یََأْتُُوْْنََ مِنْ کُُلِّ فََجٍّ عََمِِیْْقٍٍ دنیا میں کروڑوں لوگ سیر و سیاحت، حصول تعلیم اور کاروباری اغراض وغیرہ سے سفر کے لیے نکلتے ہیں اوراپنے مقصد کے حصول کے لیے دنیا کی مشہور و معروف جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ دنیا کے انتخاب کے مقابل پر اللہ تعالیٰ بھی بعض جگہوں کا انتخاب کرتا ہے اور اُس حکیم و قدیر خدا کا انتخاب دنیا کی شہرت یا عزت کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی پیار کی نظر کی بنا پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیلؑ کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص سے محبت ہے پس تُو بھی اُس سے محبت کر، تو جبرئیل بھی اُس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پھر جبرئیل ؑ آسمان والوں کو منادی کر کے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلا ں شخص سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اُس سے محبت کرو تو اہل سماء بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ الْقَبُوْلُ فِی الاَرْضِ۔ پھر اُس شخص کی مقبولیت ساری زمین میں رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ) پس جس وجود کو اللہ تعالیٰ محبوب بناتا ہے اس کے مسکن کو بھی دنیا میں مقبول بنا دیتا ہے۔ سینکڑوں جگہیں اللہ کے پیاروں کی وجہ سے عوام الناس کا مرجع بنی ہوئی ہیں۔ لیکن بعض جگہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اُن کی گمنامی کی حالت میں ہی بتا دیتا ہے کہ ایک دن یہ جگہ ہجوم خلق کا مرکز ہوگی۔ چنانچہ اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو قبل از وقت ہی یہ بشارات دے دیں تھیں :فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ اسی طرح اس مضمون کے اور بھی کئی الہامات تھے، یہ الہامات براہین احمدیہ میں شائع ہوئے اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی صداقت کھلنے لگی اور دور دراز سے لوگ قادیان حاضر ہوئے۔ اوائل میں تو ہندوستان ہی کے طول و عرض یعنی بمبئی، مدراس، آسام، حیدرآباد دکن وغیرہ سے آنے والے مہمانوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے ایفاء پر انسان حیران ہوتا تھا۔ لیکن اُس خدائے رحیم و کریم نے اپنے پیارے مسیح و مہدی کی زندگی میں ہی ان الہامات کی سچائی کو عروج پر پہنچا دیا اور افغانستان، مکّہ مکرمہ، شام، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے لوگوں کو قادیان کی گمنام بستی تک پہنچایا۔ قادیان کی بستی اب گمنام نہیں بلکہ زبان زد عام تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی بعض نمایاں شخصیات بھی سفری صعوبات اٹھا کر قادیان پہنچیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ اپریل 1908ء میں ایک امریکن جوڑا بہمراہی ایک سکاچ انگریز جب قادیان آیا اور حضور علیہ السلام سے حضرت اقدسؑ کی صداقت پر گفتگو کی تو اُن کے اس سوال پر کہ ’’آپ نے جو دعویٰ کیا ہے اس کی سچائی کے دلائل کیا ہیں ؟‘‘کے جواب میں حضورؑ نے فرمایا: ’’آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشان ہے جو اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو شاید آپ یہاں آنے میں بھی مضائقہ اور تأمّل کرتے۔ اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دور دراز سفر کر کے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اور ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اور دلیل ہے۔ کہاں امریکہ اور کہاں قادیان۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 517۔ مطبوعہ ربوہ) ……………………… ذیل میں چند مغربی افراد کا ذکر کیا جاتا ہے جو قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی پیشگوئیوں پر مہر تصدیق ثبت کی: Hervey De Witt Griswold ڈاکٹر ایچ ڈبلیو گرس وولڈ (H W Griswold) 1860ء میں امریکی ریاست نیو یارک کے شہر Dryden میں پیدا ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد 1890ء میں بطور مشنری انڈیا بھیجے گئے جہاں انہوں نے جھانسی میں کام شروع کیا۔ 1894ء میں یہ فورمین کالج لاہور میں فلاسفی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر گرس وولڈ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دو پیپرز لکھے : The Mahdi and Messiah of Qadian (1902) جو انڈیا کے شہر میسور میں پڑھا گیا اور دوسرا Messiah of Qadian (1905) جو لنڈن میں پڑھا گیا۔ اپنے پہلے پیپر میں یہ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق لکھتے ہیں : "I heard from his own lips at Qadian" یعنی مَیں نے یہ بات (حضرت) مرزا صاحب کے منہ سے خود قادیان میں سنی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ قادیان جا چکے تھے۔ ملفوظات جلد اول میں 19 اپریل 1901ء کی ڈائری میں فورمین کالج لاہور کے دو کرسچن سکالرز کے قادیان آنے اور تفصیلی انٹر ویو کرنے کا تذکرہ موجود ہے، نام تو وہاں درج نہیں ہو سکے لیکن اغلبًا ان میں سے ایک یہ صاحب ہی تھے۔ ڈاکٹر گرس وولڈ نے 1945ء میں امریکہ میں وفات پائی۔ ……………………… حضرت محمد عبدالحق صاحب (Charles Francis Sievwright) حضرت محمد عبد الحق صاحب جن کا اصل نام Charles Francis Sievwright تھا آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں پیدا ہوئے اور آسٹریلیا میں ہی 1896ء میں اسلام قبول کیا اور اسلامی نام محمد عبدالحق رکھا۔ قبول اسلام کے بعد مختلف اسلامی ممالک کے سفر کرتے ہوئے ہندوستان آئے جہاں خوش قسمتی سے آپ کی ملاقات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوئی۔ اس ملاقات اور گفتگو کا حال ملفوظات جلد سوم میں درج ہے۔ 1906ء میں جبکہ آپ نیوزی لینڈ میں نزیل تھے،احمدیت قبول کر لی۔ بعد ازاں آپ امریکہ میں مقیم ہوگئے اور وہیں Los Angeles میں وفات پائی۔ اپنے دورۂ قادیان اور حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کے ذکر میں آپ بیان کرتے ہیں : "This meeting with GHULAM AHMAD in Qadian in the year 1903 was a wonderful proof of the truths of Islam..... On the 22nd October 1903, I was at Qadian and received the hospitality of the entire community.... Nothing astonished me more, among all the extraordinary incidents during my missionary travels, than the finding of myself in that sacred place and face to face with its Messiah." (The Muslim Sunrise, Chicago USA, October 1922 page 144) ترجمہ: 1903ء میں قادیان میں (حضرت مرزا) غلام احمد ؑ کے ساتھ ملاقات اسلام کی صداقت کا ایک حیرت انگیز نشان تھی۔ 22؍ اکتوبر 1903ء کو میں قادیان میں تھا اور ساری جماعت کی طرف سے مہمان نوازی پائی... میرے مشنری سفروں کے غیر معمولی واقعات میں سے کسی نے بھی مجھے اتنا ورطہ حیرت میں نہیں ڈالا جتنا کہ اپنے آپ کو اس مقدس مقام میں اس کے مسیحؑ کے رُوبرو پانے میں۔ حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں بھی آپ نے عرض کیا کہ’’جس وقت سے مَیں قادیان میں داخل ہوا ہوں ، مَیں دیکھتا ہوں کہ میرا دل تسلی پاگیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 446) ………………………… Dr. Theodore Leighton Pennell (1867-1912) ڈاکٹرٹی ایل پینیل(Dr. Theodore Leighton Pennell, MD, FRCS) ایک برطانوی مشنری ڈاکٹر تھے جنہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی چرچ مشنری سوسائٹی کو پیش کر دی اور اسی کے تحت ان کی تقرری بنوں (صوبہ پختون خواہ۔ پاکستان) میں ہوئی جہاں تقریبًا 20 سال گزارے۔ یہاں یہ ایک اردو اخبار ’’تحفہ سرحد‘‘ کے بھی پروپرائٹر تھے جس میں وقتًا فوقتًا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے۔ 1904ء میں ڈاکٹر پینیل نے سائیکل کے ذریعہ بنوں سے لے کر پورے پنجاب کا سفر کیا۔ اس سفر میں اُنہوں نے قادیان کو بھی اپنی منزل بنایا اور 4؍ جنوری کو یہ حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی غرض سے قادیان آئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی علالت طبع کے باعث باہر تشریف نہ لا سکے اور یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر پینیل نے قادیان کے اس قیام کا ذکر اپنی ایک کتاب میں کیا ہے جس میں وہ مدرسہ احمدیہ کے طلبا و سٹاف کے متعلق لکھتے ہیں ـ: "... In particular I noticed that, though the next morning was chilly and drizzly, yet all were up at the first streak of dawn, and turned methodically out of their warm beds into the cold yard, and processed to the mosque, where all united in morning prayers, after which most of them