میرے والدِ محترم چودہری فضل کریم بھُٹّہ، ضلع لدھیانہ کے گائوں ’’رام گڑھ سرداراں ‘‘ کے رہنے والے تھے۔ اس گائوں کی آبادی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، زیادہ تر ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ گائوں میں سکھوں کا قلعہ بھی تھا جس کی دیوار ہمارے گھر کے سامنے تھی۔ ایک دو منزلہ مکان والد مرحوم نے وہاں بنوایا تھا جس کے چوبارے اور آنگن میں کھیلنا مجھے یاد ہے۔ اور یہ بھی یاد ہے کہ ہم ’’کُپ‘‘ سٹیشن پر اتر کر یکّہ میں بیٹھ کر گائوں جایا کرتے تھے۔ اسی گائوں میں والد صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر انہوں نے لدھیانہ کے ایک عیسائی سکول میں داخلہ لے لیا۔ اس سکول سے میٹرک پاس کرکے انہوں نے وہیں ملازمت اختیار کر لی۔ قبولِ احمدیت والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ اُس سکول کے عیسائی ماحول میں اسلام کے خلاف بہت سے اعتراضات اُن کو سننے کو ملتے تھے۔ ان اعتراضات کے جواب کے لئے والد صاحب کئی مولویوں سے رابطہ کرتے لیکن کہیں سے اُن کو تسلی بخش جواب نہ ملتا تھا۔ یہ صورتحال ان کے لئے بہت پریشان کُن تھی۔ اُن کی احمدیت کی طرف رہنمائی کرنے والا ایک ہندو پنڈت لالہ کشن پرشاد تھا۔ وہ چُھٹّی پر گائوں گئے تو پنڈت نے پوچھا ’’کیا بات ہے فضل کریم! کچھ پریشان دکھائی دیتے ہو۔‘‘ والد صاحب نے اپنی پریشانی بیان کردی۔ پنڈت نے سن کر کہا کہ ان مولویوں سے تمہیں کچھ نہیں ملنے کا۔ اگر عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب چاہتے ہو تو میں تمہیں پتہ بتاتا ہوں۔ ایک نواحی بستی ’’ملود‘‘ تھی جس میں دو تین احمدی گھرانے تھے۔ پنڈت نے ان میں سے ایک کا پتہ بتا دیا۔ والد محترم وہاں پہنچے اور وہاں سے اُن کو دو کتابیں ’’چشمۂ مسیحی‘‘ اور ’’سراج دین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ مل گئیں۔ جماعت کے متعلق کچھ اور معلومات بھی ملیں۔ واپس آ کر انہوں نے رات کو وہ کتابیں پڑھیں۔ اُن کُتب سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ صبح اُٹھ کر انہوں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ سب اعتراضات کے نہایت تسلی بخش جوابات ان کو مل گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بھی عیاں ہوگئی۔یہ 1917ء کی بات ہے۔ بعد میں قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی دستی بیعت بھی کی۔ ملود میں جمعہ ہوتا تھا۔ وہاں جا کر جمعہ پڑھنا شروع کر دیا۔ وہاں سے مزید لٹریچر بھی پڑھنے کو ملتا رہا۔ بعد میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کا دیگر لٹریچر بھی خرید لیا تھا اور اچھا مطالعہ کیا۔ اس علمی خزانہ سے ہم بھی فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ بچپن میں ان کے ساتھ جلسہ پر قادیان جانا مجھے یاد ہے۔ ہم مکرم مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی کوٹھی میں ٹھہرا کرتے تھے۔ والد مرحوم کی انگلی پکڑ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ملاقات کو جانا بھی یاد ہے۔ سوشل بائیکاٹ۔ تعلیمی ترقی والد صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔بہن بھائی تو پہلے ہی نہ تھے۔ اب بیعت کے بعد دوسرے رشتہ داروں نے بھی چھوڑ دیا۔ سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس طرح وہ بالکل تنہا رہ گئے۔ کسی تقریب میں اُن کو بلایا نہ جاتا تھا۔ اور اگر وہ شامل ہوتے تو دوسرے مہمان شامل ہونے سے انکار کر دیتے۔ اس طرح میزبان کو ان سے معذرت کرنی پڑتی۔ اس تنہائی کو والد مرحوم نے اپنے حق میں یوں استعمال کیا کہ اپنی تعلیمی ترقی کی طرف توجّہ دینا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ انہوں نے بی اے اور بی ٹی کی ڈگریاں حاصل کر لیں۔ اور پھر ادیب فاضل اور منشی فاضل بھی پاس کر لیے اوراس طرح اُن کو بی۔او۔ایل کی اعزازی ڈگری بھی مل گئی اور جلد ہی ہائی سکول کے ہیڈماسٹر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔ بارہ سال تک وہ عارف والا ضلع پاکپتن میں بطور ہیڈماسٹر کام کرتے رہے۔ 1941ء میں اُن کا تبادلہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ہائی سکول میں ہو گیا۔ وہاں سے اپریل 1947ء میں بورے والا ضلع وہاڑی کے ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ پھر یہاں سے ہی وہ 1952ء میں ریٹائر ہوئے اور یہیں رہائش اختیار کرلی۔ ہم بھائیوں نے جب ہوش سنبھالا تو والد صاحب کو بطور ہیڈماسٹر اور صدر جماعت ہی دیکھا۔ عادات و خصائل والد محترم کا طرزِ زندگی بہت سادہ لیکن پُروقار تھا۔ لباس عام طور پر شلوار قمیض کے ساتھ کوٹ یا اچکن اور پگڑی تھا۔ موقع محل کے لحاظ سے سوٹ اور ٹائی بھی پہنتے تھے۔ خوراک بالکل سادہ تھی۔ جو پکتا خوشی سے کھا لیتے تھے۔ ہم نے کبھی ان کو کھانے میں نقص نکالتے نہیں دیکھا۔ نہ ہی کبھی کسی خاص خوراک کے بارے میں کوئی فرمائش کرتے دیکھا۔ کسی چیز کی عادت نہ تھی۔ یہ کہتے تھے کہ انسان کو استعمال تو ہر چیزکر لینی چاہئے لیکن عادت کسی چیز کی نہیں ڈالنی چاہئے۔ مَیں کالج سے چھٹیوں میں گھر آتا تو رات کھانے کے بعد اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹہلنے نکل جاتا۔ ہم راستے میں پان خرید لیتے۔ دو چار دن کے بعد ایک روز والد صاحب نے مجھے کہا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ تم پان کھاتے ہو۔ یہ عادت اچھی نہیں۔ اس کے بعد میں نے پان کھانا چھوڑ دیا۔ وہ اپنی صحت کا خیال رکھتے تھے۔ روزانہ سیر کرتے تھے اور ہم بچوں کو بھی صبح جلد جگا کر نماز کے بعد سیر پر ساتھ لے کر جاتے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے سیر سے واپس آ جانا چاہئے۔ بہت تیز چلتے تھے۔ اس طرح ہمیں بھی تیز چلنے کی عادت ہو گئی۔ جوانی میں ٹینس اور شکار بھی کھیلتے رہے تھے۔ بچپن میں مجھے ان کے ساتھ ٹینس کلب جانا یاد ہے۔ اور شکار تو ہم سب بھائیوں نے اُن کے ساتھ خوب کھیلا ہے۔ بھینسیں پالنے کا والد صاحب کو بڑا شوق تھا۔ گھر میں دودھ، دہی، مکھن اور گھی کی ہمیشہ فراوانی رہی۔ ان کی صفائی اور صحت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ بھینس کا کالا رنگ چمکنا چاہئے۔ اپنی ہیڈ ماسٹری کی تقریباً 25سالہ سروس میں اگرچہ بھینسوں کو سنبھالنا، چارہ ڈالنا ملازم کے ہی ذمہ تھا۔ مگر تمام امور کی مکمل نگرانی رکھتے۔ 1952ء میں ریٹائر ہونے کے بعد ایک ہی بھینس رہ گئی تھی جس کے تمام امور خوراک کی تیاری، نہلانا، موسم کے لحاظ سے اس کے آرام کا خیال رکھنا، اندر باہر، دھوپ چھائوں، گرمی سردی کے لحاظ سے نہ صرف ہم بھائیوں کو ہدایات دیتے بلکہ خود بھی ہاتھ بٹاتے۔ صبح سیر پر جاتے تو ہم بعض اوقات بھینس کو بھی ساتھ لے جاتے اور نہر میں اسے نہلاتے۔ والدہ صاحبہ بھی بھینسوں کی خدمت حسبِ توفیق خود بڑی خوش دلی اور محبت سے کرتی تھیں۔ کہتی تھیں یہ بے زبان جانور ہے اس کی خدمت سے خدا خوش ہوتا ہے۔ جانور سے اُن کے لگائو کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ ہمارے پاس تین بھینسیں ہو گئی تھیں۔ والد صاحب نے بڑی بھینس کو فروخت کر دیا۔ جب والد صاحب باہر گلی میں سودا کر رہے تھے تو والدہ اندر کھڑی کھڑکی کی جالی سے دیکھ رہی تھیں۔ میں والدہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جب نیا مالک بھینس کو لے جانے لگا تو بھینس چند قدم چلی اور پھر رک گئی۔ پھر اس نے مڑ کر کمرہ کی طرف دیکھا۔ والدہ صاحبہ بے ساختہ رونے لگیں۔ نیا مالک زور لگاتا رہا لیکن بھینس اُسی طرح مڑ کر دیکھتی رہی۔ پھر والد صاحب نے آگے بڑھ کر اس کو ہانکا تب وہ چلی۔ والدہ نے بھینس کو ایسے رخصت کیا جیسے بہن، بیٹی کو رخصت کر رہی ہوں۔ ہاں کیوں نہ دکھی ہوتیں۔ بھینس نے بھی تو ان کے بچوں کو برسوں دودھ پلایا تھا۔ رضاعت کا رشتہ تو تھا ناں۔ بھینس کا مڑ کر الوداعی نگاہیں ڈالنا میرے لئے بہت حیران کن تھا۔ دل میرا بھی بھر آیا تھا۔ تربیت و تبلیغ والد صاحب عالم باعمل تھے۔ جوانی سے ہی پابند صوم و صلوٰۃ، تہجد گزار اور صاحب رؤیا بزرگ تھے۔ گھر میں بچوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کا درس دیتے جس میں پوری فیملی شامل ہوتی۔ کھیل کود سے منع نہیں کرتے تھے لیکن نماز اور پڑھائی کی طرف بھی توجہ دلاتے رہتے اور اگر اس بارہ میں کوتاہی دیکھتے تو باز پرس بھی ہوتی اور ڈانٹ ڈپٹ بھی۔ عصر اور مغرب کی نماز اکثر ہمارے کھیل کے درمیان آتی۔ ہم نیکر پہن کر کھیلتے تھے۔ ایک دھوتی گھر میں رکھی ہوتی تھی۔ ہم کھیل چھوڑ کر آتے، وضو کرتے اور نیکر کے اوپر دھوتی لپیٹ کر نماز ادا کرتے اور پھر بھاگ جاتے۔ آپ نے قرآن کریم، حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ بورے والہ میں روزانہ شام کو بیٹھک کے باہر کھلی فضا میں کرسیاں بچھ جاتیں اورہم بھائی اُن سے کوئی نہ کوئی سوال کرکے گفتگو کا آغاز کردیتے۔ ہمارے پڑوس میں دو تین غیراحمدی استاد رہتے تھے۔ وہ بھی اکثرآ شامل ہوتے اور اچھی خاصی تبلیغی نشست ہو جاتی۔ ہر طرح کے سوالات اور اعتراضات زیر بحث آتے تھے۔ اگر حوالوں کی ضرورت محسوس ہوتی تو میں بھاگ کر جاتا اور کتاب لا کر حوالے نکالتا۔ وہ استاد بعض اوقات کہتے ’’دیکھو اس لڑکے کو، باپ سے بھی تیز ہے۔‘‘ موقع محل کے مطابق جواب ایسا برجستہ دیتے کہ مخالف لاجواب ہوجاتا۔ اندازِ گفتگو مدّلل اور مہذب ہوتا تھا۔ اعتراض خواہ کیسا ہی تلخ ہوتا کبھی جوش یا غصہ میں نہیں آتے تھے۔ بلکہ اصل جواب دینے سے پہلے ہلکے پھلکے انداز سے کوئی بات کرکے فضا کی تلخی کو پہلے دور کرتے پھر اصل مسئلہ کی وضاحت کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ گفتگو صبر و تحمل سے کرنی چاہئے۔ جوش اور غصہ سے دلیل کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ بحث کرنے والا مدّمقابل اکثر آپ کے جواب کی معقولیت کو محسوس کرنے کے باوجود تسلیم کرنے سے گریز کرتا ہے۔ لہٰذا حاضرین کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ وہ اثرلیتے ہیں۔ شہر میں احراریوں کا جلسہ تقریباً ہر سال ہی ہوتا تھا۔ جماعت کے خلاف بہت تقریریں ہوتی تھیں۔ ہم دُور بیٹھ کر اعتراضات نوٹ کرتے اور پھر گھر آ کر والد صاحب مرحوم کو بتاتے اور وہ ہمیں ان کے جواب بڑی تسلی او ر سیاق و سباق کے ساتھ سمجھاتے تھے۔ اگر اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر کے حوالے سے ہوتا تو کہتے جائو جا کر الماری سے متعلقہ کتاب لے کر خود اصل عبارت پڑھو۔ اس طرح ہمیں جواب بھی مل جاتا اور یہ بھی علم ہو جاتا کہ یہ مولوی کس طرح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے پڑوسی غیر احمدی استادوں نے کہا کہ ہمارے جلسہ پر مولوی محمد علی جالندھری آئے ہوئے ہیں۔ ان سے ہم آپ کی ملاقات کرانا چاہتے ہیں۔ والد صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ لے آئیں ان کو۔ چنانچہ مولوی صاحب ایک استاد کے ساتھ رات کے اندھیرے میں کچھ گھونگھٹ سا نکال کرآئے۔ ختم نبوت پر بات ہوئی۔ والد صاحب نے کہا کہ جب حضرت مسیحؑ آئیں گے تو ختم نبوت کہاں جائے گی؟ مولوی صاحب نے کہا وہ پرانے نبی ہیں ان کے آنے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ صرف نئے نبی کے آنے سے ٹوٹتی ہے۔ والد محترم نے کہا کہ کیا آپ یہ بات لکھ کر دے سکتے ہیں ۔ میں نے مولوی صاحب کے سامنے کاغذ رکھا۔ انہوں نے تحریر لکھی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ بس چند منٹ ہی ملاقات رہی تھی۔ صداقت مسیح موعود علیہ السلام کی دلیل ابّاجی کبھی ہم سے بھی سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔ ایک روز مجھ سے پوچھا اگر صداقت مسیح موعودؑ پر تم سے صرف ایک دلیل مانگی جائے تو کیا دو گے۔ میں نے قدرے سوچ کر جواب دیا ’’شدّت مخالفت‘‘ جیسی شدید مخالفت حضور علیہ السلام کی ہوئی ہے کبھی کسی جھوٹے نبی کی نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی کوئی سچا نبی ایسی شدید مخالفت سے بچا ہے۔ یہ ایک طرّۂ امتیاز ہے سچے اور جھوٹے نبی میں۔ میرے جواب کو انہوں نے سراہا تھا۔ ایسے ہی سوال و جواب سے ہمارے علم و ایمان میں پختگی پیدا کرتے رہتے تھے۔ طالب علمی کے زمانہ میں ہی ہم بھائیوں کو اختلافی مسائل از قسم وفات مسیح، ختم نبوت اور صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام پر عبور حاصل ہو گیا تھا اور ہم کھل کر بات کر سکتے تھے۔ ہمارا ایمان احمدیت پر خد اکے فضل سے علیٰ وجہ البصیرت قائم ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ میڈیکل کالج کے زمانہ میں ایک غیر احمدی بزرگ نے بڑے ناصحانہ انداز میں مجھ سے کہا ’’دیکھو بیٹا یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان بے سوچے سمجھے باپ کے پیچھے چلتا چلا جائے۔ تم پڑھ لکھ گئے ہو۔ اپنی عقل سے بھی فیصلہ کر سکتے ہو۔‘‘ میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’’آپ کی بات بالکل درست ہے۔‘‘ اس پر انہوں نے کہا ’’پھر تم چھوڑ دو اس کو جس کو تمہارے باپ نے مانا ہے اور مسلمان ہو جائو۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا کہ میں صرف اس لئے احمدی نہیں ہوں کہ میرا باپ احمدی ہے۔ اب میں اچھی طرح سوچ سمجھ کر احمدی ہوں اور جس کو چھوڑنے کا آپ مشورہ دے رہے ہیں اس پر میں ہزار بار اپنے ماں باپ قربان کرسکتا ہوں۔ ‘‘ وہ بزرگ خاموش ہو گئے۔ احمدیہ بلڈنگس میںمولوی محمد علی صاحب سے ملاقات (لاہور میں پیغامیوں کا مرکز) ایک دفعہ ابّا جی لاہور گئے تو احمدیہ بلڈنگس کے قریب سے گزرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب کے پاس چلے گئے اور ان سے کہا ’’مولوی صاحب! آپ کی تقریریں سن کر تو ہم لوگ احمدی ہوئے۔ اور اب آپ قادیان چھوڑ کر یہاں آ بیٹھے ہیں۔ ‘‘ مولوی صاحب نے وضاحت کی کہ ہم تقریریں تو مسیح موعود کی صداقت پر کرتے رہے۔ خلافت سے ہمیں اختلاف ہے۔اس کی ضرورت نہیں۔ اباجی نے کہا ’’تو پھر پہلی خلافت کو کیوں چھ سال تک مانتے رہے۔‘‘ مولوی صاحب کچھ سوچ کر بولے ’’وہ ہماری غلطی تھی۔ وہ چھ سال کا عمل ہمیں قربان کرنا پڑے گا۔‘‘ اباجی یہ کہہ کر واپس آ گئے۔ ’’پھر تو آپ کا کوئی اعتبار نہ رہا۔ اگر آپ پہلے غلطی پر تھے تو اب بھی غلطی پر ہی ہیں۔ ‘‘ ظفرعلی خان ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک لفظ پر اعتراض کیا تھا جو شعر میں استعارۃً استعمال ہوا تھا۔ ان ہی دنوں مولانا ظفر علی خان کی ایک نظم اخبار میں چھپی جس میں ایک لفظ استعارۃً استعمال کیا گیا تھا۔ اباجی لاہور گئے تو مولانا ظفر علی سے جا ملے اور ان کی نظم کے اس شعر کو پیش کرکے نہایت سادگی سے پوچھا ’’اس کا کیا مطلب ہے کچھ سمجھ نہیں آئی؟‘‘ مولانا نے کہا ’’یہاں یہ لفظ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں، استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ والد صاحب نے فوراً گرفت کی اور کہا ’’یہ استعارے صرف آپ کے لئے رہ گئے ہیں۔ کیا کوئی دوسرا ان کو استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ پھر ان کے اعتراض کی نشاندہی کرکے کہا کہ اُس شعر میں بھی وہ لفظ استعارۃً ہی استعمال ہوا تھا۔ مولانا نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اخبار کا تازہ پرچہ والد صاحب کو پیش کیا اور کہا ’’مرزا محمود سے میرا سلام کہنا۔‘‘ دعا اور خلافت سے وابستگی دعائوں کو ابّاجی کی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس سلسلہ میں اکثر اپنے تجربات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ جس امر کے لئے دعا کی توفیق نہ ملے یا توجہ میسر نہ آئے تو محسوس ہو جاتا ہے کہ وہ امر مشیّتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ دعا کے بارے میں تاکید کرتے رہتے اور اس کی افادیت اور اہمیت ذہن نشین کرواتے رہتے تھے۔ چُھٹّی گزار کر جب میں لاہور واپس جانے لگتا تو مجھے بَس پر سوار کرانے ساتھ جاتے۔ ایک دفعہ بسوں کے اڈّے پر مَیں نے ذکر کیا کہ آج کل بسوں کے حادثات بہت ہو رہے ہیں۔ سن کر فرمایا ’’دعا کرکے سوار ہوا کرو اور راستہ میں بھی دعا کرتے رہا کرو۔ اﷲ تعالیٰ ایک مومن کی خاطر دوسروں کو بھی بچا لیتا ہے۔ ‘‘ خلافت سے آپ کی گہری وابستگی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔ کوئی مسئلہ یا پریشانی ہوتی تو ان کا پہلا کام حضورؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست ہوتا تھا۔ بعض اوقات میں نے دیکھا کہ باہر سے آئے ہیں اور ابھی پگڑی بھی نہیں اتاری، کھڑے کھڑے ہی خط لکھا اور مجھے پوسٹ کرنے کے لئے دے دیا۔ اُن دنوں خط لکھنے کے لئے عام طور پر پوسٹ کارڈ استعمال ہوتے تھے۔ خط لکھ کر اکثر مجھے ہی پوسٹ کرنے کے لئے دیتے تھے۔ اور راستہ میں وہ دعا کا خط میں پڑھ لیتا تھا۔ اس سے مجھے بھی دعا کے لئے حضورؓ کی خدمت میں خط لکھنے کی ترغیب ہوتی اور لکھنے کا سلیقہ بھی آ گیا۔ ایک دفعہ میں خط پوسٹ کرکے واپس آیا تو میں نے پوچھا کہ جس امر کے لئے آپ نے دعا کا خط لکھا ہے اس کا تو کل فیصلہ ہو جائے گا جبکہ یہ خط حضور کی خدمت میں دو روز بعد پہنچے گا۔ آ پ نے فرمایا ’’خدا کو تو علم ہو جاتا ہے کہ میں نے اس کے خلیفہ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی ہے۔ آگے خدا اور اس کے خلیفہ کا باہمی معاملہ ہے۔ خدا تعالیٰ بعض اوقات اپنے خلیفہ کی دعا اس کے دعا کرنے سے بھی پہلے قبول کرلیتا ہے۔ لہٰذا خط لکھنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے۔ ضروری یہ ہے کہ پورے خلوص اور یقین سے لکھا جائے۔‘‘ والد صاحب بطور ہیڈماسٹر بطور ہیڈ ماسٹر والد صاحب کا سلوک اساتذہ اور مددگار عملہ کے ساتھ نہایت مشفقانہ اور ہمدردانہ رہا۔وہ اُن کے سرکاری مسائل اور گھریلو پریشانیوں کو خود دلچسپی لے کر دُور کروانے کی کوشش کرتے۔ اس لئے اساتذہ بھی اپنے فرائض احسن طریق سے ادا کرتے اور سکول کے رزلٹ ہمیشہ بہت اچھے رہتے۔ شہر کے سرکاری محکموں کے سربراہان سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے جو بہت عزت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ اس کے علاوہ اردگرد کے زمینداروں اور بااثر شخصیات کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ آپ کی کارکردگی اور اخلاق کی وجہ سے آپ کے محکمہ کے افسران بالا آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ سکول کے سالانہ معائنہ کے بعد انسپکٹر صاحبان اساتذہ کے متعلق ریمارکس آپ کے مشورہ سے ہی دیتے تھے۔ سکول کے طلباء سے بھی سلوک مشفقانہ اور ہمدردانہ ہوتا تھا۔ آپ کے دور میں سپورٹس اور گیمز کی خوب حوصلہ افزائی رہی۔ بایں ہمہ بعض عناصر ان کے خلاف الزام تراشی کرتے رہتے۔ بعض اوقات احراری مولوی صاحبان انسپکٹر صاحب کے پاس شکایت لے کر جاتے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ انسپکٹر صاحب ان سے پوچھتے کہ سکول کے رزلٹ کیسے ہیں۔ مولوی صاحبان کو کہنا پڑتا کہ وہ تو بہت اچھے ہیں۔ اس پر انسپکٹر صاحب فرماتے کہ آپ کو اور کیا چاہئے۔ مولوی صاحبان کو شرمندہ ہو کر آنا پڑتا۔ والدمحترم اور مخالفین ہمارا گھرانا شہر میں جماعت کا مرکز تھا۔ جمعہ ہمارے ہاں ہوتا تھا۔ والد صاحب عمر بھر صدر جماعت رہے۔ تبلیغی نشستیں، بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوتا رہتا تھا۔ ہم بھائی بھی اپنے اپنے دائرہ میں گفتگو کرتے رہتے تھے۔ لہٰذا جب بھی شہر میں مخالفت کی رَو چلتی تو ہمارا گھرانا ہی زیادہ تر نشانہ بنتا تھا۔ بایں ہمہ والد صاحب کو شہر میں ایک عزت و وقار کا مقام حاصل تھا۔ مخالف بھی اکثر احترام سے پیش آتے تھے۔ 1953ء میں لاہور میں فسادات ہوئے تو دوسرے شہروں میں بھی جلوس نکلے تھے۔ بورے والا میں بھی آگ بھڑکائی گئی تھی اور ڈنڈے اور پتھرلے کر ہجوم نے ہمارے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا۔ کھڑکی سے ابّاجی صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔ جب ہجوم منتشر نہ ہوا تو وہ دروازہ کھول کر سامنے آ گئے۔ ہجوم ذرا ہٹ کر خاموش کھڑا ہو گیا۔ اباجی نے پوچھا ’’آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ مطالبہ ہوا ’’بس ایک بار آپ اُن کی نبوت کا انکار کر دیں۔ ‘‘ اباجی نے بڑے وثوق سے جواب دیا ’’نہیں ۔ یہ خواہش تمہاری کبھی پوری نہ ہوگی۔ وہ نبی تھے اور ضرور تھے۔‘‘ انہوں نے دروازہ بند کرلیا اور ہجوم بکھرنے لگا۔ 23 ستمبر 1963ء کو اچانک آپ کی وفات ہوئی۔ احمدی احبا ب کے علاوہ بیسیوں غیر از جماعت احباب جنازہ میں شمولیت کے لئے آئے اور چہرہ بھی دیکھا۔ کئی روز تک لوگ تعزیت کے لئے آتے رہے۔ ان میں معززین شہر بھی تھے اور مخالفین جماعت بھی۔ مرحوم کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر ہوتا۔ کئی غیر احمدی معزز شہریوں نے کہا ’’سچی بات تو یہ ہے کہ شہر میں اگر کوئی مسلمان تھا تو یہ شخص تھا۔‘‘ کئی ایک نے تو مرحوم کے لئے ’ولی‘ کا لفظ بھی استعمال کیا۔ مرحوم بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا رہے۔آمین