(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکرم عطیہ حفظی ہمام صاحب(1) مکرم عطیہ حفظی ہمام صاحب کا تعلق مصر سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1979ء میں ہوئی اور انہیں اوائل 2014 ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ان کی بیعت کا بڑا سبب ایک احمدی مکرم عبدہ بکر صاحب کی تبلیغ اورایک مناظرہ میں ان کا موقف تھا۔مکرم عبدہ بکر صاحب کے جماعت کی طرف سفر کا احوال ہم گزشتہ سال نذر قارئین کرچکے ہیں۔ ذیل میں ہم مکرم عطیہ حفظی صاحب کے ایمانی سفرکا احوال بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : قابل فکر دینی وسماجی حالت مَیں بالائی مصر کی ایک بستی میں پلا بڑھا جہاں کے رہائشی نہ صرف تنگ نظر بلکہ جاہلیت کے زمانے کے معاشرے کی تصویر پیش کرتے تھے۔ان میں راسخ ہونے والی تعصب اورانتقام کی عادات کے شاخسانے آئے دن بستی کی گلیوں اور گھروں میں بکھرے نظر آتے تھے۔ مَیں وہی عقائد لے کر پروان چڑھا جو معروف کتب تفسیر میں موجود ہیں اور جن کا تذکرہ آئے دن خطیب حضرات مسجد ومنبر سے کرتے رہتے ہیں۔ مَیں صرف نماز جمعہ پابندی سے ادا کرتا تھا جبکہ دیگر نمازوں میں واضح سستی ہوجاتی تھی۔ ہماری بستی کے خطیب حضرات کو شاید لوگوں کوخوفزدہ رکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ آئے دن وہ دجال، یاجوج وماجوج اور قرب قیامت کی نشانیوں کا ذکر چھیڑ لیتے تھے اور پھر اس کی تفاصیل میں نہایت عجیب وغریب ہولناک امور بیان کرتے۔ عبدہ بکر اوران کے بارہ میں افواہیں عبدہ بکر نامی ایک شخص میرے ایک ازہری بھائی کا دوست تھا۔ ایک روز میں نے ان دونوں کودجال اور نزول مسیح کے بارہ میں بحث کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی باتیں سننے کے لئے بیٹھ گیا۔ باوجود اس کے کہ عبدہ بکر صاحب ایک نئی بات اور منفرد استدلال پیش کررہے تھے پھر بھی ان کی بات دل کو لگتی تھی۔ اس کے بالمقابل میرا ازہری بھائی دلیل سے تو کوئی مضبوط بات نہ کرپایا تاہم غصے میں آگیا اور باوجود گہری دوستی کے لال پیلا ہوگیا اور فورًا بحث بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عبدہ بکر صاحب سے کہنے لگا کہ تمہیں عقل کے ناخن لیتے ہوئے اپنے عقائد سے توبہ کرکے اللہ کے پاس مسلمان ہونے کی حالت میں ہی جانا چاہئے۔ چندروز کے بعدعبدہ بکر صاحب واپس قاہرہ چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد پوری بستی میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ عبدہ بکر اسلام کو چھوڑ کر کسی نئے دین میں داخل ہوگئے ہیں۔ بعض مولویوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ عیسائی ہو گیا ہے اور بعض نے کہا کہ وہ قادیانیت نامی نئے دین میں داخل ہو گیا ہے۔ میں عبدہ بکر صاحب کو جانتا تھا کہ وہ اچھا انسان ہے۔ اگرچہ اس کے بعض خیالات میرے موروثی عقائد سے ٹکرانے کی وجہ سے مجھے کچھ عجیب سے لگتے تھے لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں ایسا خوبصورت کلام بولتا کہ اسے سننے کو دل چاہتا تھا۔ اسی طرح اسلام کے ساتھ اس کی وابستگی اور محبت بھی غیر معمولی تھی پھر وہ اسلام کو کیونکر چھوڑ سکتا ہے؟ جماعت اور ایم ٹی اے سے تعارف کچھ عرصہ کے بعد اخوان المسلمین کے بعض لوگ عبدہ بکر صاحب کے بارہ میں یہ کہنے لگے کہ یہ فریب خوردہ ہے اور اس نے بھاری مال لے کر اسلام ترک کردیاہے۔ میں نے یہ سنا تو فون اٹھایا اور عبدہ بکر صاحب کو بتایا کہ ان کے خلاف یہ یہ کہا جارہا ہے۔ انہوں نے بات کی وضاحت کی تو میں نے مزید کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر انہوں نے مجھے جماعت احمدیہ کے چینل کی فریکوئینسی دی جس کے بعد میری زندگی میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ یہ 2012ء کی بات ہے۔ اس وقت میں غیر شادی شدہ تھا۔ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر جماعت احمدیہ کا چینل دیکھنے لگا۔جب میں نے اس پرمکرم فتحی عبدالسلام صاحب کو دیکھا او رسنا تو بہت خوشی ہوئی کہ کوئی اور مصری بھی اس جماعت میں اور ان پروگرام کرنے والوں میں شامل ہے۔ ان ایام میں سلفیوں کے ساتھ الحوار المباشر کا پروگرام نشر مکرر کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ اسے میرے والد صاحب نے بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھا حالانکہ 2011 ء میں مصر میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے دینی جماعتوں کی ساکھ کافی حد تک خراب ہو گئی تھی اوروالد صاحب اس بناء پر دینی جماعتوں میں کوئی دلچسپی نہ لیتے تھے۔ لیکن اس پروگرام کو دیکھنے کے دوران میں نے بار ہا والد صاحب کے چہرے پرجماعت کے دلائل اور موقف کے بارہ میں پسندیدگی کے آثار دیکھے۔ جماعت کی صداقت کا اعتراف بہر حال میں اس چینل کے پروگرام دیکھتا رہا اور اس دوران اگر میرے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا تو میں عبدہ بکر صاحب کو فون کر کے پوچھ لیتا اور وہ مجھے تفصیل سے بات سمجھا دیتے۔ رفتہ رفتہ بات میری سمجھ میں آنے لگی اور حق میرے دل میں راسخ ہونا شروع ہو گیا۔ عبدہ بکر صاحب نے مجھے کہاکہ بہتر ہے کہ تم مجھے سوال بتا دیا کرو اور میں اس کا جواب اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے تمہیں ارسال کردیا کروں گا۔ چنانچہ اس طرح ان کے ریکارڈ کئے ہوئے جوابات کو بار بار سننے کی وجہ سے میرے لئے بات کا سمجھنا آسان ہوجاتا۔ پھر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب سے بعض اقتباسات ریکارڈ کر کے مجھے ارسال کرنے شروع کئے جن سے میں نے بہت فائدہ اٹھایااور دل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کی صداقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسی عرصہ میں میری بستی کی ہی ایک لڑکی کے ساتھ میری شادی کی بات چلی تو میں نے مکرم عبدہ بکر صاحب کو اس سے آگاہ کر کے مشورہ مانگا۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ اگر تم جماعت کی صداقت کے قائل ہو اور جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہوتو اپنی ہونے والی بیوی کو پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں بتادو۔نیز انہوں نے بتایا کہ وہ رمضان کا مہینہ بستی میں ہی آکر گزاریں گے اور پھر مل بیٹھنے اور مختلف امور کے بارہ میں تفصیلی بات کرنے کا موقع ملے گا۔ مولویوں کے ساتھ مباحثہ یہ رمضان 2012ء کی بات ہے جب عبدہ بکر صاحب حسبِ وعدہ بستی میں آئے۔ میں نے ان سے بعض امور کے بارہ میں تبادلۂ خیال کیا نیزانہیں بستی کے بعض علماء اور ان کے بعض شاگرد وں کی مناظرہ کرنے کی خواہش بھی پہنچائی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ رمضان کی چھٹیاں اپنے والدین کے ساتھ سکون سے گزارنے آئے ہیں اور کسی قسم کی مشکلات اور جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتے۔ لیکن چند دن گزرنے کے بعد ہی بعض نوجوانوں نے عبدہ بکر صاحب کے ساتھ نشست پر اصرار کرنا شروع کردیا۔ میں نے عبدہ بکر صاحب سے بات کی تو انہوں نے بخوشی رضامندی کا اظہار کردیا۔ ملاقات کے لئے وقت اور جگہ کا تعین ہوا لیکن یہ نوجوان وقت مقررہ پر وہاں نہ پہنچے۔تاہم اگلے ہی روز دوبارہ بات کرنے کی رَٹ لگانی شروع کردی اور اپنی طرف سے ہی شرعی علوم کے مدرسہ میں گفتگو کا وقت مقرر کر دیا۔ جب عبدہ بکر صاحب نے وہاں جانے سے عذر کیا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ لگتا ہے کہ عبدہ بکر اپنے نئے عقیدہ سے مطمئن نہیں ہے اور اس کے دفاع سے قاصر ہے۔ یہ بات سنتے ہی میں نے بے اختیارہو کر کہہ دیا کہ نہیں وہ اپنے عقیدہ سے بہت زیادہ مطمئن ہے اور اس کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ا ور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اسے وقت مقررہ پر یہاں لے کر آؤں گا۔ اس لئے آپ اپنی تیاری کریں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہو گئی تھی اوران کے صدر کے حکم سے فوج کے بڑے بڑے عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا تھاجس کے بعد اخوان المسلمین یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ وہ ملک میں جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ بہر حال جب میں نے عبدہ بکر صاحب کو مباحثہ کے بارہ بتایا تو انہوں نے کہاکہ میں ضرور جاؤں گا شاید اللہ تعالیٰ اس میں حق کے طالبوں کے لئے کوئی نشان دکھا دے۔ ہم مقررہ وقت پر شرعی علوم کے مدرسہ میں جاپہنچے۔ وہاں پرتقریباً پچاس اشخاص قالین پر بیٹھے تھے او ر ان کا بڑا مولوی کرسی پر براجمان تھا۔ ہم بھی قالین پر ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب نے لوگوں کو مکرم عبدہ بکر صاحب کا تعارف کروانا شروع کیا اور عبدہ بکر صاحب بھی حیران رہ گئے کہ مولوی صاحب کو ان کے بارہ میں اتنا کچھ علم ہے۔ وفات مسیحؑ۔ اختلافی مسئلہ! اس کے بعد وفات مسیح علیہ السلام کے موضوع پر بات ہوئی۔ مولوی صاحب نے حیات مسیحؑ اور ان کے آسمان کی طرف جسمانی رفع پر زور دیا جبکہ عبدہ بکر صاحب نے قرآن وحدیث سے ان کی وفات کے دلائل پیش کئے۔ بالآخر مولوی صاحب کہنے لگے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں علماء کا اختلاف ہے۔یہ سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کا تو حیات مسیح پر اصرار تھا لیکن اب آپ کہتے ہیں کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ یعنی بعض علماء کہتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی ہے او ربعض کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ تاہم بیک وقت دونوں کی رائے درست نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں بہترین طریق فیصلہ یہی ہے کہ جس رائے کی قرآن اور سنت واضح طور پر تصدیق کرتی ہے اسے رکھ لیا جائے اوردوسری رائے کو چھوڑ دیا جائے۔ موروثی ترکش کا تیر شایدمولوی صاحب کو یہ طریق فیصلہ منظور نہ تھا لہٰذا انہوں نے میری بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے کسی قدر جلدی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر شروع کردیا اور ابتدا ہی اس بات سے کی کہ مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا نبی ہے (نعوذ باللہ)۔ اس کے جواب میں مکرم عبدہ بکر صاحب نے یہی کہا کہ: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔یہ مختصر سا جملہ مولوی صاحب کے لئے بہت تکلیف کا موجب ہواکیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بھی یاد رکھوکہ اگر تم اس بات میں جھوٹے ثابت ہوئے تو یہ لعنت تم پر پڑے گی اور یادرکھو کہ تم اپنے ایسے فتاویٰ میں جھوٹے ہی ہو۔یہ بات سنتے ہی مولوی صاحب تو آپے سے باہر ہوگئے، آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنے موروثی ترکش سے سب سے بڑا اور سب سے تیز تیر نکال کر چلا تے ہوئے منہ پھلا کر کہا: تم کافر ہو۔ اس پر عبدہ بکر صاحب نے نہایت اطمینان سے کہا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔ اس کا بھی یہی مطلب تھاکہ اگر تم ایک کلمہ گو مسلمان کو کافر کہوگے تو حدیث نبوی کے مطابق یہ کفر تمہاری طرف ہی لَوٹ جائے گا۔ اس کے بعد عبدہ بکر صاحب کے لئے وہاں بیٹھنا ممکن نہ رہا تھا لہٰذا وہ اجازت لے کر رخصت ہوئے اور ان کے ساتھ میرے علاوہ کچھ اَور نوجوان بھی اٹھ گئے کیونکہ ہمارا مؤقف یہ تھا کہ مولوی صاحب نے اپنے فتاویٰ ٔ تکفیر کو بے محل استعمال کیا ہے۔ باہر آکر ایک اَور نوجوان نے کہا کہ میں اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ عبدہ بکر صاحب نے جواب دیا کہ شرط صرف یہی ہے کہ کوئی گالی گلوچ اور فضول قسم کے فتاویٰ کا ذکر نہیں ہوگا اورتمام دلائل صرف اورصرف قرآن وصحیحین سے دیئے جائیں گے۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا اور ہم وہاں سے واپس اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ گھربدری کا حکم جیسا کہ یہ ذکر ہوا ہے کہ یہ رمضان کے ایام تھے، صبح سحری کے وقت عبدہ بکر اپنا سامان اٹھائے میرے گھر تشریف لائے۔ میرے استفسار اور حیرانی کے اظہار پر انہوں نے بتایا کہ رات کو مولوی حضرات نے میرے والد صاحب کو فون کر کے کہا کہ تمہار ا بیٹا کافر ہو گیا ہے اب اس کا تمہارے گھر میں رہنا حرام ہے۔ لہٰذا میرے والد صاحب نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور میں ریلوے سٹیشن کی جانب جارہاہوں لیکن آپ سے یہی کہنے کے لئے آیا ہوں کہ اس بھر ی مجلس میں مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کاذب کہاہے اوراسی مجلس میں جھوٹے پر لعنت ڈالی گئی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ان جھوٹے مولویوں پر خدا کی لعنت پڑنے والی ہے۔ اس لئے تم ان کی خبروں سے آگاہ رہنا اور اپنے بارہ میں استخارہ کرتے رہنا۔ (اس کے بعد کے حالات اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ ) …………… (باقی آئندہ)