(7)تفسیر کبیر میں مستقبل کی مزید خبروں کا بیان: اسی طرح اس تفسیر میں درج ذیل یہ قرآنی پیش گوئیاں بھی درج ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر قرآن کی صداقت پر گواہ ہوں گی : i۔فلسطین پر دوبارہ مسلمانوں کے اقتدارکی خبر: وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِیۡ الزَّبُورِ مِن بَعۡدِ الذِّکۡرِ أَنَّ الۡأَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (انبیاء:106 ) کی تفسیر کے تحت یہ پیش گوئی کہ ( ارضِ مقدس پر مسلمانوں کا) قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے اورعارضی طور پر اب بھی نکلا ہے اور جب ہم کہتے ہیں عارضی طور پر تو لازماً اس کے معنی یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے اور لازماً اس کے یہ معنی ہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ سارا نظا م جس کو یو۔ این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ لا کر مسلمانوں کو بسائیں۔ ( تفسیرِ کبیرجلد پنجم صفحہ 576 ) ii۔ایٹم بم کے توڑ کی خبر : سورۃنمل 27 کی آیت 88 کی تفسیر میں آپ نے اس پیش خبری کی نشاندہی کی کہ ایٹم بم کے توڑ کے لئے بھی ایجادات ہوں گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ جن کے نتیجہ میں دشمن پر فوقیت بھی حاصل ہو جائے گی اور عام تباہی بھی نہیں آئے گی۔ (تفسیرِ کبیر جلد ہفتم صفحہ نمبر 141-142) iii۔اردو زبان کی ترقی کی خبر : سورۂ ابراہیم ؑ 14 کی آیت 5 کی تفسیر میں آپ نے یہ اظہار کیاکہ ’چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہؤاہے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہو گی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکے گی ‘۔ ( تفسیرِ کبیر جلد سوم صفحہ نمبر444 ) iv۔چوتھی عالمگیر جنگ کے بعد اسلام کے عروج کی خبر: سورۂ مطفّفین 83 کی آیت 16 کی تفسیر میں آپ نے چوتھی عالمگیر جنگ کے بعد مغربی اقوام کی مکمل تباہی اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی خبردی ہے۔آپ فرماتے ہیں : ’ یہاں کَلَّا کا تکرار اسی عذابِ شدید کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔( سورۂ مائدہ 15: 116 میں عیسائی اقوام کو اس عذابِ شدید کی وعید کا ذکر آپ پہلے کر چکے ہیں ) …۔ یہاں تین دفعہ کَلَّا کفر کے ذکر کے بعد آتا ہے اور ایک دفعہ کَلَّا مومنوں کے ذکر سے پہلے ہے اس میں اس طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ تین جھٹکے عیسائیت کی تباہی کے لئے لگیں گے اور چوتھا جھٹکا اسلام کے قیام کا موجب ہو گا بظاہر جہاں تک عقل کام دیتی ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم جو 1918ء میں ختم ہوئی پہلا جھٹکا تھا جو عیسائیت کو لگا اب دوسری جنگِ عظیم جو شروع ہے ( یہ الفاظ 1945ء میں لکھے گئے ) یہ دوسرا جھٹکا ہے اس کے بعد ایک تیسری جنگِ عظیم ہو گی جو مغرب کی تباہی کے لئے تیسرا جھٹکا ہو گا۔ اس کے بعد چوتھا جھٹکا لگے گا جس کے بعد اسلام اپنے عروج کو پہنچ جائے گا اور مغربی اقوام بالکل ذلیل ہوجائیں گی ‘۔ ( تفسیرِ کبیر جلد ہشتم صفحہ 307) (8) قرآن کے مشکل مقامات کی تشریح : وہ قاری جو تمام تفاسیر کوپڑھ لینے کے بعد بھی یہ جاننے سے قاصر رہتا ہے کہ حروفِ مقطعات سے سورتوں کے مطالب کا کیا تعلق ہے ؟ اصحابِ کہف اور ذوالقرنین کون تھے ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کب ہوئی؟ دنیا میں مذہبی ادوار کا کیا سلسلہ رہا؟ وحی کی کتنی اقسام ہیں ؟اور قرآنِ کریم کے کتنے بطون ہیں اور ان کے مطابق آیات کے کیا کیا معنی ہوسکتے ہیں ؟ تفسیرِ کبیر سے ان سب سوالوں کا جواب پانا اس کے لئے اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی بنتی ہے۔ قرآن کے بطون کا علم حضرت مصلح موعو کو خاص طور پر عطا ہوا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا: ’ یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطا کیا ہے بعض دفعہ ایک مضمون کا تعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ پھر ایک معنی کسی آیت کے منفرداً ہوتے ہیں اور ایک معنی دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کر کئے جاتے ہیں ‘ ( تفسیرِ کبیر جلد ہفتم صفحہ نمبر293) حضرت مصلح موعودؓ کا کمال عجز : تفسیرِ کبیر کی مذکورہ بالا چند عظیم الشان خصوصیات اس تفسیر کو تمام تفاسیر سے منفرد اور اعلیٰ درجہ پر متمیز کر دیتی ہیں اور قرآنِ کریم کے فہم اور ادراک کی ان منازل تک پہنچا دیتی ہیں جو بلا شبہ اور کسی ایک بلکہ تمام تفاسیر کی مدد سے بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عجز و خاکساری کا اظہار آپ کی شان اور مرتبہ کو بلند تر کر دیتے ہیں۔یہ اظہار کئی رنگ میں ہؤا۔ جیسے 1۔ آپ نے گزشتہ تفسیروں کی کم آگہی سے ان مفسرین کو بری کر کے اس کا سبب ان کے زمانہ کے اثر کو قرار دیا جیسا کہ فرمایا : پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآنِ کریم کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو ان کی تفاسیر دائمی خوبیاں رکھتیں ۔… دو اور غلطیاں بھی ان سے ہوئی ہیں۔مگر مَیں سمجھتا ہوں وہ زمانہ کے اثر کے نیچے تھیں۔ ( تفسیرِ کبیر از سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جلد سوم صفحہ ب شائع کردہ نظارتِ اشاعت ربوہ) 2۔اسی طرح پہلی تفاسیر میں قرآنی پیش گوئیوں کا پورا اظہار نہ ہونے پر آپ نے ان مفسرین کو حالات کے تحت معذور جانا اور فرمایا : ’ پہلوں کے لئے اس کے لکھنے کا موقع ہی کب آیا۔ مثلاً یاجوج ماجوج کے جو معنی آج ظاہر ہوئے ہیں وہ پہلے مفسر کس طرح بیان کر سکتے تھے۔ وہ معذور تھے ان کے سامنے یہ چیز ہی نہ تھی یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں سمجھ دے دی مگر یہ ہماری پہلوں پر فضیلت نہیں … یہ ان کے زمانہ کی بات ہی نہ تھی۔… انہوں نے یہود کی ان روایات کو اس لئے مان لیا کہ ان کے پرکھنے کا ذریعہ ان کے پاس نہ تھا آج ہم ان باتوں کو اس لئے حل کر لیتے ہیں کہ یہ امور ہمارے سامنے ہیں۔ ( خطبۂ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 1940ء خطباتِ محمود جلد 21 صفحہ نمبر478-479 فضلِ عمر فاونڈیشن ربوہ ) 3۔ آپ نے تفسیر لکھنے کو ایک بھاری ذمہ داری سمجھا اور فرمایا: ’ تفسیرکا کام بڑی ذمہ داری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اس میں دیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فطرتاً مَیں اس سے بہت گھبراتا ہوں اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی ٹڈا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کی کوشش کرے اور مَیں نے مجبوراً اور جماعت کے اندر اس کے لئے شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرأت کی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس کے لئے مجبور ہؤا ہوں ورنہ قرآنِ کریم کی تفسیر ایسا کام نہیں جسے مومن دلیری سے اختیار کرسکے ‘۔ (ایضاً صفحہ 476 ) 4۔ آپ نے اس خیال کو سختی سے ردّ فرمایا کہ گزشتہ یا اس تفسیر میں سب کچھ بیان ہو گیا ہے۔ اس بارے میں آپ کی رائے دو ٹوک تھی : ’ مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے ایسا خیال رکھنے والے کو مَیں اسلام کا بد ترین دشمن خیال کرتا ہوں اور احمق سمجھتا ہوں گو وہ کتنے بڑے بڑے جبّے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو مَیں اپنی تفسیر کی نسبت یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں۔