حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات جماعت پر ہی نہیں ساری دنیاپر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ہومیوپیتھی کی ترویج واشاعت بھی ہے۔حضرت مصلح موعود ؓ نے اُس وقت جماعت میں ہومیوپیتھی کو رواج دینا شروع کیا جب دنیا اس کو چھوڑ رہی تھی۔ ہو میوپیتھی یوں تو 18ویں صدی کے آخر میں باقاعدہ دریافت ہو چکی تھی لیکن اسے مقبولیت ِ عام انیسویں صدی کے آخر سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک حاصل ہوئی۔انٹی بائیوٹکس کی دریافت اور پھر ان کی بے حد مقبولیت کے بعد جب دنیا کی ہومیو پیتھی سے توجہ ہٹ رہی تھی اس وقت حضرت مصلح موعود ؓ اِس طریقہ علاج کو جماعت میں متعارف فرمارہے تھے۔ ٍٍجیسا کہ الٰہی بشارتوں میں تھاکہ وہ نور ہو گا۔وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور یہ کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائے گا۔ سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی عظیم الشان بصیرت نے یہ پرکھ لیا تھا کہ یہ طریقہء علاج خداتعالیٰ کے عطا کردہ قدرتی مدافعتی نظام کو ہی استعمال کرتا ہے۔ وہ مدافعتی نظام، وہ immune system جو اللہ تعالیٰ نے کروڑ ہا سالوں کے ارتقائی عمل سے گزار کر ہمیں عنائت کیا۔ اور یہ ایک صدی یا دو صدیوں کے لئے نہیں بلکہ تا قیامت آنے والی تمام ممکنہ بیماریوں سے حفاظت اورشفا کے لئے عطا فرمایا ہے۔ ہومیوپیتھی کی دریافت سے لے کر اب تک گزشتہ سوادوسو سالوں میں 10ہزارسے زائد ہومیوپیتھک دوائیں مٹیریا میڈیکا کا حصّہ بنیں لیکن اِن میں سے ایک بھی نہ تو banہوئی اور نہ ہی مسترد۔ بلکہ ہر آنے والا دن اِن دوائوں کے چھپے ہوئے خواص مزید نکھار کر ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔ مثلاً کروٹیلس (Crotalus) ایک ہومیوپیتھک دوا ہے جو ایبولہ بیماری کے علاج کے لئے مقبول ہے۔ یہ ایبولہ (Ebola) وائرس کی دریافت سے بھی کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے ہومیوپیتھک مٹیریا میڈیکا کا حصّہ بنی۔ 1837ء میں اِس کی پرُووِنگ شروع کرنے والے ڈاکٹرہیرنگ(Hering)نے اِس کے جو اثرات ریکارڈ کئے وہ اب بھی پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ایبولہ بیماری (Ebola Virus Disease)کی علامات پڑھ رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ یورپ اور امریکہ میں چھپنے والی نہائت ہی اعلیٰ ہومیوپیتھک کتب منگوا کر مطالعہ فرماتے رہے جن میں سے چند اب بھی خلافت لائبریری کی زینت ہیں۔ یورپ کے آخری سفر کے دوران مختلف یورپین ہومیو پیتھس کے ساتھ تبادلہ خیال بھی فرماتے رہے اِن ہومیو پیتھس میں سوئٹزرلینڈ کے مشہور ڈ اکٹر شَمِٹ(Pierre Schmidt)بھی شامل تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓ ایک ہومیو پیتھک ہسپتال تعمیر کروانا چاہتے تھے اور اس کی عمارت کے لئے نقشے بھی حضور نے پسند فرمالئے تھے۔ (رپوٹ الفضل فورم۔ 15دسمبر1997ء مطبوعہ روزنامہ الفضل 17 دسمبر 1997 ء )۔ حضور رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش دورِخلافت رابعہ میں طاہر ہومیوپیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسیٹیٹوٹ ربوہ کی صورت میں پوری ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے مسلسل 50برس انتھک محنت اور جدو جہد سے ہومیوپیتھی کے ذریعے خدمتِ انسانیت کو انتہاتک پہنچا دیا۔ حضورؒ ؒہومیوپیتھی میں اپنی دلچسپی کے آغاز کے سلسلے میں فرماتے ہیں : ’ہومیوپیتھی میں میری دلچسپی کے اسباب کی داستان دلچسپ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعدپاکستان بننے کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ مجھے بار بار سر درد کے دورے پڑا کرتے تھے جسے انگریزی میں میگرین (Migraine) اور اُردو میں دردِ شقیقہ کہتے ہیں۔ یہ بہت شدید درد ہوتا ہے جس کے ساتھ متلی ، قے اور اعصابی بے چینی بہت ہوتی ہے۔ مَیں کئی کئی دن اس بیماری میں مبتلا رہتا تھا۔ علاج کے طور پر اسپرین استعمال کرتا جس کی وجہ سے معدہ کی جھلی اور گردوں پر برا اثر پڑتا اور دل کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی۔ میرے والد مرحوم ایک ایلوپیتھک دوا سینڈول (Sandol)اپنے پاس رکھا کرتے تھے جس کی انہیں خود بھی ضرورت پڑتی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ دوا پاکستان میں نہیں ملتی تھی بلکہ کلکتہ سے منگوانی پڑتی تھی۔ اس سے مجھے جلد آرام آجاتا۔ ایک دفعہ جب مجھے سردرد کی شدید تکلیف ہوئی تو اباجان مرحوم کے پاس سینڈول موجود نہ تھی اس لئے آپ نے اس کی بجائے کوئی ہومیوپیتھک دوائی بھجوا دی۔ مجھے اس وقت ہومیوپیتھی پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن تبرکاً میں نے یہ دوا کھا لی۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ درد بالکل ختم ہو گیا ہے اور میں بے وجہ آنکھیں بند کئے لیٹا ہوں۔ اس سے پہلے کبھی کسی دوا کا مجھ پر ایسا غیر معمولی اور اتنا تیز اثر نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک اور واقعہ ہومیوپیتھی میں میری دلچسپی کا موجب یہ بنا کہ جب میری شادی ہوئی تو میری اہلیہ آصفہ بیگم (رحمہا اللہ )کو ایک پرانی تکلیف تھی جس کا انہوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ حضرت ابا جان کے پاس ہومیوپیتھی کی کتابیں بہت تھیں۔ میں نے سوچا کہ ان میں کوئی دوائی ڈھونڈتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ایسا تصّرف ہوا کہ پہلی کتاب کو جس جگہ سے میں نے کھولا وہاں ایک دوائی نیٹرم میور (Natrum mur) کی جو علامات درج تھیں وہ با لکل وہی تھیں جو آصفہ بیگم نے بتائی تھیں۔ وہ دوا میں نے اونچی طاقت میں انہیں دی۔ ان کو اس کی ایک خوراک سے ہی ایسا آرام آیا کہ پھر کبھی زندگی بھر وہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ ہومیوپیتھی خواہ میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، ا س کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اور اس میں ضرورکچھ حقیقت ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت ابّا جان کی لائبریری سے ہومیوپیتھی کی کتابیں لے کر پڑھنا شروع کیں۔ بعض اوقات ساری ساری رات انہیں پڑھتا رہتا۔ لمبا عرصہ مطالعہ کے بعد میں نے دوائیوں اور ان کے مزاج سے واقفیت حاصل کی اوران کے استعمال اور خصوصیات کا اچھی طرح ذہن میں نقشہ جمایا اور پھر مریضوں کا علاج شروع کیا۔ (دیباچہ کتاب ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل)۔ آج سے 167سال پہلے 1849ء میں Royal London Homoeopathic Hospital قائم ہوا جس کی سرپرست ملکہ برطانیہ تھیں۔ ہومیوپیتھی کی تاریخ میں اِس ادارے اور اِس سے منسلک ڈاکٹرز کی بے مثال خدمات ہیں۔ تین سال قبل جب خاکسار کو جلسہ سالانہ UK پر جا نے کی سعادت ملی تو اس ہسپتال کو د یکھنے گیا۔ یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ اس ادارے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب دورانِ ملاقات حضورِانور نے ارشاد فرمایا کہ ربوہ میں F.Sc. واقفینِ نو کی ہومیوپیتھک ٹریننگ بھی کی جائے تو دل کو تسلی ہو گئی کہ اب اللہ تعالیٰ نے ہومیوپیتھی باقاعدہ طور پر جماعت کے سپرد کر دی ہے اور خلافت ِاحمدیہ کی برکت سے اس کا مستقبل ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ہے۔ الحمدللہ۔ اب ضرورت ہے کہ واقفینِ نو اور واقفات ِنو پیارے امام کی آواز اور خواہش پروالہانہ لبیک کہتے ہوئے ہومیوپیتھی کے اس عظیم الشان نظام شفا کے لئے اپنے آپ کوٹریننگ کے لئے پیش کریں۔