ذیابیطس دنیا میں سب سے خاموشی سے پھیلنے والے امراض میں سے ایک مرض ہے۔ایک اندازہ کے مطابق دنیا میں 371ملین سے زائد لوگ ذیابیطس کے شکار ہیں اور ان میں سے نصف تعداد اس امر سے بے خبر ہے کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ بعض لوگ بیماری کی تشخیص کے لئے ٹیسٹ کروانے سے گریزاں رہتے ہیں اور اسی طرح اکثر لوگ ذیابیطس کا شکار ہونے کے باوجود اس بیماری کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔اور بیماری کے مضر اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کو ایک خاموش قاتل کہا جاتا ہے اور اس مرض میں مریض کے جسم کا ایک عضو لبلبہ (Pancreas) متاثر ہوتا ہے اورایک ہارمون انسولین (جو کہ خون میں غذائی جزو شوگر کی مقدار کو قابو میں رکھتا ہے) کی پیدائش جسمانی ضرورت سے کم ہوجاتی ہے یااس کی پیداوار بالکل بند ہوجاتی ہے۔ اگر شوگر لیول ایک لمبے عرصہ تک قابو میں نہ رہے تو اس کے نتیجہ میں برین ہمیرج ، دل کے امراض، فالج،بینائی سے محرومی، گردے فیل ہوجانا، پھیپھڑوں میں خرابی جیسے امراض لاحق ہو جاتے ہیں اور انسان ایک اذیت ناک موت کا منتظر رہتاہے۔ اگر خون میں شوگر لیول کو قابو میں رکھا جائے تو انسان دوسرے عام انسانوں کی طرح بغیر کسی پیچدگیوں کے نارمل زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے خون میں شوگر کی مقدار کو قابو کرنے کے لئے جدید میڈیکل سائنس کے مطابق ایک متوازن انداز ِ زندگی اہم کردار ادا کرتا ہے یعنی باقاعدہ میڈیکل چیک اپ اور معالج کی ہدایات کے مطابق دوا کا استعمال،ذہنی دبائو سے گریز، متوازن اور مناسب وقفوں سے خوراک ، وزن کو قابو میں رکھنا اور باقاعدہ ورزش ،۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ روزانہ 30سے 45منٹ ورزش کرنے سے شوگر لیول قابو میں رہنے کے ساتھ ساتھ انسان کا دوا کا انحصار بہت کم رہ جاتا ہے اور ورزش کے بغیر دوا بھی پوری طرح جسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح موعود ؑ بھی ذیابیطس کی بیماری میں مبتلا تھے۔ تمام احمدی احباب کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کا اسو ئہ حسنہ قابل عمل تو ہے ہی لیکن ذیابیطس کے شکار احباب کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کا مطالعہ اس پہلو سے نہایت ضروری ہے کہ آپ کے شب و روزکس طرح گزرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دوچادروں میں مسیح نازل ہوگا وہ دوزرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیرالرؤیا کے رُو سے دوبیماریاں ہیں۔ سو ایک چادر میرے اوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سر درد۔۔۔۔۔اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے‘‘۔ (اربعین نمبر4۔ روحانی خزائن جلد 17، صفحہ470-471) حضور ؑ کے زمانہ میں میڈیکل سائنس ترقی پذیر تھی اور ذیابیطس کے لئے کوئی باقاعدہ دوا ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔اس کے باوجود حضرت مسیح موعود ؑ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً74سال کی لمبی اور فعال عمر پائی۔آپؑ کے قویٰ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عام قویٰ آخر عمر تک بہت اچھی حالت میں رہے اور آپ کے چلنے پھرنے اور کام کاج کی طاقت میں کسی قسم کی انحطاط کی صورت رونما نہیں ہوئی بلکہ میں نے بھائی شیخ عبد الرحیم صاحب سے سُنا ہے کہ گو درمیان میں آپ کا جسم کسی قدر ڈھیلاہو گیا تھا لیکن آخری سالوں میں پھر خوب سخت اور مضبوط معلوم ہوتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی عبد الرحیم صاحب کوجسم کے دبانے کا کافی موقع ملتا تھا‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 294) ورزش ذیابیطس کے مرض میں ورزش شوگر قابو کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بہترین ورزش تیز رفتاری سے چلنا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے معمولات میں صبح کی سیر شامل تھی جو آپ ؑ تیز رفتاری سے کرتے تھے۔ آپ ؑ کی اس عادت کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ’سیرت المہدی‘ میں بیان فرماتے ہیں۔ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اور خدّام آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے۔ اور آپ کی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتا رمیں پورا پورا وقار ہوتا تھا ‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 52) اسی طرح ڈاکٹرز کے مطابق ذیابیطس کے مریض کو اپنے روز مرہ کاموں کے دوران کچھ وقت نکال کر ہلکی چہل قدمی کرنی چاہئے۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑکا نمونہ اس معاملہ میں ایک نیا رنگ ظاہر کرتا ہے۔ آپ ؑ کام کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا خیال بھی رکھتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اس بار ہ میں ’سیرت المہدی‘ میں بیان فرماتے ہیں۔ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے۔آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لے کر اس کی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو، بلیک سے بھی اور مٹی کا اُپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے۔ آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اس کے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے۔ اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے۔ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ18) کھانے کی عادتیں ذیابیطس کے مرض میں خوراک کی مقدار، وقت اور انتخاب بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کو مدنظر رکھتے ہوئے خوراک کا استعمال فرماتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں : ’خوراک کی مقدار :۔ قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے یَأۡکُلُوۡنَ کَمَا تَأۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ (محمدؐ:13) اورحدیث شریف میں آیا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھا تا اور مومن ایک میں۔ مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیّب چیز کھانے والا او ر دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے۔ جب مومن کا یہ حال ہو ا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا۔ بلکہ سَتّو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہو ا کرتی تھی۔ اسی سنّت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ ا س کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے۔ خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے۔ عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھا نا نوش فرمایا کرتے تھے۔ علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے۔ مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا۔ اوقات:۔ معمولاً آپ صبح کا کھانا 10بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے۔ کبھی شاذو نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھا یا ہو۔شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی۔ مگرکبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے۔مگر معمول دو طرح کا تھا۔ جن دنوں میں آپ بعد مغرب، عشاء تک باہر تشریف رکھاکرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہوا کرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان۔ ’’کیا کھاتے تھے؟۔۔۔۔۔۔ مقصد آپ کے کھانے کا صر ف قوّت قائم رکھنا تھا، نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا۔ اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوّت قائم رہتی تھی تاکہ آپ کے کام میں حرج نہ ہو۔ علاوہ بریں آپ کوچند بیماریاں بھی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پرہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیّبات ہی استعمال فرمالیتے تھے۔۔۔۔۔ روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے۔ ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اوربکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے۔ بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے …۔ مکّی کی روٹی بہت مدّت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی۔ کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی۔ علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقرخانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو ردّ نہ فرماتے تھے۔ سالن آپ بہت کم کھاتے تھے۔ گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی۔ یہ دال ماش کی یا اوڑدھ کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کاضلع مشہور ہے۔ سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دسترخوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیّب جانور کا آپ کھاتے تھے۔ پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر، فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے۔مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا۔۔۔۔۔۔۔ حضور ؑ کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیا مگر آپؑ نے فرمایا کہ جائز ہے، جس کا جی چاہے کھا لے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے۔ … مرغ کا گوشت ہرطرح کاآپ کھا لیتے تھے۔ سالن ہو یا بھنا ہوا۔ کباب ہو یا پلاؤ۔ مگر اکثر ایک ران پر ہی گزارہ کر لیتے تھے۔ اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بچ بھی رہا کرتا تھا۔ پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گداز اور گلے گلے ہوئے چاولوں کااور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے مگر گُڑ کے۔ اور وہی آپ کو پسند تھے۔ عمدہ کھانے یعنی کباب ،مرغ ،پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوا یا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا۔جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گذارہ کر لیتے۔ دودھ ،بالائی،مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوّت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں۔ دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے۔ کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ اِدھر دودھ پیا اور اُدھر دست آگیا اس لئے بہت ضعف ہوجاتا تھا۔ اس کے دُور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے۔ دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ لسّی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے۔ ان چیزوں کے علاوہ شیرہ ٔبادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چند چھوٹی الائچیاں اور کچھ مصری پیس کر چھن کر پڑتے تھے، پیا کرتے تھے۔ اور اگر چہ معمولاً نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے۔ یہ یخنی بھی بہت بدمزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا۔ میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے۔ گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے۔ پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور،بمبئی کا کیلا، ناگپوری سنگترے ،سیب ،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے۔ باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔ گنّا بھی آپ کو پسند تھا۔ شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے۔ چائے آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے۔ مگر عادت نہ تھی۔سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند فرماتے تھے۔ اکثر دودھ والی میٹھی پیتے تھے۔ زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے۔ بلکہ شدّت گرمی میں برف بھی امرتسر، لاہور سے خود منگوا لیا کرتے تھے۔ بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پرہیز نہ تھا نہ اس بات کی پرچول تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی۔ لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے۔ مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے۔ میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوا رکھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں۔ آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی۔ پان ا لبتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کے لئے یا کبھی گھر میں سے پیش کردیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے۔ یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہو ئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔ … رمضان کی سحری کے لئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پراٹھا ہو ا کرتا تھا۔ اگرچہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 420تا 429) اللہ تعالیٰ ہم سب کو بیماریوں سے محفوظ رکھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے اسوہ پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