(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات، گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکرم عادل صبری صاحب مکرم عادل صبری صاحب لکھتے ہیں : میرا تعلق یمن سے ہے جہاں میری پیدائش 15 نومبر 1974ء میں ہوئی، اور مجھے بفضلہ تعالیٰ نومبر 2010ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔میرے احمدیت کی طرف سفر کا مختصر احوال کچھ یوں ہے۔ خداسے محبت کا ابتدائی بیج بچپن ہی سے میرے دل میں مخفی طور پر خدا تعالیٰ کی تلاش اور اس سے تعلق جوڑنے کی پیاس تھی۔اس وقت گو میں اس کی حقیقت سے نا آشنا تھا لیکن یہ خواہش میرے اندر خدا تعالیٰ کی طرف ایک جذب کی کیفیت پیدا کرتی رہتی تھی۔ عمومًا بچے اپنے والد کے ساتھ انگلی پکڑ کر مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں نماز کی عاد ت پڑ جاتی ہے۔ لیکن مجھے یہ سب کچھ میسر نہ آسکا کیونکہ میرے والد صاحب کی وفات ہوچکی تھی اور والد صاحب کی جگہ ہماری دادی جان نے باوجود اَن پڑھ ہونے کے ہماری دینی تربیت کا خاص خیال رکھا اوران کی خاص شفقت اور کوشش کی وجہ سے محض آٹھ سال کی عمر سے مجھے مسجد کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوگیا۔لیکن یہ لگاؤ محض دادی جان کے حکم ماننے کی حد تک نہ تھابلکہ اس میں ایک خاص محبت اور شوق تھا جس کی آج سمجھ آتی ہے کہ وہ خدا کے ساتھ تعلق اور اس کو پانے کی خواہش کا ابتدائی بیج تھا۔ جہدِ کبیر اور زادِ قلیل میں زیدی فرقہ کی قدیمی مسجد میں جایا کرتا تھا۔ کئی سال تک اس میں نماز ادا کرنے کے دوران مَیں نے دیکھا کہ اس مسجد میں اکثربڑے لوگوں میں اختلاف ہو جاتااورمعمولی معمولی باتوں پر تُوتُو مَیں مَیں ہونے لگتی۔ اس مسجد کے اکثر سرکردہ نمازیوں کے سینے بغض اور کینے سے پھٹے جاتے تھے۔گو میری عمر اس وقت گیارہ بارہ سال تھی لیکن مجھے اس ماحول سے گھن آنے لگی اور میں نے مجبور ہو کر یہ مسجد چھوڑ کر ایک نسبتًا دُور کی مسجد میں جانا شروع کردیا۔یہ نئی مسجد نسبتًا بہتر تھی۔ اس میں میرا تعارف بعض متدیّن نوجوانوں سے ہوا جن کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ اس وقت شاید ہمارے علاقے میں اخوان المسلمین اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر نہیں ڈوبے تھے اورشاید اُس وقت ان میں قیادت اور حکومت کو حاصل کرنے کی ہوس ابھی ابتدائی مراحل میں تھی اس لئے زیادہ تر رجحان دینی تعلیم اور اخلاقی ارتقاء پر تھا۔میں نے ان کے ساتھ آٹھ نو سال گزارے اورجوانی میں پہنچ کر احساس ہوا کہ اس سارے سفر میں جو کچھ پایا ہے شاید اس سے بمشکل روحانی زندگی کی آخری رمق کو توبچایا جاسکتا ہے لیکن جس چیز کی میری روح متلاشی ہے،اور جس کے لئے میرا دل جویاں ہے وہ کہیں اور ہے۔یہ سوچ کر میں نے جُہدِ کبیر سے ملنے والی زادِ قلیل کو بھی ترک کر کے اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دی اوراس میں اس حد تک غرق ہو کر رہ گیا کہ میری روحانی زندگی کے ارتقا ء کی خواہش کتابوں کے بوجھ کے نیچے کہیں دب کے رہ گئی۔ قرآن۔۔ علوم وخزائن کا قلزمِ بیکراں پڑھائی ختم ہوئی تو کام میں مصروف ہوگیا ، اور شادی کرلی۔ شادی کے بعد اولادکو پڑھانے اور گھر کو چلانے کے لئے دن رات کام کرنے میں مصروف ہوگیا۔ایسے میں کبھی کبھی مجھے مسجد میں نمازوں کے لئے جانے اور خدا سے تعلق کا متلاشی رہنے کا زمانہ یاد آتا تو میرے دل میں گھاؤ لگنے لگتے۔