(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) (گزشتہ شمارہ میں غلطی سے قسط کا نمبر 393 لکھا گیا تھا جبکہ وہ قسط نمبر 394 تھی۔ قارئین تصحیح فرمالیں )۔ مکرم بن اسماعیلی کمال صاحب(1) مکرم بن اسماعیلی کمال الدین صاحب کا تعلق الجزائر سے ہے جہاں ان کی پیدائش جنوری 1993میں ہوئی اور پھر اتفاقًا احمدیت سے تعارف ہونے کے بعد جون 2012ء میں انہیں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : سابقہ دینی حالت میری پیدائش دینی ودنیاوی ہر دو لحاظ سے ایک معمولی سے خاندان میں ہوئی۔ میری والدہ صاحبہ نمازوں وغیرہ کاکچھ خیال رکھتی تھیں جبکہ والد صاحب صرف نام کے مسلمان تھے۔ مَیں نے بھی سکول میں وضو او رنماز وغیرہ کا طریقہ سیکھااورکچھ عرصہ تک نماز بھی پڑھی تھی لیکن پھر چھوڑ دی۔ مَیں اکثر اپنے والد صاحب سے نماز نہ پڑھنے کا سبب پوچھتا، اسی طرح دینی امور کے بارہ میں میرے اکثر سوال ان کے لئے پریشان کُن ثابت ہوتے تھے۔ ہمارے گھر میں قرآن کریم کا کوئی نسخہ نہ تھا، نہ ہی کوئی دینی کتاب پائی جاتی تھی اس لئے دینی معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ ٹی وی ہی تھا۔ انتہاپسندی کی فیکٹری کا ایندھن گو 2003ء کے اواخر میں میری عمر محض گیارہ بارہ سال ہی تھی لیکن اس سال ستمبر میں امریکا میں ہونے والے دہشتگردی کے بہت بڑے واقعہ کے بعد عراق پر امریکی حملہ کے ایام میں اردگرد کے ماحول سے میرے کانوں میں بعض ایسے الفاظ کی بازگشت گونجنے لگی جواس سے پہلے میں نے کبھی نہ سنے تھے۔ مثلاً: جہاد، غاصبانہ قبضہ،شہادت، قربانی، انتقام، خودکش حملہ۔ یہ الفاظ ایسے جملوں میں استعمال ہوتے تھے جن میں ایک خاص جوش اورخون گرما دینے والا عنصر شامل تھا۔ مجھے اس جنگ کے ماحول میں اہل سنّت وشیعہ علماء اورسیاسی راہنماؤں کے ولولہ انگیز خطابات کو سن کر بہت مزہ آتا تھاکیونکہ ان سب نے اسے کفر واسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا ہوا تھا۔ مجھے بھی اس کم عمری میں اپنے بے شمار ہم وطنوں کی طرح اس جنگ میں اسلام کی فتح کی تمنا تھی لیکن ایک بات کی سمجھ نہ آتی تھی کہ جب یہ کفر واسلام کی جنگ ہے او رجب یہ لیڈر حضرات اسلام کی جیت کے لئے ہی کو شاں ہیں تو تمام مسلمان ان کی مدد کیوں نہیں کررہے ؟ اوردیگر اسلامی ممالک ان کی تائید میں کیوں نہیں کھڑے ہو جاتے؟ آج جب ان تقاریر کے پُرجوش جملوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات کو یاد کرتا ہوں توصاف سمجھ آتا ہے کہ یہ خطابات شدت پسندی کی فیکٹری کا ایندھن تھے، اور نہ جانے کتنے ہی نوجوانوں کے دماغ خراب کرنے کا باعث ٹھہرے۔آج اسلامی ممالک میں پھیلی ہوئی منظم دہشتگردی کی بنیادمیں شاید انہی دنوں میں ایسے علماء او ران کے ایسے خطابات نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ قصص قرآن اور نزول مسیحؑ ان ایام کی اس مذہبی رَو میں بہتے ہوئے 2005ء میں مجھے مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل کروادیا گیاجس میں مولوی صاحب تحفیظِ قرآن کے علاوہ روزانہ ہمیں قرآنی قصص میں سے کوئی قصہ سناتے۔ یہ قصص بہت دلچسپ ہوتے تھے لیکن ان کے بعض حصے عقلی لحاظ سے نا قابل قبول دکھائی دیتے تھے۔