دس شرائط بیعت میں سے شرط نمبر 9اس طرح ہے کہ ہر بیعت کرنے والا عہد کرے کہ ’’ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بارہا فرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے معمور ہے۔اپنی ایک کتاب میں فرماتے ہیں ’’دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں۔ میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کے جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر …انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزار ی میرا اصول ‘‘۔ حضور کا یہ فرمان محض ایک دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ حضور کی زندگی کا لمحہ لمحہ ہمدردی خلائق سے معمور تھا۔ خدا کا یہ بندہ بہت ارفع اخلاق کا مالک تھا۔ ایسا کہ اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اخلاق فاضلہ کے قیام کی خاطر اس آخری زمانہ میں مبعوث فرمایا تھا۔ حضور کی سیرت کے مطالعہ سے بار بار ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں اس غرض کا پورا ہونا اظہر من الشمس ہے۔حضور کی زندگی ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ سے جو اخلاقِ فاضلہ صادر ہوئے ان کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے کئی کتب درکا رہوں گی۔ نہیں یہ کہنا شاید حقیقت کے قریب نہ ہو۔ حق یہ ہے کہ حضور کی زندگی کا لمحہ لمحہ ان اخلاق فاضلہ سے عبارت تھا اور اس اعتبار سے کتابوں کے ذخیرے بھی ان کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔ اس مختصر مضمون میں خاکسا رنے کوشش کی ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ اورحضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی تحریروں میں سے کچھ واقعات قارئین کے سامنے رکھوں۔ ٭حضرت مسیح موعود ؑ مہمان کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے اور جس وقت کوئی مہمان آتا اسی وقت اس کے لئے موسم کے لحاظ سے مشروبات مہیا فرماتے اور کھانے کا انتظام فرماتے۔ آپ کی خواہش ہوتی کہ مہمان زیادہ دیر تک رہے اور مہمان کے ساتھ آپ کا برتائو بے تکلّفانہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مہمان نے آکر کہا کہ میرے پاس بستر نہیں ہے۔ حضور نے حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کو فرمایا کہ اس کو لحاف دے دو۔انہوں نے عرض کی کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ’’ اگریہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مرگیا تو ہمارا گناہ ہوگا‘‘غور کیجئے یہ شخص بظاہرشکل و صورت سے مشتبہ دکھائی دیتا تھا مگر اس کے باوجود آپ نے اس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ فرمایا۔ ٭بنوں کے ایک میڈیکل مشنری تھے جن کا نام ڈاکٹر پینل (PENEL)تھا۔ یہ صاحب بہت امیر کبیر تھے اور آنریری طور پر عیسائیت کے لئے کام کرتے تھے۔ انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ہندوستان بھر کا سفر بائیسکل پر کیا۔ وہ قادیان بھی آئے اور یہاں ٹھہرے۔حضور نے اس کے باوجود کہ وہ سلسلہ کے دشمن تھے ان کی خاطر تواضع اور مہمان داری کے لئے لنگرخانہ کے مہتممین کو اور دیگر احباب کو خاص طور پر تاکید کی اور ہر طرح ان کا خیال رکھا اور خاطر و مدارت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ ٭ایک مرتبہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ قادیان آئے۔ وہ ان دنوں میں مجسٹریٹ کے ریڈر تھے۔ وہ ایک دو دن کے لئے یونہی موقع نکال کر تشریف لائے تھے مگر انہوں نے جب بھی حضور سے جانے کی اجازت طلب کی تو ہمیشہ فرماتے رہے ’چلے جانا‘ ابھی کون سی جلدی ہے ؟ اور اس طرح ان کو لمبا عرصہ اپنے پاس رکھا۔ ٭حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کو سکّھوں کے زمانے میں بیگو وال ریاست کپورتھلہ ہجرت کرنا پڑی تھی۔ ایک مرتبہ اس گائوں کا ایک ساہو کار اپنے ایک عزیز کے علاج کے لئے قا دیان آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اطلاع ہوئی تو حضور نے فوراً اس کے لئے قیام و طعام کا نہایت اعلیٰ انتظام فرمایا اور نہایت دلداری کے ساتھ بیماری کے حالات دریافت فرماتے رہے۔ صرف یہی نہیں ، حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب ( خلیفۃ المسیح الاول ) کو تاکیداً علاج کے لئے ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ ہمارے بزرگوں کو سکّھوں کے زمانہ میں بیگووال جانا پڑا تھا۔ اس گائوں کے ہم پر حقوق ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی وہا ں سے قادیان آتا تو حضور نہایت درجہ محبت کا سلوک فرماتے۔ اس طرح حضور نے احسان کا بدلہ احسان سے اتارنے کا فریضہ نہایت احسن طریق پر ادا فرمایا۔ ٭مولوی عبد الحکیم نصیر آبادی بہت مخالف تھا اور اس نے لاہور میں فروری1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے مباحثہ کیا تھا اور اس مباحثہ کے کاغذات بھی لے کر چلا گیا تھا قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اطلاع ہونے پر اس کی خاطر تواضع کا حکم دیا۔ اسے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے نئے مکان کے ایک کمرہ میں اتارا گیا۔ حضور نے یہ ہدایت بھی کی کہ کوئی شخص ان سے کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے اس کی دل شکنی ہو۔ اگر وہ دل آزاری کی ایسی بات کرے جو رنج کا موجب ہو تو اس پر بھی صبر کیا جائے۔ وہ شخص باوجود اس کے کہ اخلاق و مروت کا اعلیٰ برتائو کیا جارہا تھا، بڑے جوش سے مخالفت کرتا رہا۔احمدی ان کی مخالفت کو سنتے اور حضور کے حکم کے مطابق نہایت ادب اور محبت سے ان کی تواضع کرتے رہے۔ ٭حضرت مسیح موعود ؑ قادیان کے رئیس اعظم اور مالک تھے اور خاندا نی وجاہت کے لحاظ سے کسی کے گھر آتے جاتے نہیں تھے۔ مگر انسانی ہمدردی اور غمگساری نے کبھی آپ کو یہ سوچنے کا موقع نہ دیا اور مریضوں کی عیادت کے لئے دوسروں کو نفع پہنچانے کے لئے اپنے پرائے کا امتیاز نہ فرماتے تھے۔ 1902ء میں ایک قریشی صاحب قادیان میں حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب سے علاج کروانے کے لئے آئے اور حضرت مسیح موعود ؑ سے کئی دفعہ دعا کے لئے عرض کیا۔ وہ جیون سنگھ جھیور نامی مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ 10؍اگست 1902ء کو انہوں نے حضرت اقدسؑ کو کہلا بھیجا کہ زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پائوں متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا۔ حضور نے بنفسِ نفیس ان کی رہائشگاہ پر آنے کا وعدہ فرمایا اور اگلے روز جب حضور سیر کے لئے نکلے تو ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور ان سے مرض کے حالات دریافت فرماتے رہے اور تسلی دیتے رہے۔ ٭ لالہ ملاوامل ایک مرتبہ عرق النساء کے عارضہ سے بیمار ہوگئے۔ حضر ت مسیح موعود ؑ صبح و شام ان کی خبر منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جاکر عیادت فرماتے۔ لالہ صاحب غیر قوم اور غیر مذہب تھے مگر ان کی پرانی رفاقت کے خیال سے عیادت بھی کرتے اور علاج بھی فرماتے۔ ایک دوا کے نتیجے میں ایک رات انہیں انیس مرتبہ اجابت ہوئی اورخون آنے کی وجہ سے ضعف ہوگیا۔اگلے دن صبح انہوں نے کہلا بھیجا کہ حضور خود تشریف لائیں۔ حضور فوراًان کے مکان پر چلے گئے۔ لالہ صاحب کی حالت دیکھ کر حضور کو تکلیف ہوئی۔ اور فوراً اسبغول کا لعاب نکلواکر لالہ ملاوامل صاحب کو دیا جس سے سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہوگیا اور ان کے درد کو بھی آرام آگیا۔ ٭اسی ضمن میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ایک اور واقعہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ مہر حامد علی صاحب قادیان کے ارائیوں میں سے پہلے خوش نصیب تھے جنہیں سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ ایک نہایت غریب مزاج تھے اور ان کا مکان فصیلِ قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گائوں کا کوڑا کرکٹ اور روڑیاں جمع ہوتی تھیں۔ سخت بدبو اور تعفن ہوتا تھا۔ زمیندار آدمی تھے۔ خود ان کے مکان میں بھی صفائی کا التزام نہ تھا۔ مویشیوں کا گوبر اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ بہر حال اسی جگہ وہ رہتے تھے۔ جب وہ بیمارہوئے تو حضور متعدد مرتبہ اپنے احباب کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ بعض لوگوں کو بدبو کی وجہ سے سخت تکلیف ہوتی اور حضور بھی اس کو محسوس فرماتے مگر اشارۃًیا کنایۃً اس کا اظہار فرمایا اور نہ کبھی اس کی وجہ سے آپ ان کی خبر گیری سے رُکے۔ آپ جب بھی جاتے بڑی بشاشت سے جاتے۔ ان سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے۔اور بہت دیر تک رک کر ان کو تسلی دیتے، ادویات بتاتے اور توجہ الی اللہ کی ہدایت فرماتے۔ اور اس قدر دلچسپی لیتے کہ دیکھنے والے علیٰ وجہ البصیرت کہتے کہ کوئی عزیزوں کی خبر گیری بھی اس طرح نہیں کرتا۔ ٭مولوی محمد حسین بٹالوی کے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ پٹھان کوٹ تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کو جو ہم رکاب تھے، رات کو یکایک درد معدہ کا حملہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی پیشاب پاخانہ بھی بند ہوگیا۔ شیخ صاحب دوسرے کمرہ میں جہاں حکیم الامت حضرت مولوی نور الدین صاحب سوئے ہوئے تھے، اس خیال سے پہلو میں لیٹ گئے کہ جونہی وہ کروٹ بدلیں گے توعرض کردوں گا۔ چنانچہ جب حضرت حکیم صاحب نے کروٹ بدلی تو شیخ صاحب نے کہاہائے۔ اُن کی یہ آواز حضرت اقدس مسیح موعود کے کان میں بھی پہنچ گئی جو اس کے ساتھ والے کمرے میں استراحت فرماتے تھے۔ قبل اس کے کہ حضرت مولوی صاحب اٹھتے، خود حضور اٹھ کر تشریف لے آئے اور پوچھا: میاں یعقوب علی! کیا ہوا؟ حضرت کی آواز کے ساتھ ہی حکیم الامت اور دوسرے احباب اٹھ بیٹھے۔ حضرت شیخ صاحب نے اپنی حالت کا اظہار کیا۔ حضور نے دوائی عطا فرمائی اور تسلی اور اطمینان دلایا کہ گھبرائیں نہیں۔ ابھی آرام آجائے گا۔ میں دعا بھی کرتا ہوں۔ حضرت صاحب کی توجہ کو دیکھ کر تمام احباب بھی کمال ہمدردی کا اظہار کرنے لگے یہاں تک کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جیسے عالم اور نازک طبع اور معذور بزرگ بھی انہیں دبانے کے لئے بیٹھ گئے۔ ٭آپؑ کے دل میں ہمدردی اور محبت کا ایک جوش تھا اور شفقت علی خلق اللہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر …!! مخدوم الملت حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی علالت کے ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ کی حالت کے بارہ میں حضرت شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ اس دن سے کہ مولوی صاحب پر عمل جراحی کیا گیا، رات کا سونا قریباً حرام ہوگیا۔ باوصفیکہ چوٹ لگنے اور بہت سا خون نکل جانے کی وجہ سے حضرت اقدس کو تکلیف تھی اور دورانِ سر کی بیماری کی شکایت تھی لیکن یہ کریم النفس وجود ساری رات رب رحیم کے حضور مولٰینا مولوی عبد الکریم صاحب کے لئے دعائوں میں لگا رہا۔ ‘‘ *ایک مرتبہ ایک سائل نے قادیان میں ایک پھیری لگادی۔ وہ صبح کو اٹھتا اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کی نظم ہوا ناصر خدا تیرا مرے اے قادیاں والے ہمیں بخشی اماں تو نے ہے اے دارالاماں والے پڑھا کرتا اور کبھی کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کی نظم ’’ ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے ‘‘ پڑھتے ہوئے قادیان کا چکر لگاتا۔ ایک ماہ رمضان میں باوجود یکہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس عرصہ میں متعدد مرتبہ اس کو بہت کچھ دیا لیکن وہ پھر بھی کہتا کہ میرا پیالہ بھردو۔چنانچہ عید کے دن بہت بڑا پیالہ لے کر آگیا۔ اور مسجد کے دروازہ کے قریب چادر بچھا کر بیٹھ گیا۔ جب حضور تشریف لائے تو سوال کیا کہ میرا پیالہ بھردو۔ حضرت اقدس نے اس میں ایک روپیہ ڈالا۔ اس روپیہ کا ڈالنا تھا کہ روپوں کا مینہ برس پڑا اور مختلف سکّوں سے اس کا پیالہ بھر گیا۔ یہ واقعہ تو علانیہ عطا کا ہے مگر عموماً حضور کی عادت مخفی دینے کی تھی۔ جس پر یہ واقعہ خوب روشنی ڈالتا ہے۔ حضرت شیخ محمد نصیب صاحب کی بیوی صاحبزادہ مرزا نصیر احمد ( ابن حضرت مصلح موعودؓ) کو دودھ پلانے پر مامورتھیں۔ ایک دفعہ باتوں باتوں میں حضور کو علم ہوا کہ شیخ صاحب کو صرف بارہ روپے تنخواہ ملتی ہے۔ آ پ نے محسوس فرمایا کہ شاید اس قلیل تنخواہ سے گزارہ نہ ہوتا ہو۔ آپ ؑ نے ایک روز گزرتے ہوئے ان کے کمرے میں بیس پچیس روپے کی پوٹلی پھینک دی۔ شیخ صاحب کو خیال گزرا کہ معلوم نہیں یہ روپیہ کیسا ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی تنگی کا احساس کرکے حضور ؑ نے رکھ دیا ہے تا آرام سے گزارا کرلیں۔ *حضر ت میر ناصر نواب صاحب نے اپنا مستعمل کوٹ اپنے ایک عزیز کو اس غرض سے بھجوایا کہ وہ سردی سے محفوظ رہے مگر اس نے حقارت کے ساتھ یہ کوٹ واپس کردیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا۔ خادمہ جب یہ کوٹ واپس لے کر جارہی تھی تو اتفاقاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر پڑی۔ واقعہ معلوم ہونے پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا: ’’واپس نہ لے جائو۔اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی۔ تم یہ کوٹ ہمیں دے جائو۔ ہم پہنیں گے۔ میر صاحب سے کہہ دینا کہ مَیں نے رکھ لیا ہے۔ ‘‘ اللہ اللہ کس قدر دلداری ہے۔ کیا سادگی اور بے نفسی ہے کہ دین کا بادشاہ ہوکر بھی اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تأمل نہیں کیا۔ مَیں اس مضمون کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے الفاظ پر ختم کرتا ہوں۔ آپ اپنے خطاب (فرمودہ جلسہ سالانہ 1959ء ) میں فرماتے ہیں : ’’حضرت مسیح موعودؑ کا وجود ایک مجسم رحمت تھا۔وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے۔ اورر حمت تھا اپنے دوستوں کے لئے۔ اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے۔ اور رحمت تھا اپنے ہمسایوں کے لئے۔ اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے۔ اور رحمت تھا سائلو ں کے لئے۔ اور رحمت تھا عامّۃ الناس کے لئے۔ اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں ‘‘ ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون اے مسیحا تیرے سودائی جو ہیں ہوش میں بتلا ان کو لائے کون اے مسیحا ہم سے گو تُو چھُٹ گیا دل سے پر الفت تیری چھڑوائے کون ٭…٭…٭