حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دَور میں علمی ، نقلی اور عقلی طور پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کرنے کے ساتھ ساتھ 1885ء میں اسلام کی حقانیت اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلمکی صداقت ثابت کرنے کے لئے غیر مسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی۔ اوراپنے مخالفین کو خصوصاً اور منکرین اسلام کو عموماً مخاطب کرکے یہ چیلنج دیا کہ جو طلب صداقت کی خاطر ایک سال تک ہمارے ہاں آکر رہے گا، اُسے خدا ایسے نشان دکھائے گا جس سے اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمکی صداقت آشکارا ہوجائے گی۔ آپ نے اس مضمون کے خط بلاد عالم میں بھیجے۔ اس پر قادیان کے آریوں اور دیگر معزز غیر مسلموں نے آپ کی خدمت میں بذریعہ خط نشان نمائی کا مطالبہ رکھا کہ ہم جو آپ کے ساتھ رہتے ہیں دوسروں سے زیادہ نشان نمائی کے مستحق ہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’جس حالت میں آپ نے لندن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیں کہ جو طالب صادق ہو اور ایک سال تک ہمارے پاس آکر قادیان میں ٹھہرے تو خدا تعالیٰ اس کو ایسے نشان دربارہ اثبات حقیقت ِ اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالاتر ہو۔ سو ہم لو گ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں ہم لوگ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین و آسمان کو زیر و زبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت ہے۔ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں ۔جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچّا اور پاک پرمیشر بوجہ آپ کی راستبازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی رو سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے بر گزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول۔صفحہ92-93) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں تحریر فرمایا: ’’آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے مجھ کو ملا۔ بہ تمام تر شکر گزاری اس کے مضمون کو قبول و منظور کرتا ہوں۔ اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جلّشانہٗ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان دکھلا دیا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو۔ اے قادر مطلق کریم و رحیم ہم میں اور ان میں سچّا فیصلہ کر اور تو ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے۔آمین ثمّ آمین‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل۔صفحہ 95-96) چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام منکرین و مخالفین پر اتمام حجت اور اثباتِ حقیت دین اسلام کے لیے باذن الٰہی چلّہ کشی اورخصوصی دعاؤں کی غرض سے قادیان سے ہوشیار پور تشریف لے گئے اور دُنیا سے منقطع ہو کر چالیس روز تک بارگاہ ایزدی میں ایک عظیم الشان نشان کے ظاہر ہونے کے لیے دعاؤں اور مناجات میں مصروف رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں اور مناجات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے بیشمار برکات و افضال اور عظیم الشان بیٹے کے عطا کیے جانے کی بشارات سے نوازا۔ یہ بشارات آپ نے 20فروری1886 ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ شائع فرمائیں۔ اس پیشگوئی میں دو موعود بیٹوں کی خبر دی گئی تھی۔ جن میں سے ایک نے چھوٹی عمر میں وفات پاجانی تھی جب کہ دوسرے نے غیر معمولی زندگی پانی تھی۔ اس نے غیر معمولی صفات کا حامل ہونا تھا اور زمین کے کناروں تک شہرت پانی تھی۔ قوموں نے اس سے برکت پانی تھی۔ اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے اس پسر موعود کے بارہ میں بہت سی ایسی غیر معمولی صفات سے متصف ہونے کی بشارات دیں جن میں سے کوئی ایک صفت بھی ایسی نہیں کہ انسانی دسترس میں ہو اور کوئی شخص اپنی اولاد کے بارہ میں اپنی طرف سے یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ ایسی کسی صفت سے متصف ہوگی۔ اس پیشگوئی کو مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بڑا نشان قرار دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ نے ہمارے نبی کریم روف و رحیم محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خدا وند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہر ی و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔سو اگر چہ بظاہر یہ نشان احیاء موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔ مردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ115-116) معاندینِ اسلام کے لیے اور خصوصاً ہندوؤں کے لیے یہ امر کافی ہونا چاہیے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی درخواست قبول کرلی ہے اور نشان نمائی کا وعدہ کرلیا ہے۔ لیکن عداوت اور تعصب آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ استھزاء اور دشمنی انسان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ چنانچہ ایک شدید معاندِ اسلام اخفائے حق اور استہزاء کے لیے آگے آیا --- یعنی پنڈت لیکھرام پشاوری --- جو پہلے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف بد زبانی میں مشہور تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1885ء میں غیرمسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی تو لیکھرام بھی اواخر1885 ء میں نشان دیکھنے کے لیے قادیان آیا۔ مگر چند روز مخالفوں کے پاس ر ہ کر اور بدزبانی وغیرہ کرکے واپس چلا گیا۔ تا ہم وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بار بار نشان طلب کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر جب ایک غیرمعمولی اور گوناگوں صفات سے متصف ایک عظیم الشان بے نظیر موعود بیٹے کے بارہ میں پیش گوئی کی جو آپ ہی کی ذُرّیت اور نسل سے ہونا تھا اور جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ سے علم پاکر آپ نے فرمایا کہ وہ نوسال کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہوگا اور جس کی مقدّس زندگی کا لمحہ لمحہ اسلام کی صداقت کی دلیل ہوگا۔ اس وقت بجائے اس کے کہ شرافت اور خداترسی کو کام میں لاتا۔ لیکھرام نے انتہائی دریدہ دہنی کا مظاہرہ شروع کردیا۔ صداقت اسلام کے لیے ایک پیشگوئی شائع کی جاچکی تھی۔ شرافت اور حق پرستی کا تقاضا تھا کہ انتظار کیا جائے کہ خداتعالیٰ کس فریق کی صداقت ظاہر کرتا ہے۔ لیکن لیکھرام نے جلدبازی کی۔ اور فیصلہ سے پہلے ہی استہزاء شروع کردیا۔ اس نے اپنے اشتہا رو ں میں یہاں تک لکھ دیا کہ پسرموعود کی پیشگوئی پوری ہونا تو درکنار، مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ مرزا صاحب کہ ہاں کوئی اولاد نہیں ہوگی اور تین سا ل کے اندر اندر جو ہیں وہ بھی نہ رہیں گے اور آپ ابتر رہیں گے۔ (تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ لیکھرام صفحہ311) الٰہی فرمودات کے مطابق یہ عظیم المرتبت فرزند حضرت امّاں جان نصرت جہاں بیگم صا حبہ کے ہا ں 12 جنوری 1889ء کو ہفتہ کے روز رات دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہو ئے اور لیکھرام نے اپنی شیطانی پیشگوئی کا جھوٹا ہونا دیکھ لیا جو اس نے شائع کی تھی کہ پسرموعود کی پیشگوئی پوری ہونا تو درکنار، مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ مرزا صاحب کہ ہاں کوئی اولاد نہیں ہوگی۔لیکھرام نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں جو یہ کہا تھا کہ آپ ابتر رہیں گے توخدا کی غیرت نے اسے اس طرح بھی جھوٹا کیا کہ جس دن حضرت مصلح موعود کی پیدائش ہوئی اسی روز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت کا بھی اعلان فرما کر سلسلہ احمدیہ کی بھی بنیاد رکھی۔ اور اس طرح لیکھرام کی پیشگوئی ظاہری اور باطنی؛ دونوں لحاظ سے باطل ہوگئی۔ اور آج آپ کے کروڑوں روحانی فرزند ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور خدا کا یہ الہام اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَر پورا ہوا۔ لیکن صرف یہی نہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے معاندین کو ان کی جلد باز ی اور استہزاء کی پاداش میں ایک قہری نشان دکھانے کا سامان بھی کردیا۔ ابتداء میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام پشاوری کو درخورِ اعتناء اس لیے نہیں سمجھا کہ جب آریہ قوم کے کچھ معززین سے پہلے ہی اس امر پر معاملہ طے پاچکا ہے تو کسی اکیلے آدمی کے لیے بھی وہی نشان کافی ہونا چاہیے۔ لیکن پھر گفتار کے غازی لیکھرام سے ہندو قوم کوامیدیں وابستہ ہونے لگیں۔ وہ اپنی چرب زبانی اور دریدہ دہنی کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مشہور ہونے لگا اورپھر ہوتے ہوتے ہندوؤں نے لیکھرام کو گویا اپنا نمائندہ ہی بنا لیا۔ پنڈت لیکھرام پشاوری کھلم کھلا یہ بھی کہتا تھا کہ میرے حق میں جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کے اس کو دیے گئے نئے مقام اور اس کی دریدہ دہنی و استہزاء نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اس کی طرف پھیری اور آپ نے اس کے متعلق بارگاہ الٰہی میں فیصلہ چاہا تو آپ کو الہام ہوا: عِجۡلٌ جَسَدٌ لَّہ خُوَارٌ لَہ نَصَبٌ وّ َ عَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا۔ (دیکھیں اشتہار 20فروری 1893ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم و روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 250) نیز خدا تعالیٰ سے خبر پاکر آپ نے یہ صراحت بھی فرمادی کہ : یُقۡضٰی اَمۡرُہ فِیۡ سِتٍّ۔کہ پنڈت لیکھرام کا معاملہ چھ (یعنی چھ سال ) میں ختم کر دیا جائے گا۔ (استفتاء۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 125 حاشیہ) پھر 2؍اپریل 1893ء مطابق14 رمضان 1310ہجری صبح کے وقت آپ کو کشفاً بتایا گیا کہ ایک قوی ہیکل مہیب شکل شخص جس کے چہرہ سے خون ٹپکتا ہے پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے لئے متعین کیا گیا ہے۔ (برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 33) پھر آپ نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں 1893 ء میں لکھا: وَ بَشَّرَنِیۡ رَبِّیۡ وَ قَالَ مُبَشِّرًا سَتَعۡرِفُ یَوۡمَ الۡعِیۡدِ وَ الۡعِیۡدُ اَقۡرَبُ یعنی مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اُس عید کے دن کو پہچان لے گا اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہو گا۔ لیکن لیکھرام حضرت اقدس کی پیشگوئیوں کو ناقابل التفات سمجھتا تھا اس لیے وہ شوخی اور شرارت میں بڑھتا گیا۔ اپنی گزشتہ پیشگوئیوں کا انجام دیکھنے کے باوجود اسے شرم نہ آئی۔ آخر کار شوخی اور عداوت اور تعصب میں حد سے گزرا ہؤا یہ معاند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں بیان کی گئی تمام تر تفصیلات کو پورا کرتے ہوئے چھ مارچ 1897ء کو شام چھ بجے ایک نامعلوم شخص کے ہاتھوں لاہور میں چھری کے ساتھ قتل کیا گیا۔ اور یہ عید الفطر کا دوسرا دن تھا۔ لیکن اس پیشگوئی سے سبق لینے کے بجائے ہندوؤں نے اور خاص طور پر آریوں نے بہت شور مچایا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو قتل کروایا ہے اور ہندواخبارات میں یہ واقعہ قتل کھلم کھلا حضرت مسیح موعودؑ کی سازش قرار دیا گیا۔ اور طرح طرح کے حیلے آزمانے لگے۔ لیکن خدا کی تقدیر سے مقابلہ کہاں انسان کے بس کی بات ہے۔ع وہاں قدرت یہاں درماندگی، فرق نمایاں ہے جب یہ شور و غوغا بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیکھرام کے متعلق آریوں کے خیالات کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں انہیں پھر ایک اور آسمانی فیصلہ کی طرف بُلایا۔ آپ فرماتے ہیں : ’’اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دُور نہیں ہو سکتا اور وہ مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو مَیں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے۔ جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص (یعنی حضرت اقدس۔ ناقل) سازش قتل میں شریک ہے یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہواہے۔ پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا! ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبتناک ہو۔ مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے۔ پس اگر یہ شخص (یعنی قسم کھانے والا) ایک برس تک میری بد دُعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اسی سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے۔ اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے‘‘۔ (اشتہار مورخہ 15 مارچ 1897ء) اس پر گنگا بشن کے سوا کسی اور ہندو نے چیلنج قبول نہ کیا لیکن گنگا بشن اپنی شرطیں لگاتا رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان شرائط کو مانتے بھی رہے۔ اس نے جب دیکھا کہ میری ہر قسم کی بیہودہ شرط بھی تسلیم کی جارہی ہے اور بچنے کی کوئی راہ نہیں چھوڑی جارہی تو اس نے مقابلہ سے بھاگ کر اپنی زندگی بچا لی۔(تفصیل کے لیے دیکھیں حیات طیبہ صفحہ 169 تا 171) ایک طرف پنڈت لیکھرام پشاوری کی موت اور گنگابشن کے ذلت آمیز فرار کا قہری نشان۔ اور دوسری طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمکی صداقت اور عظمت کا نشان وہ موعود بیٹا __ حضرت مرزا بشیر الدین محمود ا حمد صا حب __ پیشگوئی کے مطابق جلد جلد بڑھتے ہوئے اکناف عالم پر اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمکی صداقت کی دھاک بٹھاتے چلے گئے۔ یوں تو حضرت مسیح موعودؑ اور بزرگان سلسلہ اس یقین پر قائم تھے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود ا حمد صا حب ہی وہ موعود صاحبزادہ ہے اور خود حضرت مرزا بشیر الدین محمود ا حمد صا حب کو بھی یہ عرفان تھا لیکن پھر بھی آپ اپنے مولیٰ سے اس خبر کے ملنے تک اس دعویٰ سے رُکے رہے۔ 