اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: یَا حَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ مَا یَأۡتِیہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسۡتَہۡزِء ُون (یٰسین: 31) ترجمہ:ہائے افسوس بندوں پر کہ جب کبھی بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں۔ انبیاء کی زندگیاں اس امر کا بیّن ثبوت ہیں کہ جس مقصد کے حصول کے لئے وہ دنیا میں بھیجے جا تے ہیں اس کی راہ میں تمسخر اور ٹھٹھے کا بسیرا ہوتاہے، خاردار جھاڑیاں ہوتی ہیں ، پُرخطر راستے ہوتے ہیں ،مصائب کی آندھیاں ہوتی ہیں ، حوادث کے پہاڑ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اور ان کی جماعتیں تلواروں کے سایہ تلے پلا کرتی ہیں ، ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی ،وہ دن اور رات ابتلاء دیکھتے ہیں ،صبح و شام مصائب ان کے سروں پر منڈلاتے ہیں مگر وہ ڈرتے نہیں ، ان کے ایمان کمزور نہیں ہوتے بلکہ وہ صبر و استقامت کاکوہِ وقار بن جاتے ہیں اور وہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تکالیف کا صحیح ادراک فی زمانہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تیار کردہ جماعت کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ان ابتلاؤں اور مصائب کی بابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیاری جماعت کو بہت پہلے خبردار کردیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’’اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے۔مجھے کیا معلوم کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُر خار بادیہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں۔ جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے ،نہ لوگوں کے سبّ وشتم سے ،نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے۔اور جو میرے نہیں عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیوں کہ وہ عنقریب الگ کیے جائیں گے‘‘۔ (انوارالاسلام۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23،24) آج جب مسیح ِ زمان کے متبعین پر طرح طرح کے ظلم اور بربریت کے بازار گرم کیے جارہے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان سبّ وشتم ، ابتلاؤں اور آزمائشوں کا خودکس طرح مقابلہ کیا۔ طرح طرح کی دی جانے والی تکالیف پر آپ کا اپنا نمونہ اورردِّ عمل کیا تھا؟ ایک دفعہ حضور لاہور میں تھے۔ ایک شخص سراج الدین نامی بازار میں سامنے آیا اور فحش گالیاں دینی شروع کیں۔ حضور کے ہاتھ میں گلاب کا پھو ل تھاآپ اسے سونگھتے رہے۔وہ گالیاں نکالتا رہا۔حتّٰی کہ آپ قیامگاہ پر تشریف لے آئے۔ وہ بھی وہاں آگیا۔ او ر تقریبا آدھ گھنٹہ وہاں رُوبرو کھڑا ہو کر سخت فحش بکتا رہا۔آپ خاموش بیٹھے رہے۔جب وہ چُپ ہو گیا تو آپ نے فرمایا بس۔ اور کچھ فرمائیے۔ اس پر وہ شرمندہ ہوکر چلا گیا۔ (ماخوذ ازسیرتِ احمد مصنفہ قدرت اللہ سنوری صفحہ 15) اسی طرح ایک دفعہ جب آپ ؑ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آ کرآپ کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ حضور ؑ نے حضرت امّ المومنین سے فرمایا کہ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو اس کا گلا گالیاں دیتے دیتے سوکھ گیا ہو گا۔ اسی سفر سے واپسی پرآپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آکر گالیاں دیں۔ جب حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے روکنا چاہا تو حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ میر صاحب! مت روکو۔ ان کو دل خوش کر لینے دو۔ (ماخوذ از سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 228) غیر تو غیر اپنوں نے بھی اس سلسلہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چنانچہ ہم پڑھتے ہیں کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخر جب سحری کا وقت ہوتا تو حضورؑ کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہو گا۔ اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا۔ جب کہا جاتا کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہیے۔ تو آپ فرماتے: ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ( ماخوذ از سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ 102) کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دُعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا یہ رحم ہی ہوتا ہے جو مخالفین کی مخالفتوں کے باوجود ان کے لیے دعائیہ کلمات ہی ان کی زبان پر لاتا ہے۔