ہم یہ تو کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے علوم ایک حد تک بیان کر دیں مگر یہ کہ قرآنِ کریم کے یا اپنے زمانہ کے بھی سارے علوم بیان کر دیں اس کا تو مَیں خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔… یہ مَیں برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک شخص بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آ گیا ہے ‘۔ (ایضاً صفحہ 482-483 ) 5۔ تفسیرِ کبیر کے مضامین کے نسبتی طور پر محدود ہونے کے بارے میں آپ نے فرمایا : قرآن غیر محدود خدا کا کلام ہے اس لئے اس کے علوم بھی غیر محدود ہیں اور اس نسبت سے ہم اس کے مطالب کا نہ کروڑواں حصہ اور نہ اربواں حصہ بیان کر سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کی ضرورتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ضروری باتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے … مگر چونکہ یہ خدائی تائید سے لکھی گئی ہے اس لئے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی دین اور روحانی باتیں جو لکھی گئی ہیں وہ صحیح ہیں ہاں بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق یہ احتمال ضرور ہے کہ ہم ان کے اور معنی کریں اور جب وہ ظاہرہوں تو صورت اور نکلے۔ (ایضاً صفحہ 482 ) 6۔ آپ نے آئندہ زمانوں میں قرآنی معارف کے بیان کے سلسلہ کو جاری قرار دیا اور فرمایا : ’ قرآنِ کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہتے ہیں آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آ سکتے اور پھر دو سو سال بعد غور کرنے والوں کو اور معارف ملیں گے۔‘ (ایضاً صفحہ 482 ) 7۔ آپ نے اس امکان کو قائم رکھا ہے کہ آج کی جانے والی بعض تاویلات حالات میں تبدیلی کے سبب درست نہ ٹھہریں اور فرمایا: ’اسی طرح ممکن ہے کہ بعض پیش گوئیاں جو آئندہ کے متعلق ہیں ہم ان کو کوئی تاویل کریں جو غلط ہو اور جب ان کے مطلب نکلیں تو آئندہ زمانہ کے مفسر ہمارے متعلق کہیں کہ کتنے بے وقوف لوگ تھے کہ ان کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے ‘۔ (ایضاً صفحہ نمبر478-479 ) 8۔ ہر شخص کو خود غور و فکر کی دعوت : تفسیرِ کبیر کے مطالعہ کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے ہر شخص کو خود بھی غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا : ’ہر انسان خود قرآن پڑھے ، سوچے ، سمجھے تو صحیح علم حاصل کر سکتا ہے۔ باقی تفاسیر تو ایسی ہی ہیں جیسے کسی جگہ پہنچنے کے لئے کوئی سواری پر چڑھ جاتا ہے۔… فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مومن ان ذرائع کو تقریب سے زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ خود آگے بڑھے اور سوچے ، سمجھے ‘۔ (ایضاً صفحہ نمبر480 ) ’قرآنِ کریم ایک روحانی سمندر ہے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص تمہیں کوئی بات اس میں سے بتا سکے اور کوئی تفسیر سنا دے مگر یہ ناممکن ہے کہ قرآنِ کریم کے سارے علوم بیان ہو سکیں اور اگر کوئی قرآنی علوم سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اسے خود ہی غوطہ لگا نا پڑے گا ‘۔ (ایضاً صفحہ نمبر477 ) تفسیرِ کبیر کے بارے میں آراء : تفسیرِ کبیر کی کسی بھی جلد کا مطالعہ پڑھنے والے کو علم و عرفان کی ایک نئی دنیا سے آشنا کرتا ہے اور وہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ کس طرح علام الغیوب خدا نے قرآنِ کریم میں مطالب و معنی کا ایک سمندر پوشیدہ کر رکھا ہے جس تک رسائی انہی کو ہے جو مطہرین میں ہیں اور اپنے قلبِ صافی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔تاہم ان میں سے چند ہی ہیں جنہوں نے ان کا تحریر میں اظہارکیا۔ یہ گنتی کے قاری اپنے بھی ہیں اور بیگانے بھی۔ بیگانوں میں وہ بھی ہیں جو اسی تفسیر کے مطالعہ کے نتیجہ میں احمدی ہوگئے۔ اور وہ بھی جنہیں قبولِ حق کی توفیق تو نہیں ملی لیکن انہوں نے برملا اس تفسیر کی اعلیٰ خوبیوں کا اعتراف کیا۔ ایسی چند آراء درج ذیل ہیں : تفسیرِ کبیر کے زیرِ اثر احمدی ہونے والے : 1۔ مولوی محمد اسد اللہ قریشی صاحب لکھتے ہیں : ’ سیّدنا حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ کی تفسیرِ کبیر انقلاب انگیز اثرات کی حامل اور آپ کے لدّنی علم کا ایک بابرکت خزانہ ہے خاکسار کی قبولِ احمدیت میں تفسیرِ کبیر (کا) خاصہ حصہ ہے۔… جب مَیں نے اسے (جلد اوّل) سے پڑھنا شروع کیا تو اس میں علوم و معارف اور حکمت کی ایسی باتیں پائیں جو نہ مَیں نے اس سے پہلے تفسیر ابنِ کثیر ، تفسیرِ بیضاوی ، تفسیرِ خازن اور تفسیر جلالین میں دیکھی تھیں اور نہ کہیں دینی مدارس کے علماء سے سنی تھیں۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے دیگر مشکل مقامات کی تفسیر دیکھ کر قلبی سکون اور روحانی سرور حاصل ہوا جاتا تھا چنانچہ تفسیر کے مطالعہ میں اتنا شغف بڑھنے لگا کہ بعض اوقات کھانا مقررہ اوقات سے مؤخر ہو جاتا مگر تفسیر چھوڑنے کو دل نہ چاہتا‘۔ ’یہ (سورہ یونس تا سورہ کہف والی ) جلد لے کر مطالعہ کی۔ اس میں قرآن شریف کے باقی مشکل مقامات کی لطیف تفسیر دیکھ کر خوشی سے میری روح جھوم جاتی تھی اور پیچیدہ مسائل سے قلب و ذہن اس طرح صاف ہوتے جاتے تھے جیسا کوئی بیمار بیماریوں سے شفاء حاصل کرتا جائے۔ اب تک مَیں جماعتِ اسلامی۔… کے پیش کردہ نظریۂ حکومتِ الٰہیہ کا بھی قائل تھا۔ مگر انہی دنوں جب مَیں نے تفسیرِ کبیر کی وہ جلد مطالعہ کی جو سورۃ ماعون کی تفسیر پر مشتمل ہے جس میں ’ اَلدِّیْن ‘ کے مختلف لغوی معانی بیان کرتے ہوئے۔… حکومتِ الٰہیہ اور خلافتِ اسلامیہ کی تشریح بھی کی گئی تھی جو پہلی دفعہ حکومتِ الٰہیہ کی ایسی لطیف تشریح میرے سامنے آئی جس نے مجھے شدید طور پر متاثر کیا بلکہ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ پیروں سے لے کر سر کی چوٹی تک مجھے ہلا کر رکھ دیا‘۔ ( مجلّۃ الجامعہ ربوہ مصلح موعود نمبر جلد نمبر 4 نمبر 2 صفحہ نمبر 158-160) 2۔ سیّد جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ حیدر آباد دکن : یہ صاحب تنظیم اتحاد المسلمین کے فعال کارکن تھے اور اسی پاداش میں سکندر آباد جیل میں نظر بند رہے۔ جہاں انہیں تفسیرِ کبیر پڑھنے کا موقع ملا۔ جس کے مطالعہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ جیل کے اندر ہی مارچ 1961ء میں بیعت کا فارم بھی پر کر دیا۔ رہا ہونے کے بعد انہوں نے اپنے حالات ’ صدقِ جدید ‘ لکھنؤ میں چھپوائے جس میں لکھا: ’ مَیں نے تفسیرِ کبیر اٹھائی اور چند اوراق الٹ کر دیکھنے شروع کئے یہ وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحًا کی تفسیر کے صفحات تھے۔ مَیں حیران ہو گیاکہ قرآن مجید میں ایسے مضامین بھی ہیں پھر مَیں نے قادیان خط لکھا تفسیرِ کبیر کی جملہ جلدیں منگوائیں ۔… نو ماہ کے عرصہ میں جب کہ مَیں جیل میں تھا متعدد بار یہی تفسیر پڑھتا رہا۔ جیل ہی میں مَیں نے بیعت کرلی اور جماعتِ احمدیہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا‘۔ (صدقِ جدید لکھنؤ 20 اپریل 1962ء بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد 8 از حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ نمبر158-159 نظارتِ اشاعت ربوہ) ’ مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی۔ تفسیرِ کبیر پڑھ کر مَیں قرآنِ کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا‘ ( صدقِ جدید لکھنؤ 8 تا 15 جون 1963ء بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد ہشتم از حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ نمبر 160 نظارتِ اشاعت ربوہ) تفسیرِ کبیر کے بارے میں چند غیر از جماعت اہلِ علم کے تأثرات : 1۔ علامہ نیاز فتح پوری : تفسیرِ کبیر پڑھ کر آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے نام اپنے خط میں لکھا: ’تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور مَیں اسے بڑی نگاہ ِ غائر سے دیکھ رہا ہوں اس میں شک نہیں کہ مطالعۂ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ ٔ فکر آپ نے پیدا کیا ہے یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کے تبحّرِ علمی ، آپ کی وسعتِ نظر ، آپ کی غیرمعمولی فکر و فراست ، آپ کا حسنِ استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہو د کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا آپ نے ھٰؤُ لآ ئِ بَنَاتی کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلواختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں خدا آپ کو تا دیر سلامت رکھے ‘ ( الفضل 17 نومبر 1963ء بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد 8 از حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ نمبر 157 نظارتِ اشاعت ربوہ) 2۔ برصغیر کی معروف شخصیت نواب بہادر اعظم یار جنگ تفسیرِ کبیر سے اتنے متاثر تھے کہ جناب سیٹھ محمد اعظم حیدرآبادی کے بیان کے مطابق اپنی مجالس میں تفسیرِ کبیر کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کے بیان کردہ معارف سے انہوں نے بہت استفادہ کیا ہے۔ (تاریخِ احمدیت جلد8 از حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ نمبر 157 نظارتِ اشاعت ربوہ) 3۔ پروفیسر عبدا لمنان صاحب بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ یونیورسٹی کو اختر اورنیوی صاحب نے تفسیرِ کبیر کی چند جلدیں دیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ’ وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسر عبدا لمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی کی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے۔ شیوخ خاموش رہے۔۔پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی اور فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے ‘ ( مجلّۃ الجامعہ ربوہ شمارہ نمبر 9 صفحہ نمبر63-65 بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد8 از حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد صفحہ نمبر157-158 نظارتِ اشاعت ربوہ) 4۔ مشہور مفسرِ قرآن مولانا عبد الماجد دریا آبادی نے حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ کی وفات پر جو نوٹ تحریر کیا اس میں لکھا: ’’ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے ‘‘۔ (صدقِ جدید لکھنؤ 18 نومبر 1965ء بحوالہ سوانح فضلِ عمر جلد سوم از عبدالباسط شاہد صفحہ نمبر 168 فضلِ عمر فائونڈیشن ربوہ ) حرفِ آخر : تفسیرِ کبیر کی تمام خوبیوں سے استفادہ کے ساتھ یہ حقیقت بہرحال پیشِ نظر رکھنی ضروری ہے کہ قرآنِ کریم عمل کرنے اور اشاعت کے لئے ہے اور یہی وہ بات ہے جس کی طرف خود صاحبِ تفسیرِ کبیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں توجہ دلائی۔ آپ نے تفسیرِ کبیر کی شائع ہونے والی پہلی جلد کے لئے لکھے جانے والے دیباچہ بعنوان ’ کچھ تفسیرِ کبیر کے متعلق ‘ کے آخر میں یہ الفاظ تحریر فرمائے : ’ اے پڑھنے والو ! مَیں آپ سے کہتا ہوں قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لئے ہے پس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پائو تو انہیں پڑھو پڑھائو ، عمل کرو۔ عمل کروائو اور عمل کرنے کی ترغیب دو۔ یہی اور یہی ایک ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیا ء کا ہے ‘۔ ( تفسیرِ کبیر از جلد سوم صفحہ 7 شائع کردہ نظارتِ اشاعت ربوہ)