یقیناجولوگ اللہ پر افترا کرتے ہیں ان کا انجام اچھانہیں ہوتا۔اللہ اُن کادشمن ہوجاتاہے اورانہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتاہے اورجلد ہی اُن کے مشن کی صَف لپیٹ دی جاتی ہے،پھر اُن کاذکر بہت کم سنا جاتاہے۔ہاں مگر جوصادق ہیں اوراپنے ربّ کی طرف سے آئے ہیں ،ایسے لوگوں کوکون ہلاک یاذلیل کرسکتاہے۔ اُن کاربّ صبح، چاشت، دوپہراورشام کے وقت اُن کے ساتھ ہوتاہے۔ تمہیں کیاہوگیاہے کہ تم یہودیوں کی پیروی کر رہے ہو اوراپنی فطرت کوان کی فطرت سے مشابہ بنا رہے ہو۔کیاتم ان کی لعنت میں حصّہ داربننا چاہتے ہو۔ تمہاری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں ،اس لئے رحمن کی طرف سے آنے والے(نشانات) کوتم دیکھ نہیں رہے ہو۔ ’’یقیناجولوگ اللہ پر افترا کرتے ہیں ان کا انجام اچھانہیں ہوتا۔اللہ اُن کادشمن ہوجاتاہے اورانہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتاہے اورجلد ہی اُن کے مشن کی صَف لپیٹ دی جاتی ہے،پھر اُن کاذکر بہت کم سنا جاتاہے۔ہاں مگر جوصادق ہیں اوراپنے ربّ کی طرف سے آئے ہیں ،ایسے لوگوں کوکون ہلاک یاذلیل کرسکتاہے۔ اُن کاربّ صبح، چاشت، دوپہراورشام کے وقت اُن کے ساتھ ہوتاہے۔ ہاں البتہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی اوراُس بندے سے عداوت کی جسے اللہ نے اپنادوست بنارکھا ہے توایسے لوگوں کے لئے آخرت میں محض آگ ہے اوروہ گھناسایہ نہیں پائیں گے اورجب وہ جہنم میں داخل ہوں گے تو کہیں گے کہ ہمیں کیاہوگیاہے کہ ہمیں یہاں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم شریروں کے زُمرہ میں شمار کرتے تھے۔اس پر حقیقت الامراُن پر پورے طورپرکھول دی جائے گی۔ ہم پھرپہلی بات کی طرف لوٹتے اورکہتے ہیں کہ الیاس کے نزول کا قصّہ اورعیسیٰ (علیہ السلام) کالوگوں کے سامنے اُس کی تأویل کرناایک ایسا امر ہے جویہود و نصاریٰ کے تمام فرقوں کے درمیان شہرت پاچکاہے اوراِس بارہ میں اُن میں سے کسی نے بھی کوئی نزاع اوراختلاف نہیں کیا بلکہ ان سب کابغیرکسی اختلاف کے اِس پرمکمل اتفاق ہے اور اُن کاکوئی عالم ایسا نہیں ہے جسے اس قصّے کاعلم نہ ہویااُس کے دل میں کوئی شک وشبہ ہو۔ پس غورکروکہ یہودباوجود اس کے کہ انہوں نے انبیاء سے تعلیم پائی تھی اوران پر کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ اُن میں حضرت کبریاء کی طرف سے نبی موجود نہ ہوپھربھی وہ اس قصّے کی حقیقت سے بے خبر رہے اوراِس راز کونہ سمجھ سکے اوراسے حقیقت پرمحمول کرلیا۔ اورجب عیسیٰ اُن کے پاس آیاتو اُنہوں نے اُس میں ایسی علامت نہ پائی جو اُن کے ذہنوں پرمنقّش اوراُن کے دلوں پرثبت تھی نتیجتاً انہوں نے اس کاانکار کردیا اوراسے جھوٹوں میں سے سمجھااوراِس کے ساتھ جو سلوک کیاسو کیا اور اُسے افترا پردازوں میں شامل کردیا، پس اگر نزول سے واقعی اورحقیقی نزول مراد ہوتا تواس بنیاد پر عیسیٰ سچے نہیں ہیں اوراس سے لازم آتاہے کہ حق ان یہودکے ساتھ ہے جن کااللہ نے لعنت کے ساتھ ذکر فرمایا۔ یہ اُن لوگوں کاحال ہے جنہوں نے کتاب کی نص اورلوگوں کے ربّ کے واضح صریح فرمان پراصرار کیا، تمہارانزولِ عیسیٰ کے عقیدہ کے متعلق کیا خیال ہے جبکہ تمہارے پاس صرف ایسی روایات ہیں جو محض ظنّی، میل کچیل سے لتھڑی ہوئیں اور ربّ النّاس کے قول (قرآن کریم) کے مخالف ہیں۔ تمہیں کیاہوگیاہے کہ تم یہودیوں کی پیروی کر رہے ہو اوراپنی فطرت کوان کی فطرت سے مشابہ بنا رہے ہو۔کیاتم ان کی لعنت میں حصّہ داربننا چاہتے ہو۔توبہ کرو،پھرتوبہ کرو اوراللہ کی جانب رجوع کرو اورجو ہو چکااس پرندامت اختیارکرو، کیونکہ موت قریب ہے اوراللہ حساب لینے والا ہے۔ اے لوگو! تمہیں بہت بڑی آزمائش نے آلیا ہے۔پس حجروں میں کھڑے ہوجائو اورربِّ کائنات کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرو۔اللہ رحیم کریم ہے۔ اُس شخص کے لئے جوقلب سلیم کے ساتھ آئے اُس کی رحمت اُس کے غضب پرسبقت لے گئی ہے۔ اگر چاہوتواِس زمانے کے یہودیوں سے پوچھ دیکھو یاتقویٰ کے قدموں پرچلتے ہوئے میرے پاس آئو اورجوشبہ تمہارے دل میں جاگزین ہے اُسے میرے سامنے پیش کرو۔تمہیں کیاہوگیاہے کہ تم اس آزمائش سے خوف نہیں کھاتے اورحضرت کبریاء کی طرف سے ملنے والی کسی واضح دلیل کے بغیرسُنَّۃ اللّٰہ کوچھوڑ رہے ہو۔اورایسے اقوال پراصرار کررہے ہوجن کے ساتھ کوئی واضح دلیل نہیں اُتری اورجنہیں تم قرآن میں بھی موجود نہیں پاتے۔جان لو کہ تم محض ظنون کی پیروی کررہے ہو حالانکہ حق کے مقابلہ پرظن کوئی فائدہ نہیں دیتا اورنہ اس سے اطمینان حاصل ہوتاہے۔ کیاتم چاہتے ہو کہ اللہ کا(مقررکردہ)حَکَم تمہارے ظنون کی پیروی کرے بعداس کے کہ اُسے اللہ کی طرف سے علم عطاکیاگیاہے۔تمہیں کیاہوگیاہے کہ تم ازراہِ عداوت حد سے تجاوز کرگئے ہو اورتم نے شک کی خاطر یقین کوچھوڑ دیاہے۔کیایہی ایمان ہے؟ اوردنیاتو محض لہوولعب ہے۔اس لئے چاہئے کہ تندرستی اور امن وامان کی زندگی تمہیں فریب میں مبتلا نہ کرے۔ موت اچانک جھپٹ لے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں سکونت پذیرہواورخدائے قہّار کے ہاتھوں سے کوئی مددگارتمہیں بچا نہ سکے گا۔ کیا تم شکوک کوقرآن پرمقدم کرتے ہو۔بہت بُری راہ ہے جو تم نے اختیار کی ہوئی ہے۔تمہاری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں ،اس لئے رحمن کی طرف سے آنے والے(نشانات) کوتم دیکھ نہیں رہے ہو۔رَبِّ عَلّام کی طرف سے مجھے تقریباًبیس سال سے مسیح بنایا گیاہے۔میری کوئی خواہش نہ تھی کہ مَیں اس مقام کے لئے چناجائوں ،مَیں عوام میں شہرت کوناپسند کرتاتھا۔ پھر میرے ربّ نے مجھے زبردستی میرے حجرے سے باہر نکالا۔جس پر مَیں نے اپنے خوب جاننے والے ربّ کے حکم کی اطاعت کی اور یہ سب کچھ میرے عطا کرنے والے ربّ کی عطا ہے۔ مَیں اپنے تئیں ہر طرح کے القابات سے الگ تھلگ کرتاہوں اور مجھے شہرت سے کیاغرض، میرا ربّ میرے لئے کافی ہے،وہ جانتا ہے جو میرے دل میں ہے، وہ اس دنیامیں بھی اور روزِحساب میں بھی میری سِپراور جنت ہے۔میں نے نزولِ الیاس کا قصّہ عقل و فہم رکھنے والوں کے لئے تحریر کیاہے۔ مَیں بعض مخالف علماء سے ملا اوریہ بات جو مَیں نے اس وقت تمہارے سامنے پیش کی ہے اُن کے سامنے بھی رکھی تھی تووہ بالکل خاموش ہوگئے اور کوئی علمی بات منہ پر نہ لائے، وہ مبہوت ہوگئے اور ایک شرمندہ اور ملامت زدہ شخص کی طرح بھاگ گئے۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 35 تا 39)