اسی طرح ان قصص کے اندرونی واقعات کا باہمی ربط بھی اکثر مفقود ہوتا تھا۔ ایسے امور میرے ذہن میں عجیب عجیب سوالات پید کرتے تو میں یہ سوالات مولوی صاحب کے سامنے رکھتا لیکن ان کی توجیہات میرے لئے اطمینان بخش ثابت نہ ہوتیں۔ مجھے مولوی صاحب کے جواب سن کر یہی محسوس ہوتا کہ شاید یہ مولوی صاحب کی ذاتی علمی کمزوری ہے جو وہ میرے سوالوں کا اطمینان بخش جواب نہیں دے پارہے ورنہ اسلامی تعلیمات اور دینی کتب میں میرے سوالوں کا جواب موجود ہے۔لیکن دیگر قصص کے برعکس جب مولوی صاحب مسیح کا قصہ سناتے ہوئے کہتے کہ ان کے نزول کے بعد ہی مسلمانوں کی حالت درست ہوگی اور القدس کو آزاد کروایا جائے گا تو مجھے یہ قصہ ہر لحاظ سے مکمل نظر آتااورمیں ان کے الفاظ کی تصدیق کرتا اورمیرے دل میں اس دن کو دیکھنے کی خواہش جوش مارنے لگتی، لیکن یہ بات غمگین کرجاتی تھی کہ شاید میری زندگی میں یہ واقعہ رونما نہ ہو۔تاہم یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ اس کے زیراثر کبھی خوابوں میں اور کبھی خیالوں میں مَیں خود کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر دشمنوں سے برسرپیکار دیکھنے لگا۔ جنّ وسحر اسی طرح جنّ وسحر کے بارہ میں بھی میرے ذہن میں بہت سے سوال تھے لیکن مدرسہ تعلیم القرآن کے مولوی صاحب ان کے جوابات دینے کی بجائے ایسے لوگوں کے واقعات سنادیتے جنہیں مولوی صاحب نے بزعم ِخود جنّوں کے چنگل سے چھڑایا اورسحر سے آزاد کروایاتھا۔اسی طرح وہ بعض ایسے بزرگان کے قصے بھی بیان کرتے جنہوں نے جنّوں کو اپنے قبضہ میں کرلیا تھا اورانہیں خارق عادت روحانی قُویٰ عطا ہوئے تھے۔اسی طرح مولوی صاحب اپنے تجربات کے ذریعہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ انہیں بھی ایسے ہی روحانی قویٰ عطا ہوئے ہیں اور وہ جسے چاہیں اپنے تعویذات کے ذریعہ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ سن کر مَیں بھی اکثرمولوی صاحب سے یہ علم سکھانے کی درخواست کرتا۔ وہ مجھے کہتے کہ پہلے تم قرآن حفظ کرلو پھر میں تمہیں یہ علوم سکھاؤں گا،لیکن ہر باریہ بھی کہہ دیتے کہ یہ بہت مشکل عمل ہے۔ شیطان ویاجوج وماجوج علاوہ ازیں شیطان کے بارہ میں مروّجہ خیالات اور مولویوں کی زبانی بیان ہونے والے مزعومہ حقائق بھی میرے لئے حیرت کا باعث تھے۔ مَیں قدیم تفاسیر کے حوالے سے یہ جان کرحیران ہوتاتھا کہ شیطان کیونکر جنت میں داخل ہوگیا اور پھر وہاں پر آدم علیہ السلام کو دھوکہ دینے میں کیسے کامیاب ہو گیا؟نیزجب شیطان انسان کے لئے اس قدر خطرناک اور نقصان دِہ تھا تو جنت سے نکالتے ہوئے اسے جان سے ہی کیوں نہ مار دیا گیا۔ مَیں یاجوج وماجوج کے بارہ میں بھی سنتا تو دل سے یہی صدانکلتی کہ اگر مروّجہ خیالات کے مطابق یہ مخلوق زمین کے کسی اندرونی علاقے میں آباد ہے تو کاش کوئی شخص اس کے محل وقوع کا نقشہ بنادے تا ہمیں یاجوج وماجوج اور ان کے سامنے بنائی جانے والی اس روک کے مقام کا علم ہوسکے جسے ذوالقرنین نے بنایاتھا۔اور انتظار کرنے والے وہیں سے ان کے خروج کے منتظر رہیں۔ معجزات ونشانات کا خاتمہ؟! مَیں یہ بھی سوچتاتھا کہ آج کا انسان شاید بہت ہی بدقسمت ہے۔