آ ج کی دنیا کی بلند ترین عمارت خلیجی ریاست دبئی میں واقع ہے جوابو ظہبی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے صدر خلیفہؔ بن زائد النہیان کے نام کی مناسبت سے برج خلیفہؔ کہلاتی ہے۔ 2,722فٹ بلند 163 منزلہ یہ عمارت جو جدید تعمیراتی فن کا شہکار ہے، سال 2009 ء میں 1.5 بلین (billion) امریکی ڈالر کی لاگت سے پانچ سال کے عرصہ میں تعمیر ہوئی۔اس کی تعمیرکے دوران انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے یہ احتجاج کیاکہ اس نادرِ رُوزگارعجوبہ کی تعمیر کے لئے غریب ملکوں سے تعلق رکھنے والے کاریگروں اور مزدوروں سے انتہائی کم اجرت پر کام کروایاگیا اور طویل شفٹ ورک کے علاوہ انہیں زبردستی اوور ٹائم پر مجبور کر کے ایک لحاظ سے بیگار کا کام بھی لیا گیا۔یہی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر مزدوروں کو جو رہائشی ماحول فراہم کیا گیا وہ مبینہ طور پر انسانوں کی رہائش کے ناقابل ہے۔ اس پر مستزاد ان مزدوروں کے سفری کاغذات اور دستاویزات بھی ٹھیکیداروں کے قبضہ میں ہوتی ہیں جن کے پاس ان محنت کشوں کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بھی گروی پڑا ہوتا ہے۔جدید دور کی اس غلامی سے تنگ آکر ایک مرحلہ پرمزدوروں نے اجتماعی طور پر کام کا بائیکاٹ کیااوراحتجاجی جلوس نکالے مگر ان کے حالات جوں کے توں رہے۔ان حقائق کی تفصیل Human Rights Watch کی اس رپورٹ میں پڑھی جاسکتی ہے جو نومبر 2006ء میں "Workers Building Towers, Cheating" کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مزدور،آجر اور اجیرکے معاملات کے بارہ میں اسلامی تعلیم تو نہایت اعلیٰ اور واضح ہے مگر مبینہ رپورٹوں کے مطابق برج خلیفہ کی تعمیر میں حصہ لینے والے مزدوروں اور کاریگروں کو محنت کشوں کے عالمی منشور یا قوانین (International Labour Laws)کاتحفظ بھی حاصل نہ تھا۔بہرحال آج کی دنیا انہی مزدوروں اور محنت کشوں کی بدولت ایک ایسی عمارت سے مزین ہوپائی ہے جس نے دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا ہی ریکارڈ قائم نہیں کیابلکہ جدید ٹیکنالوجی کے متعدد شعبوں میں بھی کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ ایک ’’کثیرالمقاصد‘‘ عمارت ہونے کی وجہ سے اس سے وابستہ کئی تقریبات بھی عالمی ریکارڈقائم کر چکی ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2015 کے استقبال کے موقعہ پر برج خلیفہ پر ہونے والی آتش بازی (Fireworks)پرایک اندازہ کے مطابق 6 ملین امریکی ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر کے تاریخ کی سب سے بڑی آتش بازی کا ریکارڈ قائم کیا گیاتھا۔یہ آتش بازی دنیا کی تیز ترین آتش بازی بھی تھی جس کے شروع کے حصہ میں تقریباًایک ملین ڈالر فی منٹ خرچ آیا۔ چند منٹوں میں چھ ملین ڈالر کا زرکثیرپٹاخوں اور آتشبازی میں پھونک کر ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کا’’ اعزاز‘‘ پاکرپوری دنیا میں نہایت فخر سے اس کی تشہیر کی گئی تھی۔ برج خلیفہ ؔ پر سالِ نو کے استقبال کی یہ تقریبات ہر سال کم و بیش اسی پیمانہ اور اسی انداز پر منعقد کی جاتی ہیں۔ سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری2016 ء میں اس حوالے سے فرمایا: ’’ مغرب میں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں نئے سال کی رات، ساری رات ہاہُو، شراب نوشی ہلّڑبازی اور پٹاخے اور پھلجڑیاں جسے فائر ورکس(Fireworks) کہتے ہیں، سے نئے سال کا آغازکیا جاتا ہے بلکہ اب مسلمان ممالک میں بھی نئے سال کا اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کل دبئی میں بھی اسی طرح کے فائرورکس کی خبریں آ رہی تھیں۔ جہاں یہ سب تماشے دکھا رہے تھے، وہیں اس کے ساتھ ہی ایک 63منزلہ عمارت کو لگی ہوئی آگ کے نظارے بھی دکھائے جا رہے تھے جو راکھ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔ لیکن ٹی وی پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس عمارت میں یہ آگ لگی ہے تو لگی رہے۔ تباہی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ ہم تو اس جگہ کے سامنے اس کے قریب ہی اپنے پروگرام کے مطابق پھلجڑیاں چھوڑیں گے اور تماشے کریں گے۔ ویسے تو اِس وقت اکثر مسلمان ملکوں کی حالت بری ہے لیکن بہرحال یہ ایک اظہار ہے۔ ان ملکوں سے دنیاداری کے اظہار ہو رہے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے۔ اگر آگ وہاں نہ بھی لگی ہوتی تو اس حالت کا یہ تقاضا تھا کہ مسلمان امیر ملک یہ اعلان کرتے کہ ہم ان فضول چیزوں میں پیسہ برباد کرنے کی بجائے جو بہت سارے مسلمان متاثرین ہیں ان کی مدد کریں گے لیکن یہاں تو اپنی تعلیم بھول کر ان کا یہ حال ہے کہ کچھ دن پہلے دبئی سے ہی یہ بھی خبر آ رہی تھی کہ ان کا جو سب سے بڑا ہوٹل ہے اس میں دنیا کا مہنگا ترین کرسمس ٹری(Christmas Tree) لگایا گیا ہے جس کی مالیت گیارہ ملین ڈالر کی تھی۔ تو یہ تو اب امیر مسلمان ملکوں کی ترجیحات ہو چکی ہیں۔ ‘‘۔ (الفضل انٹرنیشنل۔22جنوری 2016ء تا28جنوری 2016ء) بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب’ ’الہدیٰ‘‘ میں زیر عنوان ’’فی حالات ملوک الاسلام فی ھٰذہ الایام‘‘ اس زمانہ کے مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کے بارہ میں فرمایا تھا: ’’اکثر بادشاہ اس زمانہ کے اور امراء اس زمانہ کے جو بزرگان دین اور حامیان شرع متین سمجھے جاتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ساری ہمت کے ساتھ زینت ِدنیا کی طرف جھک گئے ہیں اور شراب اور باجے اور نفسانی خواہشوں کے سوا اُنہیں اور کوئی کام ہی نہیں۔ وہ فانی لذتوں کے حاصل کرنے کے لئے خزانے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ …اور کوئی خبر نہیں کہ رعیّت اور ملّت پر کیا بلائیں ٹوٹ رہی ہیں۔ … انہوں نے نفس کی خواہشوں کو خدا پرمقدم کر لیا اور ناچیز دنیا کی مصلحتوں کو اللہ پر اختیار کر لیا اور دنیاکی فانی لہو و لعب اور لذتوں میں سخت حریص ہو گئے اور ساتھ اس کے خود بینی اور گھمنڈ اور خود نمائی کے ناپاک عیب میں اسیر ہیں۔ دین میں سُست اور ہار کھائے ہوئے اور گندی خواہشوں میں چُست چالاک ہیں۔ ‘‘ (الھدیٰ۔ روحانی خزائن نمبر 1 جلد 18مطبوعہ1984صفحہ 281-283)۔ آپؑ نے مزید فرمایا کہ: ’’ ان کا وجود اسلام کے حق میں بہت بڑی مصیبت ہے اور دین کے لئے ا ن کے دن سخت ہی منحوس دن ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں اور خرابیوں کی طرف نہیں دیکھتے اور نہ کڑھتے ہیں، اور دھیان نہیں کرتے کہ ملّت کی ہوا ٹھہر گئی ہے اور اس کے چراغ بجھ گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اور اس کے صحیح کو غلط کہا جا رہا ہے۔بلکہ ان میں سے بہتیرے خدا کی منع کی ہوئی چیزوں پر اَڑے بیٹھے ہوئے ہیں اور سخت دلیری سے خواہشوں کو مُحرّمات کے بازاروں میں لے جاتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً صفحہ285) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کے حکمرانوں کو امام وقت کی شناخت اور اطاعت کی سعادت عطا فرمائے اور انہیں اپنی ترجیحات اوررجحانات کودینِ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق ڈھالنے کی توفیق بخشے۔آمین۔ ٭…٭…٭