(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) جلسہ سالانہ قادیان2015ء میں عربوں کی شرکت (3) اس تیسری قسط میں بھی جلسہ سالانہ قادیان میں عربوں کی شرکت کے حوالے سے کچھ مزید امور بیان کئے جائیں گے۔ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کا استقبال عربوں کی رہائش سرائے وسیم میں تھی جس کے ساتھ والے گراؤنڈ میں ربوہ سے جلسہ پر آنے والے قافلوں کی بسیں رکتی تھیں اور پھر یہاں سے مہمانوں کو مختلف رہائش گاہوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ جب بھی کوئی قافلہ آتا تو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ نعرے لگائے جاتے اور أَھْلًا وَسَہْلًا وَّمَرْحَباکہا جاتا۔ بعض عرب احباب نے اس بارہ میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ پاکستان سے آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا جارہا ہے۔ بعض نے پوچھا کہ کیا جلسہ پر آنے والے سب لوگوں کا ایسے ہی استقبال کیا جاتا ہے؟ انہیں بتایا گیاکہ عمومًا مختلف مقامات سے آنے والے قافلوں کا اس طرح استقبال ہوتا ہے۔ اور اس میں تکلف سے بعید دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ کی صداقت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے سے دل کی گہرائیوں سے ایسے نعرے نکلتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے مہمانوں کے استقبال کے لئے ایسا کرنا اور بھی کئی وجوہات لئے ہوئے ہے۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے احمدی تو اذان بھی نہیں دے سکتے کجا یہ کہ انہیں نعرہ لگانے کی اجازت ہو۔ نہ ان کے جلسے ہوتے ہیں نہ بڑے اجتماعات۔ ان کی مسجدیں گرائی جاتی ہیں۔ ان کے کاروباروں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اور احمدی کا جینا دوبھر کر کے اس کے قتل کو بھی ثواب کا موجب سمجھا جاتاہے۔ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ نہ مسجد کو مسجد کہہ سکتے ہیں۔ مسلمان ہیں پہ خود کو مسلم نہیں کہہ سکتے بلکہ اسلامی شعائر پر بھی عمل نہیں کر سکتے۔ اور تو اوراگر السلام علیکم بھی کہہ دیں تو جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حق بنتا ہے کہ ان کا اس شان سے استقبال کیا جائے۔ یہ سن کر بعض عرب احباب وخواتین نے پروگرام بنایا کہ ایسے احمدیوں کے استقبال کے لئے انہیں بھی جانا چاہئے۔ چنانچہ جب لاؤڈ اسپیکر پر نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے تو ان میں سے بعض گراؤنڈ میں بسوں کے پاس جا پہنچتے اور آنے والے مہمانوں سے اپنا تعارف کروا کے ملتے۔ اُن کا درد اِن کی آنکھوں سے اشک بن کر بہنے لگتا اور اِن کی خوشی اُن کے ہونٹوں پر مچلنے لگتی۔ پھر سب خدا کی اس نعمت کا شکریہ اداکرتے کہ اس نے اپنے مسیح ومہدی کو بھیج کر ہمیں ایک ہاتھ پر جمع کردیا اور ہمارے دلوں میں یہ کیسی عجیب اخوت ومحبت پیدا کردی ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔ جلسہ سالانہ کی بعض انتظامی سہولیات اس سال جلسہ سالانہ قادیان کئی ایسی خصوصیات کا حامل رہا جوغیر معمولی طور پر قابل ذکر ہیں۔ چونکہ عرب احباب جلسہ میں حضورانور ایدہ اللہ کے خطاب کے علاوہ جملہ تقاریر کا عربی ترجمہ ہی سنتے ہیں اور سابقہ سسٹم میں بسا اوقات خرابی کے باعث ترجمہ کی آواز کٹ جاتی تھی یا واضح نہ ہوتی تھی، اس لئے اس مشکل کے پیش نظر حضور انور کی خاص ہدایت اور راہنمائی میں کافی تلاش کے بعد اس سال چائنا کی ایک کمپنی کا سسٹم خریدا گیا جو2.4 GHZپر چلنے والا لائسنس فری بینڈ ہے جس کے ایک فریکوئینسی پوائنٹ سے بیک وقت چار زبانوں کا ترجمہ ٹرانسمٹ ہو سکتا ہے۔ اور ٹرانسمیشن Digital Encrypted ہونے کی وجہ سے ایک زبان دوسری کو متاثر نہیں کرتی اور محض چارفریکوئینسی پوائنٹس سے ہی سولہ زبانوں کا ترجمہ چلایا جا سکتا ہے جو جلسہ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ اس نظام میں مترجم بیک وقت سٹیج سے آنے والی آواز کو لے کر اس کا بھی ترجمہ کرسکتا ہے اور ا س کے کسی اور زبان میں ہونے والے لائیو ترجمہ کو بھی لے کر آگے اپنی زبان میں ترجمہ کرسکتا ہے۔ نیز بیک وقت دو مترجم بیٹھ کربھی ترجمہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح لندن سے ہونے والے لائیو ترجمہ کو بھی بآسانی لے کر اس سسٹم پر مہیا کرنے کی سہولت میسر ہے۔ چونکہ یہ نظام مکمل طور پر وائر لیس ہے۔ اس لئے جلسہ گاہ میں کہیں بھی بیٹھ کراس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ عرب احباب نے اسے بہت پسند کیااور اس کے ذریعہ جلسہ کی کارروائی سے بھر پور استفادہ کیا۔ علاوہ ازیں امسال جلسہ گاہ میں واش رومز کے دو یونٹس بنائے گئے تھے۔ ایک مردانہ جلسہ گاہ میں اور دوسرا زنانہ جلسہ گاہ میں۔ ہر یونٹ Steel Structure کے 25 واش رومزاور 45وضو کی ٹوٹیوں پر مشتمل ہے، نیز وضوکے لئے پاؤں دھونے کا انتظام موجود ہے۔ اس انتظام سے بھی جلسہ کے دوران بہت زیادہ سہولت ہو گئی ہے۔ عربوں نے جلسہ کی کارروائی اور تمام تقاریر سے بھر پور استفاد ہ کیا۔ ایک عرب بہن لکھتی ہیں : جب جلسہ کے آغاز کا اعلان ہوا تو میں بہت روئی اور اللہ تعالیٰ کا اس نعمت عظمیٰ پر بہت شکر بھی ادا کیا۔ مَیں اپنی سوچوں میں ایسی ڈوبی کہ چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے چند صحابہ کے درمیان پہلے جلسے میں اسلام کی ترقی کی داغ بیل ڈال رہے ہیں۔ پھر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ حضور علیہ السلام سے عرض کروں کہ اب ہم تقریبًا بیس ہزار کی تعدا د میں اسی قادیان میں جمع ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمار ا یہ جلسہ اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے مقبول ٹھہرے۔ جلسہ سالانہ میں حضور انور کا خطاب سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 28دسمبر 2015ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا اختتامی خطاب لندن میں ارشاد فرمایا۔ اس تاریخی خطاب میں حضور انور نے جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے عربوں کو بھی مخاطب فرما کر بھاری ذمہ داری سونپی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس وقت بھی قادیان میں جلسہ میں شامل ہونے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق ہے ....روس سے بھی اور عرب ممالک سے بھی اور افریقہ سے بھی جن کو احمدیت میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اسی طرح اور ملکوں سے بھی قادیان آئے ہوئے احمدی ہیں جن کو احمدیت میں شامل ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے.... ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں عربوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا اور اللہ تعالیٰ نے دین کی فراست انہیں عطا کی ہوئی تھی لیکن آج جب احمدیت کا سوال آتا ہے تو قرآن کریم کی تعلیم بھی یہ لوگ بھول جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ اور تعلیم بھی بھول جاتے ہیں۔ ان کی فراست پر بھی تالے پڑ جاتے ہیں اور صرف ایک چیز کی رَٹ لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کذّاب تھے، جھوٹے تھے، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے نام نہاد علماء یہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں اب ہندوستان کے مولوی ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مولوی یہ فتوے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعید روحیں احمدیت اور حقیقی اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ عربوں میں سے بھی ہو رہی ہیں ، جیسا کہ مَیں نے کہا اس وقت عرب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان عربوں کا اب کام ہے کہ وہی علم اور وہی فراست دوبارہ اپنے اندر قائم کریں اور آج مسیح موعود کے پیغام کو تمام عرب دنیا میں پھیلا دیں۔ ‘‘ جلسہ کے بعد عربوں کی میٹنگ حضور انور نے جلسہ سالانہ کے خطاب میں عربوں کوتبلیغ کرنے او رحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام تمام عرب دنیا میں پھیلانے کا ارشاد فرمایا تو قادیان میں موجود عرب احباب نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ اور باہمی مشورہ سے حضو رانور کے ارشاد پر عمل کرنے کی سکیم تیار کر کے حضور انور کی خدمت میں بغرض منظوری اور راہنمائی ارسال کی۔ الحمد للہ۔ ایک بیعت عراق سے آنے والے عرب دوست مکرم عبد الستار صاحب نے جلسہ میں شمولیت کے علاوہ انڈیا میں بعض ماہر ڈاکٹرز سے اپنا علاج بھی کروانا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے ایک کزن بھی جماعت کے بارہ میں مزید تحقیق کے لئے تشریف لائے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جلسہ کے ماحول کو دیکھ کر اور بعض احباب سے سوال وجواب کرنے کے بعدجلسہ کے ایام میں ہی بیعت فارم پُر کردیا۔ الحمد للہ۔ بزرگان سلسلہ کے ساتھ ایمان افروز مجالس اس سال جلسہ کے بعدمختلف علماء وبزرگان کے ساتھ بعض ایمان افروز روحانی مجالس سجیں جن سے عربوں نے علمی اور ایمانی وروحانی لحاظ سے بہت فائدہ اٹھایا۔ ہر روز رات کو خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام کے بعض بزرگان یاعلمائے کرام میں سے کوئی شخصیت مہمان ہوتی تھی اورپھر ان کے ساتھ علم ودانش، پندونصائح، ایمان افروز واقعات اور سوال وجواب پر مشتمل یہ عجیب روحانی مجالس تادیر جاری رہتیں ، اور پھر محض چند ساعات سونے کے بعد سب تہجد کے لئے اٹھ جاتے۔ ان مجالس میں مکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدیدربوہ، مکرم ومحترم مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتی سلسلہ، مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، مکرم ومحترم سید قمر سلیمان صاحب، مکرم ومحترم حافظ مظفر احمد صاحب، مکرم ومحترم مرزا فضل احمد صاحب، مکرم ومحترم سیدمدثر احمد صاحب،مکرم ومحترم مرزا علی احمد صاحب (جن کی جہلم میں فیکٹری جلائی گئی)، مکرم ومحترم مرزا عثمان احمد صاحب نیز خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر نوجوان بھی تشریف لائے۔ فجزاھم اللہ خیرا۔ اسی طرح ایک خصوصی نشست مکرم افسر صاحب جلسہ سالانہ قادیان کے ساتھ بھی ہوئی۔ علاوہ ازیں عرب خواتین کو بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض سیدات نے شرف ملاقات بخشا اور ان کے ساتھ بھی علیحدہ ایمان افروز مجالس سجیں جن سے عرب خواتین نے بہت زیادہ علمی اور روحانی فائدہ اٹھایا۔ ایک عرب بچی کی شادی عربوں کی رشتہ ناطہ کمیٹی کے توسط سے ایک سیرین بچی مکرمہ ہبہ المرعی صاحبہ کی شادی قادیان کے ایک مبلغ سلسلہ محمود فانی صاحب سے طے پائی تھی۔ بچی جلسہ پر سیریا سے آنے والے مہمانوں کے ہمراہ قادیان آگئی تھی اور جلسہ کے بعد ان کی شادی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں تمام عرب احباب نے ہر لحاظ سے بچی کے اہل خانہ کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے اپنی دعاؤں سے سرائے وسیم سے رخصت کیاجہاں عربوں کی رہائش تھی۔ مختلف امور کے بارہ میں تاثرات مہمان نوازی پر مامور خدام کی بے لوث خدمت کو سب نے سراہا۔ اس بارہ میں ایک عرب بہن نے لکھا: جن باتوں نے مجھے غیرمعمولی طور پر متاثر کیا وہ جامعہ کے طلبہ کا مہمان نوازی کا اعلیٰ نمونہ اور اس میں ان سب کی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش اور کوشش تھی۔ ایک عرب احمدی نے لکھا کہ جلسہ کے کارکنان میں امیر و فقیر، ڈاکٹرانجینئراورمزدورمیں کوئی امتیاز نہ تھا، سبھی مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے۔ ہر شخص دوسرے کے آرام کے لئے کو شاں تھااور بدلہ میں صرف دعا کا طلبگار تھا۔ ایک بہن نے لکھا کہ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کے واقعات سننے اور ایک شہید کی بیوہ سے ملنے کے بعد ان کے لئے دعا کرنے کے بڑے قوی جذبات پیدا ہوئے۔ ایک اور بہن نے لکھا کہ جب میں نے قادیان اور پاکستان کی احمدی خواتین کا خشوع وخضوع دیکھاتو مجھے ان کے ایمان، خشوع، وقار اور تواضع پر رشک آنے لگا جبکہ اپنی نماز کی حالت پرندامت سی محسوس ہوتی۔ واپسی پر بعض جذبات وتأثرات کسی نے لکھا کہ اس سفر نے مجھے خدا تعالیٰ کے قریب کر دیا ہے۔ کاش یہ روحانی حالت تادیر قائم رہے۔ اور کسی نے یہ کہا کہ اس سفر میں مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں پر کس قدر اثر کیا ہے۔ بعض نے لکھا کہ میرے قادیان آنے سے قبل اور یہاں آنے کے بعد کے ایمان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اورکسی نے لکھا کہ واپس تو آگئے ہیں لیکن دل قادیان میں چھوڑ آئے ہیں۔ ایک بہن نے لکھاکہ قادیان سے رخصت ہوتے وقت میرا دل شدت غم کے باعث قابو سے نکلا جا رہا تھا۔ بہت دعا کی کہ خدا تعالیٰ مجھے اس فراق کو برداشت کرنے کی ہمت دے اور دوبارہ بچوں کے ساتھ یہاں آنے کی توفیق دے۔ شاید یہ حال اخلاص نیت کے ساتھ قادیان جانے والے ہر شخص کا تھا اوراس کے دل سے یہی دعا نکلتی تھی کہ: یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل یونہی لاتا رہے مولیٰ ہمیں سرکار کے پاس ………………… (باقی آئندہ)