کیونکہ آج کے دَور میں نہ کوئی آسمانی نشانات ظاہر ہو رہے ہیں نہ معجزات۔ نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور زمانۂ نبوت سے دوری کی وجہ سے حددرجہ گمراہی پھیل رہی ہے۔ اگر میں ماضی میں حضرت موسی یا عیسیٰ علیہما السلام کے زمانے میں ہوتا تو ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے ان پر ایمان لانے والوں میں شامل ہوجاتا۔ اسی طر ح اگر میں اس زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کو نازل ہوتا دیکھوں تو فورًا ایمان لے آؤں گا اور دجال کو دیکھوں تو فورًا پہچان جاؤں گااور اس کی غیر معمولی طاقتیں دیکھنے کے باوجود اس کے خدائی کے دعوے کی ہرگز تصدیق نہ کروں گا۔ لیکن افسوس کہ موجودہ زمانہ ان تمام امور سے خالی ہے۔ اور اس زمانے میں کسی بھی روحانی اعزاز اور انعام پانے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔بلکہ اس کے برعکس آج کل اس نماز سے بھی غافل کرنے کے ہزار محرکات وعوامل موجود ہیں جس کے التزام کے لئے مَیں نے انتہائی کوشش کی ہے۔ عیسائیت کا حملہ اور مایوسی 2011ء کی بات ہے کہ ایک روز اتفاقًا مجھے ایک ایسا عیسائی چینل مل گیا جس پر اسلامی تعلیمات اور عقائد کو زیربحث لایا جارہا تھااور مختلف پرانی تفاسیر و اسلامی کتب کے حوالے سے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گندے اعتراضات کئے جارہے تھے۔یہ بات میرے لئے انتہائی تکلیف دِہ تھی لیکن اس سے زیادہ تکلیف دِہ امر یہ تھا کہ جو مسلمان فون کر کے اس چینل کے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب دیتے تھے وہ نہایت کمزور اور بے دلیل بات کررہے تھے اورایسے جوابات سے عیسائیوں کے مزاعم کی مزید تائید ہوتی جارہی تھی۔ میں نے کہا کہ کہاں ہیں ہمارے علمائے افاضل، تا وہ ان عیسائیوں کے اعتراضات کا کافی وشافی جواب دے کر ان کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کردیں۔ لیکن کئی دن تک دیکھنے کے باوجود مجھے اس چینل کے بظاہر معقول اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کوئی عالم نظر نہ آیا۔میں اپنی دینی غیرت کی بناء پر اسلام اور نبیٔ اسلام کی اس قدر توہین برداشت نہ کرسکا اورغصہ میں آکر یہ چینل ہی حذف کردیا۔لیکن اگلے روزیہ دیکھنے کے لئے کہ شاید آج کسی مسلمان عالم نے منہ توڑ جواب دیا ہو گا میں نے دوبارہ عیسائی چینل لگالیا۔ پھرمایوس ہو کر غصہ سے سیخ پا ہو گیا اور دوبارہ یہ چینل حذف کردیا۔ یوں ہرروزاس امید پر دوبارہ یہ چینل دیکھتا کہ شایدآج ہی کوئی ان عیسائی حملہ آوروں کو جواب دینے کے لئے آجائے لیکن ہرروزہی مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ زندگی کا خوش ترین دن بالآخر مایوس ہو کر میں نے دیگر چینلز کا رخ کیا۔ ابھی چند چینلز ہی بدلے تھے کہ ایک اسلامی چینل پر عیسائیوں کے عقائدکے متعلق بات سنی، رک کر سننے پر معلوم ہوا کہ یہ پروگرام عیسائی عقائد کے ردّ کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں پور ی آزادی کے ساتھ عیسائیوں کو بھی شامل ہو کر دفاع کرنے کا موقع دیا جارہا تھا۔