جب بھی فرصت کے کچھ لمحات میسر آتے تو میرا دھیان اسی طرف چلا جاتا اور میں خود کو اس کوتاہی کا ذمہ دار اور مجرم سمجھنے لگتا۔دس سال تک ضمیر کی آوازکو سن کر اس سے آنکھ چراکر بھاگتے بھاگتے میں تھک گیا اور بالآخر ایک روز اس آواز کو سن کر میں نے انٹرنیٹ پر خدا تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں جاننے کے لئے ریسرچ شروع کردی۔ اس دوران میرا دھیان علم فلک کی طرف پھر گیا اورخدا تعالیٰ کی قدرت کے باریک در باریک اسراراور پیچ درپیچ تخلیق کے بارہ میں پڑھ کرمیرا دل خدا تعالیٰ کی عظمت کے جذبات سے بھر گیا۔باوجوداس کے ان امور کو پڑھ کر مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور اس خدائے ذوالعجائب کے بارہ میں دل میں عبودیت کے جذبات امڈتے جارہے تھے۔لیکن میں حیران تھا کہ دینی کتب اور علماء جس خدا کو پیش کرتے ہیں اس میں اور اس پیچ در پیچ کائنات کے خالق میں بہت زیادہ فرق ہے جس کی عظمت اور علم کی انتہاء نہیں ، جس کی قدرتیں لامحدود ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے دین اور دینی کتب کے بارہ میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگے۔میں نے کہا کہ اگر قرآن کریم خدا کا کلام ہے تواس میں وہ گہرائی اور خدا کی ا ِس عظمت اورعلم کا اظہار کیوں نہیں جس کے بارہ میں علم فلک کی کتب میں صراحت پائی جاتی ہے۔ میرا اس وقت کادینی علم علماء کی زبانی سنا سنایا اورایسے ہی علماء کی بعض کتب سے ماخوذتھا۔ظاہری صورتحال سے پیدا شدہ نتائج کے برعکس میرے اندر سے ایک ہی آواز آرہی تھی کہ نبی کریمؐ کبھی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ لیکن اگر آپؐ سچے ہیں تو پھرقرآن کریم بھی سچا ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو قرآن کو خود اپنی صداقت کا ثبوت دینا چاہئے اور خود اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا چاہئے۔ جب میں نے ان خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کا ایک لمبے عرصہ کے بعد مطالعہ شروع کیا تو میرے لئے معارف کا قلزمِ بیکراں کھل کیا۔ خدائی ہاتھ نے مجھے خود پکڑ کر اپنے کلام میں چھپے لعل وجواہر کی چمک دکھانی شروع کی۔ الغرض میں نے قرآن کریم میں معارف اور علوم کے پُر جوش فوارے پھوٹتے دیکھے اور اس میں وہ سب کچھ پایا جس کی میری روح میں پیاس تھی۔اس عرصہ میں میں بسا اوقات دس دس گھنٹے تک قرآن کا مطالعہ کرتا اور اس کے روحانی اورعلمی خزانوں سے فیضیاب ہوتا۔ قرآن کریم کے علوم ومعارف کے مطالعہ سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی خبر دیتا ہے۔لیکن میرے لئے اس بعثت کی حقیقت مخفی تھی۔ نبی کریمؐ کی زیارت احمدیت سے تعارف سے ایک سال قبل 2009ء کے بالکل شروع کی بات ہے کہ میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک بڑی مسجد کے بیرونی صحن میں خطبہ جمعہ کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں کہ اچانک مسجد کے وسط سے یہودیوں کا ایک گروہ نکلتا ہے جو اپنے معروف سیاہ لباس اور مخصوص سیاہ ہیٹ میں ملبوس ہیں اور ہاتھوں میں شمعدان پکڑے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میں نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ یہودی ہماری مسجد میں کیوں آئے ہیں ؟ کسی نے جواب دیا کہ یہودی اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سننے کے لئے آئے ہیں۔یہ سن کر حیرانی کے عالم میں مَیں نے بے ساختہ کہا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مسجد میں ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں ، وہ اس وقت مسجد کے اندرونی ہال میں ہیں۔ یہ سنتے ہی جیسے مجھے پر لگ گئے اور میں دوڑتا ہوا مسجد کے اندر جا پہنچا۔مسجد کا اندرونی حصہ سادہ اور بغیر نقش ونگار کے تھا اورلوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ مسجد کا منبر ہمارے علاقے کی دیگر مساجد کی طرح زمین سے اونچا نہیں تھا۔ میں بسرعت اس منبر کی طرف بڑھنے لگا۔ جب بھی میں کسی صف کے پاس سے گزرتا تو اس صف والے بھی منبر کی طرف بھاگنے لگتے اور مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا مشکل نہ ہوجائے۔ چنانچہ مَیں نے اپنی رفتار میں اضافہ کردیا اور سب سے پہلے حضو رؐ تک جا پہنچا اور وہاں جاکر کہا کہ رسول اللہؐ کہاں ہیں ؟ اس وقت رسو ل اللہ ؐ فواد نامی میرے ایک کزن کو مصافحہ کا شرف عطافرمارہے تھے۔ میں انتظار کئے بغیررسول اللہ ؐ کے قریب چلا گیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپؐ نے یہ دیکھ کر دوسرا ہاتھ میری طرف بڑھاکر میرے سینے پر رکھ دیا۔میں نے آپ کے دست مبارک کے بوسے لئے اوراس کے ساتھ لپٹ کر بشدت رونے لگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سادہ سا انڈین لباس پہنا ہوا تھا اور آپ کے کندھوں پر ایک شال تھی۔ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم نہ تھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور آپ سے ملاقات کی وجہ سے میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔اس وقت تک مجھے اس بات کا علم تھا کہ جس شخص نے خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قراردیا ہے اس کا تعلق انڈیا سے ہے۔ احمدیت سے تعارف اور بیعت اس رؤیا کے تقریبًا ایک سال کے بعد یعنی 2009ء کے اواخر پر میرے بڑے بھائی کو مختلف ٹی وی چینلز دیکھنے کے دوران ایم ٹی اے مل گیا جس پر اس نے سناکہ امام مہدی انڈیا میں ظاہر ہوچکا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ مسیح موعود بھی ہے۔ ہم نے شروع میں اس کی کوئی پرواہ نہ کی لیکن میری بہن اور بہنوئی نے اس کے بارہ میں تحقیق کی، اور بالآخر ایک روز میری بہن ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ میرے خیال میں یہ لوگ سچے ہیں۔ او رمرزا غلام قادیانی علیہ السلام ہی سچے امام مہدی اور مسیح موعود ہیں۔نیز اس نے بتایا کہ وہ بیعت کرنا چاہتی ہے۔ پھر اس نے بیعت فارم پُر کر کے میرے ذریعہ سے ہی ارسال کیااور محض چند ماہ بعد ہی ہمارے بہنوئی نے بھی بیعت کرلی۔ ان دونوں کے اس اقدام نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ چونکہ میری توجہ صرف اور صرف قرآن کریم پر تھی۔ اس لئے میں جب بھی اپنی بہن اور بہنوئی سے کہتا کہ قرآن صرف ایک شخص کے آنے کی خبر دیتا ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہے۔ وہ مجھے جواب دیتے کہ ہم بھی اسی شخص کی بات کررہے ہیں او راسی پر ہی ایمان لائے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خود آنے کی بات کررہے ہو جو ممکن نہیں ہے اور ہم اس خبر کی حقیقی تاویل پیش کررہے ہیں کہ آپؐ کی آمدسے مراد آپ کے کسی خادم کا آنا ہے جوآپ سے ہی کسبِ فیض کر کے آپ کے دین کو پھیلائے گا۔ شروع شروع میں یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی۔ لیکن بعد میں جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے دعویدار کے پاس الٰہی نشانات اور تائیدات بھی ہیں تو میں نے یہ سوچ کر ایم ٹی اے دیکھنا شروع کردیا۔ اس دوران جب میں نے حضور ؑ کے بعض قصائد پڑھے تو ان میں پروئے گئے علم وحکمت کے لعل وجواہر اورمعارف وحقائق کے موتیوں کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔پھر جب میں نے حضورؑ کی عربی کتب کا مطالعہ کیا تومزید حیرتوں میں ڈوبتا چلا گیا۔کیونکہ میں نے انہیں علومِ قرآن کے خزانوں سے معمور پایا، جو اس بات کا واضح اعلان تھا کہ یہ شخص خدا کا تائید یافتہ انسان ہے ورنہ ایسے علوم خدا تعالیٰ کسی جھوٹے کو ہرگز نہیں دیتا۔ چنانچہ میں نے اس بارہ میں خدا تعالیٰ سے مدد کے لئے دعا شروع کردی اورخدا کی راہنمائی کا انتظار کرنے لگا۔ جب نماز میں تضرع کے ساتھ دعا کرنے کے بعد میں حسبِ عادت بیٹھ کر قرآن کریم پرغوروخوض کرنے لگا تو میرے سامنے سورہ الفرقان کھلی۔ میں نے اس کی آیات پر غور شروع کیا تو مجھے ایسے محسوس ہوا کہ یہ سورت میرے تمام سوالوں کا جواب دے رہی ہے۔جب میں نے اس کے آخر پر یہ پڑھا کہ عباد الرحمن تو وہ ہیں جنہیں جب خدا تعالیٰ کی آیات کی تذکیر کروائی جاتی ہے تو وہ ان کے ساتھ اندھوں اور بہروں جیسا سلوک نہیں کرتے ، تو میرا دل ڈر گیا۔ پھر آخر پر اللہ کا یہ ارشاد پڑھا کہ اے رسول تو ان سے کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہو تو خدا تمہاری پرواہ ہی کیا کرے۔چونکہ میں نے دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور اپنی آیات سے میری تسلی کروائی تھی اس لئے میرے لئے بہت مؤثر ثابت ہوئی کیونکہ ایسے نشان کا انکار بہت سخت عذاب سے ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا میں نے بیعت کا فیصلہ کرلیا۔اسی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی حقیقت بھی سمجھا دی اور اگلی صبح میں نے بیعت فارم پُر کرکے ارسال کردیا۔ بیعت کے بعد مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ایسے دُرر اور معارف کے خزانے پائے جن کی میری روح میں دیرینہ پیاس تھی۔ احمدیت کے ذریعہ تجدیدِ دین بیعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے رؤیائے صالحہ سے بھی نوازا۔ ایک رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ میں ایک جلنے والی قدیم مسجد کو دیکھ کر غمگین ہوں۔ ایسے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آئے اور فرمایا کہ میرے ساتھ آؤ اور غم نہ کرو۔ میں چل دیا تو دیکھا کہ اس جلنے والی مسجد کی دیواریں گرتی گئیں اوراس کے پیچھے ایک خوبصورت مسجد نظر آنے لگی۔ حضور ؓمجھے اس کے نیچے جانے والے ایک راستے پر لے گئے جو ہمیں زمین کے نیچے بسنے والے ایک نہایت روشن شہر میں لے گیا۔میں اس رؤیا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ یقینا اس میں احمدیت کے ذریعہ اسلام کی تجدید کی طرف اشارہ تھا۔یہ محض خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ورنہ ہم اپنی کوشش سے ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ …………… (باقی آئندہ)