(تقریر: حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 2جون 1929ء برموقع جلسہ سیرۃالنبیؐ بمقام قادیان) سیرت النبیؐ کے جلسوں کے انعقاد کی غرض و غایت اور برکات تشہّدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر دوبارہ اس تحریک پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی جو مَیں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ ملک کے امن اور اس میں صلح کے قیام کا موجب ہوگی۔ مَیں نے پچھلے سال اس مہینہ میں گو اسی تاریخ تو نہیں، اسی موقع پر ان جلسوں کی غرض بیان کی تھی جو کہ ایک ہی دن میں سارے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر بھی اس غرض سے منعقد کئے گئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مبارک حالات بیان کئے جائیں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ اس قسم کے جلسے علاوہ اس کے کہ ان کے ذریعہ ایک عظیم الشان تاریخی حقیقیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مختلف قوموں میں صلح اور آشتی کا موجب ہوں گے۔ اس سال بعض ہندو لیڈروں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آیا ان کے بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں تو ہماری جماعت ان جلسوں میں اسی رنگ میں شریک ہوگی جس طرح وہ شریک ہو رہے ہیں۔ مَیں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ ان جلسوں کی غرض جب یہ بھی ہے کہ مختلف اقوام میں اتحاد اور رابطہ پیدا کیا جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ جب دوسری اقوام ان بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کریں جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تغیّر پیدا کردیئے تو ہماری جماعت کے لوگ ان جلسوں میں شامل نہ ہوں۔ ہماری جماعت کے لوگ بڑی فراخ دلی اور پورے وسعت حوصلہ اور بڑے شوق سے ان میں شامل ہوں گے۔ مَیں نے گزشتہ سال کے جلسہ پر جو تقریر کی، اس میں مثال کے طور پر بیان کیا تھا کہ جب مَیں شملہ گیا تو وہاں ایک جلسہ برہموسماج کا ہوا جس میں شمولیت کے لئے مسز نائیڈو نے مجھے بھی دعوت دی اور مَیں اس میں شامل ہوا۔ مجھے تقریر کے لئے بھی کہا گیا لیکن چونکہ تمام کے تمام حاضرین انگریزی سمجھنے والے تھے اور بہت قلیل التعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اردو سمجھ سکتے تھے اور مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کا ملکہ نہ تھا، اس مجبوری کی وجہ سے مَیں تقریر نہ کرسکا ورنہ مَیں نے کہہ دیا تھا کہ تقریر کروں گا۔ چونکہ ابھی تک اس قسم کے جلسوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا اس لئے پوری طرح ان پر عمل نہیں شروع ہوا۔ لیکن جب بھی ایسے جلسے کئے گئے اور حضرت کرشن، حضرت رامچندر یا اَور بزرگوں کے حالات بیان کئے گئے۔ انہوں نے دنیا میں جو اصلاحیں کی ہیں وہ پیش کی گئیں۔ انہوں نے خود تکلیفیں اٹھاکر دوسروں کو جو آرام پہنچایا ان کے لئے جلسے کئے گئے تو کوئی احمدی نہ ہوگا جو شوق اور محبت سے ان میں شامل نہ ہوگا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ انبیاء کا ذکر انبیاء کے طور پر کیا جائے اور قومی مصلحین کا ذکر اسی رنگ میں ہوگا نہ کہ انبیاء کے رنگ میں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر قوم کی طرف سے اپنے مذہبی بزرگوں کے متعلق اس قسم کے جلسے ہوں تو وہ بھی یقینا ہمارے ان جلسوں کو بہت پُرلطف اور بہت دلچسپ بنادیں گے۔ کیونکہ اس طرح آپس میں بہت زیادہ تعاون کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اور جس قدر محنت اور کوشش ہمیں اب ان جلسوں کے انعقاد کے متعلق کرنی پڑتی ہے، اس وقت اتنی نہ کرنے پڑے گی۔جب دیگر مذاہب کے لوگ دیکھیں گے کہ ان کے جلسوں میں ہر جگہ ہماری جماعت کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ محبت اور شوق سے ان کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہیں ، کھلے دل سے ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو یقینا ہمارے جلسوں میں ان کی شمولیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگی اور بہت زیادہ اخلاص اور محبت سے ہوگی۔ مجھے اس بات سے نہایت خوشی ہے کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ جلسے ہو رہے ہیں۔ پچھلے سال ہندوستان کے مختلف مقامات کے لوگوں نے پانچ سو جلسے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اس سال 1900 سے زیادہ جلسوں کے وعدے آچکے ہیں۔ پچھلے سال ایک ہزار کے قریب جلسے ہوئے تھے۔ اس سے اندازہ لگاکر کہا جاسکتا ہے کہ اس سال چار پانچ ہزار جگہ لوگ اس مبارک تقریب پر جمع ہوں گے۔ امن و اتحاد کی بنیاد رکھنے والے جلسے انسانی آنکھ دُور تک نہیں دیکھ سکتی اور میری آنکھ بھی اس نظارہ کو نہیں دیکھ سکتی جو سارے ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی آج رونما ہے۔ لیکن خدا نے جو روحانی آنکھ پیدا کی ہے، اس سے مَیں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس سے دل خوشی سے بھرتا جارہا ہے اور نظر آرہا ہے کہ یہی جلسے ایک دن فتنہ وو فساد کو مٹاکر امن و اتحاد کی صحیح بنیاد قائم کردیں گے۔ اس سال نہ صرف یہ کہ جلسے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ منعقدہوں گے بلکہ پہلے سے زیادہ مقتدر اور معزز لوگوں نے ان میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ کل ہی کلکتہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر سین گپتا نے جو کلکتہ کے نہایت معزز آدمی ہیں ، شمولیت کا وعدہ کیا ہے۔ اوربڑے بڑے لوگوں نے اشتہار میں اپنے نام لکھائے ہیں۔ بہت سی اعلیٰ طبقہ کی خواتین نے بھی جلسہ میں شریک ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا ہے۔ پچھلے سال تو بنگال کی ایک مشہور خاتون نے جو ایم۔اے ہیں ، اس بات پر اظہار افسوس کیا تھا کہ ہمارے طبقہ کو ان جلسوں میں زیادہ حصہ لینے کا موقع کیوں نہ دیا گیا۔ اسی طرح اور مقامات کے معززین کے متعلق بھی اطلاعات موصول ہوچکی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے اعلانات میں اپنے نام لکھائے، شمولیت جلسہ کے وعدے کئے اور ہر طرح جلسہ کو کامیاب بنانے میں امداد دی۔ اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ پچھلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تین پہلوؤں کو لیا گیا تھا۔ اور مَیں نے بھی ان پر اظہار خیالات کیا تھا۔ اس سال ان کے علاوہ دو اَور پہلو تجویز کئے گئے ہیں اور وہ یہ کہ: (1) توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اس پر زور۔ (2) غیرمذاہب کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل۔ گو دوسرے مقامات پر یہی طریق رکھا گیا ہے کہ مختلف مضامین پر مختلف لوگ اظہارِ خیالات کریں۔ لیکن اس مقام (قادیان) کے مخصوص حالات کی وجہ سے پچھلے سال بھی یہی طریق تھا کہ تینوں مضامین پر مَیں نے ہی اظہار خیالات کیا تھا اور اب بھی یہی ارادہ ہے کہ انشاء اللہ دونوں مضامین پر مَیں ہی بولوں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس تقریب کی اہمیت کے لحاظ سے جتنا لمبا کلام اور جس طرز کا کلام ہونا چاہئے تھا بوجہ بیماری اور کھانسی مَیں اتنا لمبا بیان نہیں کرسکوں گا اس لئے مجبوراً اختصار کے ساتھ اہم پہلو لے کر اظہار خیالات کروں گا۔ توحید کی اہمیت مَیں سب سے پہلے توحید کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ توحید کے متعلق مختلف مذاہب میں اصولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کئی مذاہب ایسے ہیں جو توحید کے قائل نہیں ، مگر یہ درست نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ توحید کی تفصیل اور تشریح میں اختلاف ہو مگر اصولی طور پر تمام مذاہب کے لوگ توحید کے قائل ہیں۔ حتیٰ کہ جن مذاہب کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ توحید کے خلاف ہیں ، وہ بھی دراصل توحید کے قائل ہیں۔ مَیں نے ہندوؤں ، سکھوں ، یہودیوں ، زرتشتیوں ، عیسائیوں ، بدھوں کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور اسلام تو ہے ہی اپنا مذہب، اس کا مطالعہ سب سے زیادہ کیا ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ساری اقوام اور تمام مذاہب توحید کے لفظ پر جمع ہیں اور سب کے سب اس کے قائل ہیں۔ عام مسلمان خیال کرتے ہیں کہ عیسائی توحید کے قائل نہیں۔ مگر مَیں نے عیسائیوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسلمان توحید کے قائل نہیں۔ توحید کے اصل قائل ہم (عیسائی) ہیں۔ اسی طرح مَیں نے ہندوؤں کی کتب میں پڑھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو توحید کے قائل اور دوسروں کو اس کے خلاف بتاتے ہیں۔ یہی حال دوسرے مذاہب کا ہے۔ اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لفظ توحید کے سب قائل ہیں۔ باقی تشریحات میں اختلاف ہے۔ اور جب کوئی قوم خود اقرار کرتی ہو کہ وہ توحید کی قائل ہے تو پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ قائل نہیں ، درست نہیں ہوسکتا اور سب اقوام اور سب مذاہب کے لوگوں کا توحید کا قائل ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ مسئلہ باقی دنیا کی نظر میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی ایک ہی غرض پیش کرتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ بندوں کا خدا سے تعلق پیدا کرنا۔ خواہ اس ہستی کا نام خدا رکھ لیا جائے یا گاڈ (God) یا پرمیشور یا ایزد، اس سے بندہ کا تعلق پیدا کرنا مذہب کی غرض ہے۔ اب صاف بات ہے کہ اگر کوئی مذہب توحید پر قائم نہ ہو تو یقینا وہ اپنے پیروؤں کو اَور طرف لے جائے گا۔ اور اس کا پیرو اس مقصد کے حاصل کرنے سے محروم ہوجائے گا جو مذہب کا ہے۔ جب تک ایک نقطہ نہ ہو جس پر پہنچنا مقصود ہو، اس وقت تک تمام کوششیں بے کار جاتی ہیں۔ اور ساری اقوام اس پر متفق ہیں کہ ایک ہی نقطہ ہے جس تک سب کو پہنچنا ہے۔ بعض قومیں گو بتوں کو پوجتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہم بتوں کی اس لئے پوجا کرتی ہیں کہ وہ خدا تک ہمیں پہنچادیں۔ غرض ہر مذہب والا اپنے مذہب کی غرض خدا تک پہنچنا قرار دیتا ہے اور اگر کوئی خدا تک نہ پہنچے تو ہر مذہب والا سمجھے گا کہ وہ اصل مقصد کے پانے سے محروم رہ گیا۔ اس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنی ہیں کہ جسے توحید کا راز معلوم نہ ہوا وہ محروم رہ گیا۔ مَیں نے جیسا کہ بتایا ہے، ایسے جلسوں کی غرض مختلف اقوام میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا ہے۔ اس لئے مَیں ایسے رنگ میں اپنا مضمون بیان کروں گا کہ کسی پر حملہ نہ ہو بلکہ ہمارا مذہب جو کچھ بتاتا ہے اسے پیش کیا جائے۔ ہر وہ مذہب جو خدا تعالیٰ کو مانتا ہے اس میں توحید کی تعلیم دی گئی ہے ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں وہ سب کے سب خدا کی طرف سے قائم کئے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نہ کوئی نبی، اوتار، رشی اور مُنی نہ گزرا ہو۔ یہ بات آپ نے اپنے پاس سے نہیں لکھی بلکہ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خیال تھا اور پُرانے آئمہ کا بھی یہی مذہب تھا۔ اس عقیدہ کی موجودگی میں یہ کہنا کہ توحید پہلے نہ تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، قرآن کریم کی تردید کرنا ہے۔ جب قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو یقینا ہر قوم میں توحید بھی قائم ہوئی۔اگر آج کسی قوم میں توحید نہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے، اُس وقت نہ تھی تو اِس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ اس وقت وہ قوم توحید سے تہی دست ہوچکی تھی، نہ یہ کہ اس قوم میں جو نبی آیا اس نے توحید کی تعلیم نہ دی تھی۔ پس ہر وہ مذہب جو خداتعالیٰ کو مانتا ہے اس میں توحید کی تعلیم دی گئی۔ ہاں اس پر سب اقوام متفق ہیں کہ جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اس وقت توحید مٹ چکی تھی۔ چنانچہ ہندوؤں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہوچکی تھی، مذہبی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ عیسائیوں کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا۔ اور لکھا ہے کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ عیسائی قوم سے توحید جاتی رہی تھی۔ عیسائیوں نے اسلام میں توحید دیکھ کر اسے قبول کرلیا۔ یہی بات زرتشتی کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں چونکہ زرتشتی لوگ توحّد چھوڑ چکے تھے، انہیں مسلمانوں کی پیش کردہ توحید پسند آگئی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ غرض یہ سب مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل گیا تھا دنیا میں توحید نہ رہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں پیدا ہوکر ایسے مقام میں پیدا ہوکر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا، وہاں کوئی مذہب ہی نہ تھا، کوئی ایسی کتاب نہ تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہو کہ خدا کی طرف سے ملی ہے۔ بلکہ وہ لوگ سمجھتے تھے ہمارے بزرگ جو بات کہہ گئے وہی مذہب ہے۔ حالانکہ مذہب وہی کہلاسکتا ہے جس کے ماننے والوں کے پاس ایسی کتاب ہو جس کے متعلق ان کا اعتقاد ہو کہ پرمیشور یا خدا نے نازل کی ہے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم میں پیدا ہوئے جس کا کوئی مذہب نہ تھا۔ وہ نہ وید کو الہامی مانتی تھی نہ توریت کو، نہ انجیل کو نہ ژند کو۔ ایسے ملک اور ایسی قوم میں پیدا ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحّد کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیا کہ آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ (باقی آئندہ)