جب وہ کسی بدکردار شخص کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ استغفار کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور تقویٰ کے باعث ان کی آنکھیں کسی کو قابلِ حقارت نہیں دیکھتیں اور نہ وہ تکبر کرتے ہیں۔ ان کے قلوب ایسی زمین ہیں جس پر بارانِ رحمت خوب برسا اور انہیں ایسی فراست حاصل ہے جو فزوں سے فزوں تر ہے۔ ’’ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ خود کمائے ہوئے مال اور موروثی مال اور پسروپدر پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اپنے ربّ اللہ پر تکیہ کرتے ہیں اور جو معارف انہیں ودیعت کئے گئے ہیں ان کے علاوہ انہیں کوئی اور چیز مسرت نہیں بخشتی اور یہ ان کو ہر آن عطا کئے جاتے ہیں۔ وہ اللہ کی راہوں میں تکلیف بخوشی برداشت کرتے ہیں اور اس میں وہ کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے اور اگر ان کو کچھ بھی نہ دیا جائے تو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی محبت میں خوشی پاتے ہیں اور یہ اس لئے کہ انہیں ایسے معارف عطا کئے جاتے ہیں جیسے کہ وہ تہ بہ تہ سفید بدلیاں ہوں اور انہیں معارف کے خزانے دئیے جاتے ہیں پس وہ (معارف کے ) ہر دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ اللہ انہیں بہتے دریائوں جیسے دل عطا فرماتا ہے نہ اس تھوڑے سے پانی کی طرح جو کنوئیں میں ٹھہرا رہتا ہے اور گدلا ہو جاتا ہے۔ (اللہ کی) مدد ان (مقربین الٰہی) سے منقطع نہیں ہوتی اور وہ ہر وقت مدد دئیے جاتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ ہے کہ انہیں ان کے ربّ کی طرف سے رعب عطا کیا جاتا ہے پس دشمن ان کا مقابلہ کرنے سے بھاگتے ہیں اور چھپتے پھرتے ہیں اور ان کی ملاقات کے وقت اپنے آپ کو اجنبی بنا لیتے ہیں اور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح چھپتے ہیں جس طرح وہ شخص چھپتا ہے جس کی ناک کسی جرم کی وجہ سے کاٹ دی گئی ہو اور وہ شرمندگی چھپانے کے لئے لوگوں سے ملنے سے گریز کرے۔ یہ وہ رعب ہے جو اللہ کی طرف سے ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسی کے ہو جاتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اس طرح کوشش کرتے ہیں جیسے ایک اٹھتی جوانی والا گٹھیلے بدن کا نوجوان کوشش کرتا ہے۔ اور جب وہ احکام الٰہی کی بجا آوری کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو چستی اور بشاشت سے کرتے ہیں اور تُو ان میں کسی قسم کی سستی اور کمزوری نہ پائے گا اور نہ ہی وہ تردّد میں پڑتے ہیں۔ زمین ان کے نور سے منور ہو جاتی ہے اور ان کے مقام سے سوائے ایسے لوگوں کے جو جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں کوئی ناآشنانہیں ہوتا اور ان کے دشمن انہیں پہچانتے ہیں مگر جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے قریب اللہ کے فیوض کا دریا ہوتا ہے اور وہ اس سے ہرآن چُلّو بھر بھر کے پیتے ہیں اور وہ قوی الجثہ انسانوں کی طرح اُس کی جانب تیز تیز قدموں سے دوڑتے ہیں اور انہیں کوئی تھکان نہیں ہوتی اور نہ وہ کمزور ہوتے ہیں۔ اور جب اُن پر حالتِ قبض وارد ہوتی ہے تو مضبوط اونٹنی کے دردِزہ کی طرح نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کروہ سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ تُو ان کے دلوں کوبرف پوش زمین کی طرح دیکھتاہے جو علوم سے بہہ پڑتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب وہ کسی بدکردار شخص کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ استغفار کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور تقویٰ کے باعث ان کی آنکھیں کسی کو قابلِ حقارت نہیں دیکھتیں اور نہ وہ تکبر کرتے ہیں۔ وہ ایک غریب الوطن کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور تھوڑے پر راضی ہو جاتے ہیں اور مشقت و شدائد پر قانع رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کو مقدم رکھا ہے۔ اور ایسے مرد جو میانہ رَو ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی پُر مشقت نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں تنگی ء روزگار کے عذاب میں ڈالا جاتا ہے اور انہیں وہاں سے دیا جاتا ہے جہاں سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اللہ انہیں معارف عطا فرماتا ہے جن سے وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ تھوڑی پونجی (معارف) اور تھوڑے عمل پر راضی نہیں ہوتے۔ جب وہ سواری کریں تو عمدہ سواری کرتے ہیں اور جب کام کریں تو مکمل طور پر کرتے ہیں۔ وہ پُرعفونت اور ناقص عمل سے بچتے ہیں۔ وہ پردے ہٹانے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ کسی سے عداوت کریں یا محبت تو پوری سنجیدگی سے کرتے ہیں اور منافقت نہیں کرتے۔ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کے قلوب ایسی زمین ہیں جس پر بارانِ رحمت خوب برسا اور انہیں ایسی فراست حاصل ہے جو فزوں سے فزوں تر ہے۔ وہ ہر قسم کی بے راہ روی اور فساد سے بچائے جاتے ہیں۔ وہ باطل میں نہیں پڑتے۔ وہ تاریکی سے دور رکھے جاتے ہیں اور (نور الٰہی سے) منور کئے جاتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کی گردنیں ہر بار امانت اٹھانے والے شخص سے زیادہ اللہ کی امانتوں کا بارِگراں اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کی گردنیں اس بوجھ سے خم نہیں کھاتیں بلکہ وہ (بارِ امانت) انہیں ایک خوبصورت لمبی گردن والی عورت کی طرح حسین کر دیتا ہے اور اس سے حسن استقامت جھلکتا ہے جو ایک کرامت ہی دکھائی دیتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اور لوگوں میں بھی عزت دئیے جاتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ بوجہ ہر ممنوعہ امر سے مجتنب رہنے کے انہیں (نیکی کی) توفیق دی جاتی ہے اور انہیں وساوس کے دور کرنے کے لئے بند مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کے لئے پے در پے مدد آتی ہے اس لئے کہ وہ بالکل منفرد لوگ ہوتے ہیں اور وہ انقطاع الی اللہ اختیار کرتے اور اپنے آپ کو (دنیا سے) الگ تھلگ کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اکیلے اکیلے دوڑ پڑتے ہیں۔ تُو ان جیسا کوئی گوشہ نشین نہیں پائے گا۔ ان کے (نفوس کے) اعلیٰ نسل کے اونٹ اپنے محبوب کی طرف کشاں کشاں دوڑے جاتے ہیں۔ اور وہ لقاء (الٰہی) کو ہر چیز پر مقدم کئے ہوئے ہیں۔ وہ اندیشہ فراق سے پگھل رہے ہیں۔ حکمت ان کی زبان کی جڑ سے پھوٹتی اور فراست ان کی پیشانی پر چمکتی ہے اور وہ زیادہ پانی والے کنوئیں کے طرح فیض پہنچاتے ہیں۔ ‘‘ (تذکرۃ الشہادتین مع علامات المقرّبین۔(مع اردو ترجمہ) صفحہ 63تا 67)