(تقریر: حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 2جون 1929ء برموقع جلسہ سیرۃالنبیؐ بمقام قادیان) غیر مذاہب کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل اب مَیں مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں سے کیا سلوک کیا اور ان کے متعلق کیا تعلیم دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح طور پر یہ تعلیم دی ہے کہ کسی کی خوبی کا انکار نہیں کرنا چاہئے اور یہ بھی کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں جن کا انکار کرنا ظُلم ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے وَقَالَتِ الۡیَہُودُ لَیۡۡسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیۡۡء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیۡۡسَتِ الۡیَہُودُ عَلَی شَیۡۡء ٍ وَہُمۡ یَتۡلُونَ الۡکِتَابَ (البقرہ:114)۔ فرمایا کیسے ظلم کی بات ہے، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں اور یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں ، حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں۔ کیا اس میں کوئی بھی خوبی نہیں۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ دوسروں کی خوبی کو تسلیم کرنا چاہئے۔ جو شخص کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں کوئی خوبی نہیں ، وہ غلطی کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایسی اعلیٰ تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ تمام اقوام کے دل رکھ لئے ہیں۔ کسی کے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں اس مذہب کے پیروؤں کے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے۔ اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ہر قوم کی خوبی تسلیم کرو۔ اس طرح آپ نے تمام قوموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ دوم: آپؐ نے فرمایا کہ کسی مذہب کے افراد کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ اپنے مذہب کو فریب سے مانتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ پہلے مذاہب بگڑ چکے ہیں تاہم ان کے ماننے والوں میں سے اکثر انہیں دل سے سچا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں بعض یہود اور نصاریٰ کی تعریف آئی ہے۔ یہودیوں کے متعلق آتا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر انہیں پہاڑ کے برابر بھی سونا دے دیا تو وہ اس میں خیانت نہ کریں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں میں ایسے لوگ تھے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے تھے۔ آجکل مسلمانوں میں بھی یہ نقص پیدا ہوگیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور باوجود اس کے ان کو نہیں چھوڑتے۔ حالانکہ ہندوؤں ، عیسائیوں ، یہودیوں میں سے 99 فی صدی ایسے ہیں جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ ہیں جو خدا کا ذکر سن کر رونے لگ جاتے ہیں ، خشیّت سے ان کے دل بھر جاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ اپنے مذہب کو فریب سے ماننے والے ہوسکتے ہیں۔ یہ تعلیم دے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے احساسات کا ادب اور احترام کرنا سکھایا ہے۔ تیسری تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ آپ نے حکم دیا سب قوموں کے متعلق تسلیم کرو کہ ان میں انبیاء آئے۔ اس بات پر اجمالی طور پر ایمان لاؤ کہ سب اقوام میں نبی آئے۔ اس طرح آپ نے انٹرنیشنل لاء کو مذہب میں جاری کردیا۔ گزشتہ جنگ کے دوران میں روس کی حکومت میں تبدیلی ہوگئی جس پر باقی حکومتیں اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں۔ روسی اس کے لئے منّتیں کرتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ بعض لوگ کہیں گے دوسری حکومتوں کے تسلیم کرلینے سے کیا فائدہ ہوتا ہے کہ روسی اس کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس میں بہت بڑے فائدے ہوتے ہیں جس حکومت کو دوسری حکومتیں تسلیم کرلیں ، اسے بین الاقوامی قانون کے فوائد حاصل ہونے لگ جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے تمام مذاہب کے حقوق کو تسلیم کیا اور یہ قرار دیا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں۔ ان مذاہب کی غلط باتوں سے اختلاف بھی کیا، ان کا مقابلہ بھی کیا مگر ان کے ماننے والوں کے احساسات کا احترام کیا اور ان کے حقوق قائم کئے۔ یہ بہت بڑا حق تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دیا۔ چوتھی تعلیم آپ نے یہ دی کہ جب کسی قسم کی بحث ہو تو گالیوں پر نہ اُتر آؤ۔ چنانچہ آتا ہے: لاَ تَسُبُّواۡ الَّذِیۡنَ یَدۡعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدۡواً بِغَیۡۡرِ عِلۡمٍ (الانعام:109)۔ جب دوسری قوموں سے جھگڑا ہو تو وہ ہستیاں جنہیں تم نہیں مانتے، خواہ انہیں خدا کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہو، انہیں تم بُرا نہ کہو ورنہ وہ بھی اس خدا کو گالیاں دیں گے جسے تم مانتے ہو۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت کلامی سے روکا ہے۔ پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہیں کرنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سمجھا جاتا تھا جس قوم سے مذہبی اختلاف ہو اس پر حملہ کرکے اس کو تباہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ فرمایا: وَقَاتِلُواۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُونَکُمۡ وَلاَ تَعۡتَدُواۡ (البقرہ:191)۔ تم جنگ کرسکتے ہو مگر انہی سے جو تم پر حملہ آور ہوں۔ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کبھی کسی پر حملہ نہ کرنا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کو حُریّت ضمیر عطا کی کہ خواہ کسی کا کوئی مذہب ہو، اس وجہ سے کسی کو حق نہیں کہ اسے مارے یا نقصان پہنچائے۔ چھٹا سلوک آپ نے یہ کیا کہ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دیا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہدایت صرف ہماری قوم کے لئے ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا اور اپنی قوم اور دوسری قوموں میں کوئی فرق نہیں رکھا چنانچہ فرمایا: اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف:159)۔ مَیں دنیا کی سب اقوام کے لئے رسول ہوکر آیا ہوں ، سب کو ہدایت کا رستہ دکھاسکتا ہوں۔ ساتواں حق غیرمسلم اقوام کا یہ قرار دیا کہ فرمایا عہد وہی قائم نہیں رکھنا چاہئے جو اپنی قوم کے اندر ہوا ہو بلکہ خواہ کسی قوم سے عہد ہو، اسے قائم رکھنا چاہئے۔ لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہوتی ہے اور اس غلطی میں وہ مسلمان بھی مبتلا ہوگئے ہیں جو قرآن کریم پر تدبّر نہیں کرتے کہ غیروں سے جو عہد ہو، اسے توڑ دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے: وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوۡمٍ خِیَانَۃً فَانبِذۡ إِلَیۡۡہِمۡ عَلَی سَوَاء (الانفال:59) کہ اگر کوئی قوم عہد توڑ دے تو اسے بتا دینا چاہئے کہ تم نے عہد توڑ دیا ہے اب ہم پر بھی عہد کی پابندی نہیں۔ یونہی اس پر حملہ نہیں کردینا چاہئے۔ چنانچہ ابوسفیان جب مکّہ سے آیا اور آکر اس نے کہا اب مَیں نئے سرے سے عہد کرتا ہوں ، تو اس موقع پر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو اچانک حملہ کرسکتے تھے۔ مگر آپ نے فرمایا: ابوسفیان تم نے یہ اعلان کیا ہے، مَیں نے نہیں کیا اور اس طرح بتادیا کہ ہم حملہ کریں گے۔ اس کے مقابلہ میں آج کل کیا ہوتا ہے، یہ کہ جب کسی پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ پیچھے اٹلی نے جب ترکی پر حملہ کیا تو اس حملہ سے تین دن قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے آج کل ایسے اچھے تعلقات ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ اس لئے تھا تاکہ ترکی بالکل غافل رہے۔ مگر ابوسفیان نے جب اعلان کیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو آپ پر کوئی ذمہ واری عائد نہ ہوتی تھی۔ مگر آپ خاموش نہ رہے اور فرمادیا کہ یہ تمہارا اعلان ہے، ہمارا نہیں۔ اس طرح ان کو بتادیا کہ ہم حملہ کریں گے۔ آٹھویں آپ نے یہ تعلیم دی کہ مسلم اور غیرمسلم کے تمدّنی حقوق ایک قرار دیئے۔ یہ بات صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آپ سے پہلے نہ تھی۔ یہودیوں کو یہ حکم تھا کہ تم اپنے بھائیوں یعنی یہودیوں سے سُود نہ لو، دوسروں سے لے لیا کرو۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سُود نہ یہودیوں سے لو نہ عیسائیوں سے نہ مسلمانوں سے، غرض کسی سے بھی سُود نہ لو۔ سب سے ایک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمدنی سلوک کے بارے میں مسلم اور غیرمسلم کو ایک قرار دیا۔ نویں تعلیم یہ دی کہ غلاموں کی آزادی میں بھی مسلم اور غیرمسلم کا امتیاز نہیں رکھا۔ کہا جائے گاقرآن میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے۔ مگر یہ حکم اسی موقع کے لئے ہے جہاں مسلمانوں کو نقصان اور صدمہ پہنچا ہو، ورنہ عام طور پر سب غلاموں کی آزادی کا آپؐ نے حکم دیا۔ جنگ حنین کے موقع پر سینکڑوں غلام جو پکڑے آئے، باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھے انہیں آپ نے آزاد کردیا۔ دسویں تعلیم غیرمسلموں کے متعلق آپؐ نے یہ دی کہ جہاں اسلامی حکومت ہو، وہاں مسلمانوں پر زیادہ بوجھ رکھا جائے اور دوسروں پر کم۔ (1) مسلمان لڑائی میں شامل ہوں۔ (2) عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا دیں۔ (3) زکوٰۃ دیں۔ یعنی جمع مال کا حصہ دیں۔ یہ خدمات مسلمانوں کے لئے رکھی گئیں اور غیرمسلموں کے لئے اڑہائی روپیہ کے قریب فی کس ٹیکس رکھا جو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ اور پھر اسی وجہ سے مسلمانوں پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری رکھی گئی ہے۔ آج کل یورپ میں دس دس روپیہ فی کس ٹیکس لگا ہوا ہے اور بعض ممالک میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے زیادہ ٹیکس رکھااور جنگی خدمات بھی ان کا فرض قرار دیا۔ لیکن دوسروں کے لئے ٹیکس بھی کم رکھا اور جنگی خدمات سے بھی آزاد کردیا۔ غیرمذاہب کے انسانوں کے متعلق رسول کریمؐ کا عملی نمونہ اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمذاہب کے انسانوں کے متعلق اپنا عمل کیا رکھا۔ اس کے لئے دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں کیونکہ وقت تنگ ہورہا ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرقوم کے نیک انسانوں کا عملاً احترام کیا۔ لکھا ہے طی قوم سے جب جنگ ہوئی تو کچھ مشرک بطور قیدی پکڑے آئے۔ ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ جانتے ہیں مَیں کس کی بیٹی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کس کی بیٹی ہو؟ اس نے کہا مَیں اس شخص کی بیٹی ہوں جو مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آیا کرتا تھا۔ یعنی حاتم کی۔ وہ مسلمان نہ تھا لیکن چونکہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتا تھا اس لئے اس کی وجہ سے اس کی بیٹی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کردیا۔ اس کا بھائی گرفتاری کے خوف سے بھاگا پھرتا تھا۔ آپؐ نے اُسی وقت اُسے روپیہ اور سواری دے کر کہا کہ جاکر بھائی کو لے آؤ۔ وہ گئی اور اُسے لے آئی۔ اس پر اس سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر غیرمذاہب کے لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور اس وجہ سے اچھا سلوک کیا۔ دوسری مثال نصاریٰ نجران کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ نجران کے نصاریٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کے لئے آئے۔ انہوں نے ایسے رنگ میں بحث کی کہ تاریخوں میں آتا ہے بے ادبی سے گفتگو کرتے رہے۔ جب گفتگو کرتے کرتے اٹھ کر اس لئے جانے لگے کہ ان کی نماز کا وقت آگیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز اداکرلو۔ چنانچہ انہوں نے مسجد میں ہی اپنی صلیبیں نکالیں اور انہیں سامنے رکھ کر عبادت کرلی۔ (زرقانی مؤلفہ علامہ محمد عبدالباقی۔ جلد 4 صفحہ41۔ مطبوعہ مصر 1327ھ) غرض یہ عملی سلوک ہے غیراقوام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانیں لینے کے لئے اور ان پر ظلم کرنے کے لئے آئے تھے۔ جو جانیں لینے کے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں صلیبیں پوجنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپ نے اٰخِرُالْمَسَاجِدِ فرمایا اور جس میں نماز پڑھنے پر دیگر مساجد کی نسبت بہت زیادہ ثواب رکھا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰۃ بمسجدی مکۃ و مدینۃ) اس مسجد میں خداتعالیٰ کے نبی کی موجودگی میں اور اس نبی کی موجودگی میں جو خداتعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے آیا نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرتے ہیں اور آپؐ فرماتے ہیں : کیا حرج ہے بے شک کرلو۔ آج بڑے بڑے حوصلہ والوں کی بھی اتنی جرأت نہیں کہ اپنی عبادت گاہوں میں غیرمذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے دیں۔ تیسری مثال یہ ہے کہ آپ ہمسایوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے کہ صحابہ ہر وقت اس کی پابندی یاد رکھتے۔ لکھا ہے کہ ابن عباس ایک دفعہ گھر میں آئے۔ انہوں نے دیکھا کہیں سے ان کے ہاں گوشت آیا ہے۔ انہوں نے گھر والوں سے پوچھا کہ اپنے ہمسائے یہودی کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں ؟ آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ گھر والوں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مَیں نے سنا ہے جبرائیل نے اتنی دفعہ ہمسایہ کے حق کی تاکید کی کہ مَیں نے سمجھا اسے وراثت میں شریک کردیا جائے گا۔ یہ عملی سلوک تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آپ نے غیرمذاہب کے لوگوں سے روا رکھا۔ آپؐ لوگوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے کسی یہودی نے کہا کہ موسیٰ کی قسم! جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اسے طمانچہ مار دیا۔ جب یہ معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے حضرت ابوبکر جیسے انسان کو زجر کی۔ غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسے طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے اور وہ اسے طمانچہ مار بیٹھتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کیوں تم نے ایسا کیا۔ اسے حق ہے جو چاہے عقیدہ رکھے۔ چوتھی مثال۔ فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور اس نے گوشت میں زہر ملادیا۔ جب آپؐ کے سامنے رکھا گیا تو ایک صحابی بُشرؓ نے اس میں سے کھالیا۔ مگر آپؐ کو الہاماً معلوم ہوگیا۔ اس لئے آپؐ نے لقمہ اٹھاکر پھر رکھ دیا۔ آپؐ نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کھانے میں تو زہر ہے۔ اُس نے کہا آپ کو کس نے بتلادیا۔ آپ نے ایک ہڈی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اس نے۔ یہودن نے کہا: مَیں نے اس لئے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کے سچے نبی ہیں تو آپ کو یہ بات معلوم ہوجائے گی۔ اگر جھوٹے ہیں تو دنیا کو آپ کے وجود سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: اسے کچھ نہ کہو۔ حالانکہ وہ صحابی بُشرؓ فوت ہوگئے۔ آپ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا صحابی فوت ہوگیا مگر آپ نے عورت ہونے کی وجہ سے اُسے چھوڑ دیا۔ حالانکہ اُس نے آپ کی اور آپ کے مخلص صحابہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس طرح اسلام کو بیخ و بُن سے اُکھیڑنا چاہا تھا۔ یہ کتنا بڑا سلوک تھا۔ پانچویں مثال۔ جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو حکم دیتے کسی قوم کی عبادت گاہیں نہ گرائی جائیں۔ ان کے مذہبی پیشواؤں کو نہ مارا جائے۔ عورتوں پر اور بوڑھوں ، بچوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے یہ رواج تھا کہ پادریوں اور صوفیوں کو مار ڈالا جاتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روک دیا۔ اگر آپ دیگر مذاہب کے ایسے دشمن ہوتے جیسے مخالفین آپ کو قرار دیتے ہیں تو کیا آپ یہ حکم دیتے کہ ان مذاہب کے رہنماؤں کو چھوڑ دیا جائے۔ آپ تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ان کو مارا جائے۔مگر آپؐ نے فرمایا جو تلوار لے کر حملہ کرتا ہے اسے مارو لیکن جو لوگ مذہبی کاموں میں لگے ہوئے ہوں ، ان کو نہ مارو۔ چھٹی مثال۔ دنیا میں طریق رائج ہے کہ جن لوگوں سے جنگ ہوئی ہے، ان کے احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مفتوح اقوام کو ہر طرح دبانے اور ان کے جذبات کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انگریزی حکومت بڑی مہذّب کہلاتی ہے مگر آج تک لاہور میں لارنس کا مجسّمہ ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا ہے۔ جس کے نیچے ہندوستانیوں کو مخاطب کرکے لکھا ہے: ’’قلم کی حکومت چاہتے ہو یا تلوار کی‘‘۔ ہر ہندوستانی سمجھتا ہے کہ اس میں اہل ہند کی ہتک کی گئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ اگر تم قلم کی حکومت نہ مانوگے تو تلوار کے زور سے تم پر حکومت کی جائے گی۔ ہندوستانیوں نے اس مجسّمہ کے ہٹائے جانے کے لئے بڑا زور بھی لگایا۔ مگر گورنمنٹ نے نہیں مانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے۔ مکّہ والوں نے آپؐ پر کس قدر ظلم کئے تھے۔ متواتر 13 سال مکّہ والے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کرتے رہے۔ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا۔ رسیوں سے باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹا گیا۔ بعض مردوں اور عورتوں کی آنکھیں نکال دی گئیں اور یہاں تک ظلم کئے گئے کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا۔ وہاں بھی ان لوگوں نے آپؐ کو چین نہ لینے دیا۔ وہاں کے لوگوں کو آپؐ کے خلاف اُکسایا۔ قیصر اور کسریٰ کی حکومتوں کو اشتعال دلایا۔ مگر جب ایسی قوم کے خلاف آپ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ چڑھائی کرکے جاتے ہیں تو ابوسفیان آجاتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے اہلِ مکّہ کے سارے مظالم ایک ایک کرکے آرہے ہیں۔ ان کا خون جوش سے اُبل رہا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ آج ہم اپنے بھائیوں کے خون کے ایک ایک قطرہ کا بدلہ لیں گے۔ اس وقت فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر کہتا ہے آج مکّہ والوں کی خیر نہیں ، ہم ان کے ظلموں کا ان سے بدلہ لیں گے۔ اس پر ابوسفیان آگے بڑھ کر شکایت کرتا ہے کہ اس شخص نے ہمارا دل دکھایا ہے۔ (کس کا؟ شدید دشمن، بالمقابل لشکر کے کمانڈر کا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس شخص کو بلوایا اور فرمایا آپ کو معزول کیا جاتاہے کیونکہ آپ نے کفار مکّہ کے احساسات کا خیال نہیں رکھا۔ دیکھو ابھی معلوم نہیں کہ مکّہ والے کیا رویّہ اختیار کریں گے، لڑائی کا کیا نتیجہ رونما ہوگا۔ مگر مکّہ والوں کے ایک سردار کے یہ کہنے پر کہ فلاں افسر نے ہمارا دل دکھایا ہے، ایک کمانڈر کو معزول کردیا جاتا ہے۔ کیا دنیاکی تمام جنگوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جاسکتی ہے۔ کمانڈر چھوڑ نائیک (Nike) اور لانس نائیک (Lance Nike) کی مثال بھی نہیں دکھائی جاسکتی کہ اسے اس لئے سزا دی گئی ہو کہ اس نے میدان جنگ میں کھڑے ہوکر کہا ہو آج ہم دشمن کی خوب خبر لیں گے اور اسے پوری پوری شکست دیں گے۔ اب مَیں اپنی تقریر ایک واقعہ کا ذکر کرکے ختم کرتا ہوں۔ مخالفوں کی طاقت کو کچلنے کا آخری موقع فتح مکّہ تھا۔ مگر دیکھو کس محبت اور پیار کا معاملہ آپ نے ان لوگوں سے کیا۔ مغربی تاریخوں میں ایک مشہور شخص ابراہیم لنکن ہوا ہے۔ اس کے زمانہ میں دو گروہوں میں لڑائی ہوئی۔ ایک کہتا کہ غلامی قائم رہنی چاہئے مگر دوسرا گروہ اسے ظلم قرار دے کر مٹانا چاہتا۔ ابراہیم لنکن مٹانے والوں میں سے تھا۔ اس کی بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب دوسرے فریق کو شکست ہوئی تو وہ سر نیچے کئے ہوئے گیا۔ کہتے ہیں وہ دعا کر رہا تھا کہ فیصلہ ہوگیا۔ فوجوں نے اسے کہا کہ بینڈ بجاتے ہوئے جانا چاہئے۔ مگر اس نے کہا نہیں ، اس طرح دوسروں کا دل دکھے گا۔ یہ اس کی خاص خوبی بیان کی جاتی ہے۔ مگر وہ ایسا شخص تھا جسے ان لوگوں نے کوئی ذاتی دکھ نہ دیا تھا۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ پر حملہ آور ہوئے تو ان لوگوں کی غدّاری کی وجہ سے حملہ آور ہوئے تھے۔ اور ان دشمنوں پر حملہ کرنے گئے تھے جنہوں نے قریباً رُبع صدی تک مسلمانوں پر ظلم کئے تھے۔ جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بے حد دُکھ دیئے تھے۔ مگر جب مکّہ کے قریب پہنچے تو سب کمانڈروں کو جمع کیا اور فرمایا جب تم مکّہ میں داخل ہوگے، مَیں ساتھ نہ ہوں گا، تم نے کسی کو مارنا نہیں۔ اور جب مکّہ نظرآیا اور آپ نے مخالفوں کی طرف سے لڑائی کے سامان نہ دیکھے تو سجدہ میں گرگئے۔ کہا گیا ہے کہ لنکن دعا کرتا ہوا گیا تھا۔ مگر اس کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حالت نہ تھی۔ جو دکھ اہل مکہ نے آپ کو دیئے تھے، ان کا لاکھواں حصہ بھی لنکن کو نہ دیا گیا تھا۔ مگر آپ نے قوم کو خونریزی سے بچالیا۔ مسلمانوں کے چار لشکر گئے مگر آپ کسی لشکر کے ساتھ نہ گئے بلکہ اکیلے گئے تاکہ شان نہ ظاہر ہو اور جاکر کعبہ میں نماز پڑھی اور اعلان کردیا کہ جو شخص گھر میں بیٹھا رہے گا، اُسے معاف کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مکّہ کے لوگ آپ کے پاس آئے۔ وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ اپنے مذہب پر قائم تھے۔ اور وہ لوگ تھے جنہوں نے 13 سال کے ہر منٹ میں آپ کو مارنے کی کوشش کی تھی اور اس کے بعد سات سال تک دو سو میل دُور جاکر آپ کی تباہی کی کوشش کرتے رہے تھے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے۔ اگر ان کے جسموں کا قیمہ بھی کردیا جاتا تو یہ ان کے جرموں کے مقابلہ میں کافی سزا نہ تھی۔ مگر جب انہوں نے کہا ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا: لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ (شرح مواھب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 302 طبع بار اوّل مطبع زھریہ مصر) جاؤ تمہیں معاف کیا جاتا ہے اور کوئی گرفت نہیں کی جاتی۔ یہ وہ خاتمہ ہے جو اس جنگ کا ہوا جو آپ کے قدیمی دشمنوں اور آپ کے درمیان ہوئی۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا وہ سن لیں ، اگر کوئی شخص یہ کہلانے کا مستحق ہے کہ اس نے تلوار کے مقابلہ میں عفو سے کام لیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ اگر عمر بھر کے ظلموں اور دکھوں کو کسی نے بخش دیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے مقدس وجود پر کوئی اعتراض کرنے کی بجائے اس کے مخالف بھی اس کی تقدیس کریں گے۔ اب آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ آپس کا تفرقہ دُور ہو اور آپس میں ایسی صُلح کریں کہ ایک دوسرے کے حقوق نہ لیں بلکہ بھائی بھائی بن کر اور ایک دوسرے کے حقوق دیتے ہوئے صُلح کریں۔ (الفضل 5، 7، 8 دسمبر 1944ء)