جس کی گواہی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔ آپ تحریر فرماتے ہیں : ’’مَیں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپ کے ساتھ رہا ہوں۔ دہلی کی نا شکر گزار اور جلد باز مخلوق کے مقابل۔ پٹیالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور اور سیالکوٹ کے مخالفوں کی متفق اور منفرد دلآزار کوششوں کے مقابل میں آپ کا حیرت انگیز صبر اور حلم اور ثبات دیکھا ہے۔ کبھی آپ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ نا شائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا۔ مَیں صاف دیکھتا تھا کہ آپ ایک پہاڑ ہیں کہ نا تواں پست ہمت چوہے اس میں سرنگ کھود نہیں سکتے۔ ایک دفعہ آپ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا۔ ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تُومخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبت الٰہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔ اس لیے کہ مَیں تو اسے دیکھ چکا ہوں ‘‘۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت عبدالکریم سیالکوٹی صفحہ 55 ) یہ واقعات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ صبر و استقامت کا کوہِ وقار تھے۔ آپ قرآنی حکم فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ أُوۡلُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ ( احقاف:36) کی عملی تصویر تھے۔ آپ کبھی بھی مخالفین کی گالیوں اور ٹھٹھوں سے گھبرائے نہیں بلکہ عین انبیاء کی سنت کے مطابق عظیم الشان صبراور وسیع تر حوصلہ کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول میں پُرعزم رہے، چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’جو جوش خدا تعالیٰ نے مجھے ہمدردی مخلوق کا دیا ہوا ہے وہ مجھے ان باتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرنے دیتا۔ مَیں تو خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں ، نہ لوگوں کو۔ اس لیے مَیں ان کی گالیوں اور ٹھٹھوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرا مولیٰ میرے ساتھ ہے‘‘۔ (ملفوظات ،جلد 3، صفحہ 84۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں امرتسر کے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے۔ اس کے لیے بددُعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا: نہیں۔ وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر ان لوگوں میں بھی ہوجاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کے لیے کھاد کا کام دے رہے ہیں۔ بدبو سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ (ماخوذ سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ 140) اسی طرح فرمایا: ’’مامور من اللہ کے دشمن ضرور ہوتے ہیں جو ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیتے ہیں۔ توہین کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں سعید الفطرت اپنی روشن ضمیری سے ان کی صداقت کو پالیتے ہیں۔ پس ماموروں کے مخالفوں کا وجود بھی اس لیے ضروری ہے۔ جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹے کا وجود ہے۔ تریاق بھی ہیں ،تو زہریں بھی ہیں۔ کوئی ہم کو کسی نبی کے زمانہ کا پتہ دے جس کے مخالف نہ ہوئے ہوں اور جنہوں نے اس کو دوکاندار، ٹھگ، جھوٹا، مفتری نہ کہا ہو۔ … آپ میری مخالفت میں بھی بہت سی باتیں سنیں گے اور بہت قسم کے منصوبے پائیں گے ، لیکن میں آپ کو نصیحتًا للہ کہتا ہوں کہ آپ سوچیں اور غورکریں کہ یہ مخالفتیں مجھے تھکا سکتی ہیں ؟ یا ان کا کچھ بھی اثر مجھ پر ہوا ہے؟ ہر گز نہیں۔ خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ ہے جو میرے ساتھ کام کرتا ہے، ورنہ مَیں کیا اور میری ہستی کیا ؟‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ 412تا 413ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا پوشیدہ ہاتھ ہمارے ساتھ ہے ، اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے ہم گواہ ہیں تو پھر مخالفین کی مخالفتوں سے ہمیں کیا ڈرا۔ حاسدوں کے حسد کی ہمیں کیا پرواہ،ظالموں کے ظلم کی کیا حیثیت۔ ہم تو اس بات پر واثق یقین رکھتے ہیں کہ یہی مخالفتیں ، یہی اذیتیں ، یہی صعوبتیں الٰہی جماعتوں کی ترقی کا زینہ ہوا کرتی ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر انبیاء اور ان کی جماعتیں چل کر کامیابیاں حاصل کیا کرتی ہیں اور اپنا مقصود پا لیتی ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے کہ آپ کو بُرا بھلا کہا گیا ،مصیبت پر مصیبت آئی، فاقے پر فاقے ہوئے، محبوبوں اور عزیزوں کوبھوک پیاس سے اپنے سامنے تڑپتے دیکھا۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہے، جہاں کھانے کے لیے کچھ نہ ملتا تھا حتیّٰ کہ درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ ایک صحابی کہتے ہیں ہمیں آٹھ آٹھ دن پاخانہ نہیں آتا تھا اور جب آتا تو بکری کی مینگنیوں کی طرح کا آتا کیونکہ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا اور ہم درختوں کے پتے کھاتے تھے۔(بخاری کتاب المناقب۔باب مناقب سعد بن ابی وقاص)۔ پھر اس وقت کو بھی یاد رکھیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف باد شاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو اس وقت ہرقل نے کہا کہ عرب کا کوئی آدمی بلاؤ جس سے مَیں عرب کے اس نبی کے حالات دریافت کروں ابوسفیان حاضر ہوا تو اس نے پوچھا: اس کی قوم اسے مانتی ہے یا نہیں ؟ ابوسفیان نے کہا نہیں۔ نہ صرف مانتی نہیں بلکہ مخالفت کرتی ہے۔ہرقل نے کہایہی انبیاء کے مخالفین کیا کرتے ہیں۔ (بخاری باب کیف بدء الوحی) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ حضور کی بہت مخالفت کرتے ہیں اور موافق تھوڑے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ لوگ کس طرح حضور کو پہچانیں گے۔ آپ نے فرمایا : پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر کیا گمان ہوتا ہے کہ اس کی روشنی سارے جہان میں پھیلے گی اور سب لوگ اس کو دیکھ لیں گے۔ مگر چودھویں رات کے چاند کو بہت لوگ دیکھ لیتے ہیں۔ کوئی اندھا ہی رہ جائے تو رہ جائے۔ (ماخوذ از سیرتِ احمد از قدرت اللہ سنوری صاحبؓ صفحہ118-117) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا کچھ حصہ مقدمات کی پیروی میں گذرا۔جہاں مخالفین نے محض آپ کو رُسوا کرنے کی خاطر جھوٹے اور بے بنیا د مقدمات بنا رکھے تھے۔ لیکن مقدمات کی پیروی کے دوران بھی جہاں ایک طرف مخالفین اور حق کے دشمن آپ کو دنیاوی عدالت کے ذریعہ ذلیل کرنے کی کوشش میں لگے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف آپ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سربسجود نظر آتے ہیں اور اپنی کامیابی پر بھی اپنے مخالف کو کبھی نیچا یا کمتر دکھانے کی کوشش نہیں کرتے جیسا کہ عموماً دیکھا جاتا ہے بلکہ ہر آن اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے ساتھ محبت اور شفقت کا نمونہ دکھاتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم۔ اے رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں :آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں ہے بلکہ صرف جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے۔ اس اصل کے ماتحت جہاں تک ذاتی امور کا تعلق ہے آپ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ سلوک تھا اور اشد ترین دشمن کا درد بھی آپ کو بے چین کر دیتا تھا۔… جب آپ کے بعض چچا زاد بھائیوں نے جو آپ کے خونی دشمن تھے آپ کے مکان کے سامنے دیوار کھینچ کر آپ کو اور آپ کے مہمانوں کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیا اور پھر بالآخر مقدمہ میں خدا نے آپ کو فتح عطا کی اور ان لوگوں کو خود اپنے ہاتھ سے دیوار گرانی پڑی تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے آپ ؑ سے اجازت لیے بغیر ہی ان لوگوں کے خلاف خرچہ کی ڈگری جاری کروا دی۔ اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عاجزی کا خط بھجوا کر رحم کی التجا کی۔ آپ نے نہ صرف ڈگری کے اجراء کو فو راً رُکوا دیا بلکہ اپنے ان خونی دشمنوں سے معذرت بھی کی کہ میری لا علمی میں یہ کارروائی ہوئی ہے جس کا مجھے افسوس ہے اور اپنے وکیل کو ملامت فرمائی کہ ہم سے پوچھے بغیر خرچہ کی ڈگری کا اجراء کیوں کروایا گیا ہے۔ اگر اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو وہ دشمن کی ذلت اور تباہی کو انتہا تک پہنچا کر صبر کرتا۔ مگر آپ نے ان حالات میں بھی احسان سے کام لیا اور اس بات کا شاندار ثبوت پیش کیا کہ آپؑ کو صرف گندے خیالات اور گندے اعمال سے دشمنی ہے، کسی سے ذاتی معاملات میں آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست ہیں … اسی طرح جب ایک خطرناک خونی مقدمہ میں جس میں آپ پر اقدام قتل کا الزام تھا آپ کا اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش ہوا اور آپ کے وکیل نے مولوی صاحب کی گواہی کو کمزور کرنے کے لیے ان کے بعض خاندانی اور ذاتی امور کے متعلق ان پر جرح کرنی چاہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی ناراضگی کے ساتھ اپنے وکیل کو روک دیا اور فرمایا کہ خواہ کچھ ہو مَیں اس قسم کے سوالات کی اجازت نہیں دے سکتا اور اس طرح گویا اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی۔ (سلسلہ احمدیہ ،جلد اوّل صفحہ 217) اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا : ’’قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیّت سے ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر مَیں نے اسے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہر گز نہ لگاؤ جس سے اسے مفرّ نہ ہو۔ حالانکہ ان ہی لوگوں نے میرے پر جھوٹے الزام لگائے۔ جھوٹا مقدمہ بنایا۔ افتراء باندھے اور قتل اورقید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ میری عزت پر کیا کیا حملے کر چکے ہوئے تھے۔ اب بتلاؤ کہ میرے پر کونسا خوف ایسا طاری تھا کہ میں نے اپنے وکیل کو ایسا سوال کرنے سے روک دیا۔ صرف بات یہ تھی کہ مَیں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دے اور اسے کوئی راہ مفرّ کی نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات ، جلد 3، صفحہ 59۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ چندو لعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے الہام اِنِّیۡ مُھِیۡنٌ مَنۡ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خدا نے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے۔ وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل و خوار ہو گا؟ آپ نے فرمایا: بے شک۔ اس نے کہا۔ اگر مَیں کروں ؟ آپ نے فرمایا چاہے کوئی کرے۔ تو اس نے دو تین دفعہ کہا اگر مَیں کروں ؟ آپ یہی فرماتے رہے چاہے کوئی کرے۔ پھر وہ خاموش ہو گیا۔ (سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ 63) اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی نسبت کس قدر غیرت رکھتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کرم دین والا مقدمہ چلا تویہی ہندو مجسٹریٹ تھا۔ آریوں نے اسے ورغلایااور کہاکہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ سزا دے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔ جب خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو ڈر گئے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گورداسپور حاضر ہوئے جہاں مقدمہ کے دوران آپ ٹھہرے ہوئے تھے اور کہنے لگے کہ حضور! بڑے فکر کی بات ہے۔آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے۔ آپ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: خواجہ صاحب! خدا کے شیروں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔میں خدا کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ پیش ہوااور دونوں کو سخت سزا ملی۔ان میں سے ایک تو معطل ہو ا اور ایک کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مرگیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہوگیا۔ (ماخوذتفسیر کبیرزیرِ تفسیر سورۃ النور صفحہ 343) جو خُدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی حد سے زیادہ توہین اور تذلیل کی جاتی ہے اور ہر طرف سے وہ دُکھ دئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ اپنے پیاروں کی مدد کو دوڑتا چلا آتا ہے اور دشمن کی صف لپیٹ کر اسے خاب و خاسر کردیتا ہے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں : ’’ہر ایک جو مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ میں اپنا ہا تھ ڈالتا ہے کیونکہ وہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اس پر حملہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔وہی فرماتا ہے کہ اِنِّیۡ مُھِیۡنٌ مَنۡ اَرَادَ اِھَانَتَکَ یعنی میں اس کوذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ۔ 