(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) جلسہ سالانہ قادیان2015 میں عربوں کی شرکت (2) قسط گزشتہ میں ہم نے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی غرض سے آنے والے عرب احباب کی قادیان کے مقدس مقامات کی زیارت کا کسی قدر احوال نذرِ قارئین کیا تھا۔ اس قسط میں عربوں کے بارہ میں مزید کچھ بیان کرنے سے قبل خاکسار قادیان میں ہونے والی تعمیراتی ترقی اور اس کی تزئین کے لحاظ سے ہونے والے بعض کاموں کے بارہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔ گو اس حصہ کا عربوں سے کوئی براہ راست تعلق تو نہیں ہے لیکن یہ روز افزوں ترقی اور جاذب نظرتزئین وآرائش اوربڑھتا ہوا حسن وجمال اس بارہ میں بھی چند جملے لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ تاریخی مقدس عمارتوں کی حفاظت وتزئین عہد خلافتِ خامسہ میں قادیان کے مقدس مقامات کو جس طرح محفوظ کیا گیا ہے اور ان کی خوبصورتی کا جس طرح خیال رکھا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اب کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر قادیان کی آبادی کی طرف دیکھا جائے توایسے لگتا ہے کہ دارالمسیح کا علاقہ ایسا خطّہ ٔجمال ہے جو کسی اور مقام سے لا کر اس آبادی کے درمیان رکھ دیا گیا ہے۔ اس کا بلند منارہ اور اس کے جلو میں واقع دار المسیح کی جملہ عمارتوں کا دلنشیں رنگ پوری آبادی سے اسے ممتاز کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد اقصیٰ کے سامنے بننے والی بلند وبالا عمارت سے وہاں نمازیوں کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہو گئی ہے۔ اسی طرح قبل ازیں مسجد اقصیٰ کے پرانے حصہ پر ہی گنبد تھے اورباقی توسیع شدہ حصہ گو پرانی مسجد سے بہت زیادہ تھا لیکن گنبدوں سے خالی تھا۔ اس سال جلسہ سے قبل حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خصوصی راہنمائی میں توسیع شدہ حصہ پر بھی بالکل ویسے ہی گنبد بنا دیئے گئے ہیں جیسے پرانے حصہ پر ہیں۔ اور دونوں اطراف کے گنبدوں کے درمیان میں بڑا سا دروازہ بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال تک مسجد اقصیٰ کو دیکھنے والوں میں سے اکثرنے یہی کہا ہے کہ مسجد کی ظاہری شکل اب مکمل ہوئی ہے۔ اب اس کا بیرونی منظرپہلے کی نسبت اور زیادہ دیدہ زیب ہو گیا ہے۔ اسی طرح سرائے خدام وسرائے انصار اورسرائے وسیم کے سامنے موجود ڈھاب کے بھی اکثر حصہ کو مٹی سے پُر کردیا گیا تھا اور ہمیں بتایا گیا کہ اگلے سال تک اس علاقے کو پھول پودوں سے آراستہ کر دیا جائے گا۔ ایسا ہونے سے دارالمسیح کی طرف آنے والے اکثر راستے پھولوں کے درمیان سے ہو کر ہی آئیں گے۔ فالحمد للہ۔ بلاشبہ اس ظاہری خوبصورتی کے ساتھ وہاں کا روحانی ماحول اور جاذبیت ایک علیحدہ باب ہے۔ اس بیان کے بعد ہم عربوں کے سفر ِ قادیان کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ یَدْعُوْنَ لَکَ ویسے تو ہم نماز فجر کے بعد یا بعض دیگر اوقات میں اکیلے یا بعض عربوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ دعا کے لئے جاتے رہتے تھے لیکن ایک روز جملہ عرب احباب نے مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کے لئے جانے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ سب لوگ مل کر بہشتی مقبرہ گئے اور پھر وہاں پرسب نے انفرادی طورپر بہت لمبی دعائیں کیں۔ یہ منظر دیکھ کر خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کو 1885ء میں ہونے والا مندرجہ ذیل الہام یاد آگیا: ’’یَدْعُوْنَ لَکَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُاللّٰہِ مِنَ الْعَرَب۔ ‘‘ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اس الہام کو تحریر فرمانے کے بعد لکھا ہے کہ: خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو۔ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب‘‘۔ (از مکتوب مؤرخہ6۔ اپریل 1885۔ مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 86) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ آپؑ کے بیعت لینے اور جماعت بنانے سے بھی چار سال پہلے کا الہام ہے۔ اس وقت یہ کہنا کہ عرب آئیں گے اور وہ تیرے لئے دعائیں کریں گے کسی انسان کے اختیار کی بات نہیں ہے۔ اور کوئی انسان ایسا کہہ بھی دے تو اسے پورا کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں کے قبول احمدیت کے بعد مختلف رنگ میں یہ الہام پورا ہوا اورآج بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہورہا ہے۔ اور خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اور کس طرح اور کس عظیم شان کے ساتھ اس نے اس الہام کو پورا فرماناہے، لیکن اس جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر جملہ عرب احباب جب بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر کھڑے ہو کر درد اور بے قراری سے آپ کے لئے دعائیں کررہے تھے توایک چھوٹے پیمانے پر ’’یَدْعُوْنَ لَکَ‘‘ کا وعدہ پوراہونے کا یہ منظر بھی نہایت عجیب، روح پرور اور ایمان افروزتھا۔ حضرت مسیح ِ موعودؑکے مزار مبارک پر جذبات کا حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر کھڑے ہوتے ہی شاید سب کی ہی یہی حالت ہو جاتی ہے ایسے لگتا ہے جیسے سب غم تازہ ہوگئے ہوں، ساری حسرتیں جاگ اٹھی ہوں، جذبات اشکوں میں ڈھلنے لگتے ہیں اور ’’مژگان چشم تر سے خون ناب‘‘ کا سا منظر سامنے آتا ہے۔ کئی عرب احباب کے جذبات کے بارہ میں جان کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ: ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں شوقِ عناں گسیختہ، دریا کہیں جسے اس کا کسی قدر اندازہ بعض عربوں کے جذبات کے بارہ میں پڑھ کر ہوسکتا ہے۔ ایک بہن لکھتی ہیں: بہشتی مقبرہ میں داخل ہوکر یوں لگا کہ جیسے ہم کسی قطعۂ جنت میں داخل ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر کھڑا ہونے کا منظربہت ہی اثر انگیز تھا۔ میں نے مزار مبارک پر کھڑے ہو کر کہا کہ اے مسیح الزمان! میں قادیان میں آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے آئی ہوں۔ پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو یاد کر کے ہم سب بہت روئے اوریوں محسوس ہوا جیسے آج ہمیں آپؑ کی وفات کا شعور حاصل ہوا ہے۔ اس بات کا بھی بہت دکھ ہوا کہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں یہاں آنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور آپ کے گھر جاکرملنے کی بجائے آپؑ کی قبر پر آئی ہوں۔ بہت ہی درد انگیز لمحات اور جذبات تھے۔ کاش کہ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی اس وقت ہمارے ساتھ ہوتے۔ میں نے آپ علیہ السلام کے لئے بہت دعائیں کیں پھرخدا کے حضور عرض کیاکہ اے خدا تو مسیح الزمان ؑ کو میرا سلام پہنچا دے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ پیغام پہنچا دے کہ میں نے آپ کے حکم کے مطابق مسیح محمدی کی بیعت کر لی ہے۔ میری شدید خواہش تھی کہ میں آپ علیہ السلام کو آپ کی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچاتی اور آپؑ کا جواب سنتی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ مَیں حضور علیہ السلام کی قبر کو چھونا چاہتی تھی لیکن انتظامیہ نے مجھے منع کیا کہ یہ شرک ہے۔ میرا مقصد تو اورتھا تاہم میں نے ان کی بات مان لی۔ لیکن بڑی دیرتک اس خواہش میں کھڑی رہی کہ شاید کسی عالم تصور میں یا کسی کشفی نظارہ میں اپنے سلام کے جواب میں آپؑ کی آواز سنوں۔ اسی کیفیت میں مزار مبارک سے واپسی پرمیں اس بات کا انتظار کرتی رہی کہ شاید آپ علیہ السلام میرے لئے دروازہ کھولیں گے۔ پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بھی انتظار کرتی رہی کہ شاید آپ کسی درخت کے نیچے مجھے آملیں گے یا اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے میر ی طرف اشارہ کریں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھرمیں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتی کہ آپ علیہ السلام تو فوت ہو چکے ہیں۔ یہ سوچ کرپھر جذبات سے مغلوب ہوگئی اور بہت روئی، ایسے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے لئے بہت سی دعائیں کیں اورآپ کے اور ہمارے مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرکثرت سے درود بھیجا۔ ایک اور فلسطینی بہن نے لکھا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر مبارک کو پہلی دفعہ دیکھنا بڑا مشکل تھا۔ بڑی خواہش تھی کہ حضور علیہ السلام کے پاس بیٹھتی اور آپ سے باتیں کرتی، لیکن لوگوں کے رش اور گیٹ کی وجہ سے یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ میں نے باہر ہی کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ کا آپ کی بعثت پر شکر ادا کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا۔ میں نے قادیان میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبرِ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر دعا کر رہے تھے۔ میں نے اپنی مصری احمدی بہن سے کہا کہ اگر معلوم ہو جائے کہ حضور انورنے یہاں کھڑے ہو کر کیا دعا مانگی تھی تو مَیں بھی وہی دعا مانگوں۔ انہوں نے کہا کہ تم یہ دعا مانگو کہ اے خدا میں تجھ سے وہی مانگتی ہوں جو تیرے خلیفہ نے مانگا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ اے خدا میں تجھ سے وہی کچھ مانگتی ہوں جوحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تیرے مسیح ؑکی قبر پرکھڑے ہو کر مانگاتھا۔ علاوہ ازیں ایک عرب دوست نے کہا کہ ہمارے ملکوں میں تو ہم دن کے وقت بھی قبرستانوں میں جانے سے گھبراتے ہیں اور رات کو تو ان کے قریب سے بھی گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ لیکن بہشتی مقبرہ میں وہ سکون اور راحت ملتی ہے کہ بار بار آنے کو دل چاہتا ہے۔ متعدد عرب احباب نے کہا کہ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام آپ کو پہنچا رہے تھے تو اس وقت ہماری ایک عجیب جذباتی کیفیت تھی جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں فوت شدہ عرب احمدی موصیان کے کتبے اوائل عرب احمدیوں نے بھی اخلاص ووفا کی داستانیں رقم کی تھیں۔ ترقی ٔایمان، ارتقائے روحانی اور طہارت نفس کے لئے انہوں نے بھی ہر راہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان میں سے بہت سے نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ اور ان کی وفات کے بعد ان کے نام کے کتبے بہشتی مقبرہ قادیان میں لگائے گئے۔ بہشتی مقبرہ کی زیارت کے دوران امسال ان پرانے احمدیوں کے کتبوں کو بھی ڈھونڈ لیا گیا۔ وہاں پر بھی عربوں کو ان مرحومین کے لئے دعا کرنے کی توفیق ملی۔ نیز جن کی وصیت نہیں تھی انہیں وصیت کے نظام میں شامل ہونے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ یہ خوش نصیب سات شامی مرد وخواتین ہیں جن کے نام کے کتبے بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر9میں لگائے گئے ہیں۔ ریکارڈ کی خاطر ان کے کتبوں پر لکھی گئی تفاصیل ذیل میں نقل کی جاتی ہیں: (1) یادگار نمبر1100 مکرم خضر القزق صاحب ولد علی صالح القزق صاحب ساکن ومدفن دمشق شام۔ ولادت 1904ء، بیعت 1929ء،عمر: 87سال، تاریخ وفات1991ء، وصیت نمبر20745۔ (2) یادگار نمبر 1101 مکرم ناصر بن عبد القادر عودہ صاحب ساکن ومدفن دمشق شام، ولادت 1928ء، پیدائشی احمدی، عمر64سال،تاریخ وفات1990ء، وصیت نمبر 20736 (3) یادگار نمبر 1102 مکرمہ نظمیہ صاحبہ بنت مکرم الحاج نور الدین الحصنی صاحب ساکن ومدفن دمشق شام، ولادت 1893ء، بیعت 1935ء، تاریخ وفات2001ء، وصیت نمبر 20237 (4) یادگار نمبر 1103 مکرمہ عزیزہ صاحبہ بنت مکرم خضرمحمود صاحب ساکن ومدفن دمشق شام، ولادت 1921ء، بیعت 1961ء، عمر80سال،تاریخ وفات2001ء، وصیت نمبر 20738 (5) یادگار نمبر1104 مکرم علاء الدین صاحب ولد مکرم مصطفی النویلاتی صاحب ساکن ومدفن دمشق شام۔ ولادت 1920 ء، پیدائشی احمدی، عمر: 69سال، تاریخ وفات1989ء، وصیت نمبر 20739۔ (6) یادگار نمبر 1105 مکرمہ سہیلہ صاحبہ بنت مکرم عین القزق صاحب ساکن ومدفن دمشق شام، ولادت 1914ء، بیعت1931ء عمر75سال،تاریخ وفات1889ء، وصیت نمبر 20740 (7) یادگار نمبر1108 مکرم منیر الدین الحصنی صاحب ولدمکرم نور الدین الحصنی صاحب ساکن ومدفن دمشق شام۔ ولادت 1899 ء، بیعت 1928ء،عمر: 89سال، تاریخ وفات اپریل 1988ء، وصیت نمبر3707۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت فرمائے اور انکی اولاد وں کو بھی انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ عربوں کے سفر قادیان اور جلسہ سالانہ میں شرکت کے باقی حالا ت اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ ……………… (باقی آئندہ)