5 و 6؍جنوری 1944ء کی درمیانی شب مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان واقع 13ٹیمپل روڈ پر اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی کو یہ بشارت دی کہ آپ 20فروری 1886ء کے اشتہار میں مشتہر کی جانے والی پیشگوئی کو پورا کرنے والے اور المصلح الموعود ہیں۔ 28جنوری 1944ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں حضور نے خطبہ جمعہ میں پہلی بار اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایااور اس بارہ میں اپنی رؤیا تفصیل سے بیان فرمائی۔ 29جنوری کو قادیان میں پہلی بار یوم مصلح موعود منایا گیا اور نماز ظہر کے بعد مسجد اقصیٰ میں ایک جلسہ میں علماء سلسلہ نے تقاریر کیں۔ اس کے بعد 20فروری کو ہوشیارپور میں جلسہ مصلح موعود کا اہتمام کیا گیا جس میں حضرت مصلح موعود نے خدائی تائید اور نصرت کے عجیب نظارہ کے ساتھ ایک پُرشوکت اور پُر جلال تاریخی خطاب فرمایا۔ 12؍مارچ 1944ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’اس سال کے شروع میں پانچ اور چھ جنوری کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ بتایا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا تھا اور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی۔ میرے ذریعہ ہی شرک کو مٹایا جائے گا۔ اور میرے ذریعہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ خصوصاً مغربی ممالک جہاں توحید کا نام مٹ چکا ہے وہا ں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ توحید کو بلند کرے گا اور شرک اور کفر کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے گا۔ تب جبکہ خدا نے مجھے یہ خبر دے دی میں نے اس کا دنیا میں اعلان کرنا شروع کر دیا۔چنانچہ آج میں اس جلسہ میں اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اس شہر لاہور میں 13ٹیمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہو گی۔ پس یہ جلسہ اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ عظیم الشان پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1886ء میں فرمائی تھی پوری ہو گئی اس پیشگوئی کی صداقت پر وہ لاکھوں لوگ گواہ ہیں جو میرے ذریعہ اسلام پر قائم ہوئے۔ جو میرے ذریعہ توحید پر قائم ہوئے ، جو میرے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے والہ وشیدا بنے۔ عیسائی اس بات کے گواہ رہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ آریہ اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ، مسلمان اس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی‘‘۔ (میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں ، انوار العلوم جلد 17صفحہ 229-228) اس خطاب کے دوران حضرت مصلح موعود کے حکم پر 18مبلغین سلسلہ نے مختلف ملکوں میں احمدیت کا پیغام پہنچنے کے بارہ میں حقائق بیان کیے۔ خطاب کے بعد حضور اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے چلّہ کشی کی تھی اور اجتماعی دعا کی۔(تفصیل کے لیے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد9جدید ایڈیشن ) عدیم النظیر کامیابیوں اور کامرانیوں سے مزیّن حیرت انگیز معجز نما زندگی گزار کر آپ نے ایک عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔پیشگوئی میں بیان فرمودہ تمام غیرمعمولی نشانیوں پر پورا اترتا یہ پسر موعود آخری سانسوں تک دینِ حق کا شرف اورکلام اللہ کو مرتبہ دُنیا پر ظاہر کرتا رہا۔ آپ فرماتے ہیں : ’’میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا۔ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ مَیں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیاہے تو میں ہروقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیا ر ہوں۔لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں ہے جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو‘‘۔ (الموعود: انوارالعلوم جلد نمبر17صفحہ647) ایک اور جگہ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرادعویٰ ہے کہ اس مامور(یعنی حضرت اقدس مسیح موعودؑ) کی اتباع کی برکت سے کسی علم کامتبع خواہ قرآن کریم کے کسی مسئلہ پر حملہ کرے میں اس کامعقول اورمدلّل جواب دے سکتاہوں اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ذی علم کو ساکت کرسکتاہوں خواہ وقتی جوش کے ماتحت وہ علی الاعلان اقرار کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ مَیں نے اس کاربع صدی سے زیادہ عرصہ میں تجربہ کیاہے۔ مَیں سمجھتاہوں کہ جب سے اس میدان میں داخل ہواہوں ،اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہرو باطن میں کبھی مجھے اس بارہ میں شرمندہ ہونے کاموقعہ نہیں ملا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 52 زیر تفسیر سورۃ الحجر آیت10) ’’میں ان سب سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے ،دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے ،دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آ جائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رد ہو گیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ خدا کے کلام سے ہی اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ردّ کر کے دکھادوں گا‘‘۔ (میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں : انوارالعلوم جلد نمبر17صفحہ217) 8نومبر1965ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات کے ساتھ یہ شاندار اور معجزنما دَور بظاہر ختم ہوا لیکن نورِ خدا سے روشن رہنے اور روشن کرنے والے برکات و فیوض کے کبھی نہ بند ہونے والے چشمے جاری کرگیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی صداقت کے اس عدیم النظیر ثبوت اور حضرت مسیح پاک کے اس عدیم المثال موعود بیٹے کی عظمت کا اندازہ لگانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس وجود کو خدا نے آسمانی قرار دیا، اُس کا نفسی نقطہ آسمانی قرار دیا۔ اُس کو اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا اور اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اُسے بھیجا۔ اُسے خدا نے اپنا نور قرار دیا۔ اُس کے اس دُنیا میں آنے کو خدا نے اپنا آنا قرار دیا۔ اس کے مناقب کے بیان میں خدا نے اسے حسن و احسان میں اپنے عظیم الشان باپ کا نظیر قرار دیا۔وہ عظیم باپ جو اپنے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کامل تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اب ذرہ سوچو کہ یہ کس عظمت اور شان کی پیشگوئی اس شخص کی ہے جس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور پھر ایسی پیشگوئیاں اپنی سچائی کی معیار قراردیں۔ اور یہ بھی اشتہارات میں مخالفوں کو مخاطب کرکے لکھ دیا کہ اگر تم خدا دوست ہواور خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو دعا کرو کہ یہ پیشگوئیاں پوری نہ ہوں اور پھر وہ پیشگوئیاں پوری ہوگئیں اور مخالفوں نے جو الہامی بھی کہلاتے تھے بہت سی دعائیں بھی کیں کہ وہ پیشگوئیاں ٹل جائیں لیکن خدا نے ان کی دعا نہ سنی اور سب کے سب نامراد رہے۔ کیا ایسا مدعی جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ جن تحریروں اور محکم شہادتوں کے ساتھ یہ نشان ظاہر ہوگئے۔ دنیا میں تلاش کرو کہ بجز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلیٰ درجہ کے ثبوت کی نظیر کہاں ہے؟ مگر اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ چونکہ متعصب انسان کی یہ عادت ہے کہ جبکہ اس پر ہر ایک طرح سے حجت پوری ہو جاتی ہے اورخوب مضبوط طور پر الزام کے شکنجے کے نیچے آجاتا ہے۔ تو پھر وہ دیدہ دانستہ حیا اور شرم سے بھی لاپروا ہوکر دن کو رات کہنا شروع کردیتا ہے۔ اور باوجودیکہ کوئی بھی انکار کی گنجائش نہ ہو تب بھی بیہودہ نکتہ چینیوں کی بنا پر انکار کئے جاتا ہے۔ پس یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفوں نے خدا تعالیٰ کے صدہا نشانوں کو دیکھ کر پھر بھی اُن سے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 147۔148) بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح برتھ ڈے منائی جاتی ہے اس طرح یوم مصلح موعود منایا جاتا ہے جو کہ بالکل غلط خیال ہے۔حضرت مصلح موعود کی تاریخ پیدائش 12 جنوری ہے۔ فروری کے مہینہ میں جماعت احمدیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں ایک عظیم الشان نشان کے ظاہرہونے کی یاد تازہ کرتی ہے جو خداتعالیٰ نے ادیان عالم کو صداقت اسلام کے تازہ ثبوت کے طور پر دکھایا تاکہ یہ عظیم الشان نشان ہمارے ذہن و دل میں اس طرح جاگزیں رہے کہ اس کے علمی پہلوؤں کے فہم کے ساتھ ساتھ اس عظیم نعمت کی احسان مندی کا جذبہ ہمارے سروں کو خدائے بزرگ و برتر کے حضور ہمیشہ جھکائے رکھے اور ہم میں سے ہر شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو دُنیا میں ثابت کرنے کے لیے دلائل اور ثبوتوں میں سے اس عظیم الشان ثبوت سے لیس جب بھی کسی مخالف کے سامنے جائے تو اُسے دلائل سے قائل کرکے اپنے مولا کے حضور پیش کردے۔ ٭…٭…٭