101 ) اسی طرح مخالفین کو مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا: ’’کوئی زمین پر نہیں مر سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے۔ میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ خدا سے ابراہیمی نسبت ہے۔کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا۔ مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اُکھڑ سکوں۔ اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لیے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل بنا کر ان کے منہ پر مار ے گا‘‘۔ (اربعین نمبر 4۔روحانی خزائن جلد 17صفحہ 472،473 ) مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ انبیاء سے بڑھ کر کوئی انسانیت کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو اکرتا لیکن جب انبیاء سچی ہمدردی اور خیر خواہی کی غرض سے گمراہ مخلوق کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور انہیں بہتے پانی کی رَو کے مقابل تیرنے کی تعلیم دیتے ہوئے صراطِ مستقیم دکھاتے ہیں تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : " یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مخالف مذہبوں کے لوگوں سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں بلکہ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہم ہیں۔ لیکن کیا کریں ہمارا مسلک اس جرّاح کی طرح ہے جس کو ایک پھوڑے کو چیرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اس پر مرہم لگاتا ہے۔ بے وقوف مریض پھوڑے کو چیرنے کے وقت شور مچاتا ہے حالانکہ اگر وہ سمجھے تو اس پھوڑے کو چیرنے کی اصل غرض اسی کے مفید مطلب ہے کیونکہ جب تک وہ چیرانہ جاوے گا اور اس کی آلائش دُور نہ کی جاوے گی وہ اپنا فساد اَور بڑھائے گا اور زیادہ مضر اور مہلک ہوگا۔ اسی طرح پر ہم مجبور ہیں کہ ان کی غلطیاں ان پر ظاہر کریں اور صراطِ مستقیم ان کے سامنے پیش کریں "۔ (ملفوظات، جلد چہارم، صفحہ 623) آپ مزید فرماتے ہیں : ’’دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ مَیں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ مَیں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور نا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول‘‘۔ ( اربعین نمبر1۔روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344) ایک اَور موقع پر فرمایا:’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور مَیں نماز میں مصروف ہوں ،میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جائے تو مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جائے۔اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 305) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے بیان کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہوئے، قتل کے فتوے اور منصوبے بنائے گئے، اخبارات اور خطوط میں گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔آپ کوگالیوں سے بھرے بیرنگ خطوط بھیج دیے جاتے یعنی جن پر ٹکٹ نہ لگا ہوتا تھا۔چنانچہ حضور ایسے خطوط کی پوسٹل اسٹیمپ کے پیسے خود ادا کر کے وہ خطوط وصول کرتے اور جب کھولتے تو اوّل سے آخر تک فحش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ آپ ان پر سے گزر جاتے اوران شریروں کے لیے دعا کرکے ان کے خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ) اسی طرح حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ 29 جنوری 1904 ء کا واقعہ ہے کہ حضور کے سامنے ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار بڑی گالیاں دیتا ہے۔ آپ نے فرما یا صبر کرنا چاہیے۔ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّم کہا کرتے تھے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں۔ میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم)۔فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے میری نسبت فرمایا ہے: یَحمَدُکَ اللّٰہ ُمِن عَرْشِہٖ یعنی اللہ تعالیٰ عرش سے تیری حمد کرتا ہے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓصفحہ 450) میرٹھ شہر سے ایک شخص احمد حسین شوکت نامی نے ایک اخبار ’’شحنہ ہند‘‘ جاری کیا ہوا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا اور اس طرح پر جماعت کی دلآزاری کرتا۔ میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی۔ 