’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں جس غرض کے لئے پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائیں کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد کہلاسکیں۔ اگر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو پیدائش کی غرض پوری نہیں ہوسکتی۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ میں اللہ تعالیٰ نے یہی امر بیان فرمایا ہے کہ انسانی پیدائش کی غرض اس کا عبد بننا ہے اور عبودیت کا اظہار صرف قول سے نہیں بلکہ فعل سے بھی ہوا کرتا ہے۔ پس اگر ہم خدا تعالیٰ کے عبد ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری عبودیت کا اظہار دنیا پر نہ ہو اور لوگ یہ محسوس نہ کریں کہ ہمارا کسی بالا ہستی کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمیں دیکھنے اور ہماری حرکات و سکنات کا مطالعہ کرنے والے لوگ ہمارے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ کیا وہ ہمیں دیکھ کر یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا کسی بالا ہستی سے تعلق ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی یا نہیں۔ اگر ہمارے اعمال کو قریب سے دیکھنے والے اپنے دلوں میں یہ محسوس کرتے ہیں اور وہ ہماری چال ڈھال، اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے پر نظر رکھ کر اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ اپنا ہاتھ کسی اَور کے ہاتھ میں دے چکے ہیں ، یہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی نفوس بن گئے ہیں تو ہم خوش ہوسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ میں ہم نے اپنا فرض ادا کردیا لیکن اگر ہمارے اعمال لوگوں کو بغیر ایک لفظ سننے کے یہ یقین نہیں دلاتے کہ ہم کسی اَور ہستی کے غلام ہیں جس کے ہر حکم کے نیچے ہمارے گردنیں جھکی ہوئی ہیں تو ہمارے منہ کے دعوے ہمیں کبھی نجات نہیں دلا سکتے۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد 15 صفحہ 162-163)