حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو لوگ بیعت کی توفیق پاتے آپؑ ہمیشہ انھیں یہی تلقین فرماتے کہ کچھ روز قادیان میں آکر رہیں تا کہ تعلق بیعت میں پختگی اور مضبوطی قائم ہو۔ اس ضمن میں آپ کے ملفوظات و مکتوبات بھرے پڑے ہیں ۔ چنانچہ ایک موقع پر چند نو مبائعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے یہ تخمریزی کی طرح ہے، چاہیے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کریں اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو آج قائم ہوا ہے، جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہوکر گر جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ 29۔ مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ) آپؑ اللہ تعالیٰ کی پہلی قدرت کے مظہر تھے۔ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ کی دوسری قدرت کے مظاہر خلفاء سلسلہ نے بھی احباب جماعت کو بارہا یہی نسخہ جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی آغاز خلافت سے ہی اسی پہلو پر زور دیا، آپؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی جماعت کو تزکیہ نفوس کے لیے: ’’ (1) دعاؤں پر زور دو۔ (2) میرے ساتھ تعلقات کو بڑھاؤ، خطوط کے ذریعہ ہی ہو۔‘‘ کا پروگرام دیا۔ (الحکم 14؍ اپریل 1914ء صفحہ 10 کالم 1) اسی ضمن میں آپؓ کے چار مکاتیب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں جو خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں کے ہیں : جو لوگ یہاں نہیں آتے مَیں ڈرتا ہوں ان کے ایمان ضائع نہ ہوجائیں ۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ قادیان میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد جنوری 1919ء میں واپس اپنے علاقہ پٹیالہ جانے لگے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے درج ذیل مکتوب آپ کے نام تحریر فرمایا: ’’مکرمی ڈاکٹر صاحب! السلام علیکم۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی محبت سے روانہ ہوں ، ظاہری دوری گو حقیقی دوری نہیں مگر پھر بھی بہت بڑا دخل رکھتی ہے، پٹیالہ کا واقعہ ہے عبدالحکیم مرتد ہوگیا، حضرت مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا اس کا باعث قادیان کا نہ آنا ہے اور یہ کہ جو لوگ یہاں نہیں آتے میں ڈرتا ہوں ان کے ایمان ضائع نہ ہوجائیں ۔ پس گو قادیان کا آنا ابتلاؤں کا موجب ہو سکتا ہے مگر نہ آنا اس سے بڑھ کر، دوری کوئی بھی اچھی نہیں ، دعا انشاء اللہ آپ کے لیے بہت کروں گا اور اللہ تعالیٰ سے خاص امید رکھتا ہوں کہ وہ خاص طور پر قبولیت کے آثار دکھائے گا۔ خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے اسے ایک نکتہ خوش اور ایک نکتہ ناراض کر دیتا ہے ہاں رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ضرور حق ہے۔ دن لمحوں میں گزر جاتے ہیں اور سال منٹوں میں اور باقی وہی رہتا ہے جو خدا کے لیے کیا جاتا ہے کہ دل با یار اور دست در کار ایک ایسا حق ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ہاں ساتھ یہ بھی محسوس ہو کہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے اگر وہ اپنے قرب کا موقعہ دے۔ یہ قرب کا ایک اعلیٰ گُر ہے جو کبھی خطا نہیں کرتا، صرف وظیفہ پڑھنے والا یہ قرب حاصل نہیں کرتا، رسول کریمؐ کے وقت کو دیکھیں تو کچھ پڑھانے میں ، کچھ کھانے میں ، کچھ فیصلہ مقدمات میں ، کچھ سیاست میں ، کچھ سپاہ گری میں ، کچھ دوستوں میں ، کچھ ملاقاتوں میں ، کچھ خدمت غرباء کچھ بچوں سے کھیلنے میں ، کچھ بیویوں سے، ملازمت میں کچھ گھر کے کام کاج میں خرچ ہو جاتا تھا، دل با یار تھا۔ کون وظیفہ خوار اور مصلیٰ کو لازم پکڑنے والا آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ابو بکرؓ کو نمازوں کی وجہ سے تم پر فضیلت نہیں بلکہ اس جنس سے جو اس کے دل میں ہے، وہ کیا تھی یہی کہ دل با یار تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ظاہری اور باطنی قرب کا موقع دے۔ … (الحکم 28؍جنوری 1919ء صفحہ 2) ……………………… قادیان کا کوئی اخبار منگوایا کریں ، اس سے تازگی ہوتی ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک نو مبائع ڈپٹی کلکٹر کے نام درج ذیل خط لکھوایا: ’’مکرمی! السلام علیکم۔ آپ کا خط بیعت کا آج ملا، اللہ تعالیٰ قبول فرماوے۔ جو روکیں آپ نے اس وقت تک بیعت کے راستہ میں بیان فرمائی ہیں درحقیقت وہ ایک غلطی ہے جو اس زمانے میں بہت لوگوں کو لگی ہوئی ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ مذہب اس وقت اختیار کرنا چاہیے جب انسان کے اعمال درست ہوجائیں ۔ حالانکہ مذہب ہی تو انسان کے اعمال درست کرتا ہے۔ اگر مذہب کے اختیار کرنے کے بغیر ہی انسان کے نفس کی اصلاح ہو سکتی تو پھر مذہب کی ضرورت ہی بہت کم رہ جاتی ہے۔ اعمال صالحہ صحیح عقائد کا نتیجہ ہیں اور عقائد کی درستی کے لیے ان ذرائع کو استعمال کرے جو انسان کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ۔ خداتعالیٰ کی طرف سے جو لوگ مامور ہو کر آتے ہیں ان کی حیثیت ایک استاد کی سی ہوتی ہے کہ جس کا کام جاہل کو عالم بنانا اور عالم کو اپنے علم میں کامل کرنا ہوتا ہے۔ جب آپ نے ہر قسم کی رکاوٹوں سے قطع نظر کر کے صداقت کو قبول کیا ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود آپ کی ہدایت اور رہنمائی کرے گا، ہاں ایک حد تک کوشش انسان کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ایک بات کو آپ یاد رکھیں ، اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے بہت فوائد حاصل ہوں گے، وہ یہ ہے کہ جو شاخ تنے سے جدا ہوتی ہے وہ سوکھ جاتی ہے۔ تعلقات کا قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے، جہاں تک ہو سکے قادیان آنے کی کوشش کریں ، جب تک نہ آ سکیں کبھی کبھی خط لکھتے رہیں ، میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لیے دعا کروں گا، آپ جہاں تک ہو سکے اچھی طرح نماز میں باقاعدگی کی کوشش کریں اور اپنے مقدور بھر روزے بھی رکھیں ، باقی کمزوری تو آہستہ آہستہ ہی دور ہوگی، جوں جوں معرفت ترقی کرتی ہے اعمال میں درستی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ … سلسلہ کے حالات کی واقفیت کے لیے قادیان کا کوئی اخبار منگوایا کریں ، اس سے تازگی ہوتی ہے۔ وہاں کی جماعت کے لوگوں سے ملتے رہیں ۔ انسان کی زندگی کا واقعہ میں کوئی اعتبار نہیں ہوتا، بہت ہیں جو آخری وقت اپنے نفس کو بے فائدہ ملامت کرتے ہیں ، پھر اس وقت واپس لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘ (الفضل 18مئی 1918ء صفحہ 2 کالم 2,3) ……………………… اُن لوگوں میں بھی جوش پیدا ہو اور وہاں بھی جماعت میں ترقی ہو... حضرت پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری رضی اللہ عنہ (ولادت: 1879۔ جون 1957ء) خلافت ثانیہ کے آغاز میں ہی بھاگلپور (اتر پردیش۔ انڈیا) سے قادیان آئے اور یہاں قیام کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد بھاگلپور میں انہیں کالج میں بطور پروفیسر ملازمت ملی۔ انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اطلاع دیتے ہوئے لکھا: ’’خاکسار کی تو یہی تمنا ہے کہ حضور کے قدموں میں بقیہ زندگی بسر کرے لیکن اس امر کی اطلاع حضور میں کرنی ضروری تھی، حضور کا جو حکم ہو اس کی تعمیل کے لئے ناچیز غلام ہمہ تن آمادہ ہے۔ ‘‘ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جوابًا تحریر فرمایا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ میں نے اس امر کے متعلق بہت غور کیا ہے گو اس وقت یہاں آدمی کی ضرورت ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی صحت پر بھی یہاں کی رہائش سے بہت اچھا اثر پڑا ہے لیکن بوجہ اس ملک کے حالات کے میری طبیعت اس طرف راغب ہوتی ہے کہ آپ سر دست اُسی جگہ کام کریں ۔ ہندوستان کیا بلحاظ تعداد اور کیا بلحاظ اخلاص و ہمت کے پنجاب سے بہت پیچھے ہے۔ صرف چند آدمی ہیں کہ جو سلسلہ کے مغز سے واقف اور اس کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں خصوصًا میرے بوجھ سے۔ اور مجھ سے تو اُن میں سے کوئی بھی واقف نہیں کیونکہ میرے زمانہ میں یہاں آکر رہنے کا موقعہ اُن میں سے کسی کو نہیں ملا۔ آپ کو یہ موقعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قدر حاصل ہوا ہے اور ممکن ہے کہ آپ کے کچھ مدت وہاں رہنے سے اگر خدا تعالیٰ یہ کام آپ کے ہاتھ سے لے تو اُن لوگوں میں بھی جوش پیدا ہو اور وہاں بھی جماعت میں ترقی ہو، اِس خیال سے مجھے یہی پسند ہے کہ آپ سردست واپس تشریف لے جائیں اور اپنے صوبہ کے لوگوں کی ہدایت کی طرف متوجہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے، اگر پروفیسری میں فائدہ ہو تو ابھی جانے کی ضرورت ہوگی ورنہ رخصت ختم کرنے پر واپس جا سکتے ہیں ، دعا کے بعد دونوں میں سے ایک چیز کو اختیار کر لیں ۔ اخلاص کبھی ضائع نہیں جاتا، قادیان کی رہائش کا خیال آپ کے دل میں مضبوط رہا تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس ارادہ کی تکمیل کے سامان بھی آپ کے اہل وطن کی اصلاح کے بعد کر دے گا۔ خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل 21 نومبر 1916 ء صفحہ 1,2) ……………………… تبلیغ بغیر قادیان میں رہنے کے نہیں آتی ایک دوست نے حضرت خلیفۃ المسیح … کی خدمت میں لکھا کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود منارۃ المسیح بنوارہے تھے، میرا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تھا اور اتفاق سے وہ بہت بیمار ہوگیا، اس بیماری میں ہم نے یہ نذر مان لی کہ ہم اس کو منارۃ المسیح کا مؤذن بنائیں گے۔ اب وہ لڑکا تیرہ چودہ برس کا ہوگیا ہے اس کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ حضور نے اس کے جواب میں لکھوایا کہ ’’ منارۃ المسیحؑ در اصل تبلیغ اسلام ہی ہے، اس لڑکے کو اسلام کی تعلیم دیں جب تبلیغ کرے گا تو منارۃ المسیح کا مؤذن ہو جائے گا مگر تبلیغ بغیر قادیان میں رہنے کے نہیں آتی۔‘‘ (الفضل 16 ستمبر 1915ء صفحہ 2 کالم 2) ………………………… ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی وقتًا فوقتًا اس بنیادی امر کے متعلق ہمیں نصائح فرمائی ہیں ۔ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30 مئی 2008ء میں فرماتے ہیں : ’’عُروہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا سبزہ زار جو ہمیشہ سر سبز رہتا ہے۔ بارش کی کمی بھی اس پر کبھی خشکی نہیں آنے دیتی۔ پس یہ ایسا سبزہ زار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ایمان کی وجہ سے جماعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا کیا ہے جو ہمیشہ سر سبز رہنے کے لیے ہے، جس کو شبنم کی نمی بھی لہلہاتی کھیتیوں میں اور سر سبز باغات کی شکل میں قائم رکھتی ہے۔ پس اس عُروۂ وُثقیٰ کو پکڑے رہیں گے تو انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔‘‘ ( الفضل انٹرنیشنل 20 جون 2008ء صفحہ 6) …………………………