2 اکتوبر 1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ شیخ عبدالرشید صاحب نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کروں۔ حضرت اقدس ؑ نے کامل توکّل سے فرمایا : ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدّم کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ۔ صفحہ 113) بقول حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سارے نبیوں کے مخالفوں کا ہمیں یہی دستور دکھائی دیتا ہے کہ وہ گالیاں دیتے آئے، انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو ستاتے اور دکھ دیتے آئے، انہیں مارتے اور پیٹتے رہے، ان پر پتھر برساتے رہے،اور بالمقابل ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں نے ہمیشہ گالیاں کھائیں ،تکالیف برداشت کیں ، دکھ سہے،رنج وغم برداشت کیے۔ تو اب بھی ہماراکام ہے کہ ہم گالیاں کھائیں اور ان کا کام ہے کہ وہ گالیاں دیں۔ بقولِ غالب: وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور یقیناً تھے تو پھر آپ کے منکروں کویقینی طور پر وہی نمونہ دکھانا چاہیے جو ہمیشہ سے انبیاء کے منکرین دکھاتے چلے آئے ہیں۔ اُن کا فرض ہے کہ وہ ابراہیمؑ کے منکروں کی طرح ہمارے لیے آگ جلائیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ موسیٰؑ کے منکروں کی طرح ہمارے پلوٹھوں کو ہلاک کردیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ عیسیٰؑ کے منکروں کی طرح ہمیں صلیب پر لٹکائیں ، ان کا فرض ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کی طرح ہمیں اپنے وطن سے بے وطن کردیں ،ہمیں موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کریں اور ہر رنگ میں تکلیف اور اذیت پہنچا کر خیال کریں کہ وہ نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ہر ایک مخالف کا حق ہو گا کہ وہ ہم سے پوچھے اگر مرزا صاحب نبی تھے تو کیا ان کے منکروں نے وہ کام بھی کیے جو دوسرے انبیاء کے منکر کرتے چلے آئے ہیں ؟ پس جو اُن کا کام ہے وہ انہیں کرنے دواور جتنا شور وہ مچانا چاہتے ہیں انہیں مچانے دواوریاد رکھیں وہ جتنی زیادہ ہماری مخالفت کریں گے اتنے ہی ہماری صداقت میں ثبوت مہیا کریں گے۔ ( ماخوذ از خطبات محمود۔ سال 1933 ء صفحہ 65،66 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اے لوگو! تم یقیناً سمجھولو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں۔ یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ گے تو قریب ہے کہ پتھر میرے لیے گواہی دیں۔ … وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اس کے لیے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ مَیں اس میں سستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں … خدا کے مامورین کے آنے کے لیے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھرجانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقیناًَ سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔خدا سے مت لڑو۔ یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کردو‘‘۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 50) پس وہ دن دُور نہیں جب مسیح محمدی کا چاند اکناف ِ عالم َ میں پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی چمک دکھا رہا ہوگا اور اس کی کرنیں ہر سُو روشنی پھیلا رہی ہوں گی۔لیکن اس کی راہ میں حائل مشکلات اور مصائب کا مقابلہ ہم نے صبر اور دعاؤں کے ساتھ کرنا ہے۔آج یہ ظلم کرنے والے اپنے زُعم میں اپنے آپ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھ رہے ہیں لیکن وقت آئے گا کہ یہی لوگ مظلوم مومنین کے زیرِنگین کیے جائیں گے۔یاد رکھیں ہماری فتح کا ہتھیار تو یہ دعائیں ہی ہیں اور یہی ہتھیار ہے جو دشمن کے شر ان پر الٹائے گا۔ جس شدت کے ساتھ ہم اس ہتھیار کو استعمال کریں گے اُسی قدر ہم جلد احمدیت کی فتح کے نظارے دیکھیں گے۔ پس ہم نے اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃ کے حکمِ الٰہی کو اپنی ڈھال بناناہے۔ حَسْبُنَا اللّٰہ کی پناہ میں آنا ہے،ہر ابتلاء اور تکلیف پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بَشِّرِالصَّابِرِیْنَ، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ اور أُولٰئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ وَأُولَـئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُونَ کی خوشخبری کا نقاّرہ بج جائے۔ آمین