفر سدھن صاحب مبلغ سلسلہ کی صدارت میں شروع ہوا۔تلاوت اور نظم کے بعدپہلی تقریر نیشنل سیکرٹری تبلیغ مکرم مبارک بدھن صاحب نے ’’ذکر الٰہی کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر کی جس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ذکر الٰہی سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے ذکر الٰہی کے مختلف طریق اور اقسام پر روشنی ڈالی۔ دوسری تقریر امیر جماعت کبابیر مکرم شریف عودہ صاحب نے کی جس کا عنوان تھا ’’عرب دُنیا میں احمدیت کا نفوذ ‘‘۔ آپ نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آج اللہ کے فضل سے خلافتِ خامسہ کے دور میں عرب دُنیا میں جہاں ایک طرف زمینی انقلاب برپا ہورہے ہیں وہیں روحانی دُنیا میں بھی عظیم انقلاب برپا ہورہے ہیں۔ آپ نے بیت لحم کے ایک پادری کی خواب کا بھی ذکر کیا جس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مریم علیہاالسلام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورِانور کو عربوں کو اُن کی زبان میں خطاب کرنے اور ایم ٹی اے العربیہ جاری کرنے کی توفیق ملی۔ ہماری سوچیں محدود ہیں ہمیں یہ سب ناممکن نظر آتا تھا لیکن آج اللہ کے فضل سے تمام عرب دُنیا میں ایم ٹی اے العربیہ کے چرچے ہیں۔ یہاں تک کہ مصر کے صدرحسنی مبارک جو ایک لمبے عرصے سے صدر چلے آرہے تھے نے جس دن اس ٹی وی چینل کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے تو اگلے سال اُسی دن اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اب عرب دُنیا یہ کہہ رہی ہے کہ اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْر۔ اس تقریر کے بعد ناصرات نے عربی قصیدہ: یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ ترنم سے پڑھا۔اس اجلاس کی آخری تقریرامیر غانا مکرم محمد بن صالح صاحب نے ’’غانا میں احمدیت‘‘ کے عنوان سے کی۔ آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ جب احمدیت کا غانا میں نفوذ ہو ا تو اس وقت اسے گولڈ کوسٹ کہا جاتا تھا۔ غانا کے شمال میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے جبکہ جنوب میں عیسائی اکثریت والے علاقے ہیں۔ احمدیت کی آمد سے پہلے مسلمانوں کی حالت بہت ہی کمزور تھی اور وہ صرف نام کے مسلمان تھے۔سکول میں تعلیم حاصل کرنا کفر سمجھا جاتا تھا۔ قرآن کریم کا ترجمہ کرنا گناہ تصور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کا صرف نام باقی تھا۔ غانا کے ایک بزرگ نے3 مرتبہ خواب دیکھا کہ اُنہیں ایک سفید پوش آدمی نماز پڑھا رہا ہے۔ جس پر اُنہوں نے ریویوآف ریلیجنز سے ایڈریس لے کر مبلغ بھجوانے کی درخواست کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حصرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب ؓ کولندن سے غانا بھجوایا اور آپ نے مشن کا قیام کیا۔ تمام خلفاء کا غانا کے ساتھ ایک خاص پیار اور شفقت کا سلوک چلا آرہا ہے۔آج خدا کے فضل سے غانا میں کئی سکولوں اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ ایک انٹر نیشنل جامعہ احمدیہ کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے جس میں دُنیا کے 17 ممالک سے نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں جن میں ماریشس بھی شامل ہے۔اور خدا کے فضل سے غانا میں احمدیوں کی تعداد ماریشس کی کل آبادی سے بھی زائد ہے۔ اس تقریر کے ساتھ ہی دوسرے روز کے پہلے اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی اور کھانے کا وقفہ ہوا۔ تیسرا اجلاس ایک بجے دوپہر بعدنمازِ ظہر وعصرامیر جماعت ماریشس مکرم موسیٰ تیجو صاحب کی صدارت میں اس جلاس کی کارروائی کا آغازتلاوت کریم اور نظم سے ہواجس کے بعدتین تقاریر ہوئیں۔ پہلی تقریر مکرم ابراھیم نونن صاحب مبلغ سلسلہ آئرلینڈ نے ’’آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لئے بطور رحمت ‘‘ کے عنوان سے کی۔آپ نے بتایا کہ اللہ ربّ العالمین نے اپنی صفت رحمٰن کے تحت ہمیں رحمۃاللعالمینؐ جیسا عظیم الشان بنی عطا فرمایا ہے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر چلتے ہوئے دُنیا کو اس پیارے نبی کے راستہ پر چلائیں نہ کہ دُنیا میں اس معصوم بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم اور قتل و غارت سے لوگوں کو اسلام اوراس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کرنے والے بنیں۔ آج امت مسلمہ میں جس قدر ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم ہے اسے ختم کرنے کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین نمونہ کو دُنیا میں رائج کرنا ہی جماعت احمدیہ کا اصل مقصد ہے۔ قریبی جزائر سے پیغامات ماریشس کے آس پاس کے دوسرے جزائر جو انتظامی طور پر جماعت ماریشس کے تحت ہی کام کر رہے ہیں، سے آئے ہوئے نمائندگان نے جماعت ماریشس کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کی اور پیغامات پڑھ کر سنائے۔ چنانچہ مڈگاسکر سے مبلغ سلسلہ مکرم مجیب احمد صاحب، روڈرگز سے غلام کاظمی، قموروز سے صدر جماعت سعید عمر درویش، مایوٹ سے امام سعید اور ری یونین سے صدرجماعت فرخ حمید صاحب نے یہ پیغامات پڑھ کر سُنائے۔ اس کے بعد مکرم مختار دین تیجو صاحب نے نظم ’’جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے‘‘ ترنم سے پڑھی اور دوسری تقریر مکرم مولانا اظہر حنیف صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ نے فضائل القرآن کے موضوع پر کی۔مکرم مولانا صاحب نے بتایا کہ بائبل بھی کہتی ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ایک پاک بات کی مثال ایک پاک درخت سے دی ہے جو ہر وقت اپنے پھل دیتا ہے اور ایک بُری بات کی مثال ایک بُرے درخت سے دی ہے۔قرآن کریم وہ درخت ہے جس سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ثابت ہوتی ہے اور یہی وہ پاک درخت ہے جسے ہم نے تمام دُنیا میں لگا نا ہے تاکہ دُنیا اس کے پھل کھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْاٰن کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نصائح بیان کیں اور ’’اگر دُنیا میں کامیاب ہو نا ہے تو قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو‘‘، کی طرف توجہ دلائی۔مولانا اظہر صاحب نے ایک فرنچ جرنلسٹ کا جو 10 ماہ تک داعش کے قبضہ میں رہنے کے بعد کسی طریقے سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو ا تھا واقعہ بیان کیا کہ باوجود اُس کے مانگنے کے اُسے قرآن کریم پڑھنے تک کو نہیں دیا گیا اور اُس جرنلسٹ نے گواہی دی کہ ان لوگوں کا اسلام اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے دلوں میں اسلام اور قرآن کی محبت ہے۔مولانا صاحب نے توجہ دلائی کہ قرآن کریم میں واضح طور پر لکھا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی گواہی دیں گہ اے اللہ میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دُنیا میں قرآن لے کر نکلیں۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ ماریشس کی جماعت خوش قسمت ہے کہ یہاں آغاز میں حفاظ مبلغین نے آکر احمدیت کا پودا لگایا جو آج خدا کے فضل سے ہر طرف پھیل رہا ہے۔ اس اجلاس کی آخری اور تیسری تقریر مکرم عبدالباسط شاہد صاحب امیر جماعت انڈونیشیا نے ’’ دُنیا کے سب مسائل کا حل صرف نظام خلافت ہے ‘‘ کے موضوع پر کی۔آپ نے بتایا کہ آج دُنیا میں صرف جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہی ہیں جنہیں دُنیا کے بڑے بڑے سربراہان کو بذریعہ خطوط امن اور انصاف کے قیام کی طرف توجہ دلانے کی توفیق مل رہی ہے۔ اور صرف یہی وہ نصائح ہیں جن پر چل کر دُنیا امن حاصل کرسکتی ہے۔ آج خلیفۃ المسیح ہی ہیں جنہیں دُنیا کی مختلف ممالک کی پارلیمنٹ میں جاکر دُنیا کو مستقبل میں آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔آج دُنیا میں انصاف اور قیام امن کے لئے جو درد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل میں پایا جاتا ہے جسے ہم آپ کے مختلف خطابات میں سُن چکے ہیں اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اور یہ خلیفۃ المسیح ہی ہیں جو خود بھی دن رات اس کے لئے نہ صرف عملی کوششیں کررہے ہیں بلکہ دن رات خدا کے حضور خود بھی دعائیں کر رہے ہیں اور اپنی جماعت کوبھی مسلسل خاص دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ اس تقریر کے ساتھ ہی اس اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی اور چائے کا وقفہ ہوا۔ چوتھا اور خصوصی اجلاس چار بجے شام غیر از جماعت مہمانوں کے لئے خصوصی اجلاس کی کارروائی کا آغاز بھی تلاوت قرآن کریم اور نظم سے ہوا۔اس اجلاس میں 2 وائس پرائم منسٹر اور 4 سینئر منسٹر ز کے علاوہ 3 شہروں کے مئیرز اور متعدد کونسلرز، ویلج پریذیڈنٹ اور دوسرے مذہبی و سماجی کارکنان ملاکر کُل 128 غیر از جماعت افراد نے شرکت کی۔مکرم امیر صاحب نے سب مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے جماعت کی سوسالہ تاریخ کا مختصر ذکر کرتے ہوئے مہمانوں کو بتایا کہ ماریشس کی زمین بڑی خوش قسمت ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین صحابہ بطور مبلغین تشریف لائے۔