اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں ۔ ………………………… حضرت چودھری سردار خانصاحب کاہلوں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6ستمبر 2011ء میں مکرم منصور احمد صاحب امیر ضلع حیدر آباد نے اپنے دادا حضرت چودھری سردار خان صاحبؓ آف چک چہور ضلع شیخوپورہ کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپؓ ان خوش نصیب احباب میں شامل تھے جن کو حضرت مسیح موعود کے دعویٰ کی ابتدا میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ آپؓ اپنے ایک بھائی چوہدری نواب خان صاحب کے ہمراہ گاؤں کے ایک حافظ قرآن بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہوں نے بتایا کہ حضرت مرزا صاحب نے قادیان میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے۔ اُسی وقت ان دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہماری بیعت کا بھی خط لکھ دیں ۔ آپؓ کی دستی بیعت کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ تاہم آپؓ ایک مخلص داعی الی اللہ اور جوشیلے احمدی تھے۔ آپؓ کی وفات 10مئی 1935ء کو ہوئی۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی اور دو بیٹے عطا کئے۔ جن کی اولاد میں خدا کے فضل سے کئی خدمت کرنے والے موجود ہیں ۔ …٭…٭…٭… محترمہ حاکم بی بی صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19ستمبر 2011ء میں مکرمہ صفیہ بشیرالدین سامی صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنی ساس محترمہ حاکم بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم سردار مصباح الدین صاحب (سابق مبلغ انگلستان) کا ذکرخیر کیا ہے۔ میری ساس محترمہ حاکم بی بی صاحبہ پہلی بار میرے گھر آئیں تو میرے ہاں پہلی بیٹی کے بعد دوسرے بچے کی ولادت متوقع تھی۔ انہوں نے ایک خواب کے نتیجہ میں کہا بیٹا ہوگا اور اُس کا نام منیر احمد تجویز کردیا۔ یہ بچہ آپ کی وفات کے پانچ ہفتہ بعد پیدا ہوا۔ اماں جی کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نامور زمیندار گھرانہ سے تھا۔ 7 سال کی عمر میں آپ کا رشتہ طے ہوگیا اور 13 سال کی عمر میں رخصتی ہوکر آپ سیالکوٹ آگئیں ۔ لیکن اُس وقت آپ کے شوہر احمدی ہوچکے تھے اور قادیان میں زیر تعلیم تھے۔ باقی سسرال احمدی نہیں تھے۔ ایک روز ایک ہندو عورت نے آپ کو نصیحت کی کہ تم قادیان نہ جانا کیونکہ جو وہاں جاتا ہے وہ اپنا مذہب بدل لیتا ہے۔ آپ نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا میری توبہ مَیں کبھی اپنا مذہب نہیں بدلوں گی اور نہ ایسی جگہ جاؤں گی۔ ابھی آپ کے شوہر زیر تعلیم ہی تھے کہ وہ آپ کو اپنے ہمراہ قادیان لے جانے کے لئے آگئے۔ اگرچہ گھر والے آپ کو قادیان نہیں بھجوانا چاہتے تھے لیکن شوہر کے پوچھنے پر آپ نے رضامندی ظاہر کردی تو گھر والوں نے اس شرط پر جانے کی اجازت دی کہ گھر سے کوئی سامان اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتی۔ چنانچہ آپ نے سارا زیور اور کپڑے گھر میں ہی چھوڑ دیئے اور دونوں میاں بیوی خالی ہاتھ سٹیشن پر آگئے۔آپ کے سُسر بھی سمجھاتے ہوئے سٹیشن تک ساتھ آئے لیکن دونوں میاں بیوی کا ارادہ نہ بدل سکے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ جب مَیں قادیان پہنچی تو میری ذمہ داریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کھانا بنانا مجھے بالکل نہیں آتا تھا صرف ساگ بنا سکتی تھی۔ پڑھائی بھی مَیں نے کوئی نہیں کی ہوئی تھی۔ صرف قرآن مجید کے چند پارے پڑھے تھے۔ ایک مرتبہ محمد حسن صاحب کی بیگم نے ہماری دعوت کی وہ کافی پڑھی لکھی اور ہنر مند بی بی تھیں ۔ اُن کی اپنی لائبریری تھی۔ وہ اپنی لائبریری مجھے دکھاتی رہیں اور مختلف کتب کے بارہ میں بتایا۔ مَیں دل میں بہت شرمندہ تھی کہ کیسے انہیں بتاؤں کہ مجھے اُن کی کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ پھر ایک دفعہ مَیں کسی کے گھر گئی تو ساتھ والے گھر سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے تقریر کرنے کی آواز آ رہی تھی۔ مَیں سُن کر گھر آ گئی۔ اس وقت تک میں حضور کو نہیں جانتی تھی اور نہ احمدیت کے بارے میں کچھ علم تھا۔گھر آ کر اپنے شوہر کو بتایا کہ وہاں کوئی مولوی مانگنے والا آیا ہوا تھا۔ انہوں نے سمجھایا کہ ایسے نہیں کہتے وہ ہمارے حضور ہیں ۔ اپنی ان کم علمیوں کی وجہ سے میں کافی دل برداشتہ ہوگئی اور چوری چھپے قاعدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن اچانک میرے شوہر نے مجھے قاعدہ پڑھتے دیکھ لیا۔ مَیں تو ڈر گئی کہ جانے اب یہ کیا کہیں گے مگر وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر آہستہ آ ہستہ کچھ دین کی بھی سمجھ آنے لگی اور جب مَیں نے احمدیت قبول کر لی تو میری دنیا ہی بدل گئی۔ ایک بار میرے شوہر نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو کھانے کی دعوت دے دی۔ مَیں جو کھانا بنانے میں با لکل اناڑی تھی مشکل میں پڑ گئی۔ کباب بنانے کے لئے قیمہ منگوایا اور پانی سے دیگچی بھر کر اس میں قیمہ ڈال کے پکنے کو رکھ دیا۔ پھر پانی خشک ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ پانی بھی خشک ہو گیا لیکن کباب نہ بن سکے۔ پھر ایک اور خاتون کو مدد کے لئے بلایا اور بازار سے دوبارہ چیزیں منگوا کر کھانا تیار کیا۔ اس طرح ہم نے حضورؓ کی دعوت کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں تھوڑی بہت سمجھدار بھی ہوگئی اور بچوں کی ماں بھی بن گئی۔ قرآن مجیدناظرہ، اردو، اور دیگر دینی باتیں سیکھیں ۔ خط لکھنا سیکھا اور پہلا خط حضورؓ کی خدمت میں لکھا۔ حضورؓ نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا تم نے بعد میں آکر اتنا اچھا لکھنا شروع کر دیا۔ اس تعریف نے میری مدد کی اور جلد ہی میرے مضمون ’’مصباح‘‘ میں چھپنے شروع ہو گئے۔ میرے شوہر مبلغ ہو کر انگلستان چلے گئے تو مجھے 20 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا جس میں سے بچت کر کے مَیں نے دس مرلے زمین خرید کر گھر بنالیا۔ جب شوہر لندن سے واپس آئے تو وہاں سے صرف ایک گڑیالائے، میرے منہ سے نکلا آپ تو ایسے لگتا ہے جیسے ساتھ والے گاؤں سے آئے ہیں ۔ پھر ہم نے وہ مکان بیچ کر محلہ دارالفتوح میں دو کنال پلاٹ میں گھر بنالیا۔ تب میرے شوہر کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سراج الدین صاحب بھی احمدی ہوکر قادیان آگئے تو ساتھ کا دو کنال پلاٹ اُن کو لے دیا۔ چونکہ زمینداری میرے خون میں تھی اس لئے ہمیشہ گھر میں دودھ دینے والا جانور رکھا۔ میرے اندر احمدیت ایسے رچ بس گئی تھی کہ پھر کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو مجھے پیچھے دیکھنے پر مجبور کرتی۔ مَیں اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے دین و دنیا سے مالا مال کیا۔ ہم دونوں کبھی واپس اپنے گھروں میں نہیں گئے۔ ہم نے کبھی اپنے ددھیال اور ننہال نہیں دیکھے۔ میرے تمام رشتے اور بہن بھائی وہی بن گئے تھے جو میرے قرب وجوار میں قادیان میں رہتے تھے۔ ہم نے اپنے بیٹے کی بسم اللہ کروانے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو گھر پر دعوت دی۔ بچہ کو تیار کرکے اُسے ایک روپیہ دیا کہ جب حضور آپ کو پڑھائیں گے تو آپ نے یہ نذرانہ حضور کو دینا ہے۔ لیکن ہؤا یہ کہ جیسے ہی حضور تشریف فرما ہوئے، بچے نے فوراً روپیہ نکال کر حضور کو پیش کر دیا کہ یہ روپیہ آپ لے لیں مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ حضور کی شفقت دیکھیں کہ بچہ کے ہاتھ میں روپیہ پکڑایا اور پیار سے کہا کوئی بات نہیں اگر تمہیں پڑھنا نہیں آتا تو مَیں سکھاتا ہوں ۔ اور پھر بچے نے آرام سے سبق سیکھا۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ رؤیا صالحہ اور کشوف کی نعمت سے بہرہ ور تھیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا گھرانہ چنیوٹ آگیا۔ یہاں غربت نے گھر میں ڈیرا ڈال دیا۔ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کنبہ بہت بڑا تھا۔ شوہر نے ساری زندگی وقف میں ہی گزاری تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل میں مدد کی۔ گھر کے گردونواح میں زیادہ تر مہاجر آباد تھے۔ آپ دل کھول کر اُن کی مدد کرتیں ۔ دن رات قرآن کریم پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ محلہ بھر میں ’’بے بے‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئیں ۔ نماز روزے کی پابند، تہجد گزار، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والی اور ہر وقت درود شریف کا ورد کرنے والی تھیں ۔ وصیت کا چندہ باقاعدگی سے دیتیں بلکہ باقی چندوں میں بھی کبھی سستی نہ ہونے دیتیں ۔ سادگی اس قدر تھی کہ سونا چاندی تو ایک طرف کبھی مصنوعی زیور بھی نہیں پہنتی تھیں ۔ دونوں میاں بیوی چنیوٹ سے ربوہ جاکر نماز جمعہ ادا کرتے۔ جلسہ کے دنوں میں ربوہ میں ہی ٹینٹ لگالیتے اور مہمان داری جاری رہتی۔ چنیوٹ کے گھر میں بھی مہمانوں کی آمدورفت مسلسل جاری رہتی۔ مالی لحاظ سے تنگی ہونے کے باوجود جو کچھ بس میں ہوتا سامنے رکھ دیا جاتا۔ ایک مرتبہ آپ کے شوہر کسی مہمان کو لے کر آ گئے کہ چائے بناؤ۔ آپ نے نہ جانے کہاں سے دودھ اور پتی لی اور گھر میں جس پیڑھی پر بیٹھی ہوئی تھیں اسی کو توڑکر آگ جلائی اور مہمان کو چائے بنا کر پلائی۔ پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں تھیں لیکن کمزور مالی حالت کے شکار اپنے بچوں کے سر پر بھی دست شفقت رکھا۔ اور پھر سب کو اپنے گھروں میں خوشحال دیکھ کر گئیں ۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں ۔ …٭…٭…٭… مکرم آصف کھوکھر صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2011ء میں مکرم محمد انیس صاحب دیالگڑھی کے قلم سے اُن کے ایک عزیز دوست مکرم محمد آصف کھوکھر صاحب آف گوجرانوالہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ مکرم آصف کھوکھر صاحب 9؍ستمبر 2007ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے۔ آپ 1974ء میں گوجرانوالہ سے نقل مکانی کرکے ربوہ میں آبسے تھے۔ اُس سال احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات کے دوران گوجرانوالہ میں آپ کے گھر کا مال و متاع لوٹ لینے کے بعد بھی جب ظالموں کے سینے کی جہنم ٹھنڈی نہ ہوئی تو وہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کو کھینچ کر بالائی منزل پر لے گئے۔ ہر ستم آزمایا۔ جب مار مار کر تھک گئے تو بڑے بھائی اشرف کھوکھر صاحب نے سخت تکلیف کی حالت میں پانی مانگا تو ظالموں نے قریب پڑی ہوئی ریت اُن کے منہ میں ڈال دی اور پھر چھت سے نیچے گلی میں گرا دیا۔ پھر اُن کے والد مکرم افضل کھوکھر صاحب سے پوچھا کہ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ وہ باپ دیکھنے میں تو بیٹے سے نسبتاً بوڑھا لگتا تھا مگر اس نے ظالموں کو جواب دیا کہ تم نے میرے نوجوان بیٹے کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک میری آنکھوں کے سامنے کیا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس سے میری ہمت ٹوٹ گئی ہے تو یہ تمہاری غلطی اور بھول ہے۔ تم نے جو کر گزرنا ہے کرگزرو… اور وہ سفّاک کر گزرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ایک مجلس سوال و جواب میں باپ بیٹے کی عظیم الشان شہادت کا دردانگیز اور ایمان افروز واقعہ سنایا تھا۔ اس خاندان کی یہی قربانیاں تھیں کہ خلفاء احمدیت ہمیشہ مرحوم آصف کھوکھر سے بہت محبت کا سلوک کرتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ آپ کو اکثر پاس بلالیتے اور پُرشفقت گفتگو فرماتے۔ ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد نظر آئے تو دیکھتے ہی حضورؒ نے پیار سے فرمایا: آصف! تم امریکہ گئے ہوئے تھے اتنے دن نظر نہیں آئے۔ ایک روز حضورؒ اپنی زمینوں سے واپس قصر خلافت تشریف لائے تو ہاتھ میں ایک چکوترا تھا۔ حضورؒ نے نہایت پیار سے آصف کھوکھرصاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: گریپ فروٹ۔ فرمایا: غلط۔ پھر حضورؒ نے فرمایا کہ یہ چکوترا ہے اور گریپ فروٹ سے اس کا فرق بھی بتایا۔ پھر وہی چکوترا آپ کو عطا فرمادیا۔ اور آپ نے یہ تبرّک اپنے دوستوں کے ساتھ تقسیم کرکے کھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی عنایات مرحوم کی فیملی پر ہمیشہ رہیں ۔ آپ کی ہمشیرگان کے رشتوں کے معاملات بھی حضورؒ نے طے فرمائے۔ ایک دفعہ سرِ راہ آپ کو دیکھا تو سائیکل سے اتر کر آپ سے ملے۔ (مضمون نگار لکھتے ہیں کہ) مَیں تو اس عظیم بزرگ کی شفقت اور محبت کے ساتھ اس کی بے تکلفی اور عاجزی پر بھی انگشت بدنداں تھا۔ شہادت کے بلند مرتبہ اور اس کی قدروقیمت کا ان لوگوں کو ہی اصل اندازہ تھا۔ ؎ کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا پھر حضورؒ نے ایک دفعہ آپ کے ساتھ کار کے بونٹ پر بیٹھ کر ایک تصویر بھی بنوائی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اکتوبر 2011ء میں مکرم حمیدالمحامد صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: میان شور و شر موجود ہوں مَیں ابھی بہر سفر موجود ہوں مَیں مرے ہونے نہ ہونے سے تجھے کیا مگر اے بے خبر موجود ہوں مَیں نہ ہوتا مَیں تو کچھ حیرت نہ ہوتی مگر اے ہمسفر موجود ہوں مَیں بہت دن ہو گئے ہیں جیتے جیتے حیات مختصر موجود ہوں مَیں بپا یادوں میں ہنگامے بہت ہیں اے ہنگامِ سحر موجود ہوں مَیں زمانہ سے ہو حد درجہ ہراساں مگر اتنا نہ ڈر موجود ہوں مَیں