الحوار المباشر نامی اس پروگرام کا جو حصہ میں نے دیکھاوہ حد درجہ اعلیٰ تھا۔ اس چینل پر قوی دلائل سے مسلح چارعلماء ایسے مسکت دلائل پیش کررہے تھے جومسلمانوں کے دلوں پر تو برد وسلام بن کر نازل ہورہے تھے جبکہ عیسائی ان کے سامنے بے بس نظر آتے تھے،بلکہ یوں کہنا بہترہوگا کہ انہیں راہِ فرار نہیں مل رہا تھا۔میرے لئے یہ دن شاید زندگی کا خوش ترین دن تھا۔ سبحان اللہ! میں اس دن سے اس چینل کا گرویدہ ہو گیا۔ قبل ازیں میں فٹ بال کا دیوانہ تھا۔ کبھی شاذ کے طور پر ہی کوئی میچ چھوٹتا تھا۔ لیکن ایم ٹی اے ملنے کے بعد اب صورتحال بالکل بدل گئی۔ اب جب بھی وقت ملتا میں ایم ٹی اے لگا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا۔ عیسائیت کے ردّ میں پیش کئے جانے والے پروگراموں کے علاوہ یہ جاننے کی خواہش بھی بہت منطقی تھی کہ ایسے پروگرامز کرنے والے یہ لوگ کون ہیں ؟ چنانچہ ایم ٹی اے کے بعض پروگرامز دیکھنے کے بعد مجھے ان لوگوں کے بعض عقائد کے بارہ میں علم ہوا۔ بعض اوقات تو یوں ہوتا کہ میں کسی معروف عقیدہ کے بارہ میں ان کی رائے اور موقف سنتا تو بے اختیار کہہ اٹھتا کہ ا ن کا موقف زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے اور ان کی دلیل زیادہ مضبوط ہے۔یہ عجیب بات تھی کہ میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات مجھے ان پروگراموں میں خودبخود ہی ملتے جاتے تھے، بلکہ بعض اوقات یہ لوگ خود ہی کوئی سوال اٹھا کر اس کا جواب دے دیتے جنہیں سن کر میری زبان سے بے اختیار’’ سبحان اللہ‘‘ ادا ہونے لگتا۔ ابھی تک بہت معمولی معلومات ہی جمع ہوئی تھیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ یہ چینل تو ایسا چشمہ ہے جس سے ہر پیاسے کو سیراب ہونا چاہئے، یہ ایسا فانوس ہے جس کی شعاعِ نور سے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو روشنی لینے کی ضرورت ہے۔لہذا میں ان معلومات کو لے کر فورًا اپنے بعض دوستوں کے پاس جا پہنچا۔ لیکن اُن کی طرف سے ان عقائد اور خیالات کی شدید مخالفت کو دیکھ کردنگ رہ گیا۔ انہوں نے مجھ پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی اورمیں کم علمی کی وجہ سے بالآخرشکست خوردہ سا ہو کر واپسی پر مجبور ہوگیا۔ واپس آکر جب میں نے ٹی وی آن کیا تو ایم ٹی اے پر میرے دوستوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مفصل جوابات سننے کو مل گئے۔چنانچہ میں نے انہیں اچھی طرح اَزبر کر لیا اور تمسخر کرنے والے دوستوں کے پاس جاپہنچا۔پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ میں ہر روز دوستوں کی جانب سے بے شمار سوال لے کر واپس لوٹتا اور ایم ٹی اے پراس روز انہی سوالات کے شافی جوابات مجھے مل جاتے چنانچہ اگلے روز میں بڑی قوت کے ساتھ اپنے دوستوں کے اعتراضات کے جواب دیتا۔ مجھے ان مضبوط دلائل کی بناء پر بڑے بڑے عالم فاضل اور پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بحث کرنا بھی آسان دکھائی دیتا تھا۔اور چونکہ مجھے دینی بحث ومباحثہ کا شوق بھی تھا اس لئے ابتدائی طور پر میں بہت خوش تھا اور ان مضبوط دلائل اورمنطقی تشریحات کو پیش کر کے خوب محظوظ ہوتا تھا۔ (باقی آئندہ)