امیر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب پیغام صلح سے اقتباسات پڑھ کر سُنائے جہاں حضرت مسیح موعود ؑ نے معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے رہنے کی تعلیم دی ہے۔آپ نے بتایا کہ آج اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ خلافت کے سائے میں دُنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔مکرم امیر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سربراہان مملکت کو لکھے گئے خطوط سے بھی اقتباسات پڑھ کر سُنائے۔ اس کے بعد Mr Roshi Bhadain - Minister of Financial Services, Good Governance and Institutional Reformsنے حاضرین جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے گزشتہ روز فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ پر اظہار افسوس کیا۔ اس کے بعد جناب منسٹر نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے کیپٹل ہل میں دئیے گئے خطاب سے اقتباس پڑھا جس میں حضور انور نے بیان کیا ہے کہ انصاف کے بغیر دُنیا میں امن ممکن نہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر Mr Ivan Leslie Collendavelloo - Vice Prime Minister and Minister of Energy and Public Utilities نے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ میرا تعلق روز ہل سے ہے۔ مَیں اسی علاقے سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچا ہوں جہاں جماعت احمدیہ کا مرکز یعنی مسجد دارالسلام واقع ہے۔مجھے آج جماعت کے سوسالہ سنگ میل کے موقعہ پر جلسہ میں حاضر ہوکر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔جماعت کی سوسال میں اس قدر ترقی حیران کن ہے۔آج سے سو سال قبل چند ایک لوگوں نے ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے جماعت کا پودا لگایا۔ اور 1923 میں مسجد دارالسلام کا قیام عمل میں آیا جو آج روزہل کی پہچان ہے جہاں سے پھر ہر شعبے میں خدمت کرنے والے نوجوان جیسے کہ ڈاکٹرز، ٹیچرز، اکائونٹنٹ اور بزنس مین پیدا ہوئے۔ یہاں تک کہ ملک کے آڈیٹر جنرل بھی یہیں سے نکلے جنہوں نے ملک میں نیک نامی اور اچھی شہرت کمائی ہے۔ ان سب نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑی سادگی اور عاجزی سے انہوں نے دوسروں کی مدد کی ہے۔ انہوں کہا کہ میں بڑے زور سے کہوں گا کہ آپ اپنے اعتقادات پر بڑی ایمانداری سے عمل کرتے ہیں اور انصاف اور امن کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور یہی بات آپ کو دوسرے سب لوگوں سے الگ کرکے دکھاتی ہے۔ بعدازاں Mr Duval Charles Gaëtan Xavier - Luc - Deputy Prime Minister, Minister of Tourism and External Communications نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ پھر میں آپ کے درمیان حاضر ہو کر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ گزشتہ کل فرانس میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ پر جس میں 127 معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں کے لئے ہم سب لوگ کھڑے ہوکر ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کریں گے۔ چنانچہ سب حاضرین جلسہ نے اس المناک حادثہ پر کھڑے ہوکر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ وائس پرائم منسٹر نے کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں جو سب امن کے ساتھ اس جزیرہ میں رہ رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ نے اس امن کی فضا کو مزید بہتر بنانے کے لئے ایک ماہ قبل جو سارے ملک میں بڑے بڑے بِل بورڈ لگوائے جس پر لکھا تھا ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘۔ اس نیک کام پر حکومت آپ کی شکرگزار ہے۔آپ لوگوں نے پیسے خرچ کرکے اس ملک کے ماحول کو اچھا بنانے کے لئے مستحسن کام کیا ہے۔ اس اجلاس کے لئے حضور انور کی طرف سے صدارت اور خطاب کے لئے مقرر مکرم شیراز احمد صاحب نائب ناظر اعلیٰ و ناظر تعلیم قادیان نے اس اجلاس کا آخری اور مرکزی خطابـ ’’ اسلام کی امن اورخدمتِ انسانیت سے متعلق تعلیم ‘‘ کے عنوان سے کیا۔ آپ نے بھی سب سے پہلے فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ پر اظہارِ افسوس کیا۔اس کے بعد امن اور انسانیت کی خدمت سے متعلق قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں کہ خدا کے بندے اس کی محبت میں بھوکوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور دوسروں کو اپنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ پھر اس موضوع پر متعدد احادیث پیش کیں مثلاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہودی کے جنازہ پر کھڑے ہو جانا۔ اسی طرح ایک حدیث جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ میں پیاسا تھا تونے مجھے پانی نہیں پلایا، میں بھوکا تھا تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں ننگا تھا تو نے مجھے کپڑا نہیں پہنایا۔ جب بندہ کہے گا اے خدا تو کب ایسا تھا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب میرا فلاں فلاں بندہ تیرے پاس آیا تھا تو وہ میں ہی تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحمت کی نظر رکھتا ہے جو دوسروں پر رحمت کی نظر رکھتے ہیں۔ مکرم شیراز صاحب نے اس مضمون کی مناسبت سے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات بھی پڑھ کر سُنائے جن میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسانیت سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو اگر انسان چھوڑ دے تو وہ آہستہ آہستہ حیوان ہوجاتا ہے۔اور محبت صرف اپنے ہم مذہب سے ہی نہیں ہونی چاہیے۔ انسانیت کی خدمت اور ان سے محبت ایک بہت بڑی عبادت ہے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔اگر ایک ہندو کا گھر جل رہا ہے اور کوئی اس کی مدد نہیں کرتا تو وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی عیسائی کو قتل کررہا ہے اور وہ اس کی مدد نہیں کرتا تو وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا جب ایک بوڑھی عورت نے خط پڑھنے کو دیا تو آپ کے ساتھی نے اُسے جھڑک دیا لیکن آپ وہیں رُک گئے اور اُسے خط پڑھ کر سُنایا اور سمجھایا۔ مکرم شیراز صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی کتاب Pathway To Peace سے بھی اقتباسات پڑھ کر بتایا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ صحیح انصاف سے ہی حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔آج دُنیا کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور اس کی تعلیم پر عمل کرے۔ دعا کے ساتھ یہ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔ جس کے بعد مہمانوں کو چائے پیش کی گئی۔ نمازِ مغرب و عشاء اور رات کے کھانے کے بعد افرادِ جماعت اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ تیسرا روز 15نومبر بروز اتوار جلسہ کے تیسرے اور آخری روز کاآغازبھی مسجد دارالسلام روزہل میں باجماعت نماز ِتہجداو ر نمازِفجر سے ہوا جو مکرم مولانا صدیق منور صاحب نے پڑھائی اور درس دیا جس کے بعدتمام حاضرین نے اجتماعی ناشتہ میں شرکت کی۔ پانچواں اور اختتامی اجلاس 10 بجے صبح پانچویں اور اختتامی اجلاس کی کارروائی کا آغازحضور انور ایدہ اللہ کی منظوری سے مکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ کی صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد وقفِ نو بچوں نے قصیدہ یَا رَبِّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ دَائِماً ترنم سے پڑھا۔اس اجلاس کی پہلی تقریر خاکسار بشارت نوید مبلغ انچارج ماریشس نے ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے عنوان سے کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے آقاومطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال عشق وہ ہے جس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے بھی دی۔فرشتوں نے بھی دی۔آپؐ کے اہل خانہ نے بھی دی۔آپؐ کے صحابہ نے بھی دی۔غیر وں اور آپؐ کے مخالفوں نے بھی دی۔ خاکسار نے وقت کی مناسبت سے اس کی چند مثالیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پیش کیں۔ دوسری تقریر جماعت احمدیہ ماریشس کی سو سالہ تاریخ اور احباب جماعت کی خدمات کے عنوان سے امیر جماعت ماریشس مکرم ومحترم موسیٰ تیجو صاحب نے کی۔آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ سوسال میں حضرت مسیح موعودؑ سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا اور آج تک ہم اس کے نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔اللہ تعالیٰ نے خود اس کا انتظام کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں یہ پیغام اس چھوٹے سے جزیرہ میں پہنچا جس کے نام سے آج بھی ایک بڑی دُنیا بے خبر ہے۔اب اس سے سو سال پہلے کا تصور کریں کیسے اللہ تعالیٰ نے یہاں پیغام پہنچایا اور پھر چار احمدی فوجیوں کو برٹش فوج کے ذریعہ یہاں لایا جنہوں نے یہاں مقامی احمدیوں سے مل کر تبلیغ کی اور پھر مبلغ سلسلہ کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓ کی خدمت میں درخواست کی۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓ نے انتھک کوششوں سے جماعت کا مرکز قائم کیا۔ اوراللہ کے فضل سے آج آپ کو جماعت احمدیہ کے ا فراد ہر میدان میں اس ملک اور ملک سے باہر خدمت کرتے نظر آئیں گے۔ مکرم امیر صاحب کی تقریرکے بعد مکرم مولانا صدیق منور صاحب نے فرنچ گیانا کی طرف سے مبارکباد کا پیغام پڑھا۔اس کے بعد تعلیمی میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء میں ایوارڈ اور اسناد پیش کی گئیں۔ اختتامی خطاب مکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل ِ اعلیٰ تحریک جدید ربوہ نے فرماتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم ماریشس میں جماعت احمدیہ کو دوسری صدی میں داخل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ میں اس مبارک موقعہ پر آپ سب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ جماعت ماریشس کو اپنی دوسری صدی میں مکمل غلبہ عطا فرمائے اور اس جزیرہ میں ہر طرف احمدی ہی احمدی ہوں۔ مکرم چوہدری صاحب نے ’’اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غلبہ کے وعدے اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غلبہ کے بہت سے وعدے ہیں۔ یہ وعدے اور جماعت احمدیہ کا نظام لازم وملزوم ہے۔ نظام جماعت کے تحت کی جانے والی مساعی الٰہی پیشگوئیوں کے پورا کرنے کی ظاہری طور پر ایک حقیر کوشش ہے۔اور یہ ساری کوششیں نظام جماعت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیر ہدایت ادا کرتی ہے۔پہلا وعدہ ہے کہ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا ‘‘ ماریشس اُن ابتدائی ملکوں میں سے ہے جن میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام ریویو آف ریلجنز کے ذریعہ 1907ء میں ماریشس پہنچا۔ 1912ء میں پہلی بیعت ہوئی اور 1915ء میں پہلے مبلغ یہاں پہنچے اور باقاعدہ مشن کا آغاز ہوا۔اس کے بعد دوسری پیشگوئی روس سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں۔ پھر فرماتے ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ زارِ روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر بندوق کی نالی بھی ہے۔ اس سے دونوں کام نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغین رشیا کے مختلف علاقوں میں کام کررہے ہیں۔ دعاکریں اللہ تعالیٰ جماعت کو وہاں بھی غلبہ عطا فرمائے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عرب ممالک سے متعلق پیشگوئیاں بھی بیان کیں اور بتایا کہ اللہ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعت دُنیا کے ہر کونے میں پھیل رہی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا: اِنِّیْ مَلَکْتُ الشَّرْقَ وَالْغَرْبَ یعنی مشرق و مغرب خدا نے میرے ماتحت کر دیئے۔پھر انگریزی زبان میں الہام ہوا : I Love You. I shell give you a large party of Islam. اسی طرح غلبہ سے متعلق اور متعدد پیشگوئیاں بیان کرنے کے بعد احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ اگر ہم کوشش نہیں کریں گے تو یہ پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوں گی۔ ہمیں بھرپور انفرادی اور اجتماعی کوشش کرنی ہوگی۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ہمیں پمفلٹ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی اشاعت اور مطالعہ کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔آج اگر اسلام زندہ ہوگا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ذریعہ ہی ہوگا۔مکرم چوہدری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف کا ذکر کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اوائل ایام جوانی میں ایک رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک عالیشان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے۔میں نے لوگوں سے دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں۔ اُنہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیاچنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر چلا گیا اور جب مَیں حضور کی خدمت میں پہنچاتو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن وجمال اور ملاحت اور آپ کی پُرشفقت و پُرمحبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا۔ اور آپ کے حسین وجمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے ؟جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور میری اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوتی ہے۔میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ میری ایک تصنیف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کتا ب کا کیا نام ہے تب میں نے حیران ہو کر کتا ب کو دوبارہ دیکھا تو اُسے اُس کتا ب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نا م قطبی ہے۔ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب مجھے دکھا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے لیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا جو دیکھنے والوں کے لئے پسندیدہ تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے چیرا جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اُس سے بہتے پانی کی طرح مصفٰی شہد نکلااور میں نے شہد کی تراوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے ہاتھ پر اُنگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھااور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گویا اس لئے مجھے وہ دکھا رہے ہیں تامجھے تعجب میں ڈالیں۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مُردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدّر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اورپیچھے کھڑا ہوگیا۔ مگر اُس میں کچھ کمزوری تھی گویا وہ بھوکا تھا۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اُن میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیئے۔ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔اور فرمایا: اے احمد اس مردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اُسے کھا کر قوت پائے۔ میں نے دیا تو اُس نے حریصوں کی طرح اُسی جگہ ہی اُسے کھانا شروع کردیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی اُونچی ہوگئی ہے حتٰی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اُس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا گویا اُس پر سورج اور چاند کی شعائیں پڑرہی ہیں۔ میں آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی وجہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا۔اُس وقت بھی مَیں کا فی رو رہا تھا تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اُس کے منتظر رہو۔اور اس رؤیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے باغ قدس کے پھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی‘‘۔ اس رؤیا کی روشنی میں مکرم چوہدری صاحب نے بتایا کہ اب اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دُنیا میں شان وشوکت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ہی ہونی ہے جس کے لئے ہم سب کو بھر پور کوشش کرنی ہوگی اور یہ تعلیم دُنیا میں پھیلانی ہوگی۔ جلسہ کی اختتامی دعا سے قبل مکرم جنرل سیکرٹری صاحب نے گزشتہ سال وفات پانے والے 19 افراد کے نام بغرض ِ دعا پڑھ کر سنائے۔ آخر پر مکرم چوہدری صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح کے لئے خاص دعائوں کی تحریک اور خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ تمام دُنیا میں امن کے قیام اور مختلف مقدمات میں پھنسے ہوئے اور مشکلات سے دوچار احمدیوں اسی طرح خدمت پر مامور مبلغین اور واقفین جنہوں نے خدمت کی ہے یا کر رہے ہیں سب کے لئے دعا کی تحریک کی اورآخر پر اختتامی دعا کروائی۔ اس جلسہ سالانہ میں ماریشس میں خدمت کرنے والے سابق مبلغین کے بچوں نے بھی شرکت کی جس میں حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کے بیٹے اور بیٹیاں۔ مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب کے تین بیٹے اور مکرم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب کے بیٹے۔اس کے علاوہ ناروے سے مکرم کمال یوسف صاحب اورجرمنی سے مکرم الیاس منیر صاحب نے شرکت کی۔ اسی طرح ماریشس کے احمدیوں کی ایک بڑی تعدا د نے جو مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں شرکت کی جن میں خاص طور جماعت کی خدمت پر مامور مکرم ڈاکٹر نظام بدھن صاحب آئیوری کوسٹ سے، مکرم عطاء القیوم جمن صاحب نے لندن سے۔ جامعہ احمدیہ گھانا میں ماریشس کے زیرِ تعلیم طلبا مکرم شمیم جمال احمد اور نور تراب علی نے شرکت فرمائی۔ اس جلسہ کے روحانی ماحول کوالفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں جس میں ماریشس کے مقامی احمدی اور دُنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں نے یہ دن گزارے۔اس جلاس کی حاضری خواتین 1380اور مرد 1050۔ اس طرح کل حاضری 2430 رہی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس جلسہ کی برکت سے ماریشس میں جماعت احمدیہ کو عظیم الشان ترقیات سے نوازتا چلاجائے۔ آمین