devoted themselves to reading the Quran for half an hour to one hour. Many of the masters, too, seemed very earnest in their work, and had given up much higher emoluments to work for quite normal salaries in the cause to which they had devoted themselves. .... We had been kindly and hospitably received, and there was something inspiring in seeing a number of educated men thoroughly zealous and keen in the active pursuit of religion,...." (Among The Wild Tribes of The Afghan Frontier by T. L. Pennell page 248,249 published by Seeley & Co. Limited, 38 Great Russell Street, London, 1909) ترجمہ: خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ گو اگلی صبح سرد ہَوا اور ہلکی بارش تھی لیکن پھر بھی سب فجر کے پہلے حصہ میں بیدار ہوچکے تھے اور منظم طور پر اپنے گرم بستروں سے باہر نکل کر باہر ٹھنڈے صحن سے ہوتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھے جہاں سب نے مل کر صبح کی نماز ادا کی جس کے بعد اکثریت نے نصف گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک اپنا وقت تلاوت قرآن کریم کے لیے وقف کیا۔ کئی اساتذہ بھی، اپنے کام میں نہایت ایماندار معلوم ہوئے اور وہ بڑی بڑی تنخواہیں چھوڑ کر اُس مقصد کے لئے جس کی خاطر اپنے آپ کو وقف کیا تھا، معمولی تنخواہ پر کام کرتے.... ہمارا استقبال خوش دلی اور خاطر داری سے کیا گیا اورایسے متعدد تعلیم یافتہ آدمیوں کو دیکھ کر جو مذہب کی جستجو میں جوش و خروش سے سرگرم تھے، ایک متأثر کُن بات پائی جاتی تھی۔ ……………………… Howard Arnold Walter ہاورڈ آرنلڈ والٹر 1883ء میں امریکی ریاست کونیکٹیکٹ کے شہرNew Britain میں پیدا ہوئے، Princeton University اور Hartford Theological Seminary سے تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں Y.M.C.A. کے ساتھ شامل ہوگئے اور بطور مشنری انڈیا کا سفر کیا جہاں آپ کی تقرری لاہور میں ہوئی۔ جنوری 1916ء میں آپ نے Y.M.C.A. کے ایجوکیشنل سیکرٹری ڈاکٹر W. M. Hume اور ڈاکٹر Edmund Delong Lucas (وائس پرنسپل فورمین کالج لاہور) کی معیت میں قادیان کا دورہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملاقات کی اور بعض سوالات کیے۔ اس ملاقات کا تفصیلی احوال اخبار الفضل 15؍جنوری 1916ء صفحہ 3-6 پرشائع شدہ ہے۔ مسٹر والٹر نے امریکی رسالہThe Moslem Worldمیں ایک مضمون بعنوان The Ahmadiyya Movement Today لکھا۔ پھر 1918ء میں ہی کتاب The Ahmadiyya Movementلکھی جس میں اپنے دورۂ قادیان کے متعلق لکھا: "My visit to Qadian, in January 1916, although it took place more than eight years after the death of Ahmad, showed me a community where there existed abundant enthusiasm and zeal for religion, of a vigorous, positive kind unusual in Islam in India at the present time." (The Ahmadiyya Movement page 139 by H. A. Walter, Oxford University Press 1918) ترجمہ: جنوری 1916ء میں میرے قادیان کے دورے نے، جو کہ (حضرت) احمد ؑ کی وفات کے بھی آٹھ سال کے بعد عمل میں آیا تھا، مجھے ایک ایسی جماعت دکھائی جس میں دین کے لیے توانا اور مثبت قسم کا بے پناہ جوش اور ولولہ موجود تھاجو کہ فی الوقت انڈین اسلام میں غیر معمولی تھا۔ …………………… Rev. Dr. Edmund Delong Luca ڈاکٹر ایڈمنڈ ڈی لانگ لیوکس (E. D. Lucas) انڈیا میں ہی پیدا ہوئے۔ Wooster College, Ohio سے گریجویٹ ہوئے،Union Seminary اور Columbus Universityسے بھی تعلیم پائی۔ حصول تعلیم کے بعد Presbyterian Church کے تحت انڈیا بھجوائے گئے۔ چنانچہ براستہ شام ہوتے ہوئے جہاں چھ مہینے عربی زبان کی تعلیم حاصل کی، انڈیا پہنچے اور فورمین کالج لاہور میں پروفیسر متعین ہوئے۔ بعد ازاں پہلے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل کے عہدے پر بھی پہنچے۔(The Daily Argus, Mount Vernon, NY. Friday, January 19, 1940) آج بھی فورمین کالج یونیورسٹی لاہور میں معاشیات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے پر ان کے نام پر E. D. Lucas میڈل نوازا جاتا ہے۔ 1916ء میں H. A. Walter کی معیت میں قادیان آئے تھے۔ دورۂ قادیان کے بعد اسی زمانے میں سری لنکا میں ایک بیان دیا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’واپس جاکر مسٹر لیوکس نے کولمبو میں عیسائیوں کے سامنے ایک لیکچر دیا جس میں کہاکہ ....آپ لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ عیسائیت کی جنگ بڑے بڑے شہروں یا بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں لڑی جائے گی لیکن میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں اس وقت ایک ایسے گاؤں میں سے ہوکر آیا ہوں جس میں ریل بھی نہیں جاتی (اُس وقت تک قادیان میں ریل نہیں آئی تھی) .... مگر میں وہاں عیسائیت کے مقابلہ کی ایسی تیاری دیکھ کر آیا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں اسلام اور عیسائیت کی آئندہ جنگ جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ اب اسلام زندہ رہے یا عیسائیت، وہ کہیں اور نہیں لڑی جائے گی بلکہ قادیان کے قصبہ میں لڑی جائے گی۔ یہ فورمن کرسچن کالج کے پرنسپل کی رائے ایک سیلون کے اخبار میں چھپی تھی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 74، سورۃ الفیل زیر آیت اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ...الخ) ……………………… Margoliouth, David Samuel (1858-1940) پروفیسر ڈیوڈ سموئیل مارگولیتھ (Margoliouth, David Samuel) مشہور برطانوی مستشرق تھے جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے۔ آپ 16؍ دسمبر 1916ء کو قادیان آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف پایا اور بعض اسلامی امور پر گفتگو کی۔ بوقت روانگی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چند عربی کتابیں اعجاز احمدی، لجۃ النور، سیرت الابدال تحفۃً دیں جن کا پروفیسر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور چونکہ پروفیسر صاحب کو شام کی گاڑی پر واپس لاہور جانا تھا لہٰذا مقبرہ بہشتی، منارۃالمسیح، لائبریری حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور دارالعلوم کی عمارات کو دیکھنے کے بعد روانہ ہوگئے۔ اس ملاقات کا تمام احوال الفضل 19؍دسمبر 1916ء صفحہ 18-20 پر شائع شدہ ہے۔ ………………………… Dr. David Reed Gordon (1866-1959) ڈاکٹر ڈیوڈ ریڈ گورڈن (David Reed Gordon) 1866ء میں Rev. Dr. Andrew Gordon (جنہوں نے 1855ء میں سیالکوٹ میں Presbyterian چرچ کا آغاز کیا تھا) کے ہاں پیدا ہوئے۔ امریکہ سے تعلیم پانے کے بعد 1895ء میں انڈیا میں متعین ہوئے اور 36 سال تک ضلع گورداسپور میں بطور مشنری کام کیا۔ آخری چند سال راولپنڈی میں متعین رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد واپس امریکہ آگئے جہاں 1959ء میں کیلیفورنیا کے شہر Duarte میں وفات پائی۔ ڈاکٹر گورڈن ایک تو 1920ء میں ایک اور یورپین کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی غرض سے قادیان آئے۔ (الفضل 23دسمبر 1920ء صفحہ1کالم 1) دوسرا 1924ء میں پادری Zwemerکے ساتھ بھی قادیان آئے تھے۔ ………………………… Samuel Marinus Zwemer (1867-1952) سموئیل مارینس زویمر امریکن مشنری اور سکالر تھے اور مسلمان ممالک میں عیسائیت کی تبلیغی کوششوں کے حوالے سے مشہور ہیں ، متعدد کتب لکھیں اور ایک رسالہ The Moslem World بھی شروع کیا۔1924ء میں پادری زویمر اپنے دو اور ساتھیوں Dr. Murray T. Titus (جو اُن دنوں ضلع مراد آباد میں مشن انچارج تھے) اور Dr. David Reed Gordon (جو گورداسپور میں مشنری ڈاکٹر تھے) کی معیت میں قادیان آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ (الفضل 3؍جون 1924ء صفحہ 1,2) اپنے اس دورۂ قادیان کے بارے میں پادری زویمر لکھتے ہیں : "From Lahore, we went to Gurdaspur and on to Qadian, the birthplace of "The Promised Messiah of the Punjab", and of the Ahmadiya Movement... Our reception was most cordial. In fact, they had sent to meet us at another railway station and invited us to spend days instead of hours.... They gave us of their best and we saw all there was to see. Not only is the "Review of Religions" published here, but three other magazines; and correspondence is carried on with London, Paris, Berlin, Chicago, Singapore, and all the Near East; pigeon-holes filled with possibilities; shelves crowded with encyclopedias, dictionaries, and anti-Christian philosophies; an armory to prove the impossible; a credulous faith that almost removes mountains," (Across the World of Islam by S. M. Zwemer page 316,317 Fleming H. & Revell Company New York 1929) ترجمہ: لاہور سے ہم گورداسپور اور آگے قادیان گئے جو کہ ’’پنجاب کے مسیح موعود‘‘ اور احمدیہ جماعت کی جنم بھومی تھی۔ ہمارا استقبال نہایت والہانہ تھا، اصل میں انہوں نے ایک اور سٹیشن پر ہمارے لیے بندہ بھیجا تھا اور ہمیں دعوت دی تھی کہ ہم (قادیان میں ) گھنٹوں کی بجائے دن گزاریں۔ انہوں نے ہمیں اپنی بہترین میزبانی پیش کی اور ہم نے وہ سب کچھ وہاں دیکھا جو دیکھنے کے لیے تھا۔ نہ صرف یہ کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ یہاں سے شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور رسالے بھی۔ لندن، پیرس، برلن، شکاگو، سنگاپور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان، مختلف قسم کی انسائیکلو پیڈیا ڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔ ……………………… Dr. Murray Thurston Titus (1885-1964) ڈاکٹر مرے تھرسٹن ٹائیٹس (Murray Thurston Titus) امریکی ریاست اوہائیو کے شہر Batavia میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد Methodist Churchکے تحت 1910ء سے لے کر 1951ء تک انڈیا کے مختلف شہروں میں بطور مشنری کام کیا۔بر صغیر میں اسلام کے متعلق کتابیں بھی لکھیں۔ 1924ء میں جبکہ یہ ضلع مرادآباد میں مشن انچارج تھے، پادری زویمر کے ساتھ قادیان آئے۔ انہوں نے اپنے دورۂ قادیان کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں لکھی لیکن اپنی کتاب The Young Moslem Looks at Life میں اُس وقت کے طاقتور مسلمان حکمران سلطان عبدالحمیدآف ترکی (وفات 10؍ فروری 1918ء) کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ اعتراف کیا کہ "While Mirza Ghulam Ahmad in his obscure Indian village of Qadian dreamed his dreams, of spiritual conquest of the world in the latter part of the nineteenth and the early part of the twentieth centuries, the caliph of the Moslem world, Abdul Hamid, in his luxurious palace by the Bosporus, dreamed also dreams of Pan-Islamic power that would oust the exploiting, imperialist European powers from India, Egypt and North Africa. He hoped to see the day when it would be possible to establish a great bloc of independent Moslem nations of whose spiritual and political life the Turkish caliph would be the head…. The names of Mirza Ghulam Ahmad and Abdul Hamid stand today as symbols of the challenge of Islam to the world in these modern times. The caliph's great political challenge of Pan-Islamism collapsed with the crumbling of the Ottoman Empire; but the spiritual challenge of Islam as found in the world-wide missionary effort of the Ahmadiyya movement of Mirza Ghulam Ahmad is still very much alive..... it represents the ever present spiritual desire and aspiration of the whole Moslem world to see the faith of Islam triumph." (The Young Moslem Looks at Life page 152,153 by Murray T. Titus, Friendship Press New York 1937) ترجمہ: جبکہ مرزا غلام احمد(علیہ السلام) نے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے گمنام انڈین گاؤں قادیان میں دنیا کی روحانی فتح کے خواب دیکھے (نبی خواب نہیں دیکھتا بلکہ اپنے رب کے الہامات پر یقین رکھتا ہے۔ ناقل) تو مسلم دنیا کے خلیفہ عبدالحمید نے Bosporusپر واقع اپنے عیش پسند محل میں ہمہ گیر اسلامی حکومت کا خواب دیکھا جس کے ذریعے استحصال کرنے والی یوروپین سامراجی قوتوں کو انڈیا، مصر اور شمالی افریقہ سے بے دخل کیا جاسکے۔ اُس نے اُس دن کی اُمید لگائی تھی کہ جس میں آزاد مسلمان قوموں کا ایک عظیم اتحاد قائم کیا جا سکے جس کا روحانی اور سیاسی لیڈر یہی ترک خلیفہ ہو۔ مرزا غلام احمد ؑ اور عبدالحمید کے نام آج کے جدید دور میں دنیا کے لیے اسلام کے چیلنج کی علامت کے طور پر کھڑے ہیں۔ (ترک) خلیفہ کے ہمہ گیر اسلامی حکومت (Pan-Islamism) کا عظیم سیاسی چیلنج سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہونے کے ساتھ ہی ڈھیر ہوگیا۔ لیکن اسلام کا روحانی چیلنج جو کہ مرزا غلام احمد کی احمدیہ جماعت کی عالمگیر مشنری کاوشوں کی صورت میں پایا جاتا ہے، ابھی تک زندہ ہے.... یہ کُل عالمِ اسلام کی دینِ اسلام کے غلبہ کو دیکھنے کی دائمی روحانی خواہش اور آرزو کی عکاسی کرتی ہے۔ ……………………… Hendrik Kraemer (1888-1965) ہینڈرک کریمر (Hendrik Kraemer) ایک ڈچ (Dutch) مشنری تھے، Leinden University میں history اور Phenomenology of religion کے پروفیسر تھے۔ یہ صاحب اپنے دورۂ انڈیا کے دوران دسمبر 1929ء میں قادیان آئے۔ بعد ازاں The Moslem Worldمیں اپنے اس دورۂ انڈیا کی تفصیلی رپورٹ لکھی جس میں قادیان کا بھی خاص طور پر ذکر کیا: ".... the Ahmadiyya .... are a very remarkable group in modern Islam, the only group that has purely missionary aims. They are marked by a devotion, zeal and sacrifice that call for genuine admiration .... Their founder Mirza Ghulam Ahmad, must have powerful personality. When I visited Qadian .... I was struck by the buoyant spirit of great enthusiasm for Islam. They are not humble bearers of a message, but the proud and self-conscious proclaimers of a truth." (The Moslem World, Vol. XXI, No. 11, April 1931 page 170,171) ترجمہ: احمدیہ.... جدید اسلام کا نہایت ہی حیرت انگیز گروہ ہے ، اور واحد گروہ ہے جس کے خالصتاً تبلیغی مقاصد ہیں۔ وہ ممتاز ہیں اپنی عقیدت، جوش اور قابلِ قدر قربانی سے.... ان کا بانی مرزا غلام احمد ضرور طاقتور شخصیت رکھتے ہوں گے۔ جب میں نے قادیان کا دورہ کیا.... میں اسلام کے لئے نہایت پُر اُمید جوش دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ محض ایک پیغام کے علمبردار نہیں بلکہ وہ مفتخر اور خود آگاہ سچائی کے منادی کرنے والے ہیں۔ ……………………… Friedrich Wagner Chemnitz فریڈرک ویگنر چیمنٹز(Friedrich Wagner Chemnitz) ایک جرمن سیاح تھے۔ 1924ء سے 1929ء تک یہ دوست چین میں رہے جہاں زیادہ تر ان کا تعلق چینی مسلمانوں سے رہا اور اسلام پر کافی بات چیت ہوئی لیکن کسی موقع پربھی احمدیت کا ذکر نہیں آیا۔ 1930ء میں آپ چین سے براستہ انڈیا واپس جرمنی جا رہے تھے کہ آپ کا گزر لدّاخ سے ہوا جہاں آپ کی ملاقات حضرت خان بہادر غلام محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ آف بھیرہ (بیعت :1892ء - وفات: 26؍جون 1956ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) سے ہوئی اور کافی دوستانہ ماحول میں مختلف باتیں ہوئیں۔ حضرت خان صاحبؓ نے ان کو قادیان دیکھنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے سفر میں قادیان کا بھی ارادہ کر لیا اور نومبر 1930ء میں قادیان وارد ہوئے۔ ان کا ارادہ قادیان میں چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن گزارنے کا تھا لیکن احمدی احباب کی دعوت پر کہ آپ کم از کم ایک ہفتہ ضرور قیام کریں ، آپ ایک ہفتہ تک رہنے کے لیے راضی ہوگئے اور اگلے سفر کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ بہرکیف آپ نے تقریبًا ڈیڑھ ماہ قادیان میں قیام کیا اور جلسہ سالانہ سمیت جماعت احمدیہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع پایا۔ آپ نے قادیان اور جماعت احمدیہ کے بارے میں اپنے تأثرات لکھ کر ریویو آف ریلیجنز میں شائع کرائے جس میں آپ لکھتے ہیں : "It is a spiritual atmosphere, which one feels at Qadian, an atmosphere quite different from the material world outside. Here, the religious thoughts dominate.... I would advise any one who may afford to pay a visit to Qadian, that he should make it a point to stay there for several days because it is after a stay of some days, that the real spirit of Qadian will begin to reveal itself to him.... Qadian is not Delhi or Agra in respect of splendid buildings. But it is a place whose spiritual treasures never exhaust.... There will be only very few, who will leave Qadian taking nothing with them. And that what a visitor takes with him cannot be measured in coins. No, it is something much more precious and really invaluable." (Review of Religions, Qadian, May 1932 page 159-161) ترجمہ: یہ ایک روحانی ماحول ہے جسے ایک شخص قادیان میں محسوس کرتا ہے، ایسا ماحول جو باہر کی مادی دنیا سے بالکل مختلف ہے، یہاں دینی خیالات غالب ہیں .... کوئی بھی شخص جو قادیان جانے کا متحمل ہو سکتا ہے، اسے میں یہی تجویز کروں گا کہ وہ اس جگہ کو کئی دنوں کے لیے قیام گاہ بنائے کیونکہ کچھ دنوں کے قیام کے بعد ہی قادیان کی اصل روح اس پر اپنے آپ کو عیاں کرنا شروع کرے گی۔ قادیان عالی شان عمارتوں کے اعتبار سے کوئی دہلی یا آگرہ نہیں ہے لیکن یہ ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزائن کبھی ختم نہیں ہوتے.... بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو قادیان آنے کے بعد کچھ نہ کچھ اپنے ساتھ لے کر جانے والے نہ ہوں اور یہ کہ جو کچھ بھی ایک مہمان اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے اس کو پیسوں میں نہیں ناپا جا سکتا بلکہ وہ بہت ہی قیمتی اور حقیقۃً انمول چیز ہے۔ ……………………… Abdullah R. Scott مکرم و محترم عبداللہ سکاٹ صاحب ایک انگریز نو مسلم تھے اور پہلے برطانوی احمدی تھے جو قادیان تشریف لائے۔ آپ 9؍مئی 1931ء کو قادیان پہنچے اور قریبًا دو ماہ تک یہاں قیام کیا۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ، قادیان کے مختلف مقامات اور یہاں کی روحانی فضا کے متعلق "My Impression of Qadian" کے عنوان سے ایک گیارہ صفحاتی مضمون تحریر کیا جس کے آخر میں لکھا: "Who could have thought that the insignificant village of Qadian and that lonely person in his place of solitude, whom very few knew or cared to know, would become the centre of attraction of the whole world and would flourish in so short a time? Yet all this was prophesied by the Promised Messiah (peace be upon him) years before he proclaimed the news of his advent and which alone is, in my humble opinion, a very strong argument in proof of his claim even if there had been no other sign. Let those seekers after truth who are not already acquainted with the full facts concerning the Ahmadiyya Movement and its Holy Founder, do so early, for, herein they will find unlimited treasures." (Review of Religions, August 1931 page 185) ترجمہ: کون سوچ سکتا تھا کہ قادیان جیسا معمولی گاؤں اور اس میں رہنے والا ایک گمنام شخص جسے بہت کم لوگ جانتے تھے یا جاننے کی فکر میں تھے، کسی دن ساری دنیا کی کشش کا مرکز بن جائے گا اور اتنے تھوڑے عرصہ میں اتنا پھل پھول جائے گا۔ تاہم یہ سب کچھ مسیح موعود (علیہ السلام)نے اپنے دعویٰ ماموریت سے برسوں پہلے پیشگوئی کر دیا تھا، اور میری حقیر رائے میں آپؑ کے دعوے کی صداقت میں یہ ایک دلیل ہی بہت مضبوط ہے خواہ دوسرا کوئی نشان نہ بھی ہو۔ وہ متلاشیان حق جو احمدیہ جماعت اور اس کے بانی کے متعلق حقائق سے آشنا نہیں ہیں ، جلدی کریں کیونکہ یہاں ان کو اَن گِنت خزانے ملیں گے۔ …………………… Gyula Germanus (1884 - 1979) پروفیسر جرمانوس جن کا اصل نام Gyula Germanus تھا، ایک ہنگیرین پروفیسر تھے اور مشرقی علوم کے ماہر تھے۔ کئی اسلامی ممالک کے دورے کیے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام عبدالکریم رکھا تھا۔ 1928ء میں بھارتی نوبل انعام یافتہ ادیب رابندرا ناتھ ٹیگور نے انہیں اپنی یونیورسٹی Visva-Bharati University Santiniketan میں پڑھانے کے لیے دعوت دی۔ چنانچہ یہ انڈیا آئے اور اسی دوران اندازًا 1932ء میں قادیان کا سفر کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ اپنے اس دورہ قادیان کا ذکر انہوں نے اپنی ہنگیرین زبان میں لکھی گئی کتاب Allah Akbar جلد اول میں کچھ صفحوں پر کیا ہے ساتھ ہی قبر مسیحؑ (سری نگر) کے ساتھ قادیان کی بھی دو نایاب تصویریں شائع کی ہیں۔ ………………………… Prof. John Clark Archer (1881-1957) پروفیسرڈاکٹر جان کلارک آرچر (John Clark Archer) امریکہ کی مشہور Yale University میں شعبہ مذاہب کے پروفیسر تھے۔ آپ 17؍جون 1937ء کو قادیان وزٹ کرنے کے لیے آئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے شرف ملاقات پایا اور بعض اسلامی امور پر گفتگو کی جس کے بعد مرکزی دفاتر دیکھے اور اسی دن شام کی گاڑی سے واپس چلے گئے۔ (الفضل 19؍جون 1937ء صفحہ 1) بعد ازاں آپ نے ناظر اعلیٰ صاحب قادیان کے نام شکریہ کا مکتوب ارسال کیا جس میں لکھا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ خط لکھنے میں مجھے بہت دیر ہوگئی ہے، براہ مہربانی اس کوتاہی پر مجھے معاف فرمائیں۔ مجھے امید تھی کہ میں دوبارہ قادیان آؤں گا اور ذاتی طور پر اپنے جذبات کا اظہار کروں گالیکن حالات نے مساعدت نہیں کی اور اب میری آمد کا بہت کم امکان باقی ہے.... میں حال ہی میں لاہور نیر صاحب سے ملا تھا اور ان سے گفتگو ہوئی، ان کی مشفقانہ مہمان نوازی کے باعث ان کا اور ان کے خاندان کا اور جماعت احمدیہ کے متعلق ان کے ذاتی اخلاق کی وجہ سے زیر بار احسان ہوں۔ میں حضرت خلیفۃ المسیح سے لے کر ہر کارکن تک تمام افراد کا ہمیشہ کے لئے ممنون احسان ہوں کیونکہ مجھے سے نہایت عمدہ سلوک کیا گیا۔ جو کتابیں مجھے حضرت صاحب نے دی ہیں ، ان کا ... میں نے ابھی سے مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واپس امریکہ جاکر میں اپنے سفر قادیان کے متعلق ایک مستقل ریکارڈ قائم کروں گا۔نیاز مند جان کلارک آرچر‘‘ (الفضل 23؍ جولائی 1937ء صفحہ 6) ……………………… ان کے علاوہ بعض دیگر مغربی شخصیات بھی قادیان آئیں ، مثلًا: 1901ء میں مسٹر ڈی ڈی ڈکسن، اپریل 1908ء میں ایک امریکن جوڑا ایک سکاچ شخص کی معیت میں ،1910ء میں دو یورپین نو مسلم مکرم عبدالسلام رابرٹسن اور مکرم عبداللہ سمتھ صاحب (الحکم 21اگست 1910ء صفحہ6) جولائی 1938ء میں ایک بیلجیئن اور ایک ہسپانوی پادری، 1940ء میں مشہور امریکی رسالہ Life کے ایک نمائندہ مسٹر کرک لینڈ اور اکتوبر 1949ء میں 26 افراد پر مشتمل (7 مرد اور 19 خواتین) Presbyterian Church of America کا ایک وفد بھی قادیان آئے۔ سوال یہ ہے کہ قادیان نہ تو کوئی سیاحتی مقام تھا اور نہ ہی کوئی تجارتی مرکز اور نہ ہی کوئی ایسی مشہور زمانہ جگہ کہ لوگ سفر ی صعوبتیں اٹھا کر یہاں آتے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اکناف عالم سے لوگ اس چھوٹی سی بستی کی طرف رخ کرتے گئے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک پیارا بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی امت کا مسیح و مہدی بناکر بھیجا تھا اس بستی میں پیدا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مقبولیت پوری زمین میں رکھ دی تھی۔ غرضیکہ اپنے تو اپنے غیر بھی بڑی دور دراز سے سفر کرکے قادیان پہنچے۔ Dr. H. W. Griswold کا مقالہ "The Messiah of Qadian" جب 1905ء میں The Victoria Institute of Philosophical Society of Great Britain میں پڑھا گیا تو اجلاس ختم ہونے کے بعد ایک ممبر Colonel Alves نے کہا: "I think that when we entered this room most of us did not know who Qadian was or where it or he was." (The Messiah of Qadian by Rev. H. D. Griswold page 13, published byHarrison and Sons, London 1905) یعنی جب ہم اس ہال میں داخل ہوئے تھے تو ہم میں سے اکثریت اس بات سے لا علم تھی کہ قادیان کیا ہے؟ یا یہ کہاں ہے؟ لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد قادیان کی قابلیت اور مقبولیت دیکھ کر یہی مغربی لوگ اب یہ کہہ رہے تھے کہ "the little town of Qadian seems to be a kind of modern Mecca" (the Register, Adelaide , Saturday , April 20, 1918. page 4 column 1 under "literary letter") حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے، نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار اسی طرح فرمایا: ’’یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں بھی بہتیرے ایسے تھے جو مجھ سے ناواقف تھے اور اب جو اس پیشگوئی پر سترہ برس گزر گئے تو پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق اس عاجز کی شہرت اس حد تک پہنچ گئی کہ اس ملک کے غیر قوموں کے بچے اور عورتیں بھی اس عاجز سے بے خبر نہیں ہوں گی۔ جس شخص کو ان دونوں زمانوں کی خبر ہوگی کہ وہ وقت کیا تھا اور اب کیا ہے تو بلا اختیار اس کی روح بول اٹھے گی کہ یہ عظیم الشان علم غیب انسانی طاقتوں سے ایسابعید ہے کہ جیسا کہ ایک مکھی کی طاقت سے ایک قوی ہیکل ہاتھی کا کام۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 74)