(تقریر: حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 2جون 1929ء برموقع جلسہ سیرۃالنبیؐ بمقام قادیان) علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت اب مَیں علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت پیش کرتا ہوں۔ اوّل: علم سائنس میں بغیر توحید کے ترقی نہیں ہوسکتی۔ سائنس اس قانون کی دریافت کا نام ہے جو دنیا میں جاری ہے۔ مثلاً یہ کہ آگ جلاتی ہے پانی پیاس بجھاتا ہے۔ غرض خواص اشیاء جو ایک مقررہ رنگ میں چلتے ہیں، ان کا دریافت کرنا سائنس ہے۔ اب اگر آگ کسی اور خدا نے پیدا کی ہو، درخت کسی اور خدا نے، پہاڑ کسی اور نے، تو یہ چیزیں آپس میں موافقت نہیں رکھیں گی بلکہ ایک دوسرے سے ٹکراتی رہیں گی۔ لیکن جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پرمیشور ایک ہی ہے اور سب چیزیں اسی کے ماتحت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ سب کے لئے ایک ہی قانون جاری ہے اور یہ بغیر ایک خدا کے ہو نہیں سکتا۔ اگر دنیا کی تمام اشیاء کے لئے ایک ہی ہستی قانون جاری کرنے والی نہیں تو پھر سائنس باطل ہے۔ اب پانی میں بجھانے اور آگ میں جلانے کی خاصیت ہے۔ اگر آگ پیدا کرنے والا خدا اور ہو اور پانی پیدا کرنے والا اور، اور وہ اپنی اپنی پیداکردہ چیزوں کی خاصیتیں بدل دیں تو کیا کام چل سکتا ہے۔ مثلاً ایک خدا نے مگنیشیا اس لئے بنایا کہ جلاب لگائے اور دوسرے خدا نے معدہ ایسا بنایا کہ مگنیشیا کے اثر کو قبول کرلے۔ لیکن اگر وہ معدہ کی اس خاصیت کو بدل دے تو پھر خواہ کوئی کتنا مگنیشیا پئے جلاب ہی نہ لگیں گے۔ غرض بغیر توحید ماننے کے سائنس چل ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی دنیا میں ترقی ہوسکتی ہے۔ دوم: بغیر توحید کے عِلم کی تحقیق کی جرأت بھی کسی کو نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ اَور چیزوں میں بھی خدائی طاقتیں ہیں تو ان کی تحقیقات کرنے کی کیونکر جرأت کی جائے گی۔ مثلاً جو شخص کسی چیز کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ بھی ربّ ہے، اسے چیرنے پھاڑنے کے لئے کس طرح تیار ہوسکے گا۔ لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ ایک ہی خدا ہے جس نے باقی سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر انسان ان اشیاء کی تحقیقات کریں گے اور اس طرح علوم میں ترقی ہوگی۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید پر زور دینے کے بعد علوم میں اس قدر ترقی ہوئی جس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر تیرہ سو سال کے اندر اندر علوم نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جو پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی۔ یہ توحید کی وجہ سے ہی علوم نے ترقی کی۔ جب لوگوں نے یہ سمجھا کہ تمام چیزوں کا ایک ہی خدا ہے اور اس نے سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو اس سے علوم میں ترقی کرنے کے دروازے کھل گئے۔ ہر چیز کے متعلق تحقیقات شروع ہوگئی۔ ان پہلوؤں کے علاوہ جن کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور طرح بھی توحید کو قائم کیا ہے۔ یعنی اصولی طور پر توحید کی تعلیم دی ہے۔ آپؐ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ توحید کو مان لو بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح مانو۔ اسی طرح آپؐ نے یہی نہیں فرمایا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ کس طرح شرک نہ کرو اور کس طرح اس سے بچو۔ پھر آپؐ نے صرف یہ نہیں کہا کہ توحید کو مان لوبلکہ توحید کے دلائل دے کر کہا ہے کہ اسے مانو۔ اسی طرح آپؐ نے صرف یہی نہیں کہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل دے کر شرک کی برائی سمجھائی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں شرک کے متعلق آتا ہے: قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ۔ اللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمۡ یَلِدۡ وَلَمۡ یُوْلَدۡ۔ وَلَمۡ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ۔ (الاخلاص: 2تا 5) اس میں چار اقسام کا شرک پیش کرکے اس کا ردّ کیا گیا ہے۔ شرک کی چار اقسام فرمایا: شرک چار طرح کیا جاسکتا ہے۔ اوّل شرک اَحدیت کے لحاظ سے کہ خدا کی ذات ایسی کوئی اور ذات قرار دی جائے۔ یہ درست نہیں کیونکہ ہُوَاللّٰہُ أَحَدٌ ایک ہی ہے، کوئی اس کا ہم پایہ نہیں۔ دوم یہ کہ صفات کے لحاظ سے خدا کا شریک مقرر کیا جائے۔ یہ بھی نادرست ہے۔ کیونکہ اللّٰہُ الصَّمَدُ۔ صمدوہ ہے جس کی مدد کے بغیر کوئی چیز قائم نہ رہ سکے۔ اللہ تعالیٰ کا سہارا اس کی صفات کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خیال کرنا شرک ہے کہ کوئی اَور ہستیاں بھی ہیں جن کی مدد کے بغیر کوئی چیز زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی یا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ سوم یہ کہ کوئی خیال کرے خدا ایک زمانہ میں تھا مگر پھر فوت ہوگیا اور آگے اس کی اولاد چل پڑی۔ یہ بھی شرک ہے۔ اس سے خداتعالیٰ میں یہ نقص ماننا پڑتا ہے کہ وہ فنا ہوجاتا ہے۔ یہ ازلیت کے لحاظ سے شرک ہے۔ چہارم یہ کہ کسی کو خدا کا ہمسر ماننا بھی شرک ہے۔ یعنی یہ کہ کسی دوسرے کو خدا نے اپنی طاقتیں دے دیں اور وہ اس طرح خدا کے برابر ہوگیا۔ یہ بھی شرک ہے۔ یہ چار اقسام شرک کی ہیں۔ دنیا کے سارے شرک ان کے اندر آجاتے ہیں۔ توحید کی تفصیلات پھر توحید کے متعلق فرمایا: اَللّٰہُ لاَ إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ الۡحَیُّ الۡقَیُّومُ لاَ تَأۡخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوۡمٌ۔ لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الأَرۡضِ مَن ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗ إِلَّا بِإِذۡنِہٖ یَعۡلَمُ مَا بَیۡۡنَ أَیۡۡدِیۡہِمۡ وَمَا خَلۡفَہُمۡ وَلاَ یُحِیۡطُونَ بِشَیۡۡئٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖ إِلَّا بِمَا شَآئَ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَ رۡضَ وَلاَ یَؤُوْدُہٗ حِفۡظُہُمَا وَہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ (البقرہ: 256)کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اَلۡحَیُّ اَلۡقَیُّومُوہ اپنی ذات میں زندہ ہے اور دوسروں کو زندہ رکھتا ہے لَاتَأۡخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوۡمٌ۔ پھر اس کے کاموں میں وقفہ نہیں پڑتا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے کاموں میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وقفہ ماننے کا یہ مطلب ہوا کہ اگر خدا کا تعلق دنیا سے نہ رہے تو بھی دنیا اپنے آپ چل سکتی ہے۔ تو فرمایا لَاتَأۡخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوۡمٌ کہ اسے نیند یا اونگھ کبھی نہیں آئی۔ لَہُ مَا فِیۡ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِیۡ الأَرۡضِ ہر ایک چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ انسان کو چاہئے ہر چیز کے متعلق یہی سمجھے کہ اس کا اصل مالک خدا ہی ہے اور کسی کا اختیار اس پر نہیں ہے۔ مَن ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہُ إِلَّا بِإِذۡنِہٖ پھر یہ بھی تسلیم کرے کہ بے شک دعائیں قبول کرنے کا سلسلہ خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے۔ مگر یہ خیال نہ کرے کہ کوئی خدا سے کوئی بات زور سے منوا سکتا ہے۔ خدا خود کسی امر کے متعلق اجازت دے کہ لو اب مانگو تو انسان مانگ سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ یَعۡلَمُ مَا بَیۡۡنَ أَیۡۡدِیۡہِمۡ وَمَا خَلۡفَہُمۡ۔ وہ جانتا ہے جو ہوچکا یا جو ہوگا۔ توحید کے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرّف کامل نہیں ہوسکتا۔ پس خداتعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے۔ وَلَا یُحِیۡطُونَ بِشَیۡۡء ٍ مّنۡ عِلۡمِہِ إِلاَّ بِمَا شَآئَ اور کوئی انسان خدا کے دیئے ہوئے علم کے بغیر کچھ نہیں حاصل کرسکتا۔ پس انسان سمجھے جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے خدا ہی سے حاصل ہونا ہے۔ آگے فرمایا وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرۡضَ اس کی کرسی ساری زمین اور آسمانوں پر چھاگئی۔ کرسی وہ مقام ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہر ذرّہ جو حرکت کرتا ہے، خدا کے تصرّف کے ماتحت کرتا ہے۔ اس کے مانے بغیر بھی توحید کامل نہیں ہوسکتی۔ آگے فرمایا وَلاَ یَؤُودُہُ حِفۡظُہُمَا وہ جو حفاظت کر رہا ہے اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا، ہمیشہ جاری رہے گی۔ وَہُوَ الۡعَلِیُّ باوجود اس کے کہ ہر ذرّہ ذرّہ سے اس کی قدرت ظاہر ہورہی ہے، وہ اتنا بلند ہے کہ کوئی خودبخود اس کی کُنہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ الۡعَظِیۡمُ مگر وہ بلندی پر ہی نہیں کہ کوئی اس کی کُنہہ تک نہ پہنچ سکے بلکہ وہ عظیم بھی ہے۔ قدرتوں کے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے، اسے پاسکتا ہے۔ ہر شخص بڑی جلدی اس تک پہنچ سکتا اور اس کا وصال حاصل کرسکتا ہے۔ پس بتایا کہ توحید کامل یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال ہوجائے۔ جب کوئی خدا کو پالے، اس وقت اسے توحید کامل حاصل ہوگئی۔ گویا اتّصال کا نام ہی توحید ہے۔ یہ وہ توحید ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہے کہ اسی دنیا میں خدا سے ایسا وصل ہوجائے کہ انسان کا اپنا وجود مٹ جائے اور خدا ہی خدا باقی رہے۔ توحید کے معنیٰ توحید کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کو ایک بتانا اور ایک قرار دینا، یعنی اپنی زبان کے اقرار کے علاوہ اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا کہ خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسان کی مرضی مطابقت نہیں رکھتی، اگر خدا تعالیٰ کے ارادوں سے انسان کے ارادے نہیں ملتے تو وہ توحید کا سچا اقرار نہیں کرتا۔ اصل توحید یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو مٹاکر دکھادے کہ خدا تعالیٰ ہی کی مرضی دنیا میں چلتی ہے۔ دلائل سے شرک کا ردّ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل سے شرک کا ردّ فرمایا ہے۔ آپؐ نے شرک کے ردّ میں ایک دلیل یہ دی کہ کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو۔ ہر ایک چیز دوسری کی محتاج ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے، اس کا تعلق سورج سے ہے۔ گرمی پانی کو بخارات بناکر اُڑاتی ہے اور اس طرح بادل بنتے ہیں۔ پھر اس سے زمین کی گردش کا تعلق ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا ایک سلسلہ چلتا ہے۔ دہلی میں ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے ایک شاگرد سے پوچھا میاں تمہیں لڈّو کھانا آتا ہے۔ اس نے کہا یہ کونسی مشکل بات ہے۔ لڈّو اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ انہوں نے فرمایا: نہیں، یہ کھانے کا طریق نہیں۔ کسی دن لڈّو آئے تو تمہیں بتائیں گے کس طرح کھانا چاہئے۔ ایک دن کسی نے لڈّو لاکر پیش کئے تو انہوں نے شاگرد کو بلاکر پاس بٹھالیا اور ایک لڈّو اٹھاکر رومال پر رکھ لیا۔ اس سے ایک تھوڑا سا ٹکڑا توڑا اور کہنا شروع کیا: میاں غلام علی (یہ ان کے شاگرد کا نام تھا) تمہیں پتہ ہے اس لڈّو کی تیاری کے لئے خدا تعالیٰ نے کتنے سامان پیدا کئے۔ اس میں گھی پڑا، میٹھا پڑا، میدہ پڑا اور کتنی چیزیں پڑیں۔ پھر ان چیزوں کی تیاری میں کتنے سامان کئے گئے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ مظہر جان جانان ایک لڈّو کھائے۔ آگے ان کی تشریح کرنی شروع کردی۔ ساتھ ساتھ ہر بات پر محویت میں سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے جاتے تھے۔ اس میں ظہر سے عصر کی نماز کا وقت ہوگیا اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے۔ غرض کوئی چیز دنیا اکی ایسی نہیں جو خودبخود بغیر کسی دوسری چیز کے سہارے کے قائم ہو۔ ہر ایک کا ایک سلسلہ چلتا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے بیسیوں سامان پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ اگر بچہ پیدا کرنے والا کوئی اَور خدا ہو اور اس کی ضروریات پیدا کرنے والا کوئی اَور تو پھر بچہ کے لئے اس کی ضروریات کا کس طرح انتظام ہوتا۔ بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی ضروریات کا انتظام موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے جو بچہ کو پیدا کرنے والا اور اس کے لئے انتظام کرنے والا ہے۔ اسی طرح سب جگہ ایک ہی انتظام اور ایک ہی قانون جاری ہے جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے۔ اور بھی بیسیوں دلائل ہیں۔ لیکن انہیں مَیں اس وقت چھوڑتا ہوں۔ توحید کی اشاعت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مساعی جلیلہ اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اشاعت کے لئے کیا کیا۔ اس کے لئے بھی صرف ایک بات پیش کرتا ہوں۔ آپ سے لوگوں کی ساری دشمنی توحید ہی کے پھیلانے کی وجہ سے تھی۔ ایک دفعہ کفار نے آپ کو کہلا بھیجا اگر مال چاہتے ہو تو ہم تمہیں مال جمع کردیتے ہیں، اگر حکومت چاہتے ہو تو تمہیں اپنا حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں، اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو سارے عرب میں سے خوبصورت عورت پیش کرنے کے لئے تیار ہیں، اور اگر دماغ خراب ہوگیا ہے تو اس کا علاج کرنے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر تم ہمارے بتوں کے خلاف کچھ نہ کہو۔ جب یہ پیغام ایک رئیس نے آپ کو پہنچایا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میری بے نفس خدمت کی ان لوگوں نے کیا قیمت ڈالی ہے۔ اور جواب میں فرمایا: اگر سورج کو میرے دائیں رکھ دو اور چاند کو بائیں اور کہو توحید چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ پیغام لانے والا آپ کا بڑا سخت دشمن تھا۔ مگر آپ کا جواب سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے جاکر اپنے ساتھیوں سے کہا مَیں نے جو باتیں اس کے منہ سے سنی ہیں، ان کی وجہ سے کہتا ہوں اس کی مخالفت چھوڑ دو ورنہ تباہ ہوجاؤگے۔ غرض آپ کو دشمنوں کی طرف سے تمام تکلیفیں توحید کی اشاعت کی وجہ سے دی گئیں۔ آپ کو مارا جاتا، کتّے اور لڑکے آپ کے پیچھے ڈالے جاتے۔ ایک دفعہ آپ طائف گئے تو وہاں کے لوگوں نے اس قدر مارا کہ آپ سر سے لے کر پاؤں تک لہولہان ہوگئے۔ آپ تکلیف کی وجہ سے گرپڑتے لیکن جب اٹھتے تو وہ لوگ پھر آپ پر پتھر پھینکتے۔ ایسی حالت میں بھی آپ کے منہ سے یہی نکلتا خدایا ان لوگوں کو معاف کردے کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں۔ ان تمام حالات میں سے گزرتے ہوئے آپ نے توحید کی تبلیغ کو نہیں چھوڑا اور یہی کہتے رہے کہ خواہ یہ کچھ کریں مَیں توحید کی تبلیغ نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی یہی کہتے فوت ہوئے میرے بعد شرک نہ کرنا۔ اور مَیں تو سمجھتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت بھی خداتعالیٰ نے اپنی توحید کا ثبوت آپ کے والد کو قبل از ولادت اور والدہ کو جلد بعد از ولادت فوت کرکے دیا۔ آپ کی بے کسی کی ابتداء اور شاندار انجام خود خداتعالیٰ کی توحید کا بڑا ثبوت تھا۔ (انوارالعلوم جلد 10 صفحہ 572 تا 577) (باقی آئندہ) ٭…٭…٭