’’کیا اس سے زیادہ اسلام کے لیے کوئی اور مصیبت کا دن آسکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بیکسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی واہلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرّہ ذرّہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلّت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صور ت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایاجائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پروا ہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لیے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا۔ہماری جانیں حاضر ہیں ۔ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں ۔ جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدا را نبیوں کے سردار کی ہتک کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پرحملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کرسکتے۔ ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے ہیں ۔ بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کرلیں اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے لیں ۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے۔ وہ اپنی طاقت کی بنا پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو بُرا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا۔" (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 597) عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی یہ دردناک صدا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے دل سے اس وقت بلند ہوئی جب 1927ء میں بعض بدزبان اور دریدہ دہن مخالفین نے ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر انتہائی غلیظ حملے کیے۔ان میں سے ایک شخص راجپال نامی تھا جس نے ایک کتاب لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جس میں بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہایت درجہ دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں ۔ جبکہ دوسری جانب امرتسر کے ہندو رسالہ"ورتمان"میں ایک آریہ دیوی شرن شرما نے افسانوی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دل دکھادینے والا ایک مضمون تحریر کیا۔ یہ بے حد دلآزاد مضمون مئی 1927ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اس پر خدا کا یہ شیر ایک الگ ہی شان کے ساتھ میدان میں آیا۔ اور اس الہام الٰہی کے ایک ایک لفظ کی صداقت ثابت ہوتی چلی گئی جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا: ’تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے‘۔ اور یہ کہ’خدا کی رحمت و غیّوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے یہ اشتعال انگیز مضمون دیکھتے ہی ایک پوسٹر شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔’’رسول کریم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے‘‘۔ مذکورہ بالا الفاظ اسی پوسٹر کا ایک حصہ ہیں ۔ یہ پوسٹر شائع ہوا اور ایک ہی تاریخ کو راتوں رات ہندوستان بھر میں چسپاں کردیا گیا جس نے سارے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔ نتیجۃً حکومت پر اس کا اثر ہوا اور مخالفین اسلام کی اس گندی سرگرمی کا نوٹس لیا گیا اور ذمہ دار افراد پرمقدمہ قائم ہوگیا۔ راجپال پر اس کی کتاب کے حوالہ سے جو مقدمہ قائم ہوا تھا اس پر اس کو سزا ہوئی۔ لیکن اس نے پنجاب ہائیکورٹ میں اپیل کی۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے قانون کی موجودہ صورت سے اس مقدمہ اور راجپال کی سزا کو باہر قرار دیتے ہوئے راجپال کو بری کردیا۔ اس پر جب اخبار آؤٹ لُک لاہور نے احتجاج کیا تو انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں راہنمائی کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ صوبہ کی عدالت کا احترام کریں ۔ لیکن جو دیانتداری سے مضمون لکھا ہے اس پر مضبوطی سے اب قائم بھی رہیں ۔ یہ غیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ عنایت فرمایا کہ اپنے جواب میں یہ بھی لکھوادیں کہ ہائی کورٹ کے نزدیک جسٹس کنور دلیپ سنگھ کی عزت کی حفاظت کے لیے تو قانون میں دفعہ موجود ہے، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لیے کوئی قانون یا قانون میں کوئی دفعہ موجود نہیں تو مَیں بخوشی جیل جانے کے لئے تیار ہوں ۔ مقدمہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لڑا۔ حضرت چوہدری صاحب کے لاجواب قانونی اور منطقی دلائل ایک طرف؛ لیکن مولوی نور الحق صاحب نے کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ میں تمام الزامات قبول کرتا ہوں ۔ اس پر فیصلہ ان کے خلاف ہوگیا۔ اس مقدمہ کے فیصلہ نے مسلمانوں میں شدید پریشانی کی لہر پیدا کردی۔ مختلف تجاویز پیش کی جانے لگیں جن میں کثرت سے توہین عدالت اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی تجاویز بھی تھیں ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فتنہ اور فساد کی ہر راہ کو مسترد کرتے ہوئے ان حالات میں ناموس رسالت کے لیے ایک مؤثر سلسلہ تحریکات چلانے کا پروگرام بنالیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی راہنمائی اور قیادت میں اس سلسلہ کا آغاز 22 جولائی1927ء کے جلسوں سے ہوا جن میں مسلمانان ہند نے بہت اچھے انداز میں شمولیت کی اور پورا ہندوستان ان جلسوں کی گونج سننے لگا۔ نیز آپ نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت کو پیش کرنے کے لیے ایک محضرنامہ تیار کرکے ان جلسوں میں مسلمانوں کے دستخط لے کر حکومت کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ یہ محضرنامہ پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخطوں سے مزیّن کیا گیا۔ رسالہ ورتمان میں شائع ہونے والے مضمون کے حوالہ سے قائم ہونے والا مقدمہ چیف جسٹس نے ایک جج کے سپرد کردیا۔ لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حکومت کو بذریعہ تار توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ ججوں کے سامنے پیش ہونا چاہیے تا دفعہ 153الف سے متعلق جسٹس کنور دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تحقیق ہو جائے۔یہ مطالبہ حکومت نے منظور کرلیا اور مقدمہ ورتمان ڈویژن بنچ کے سپرد ہوگیا۔ جس نے 16اگست 1927ء کو فیصلہ سنایا کہ مذہبی پیشواؤں کے خلاف بدزبانی 153الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور بنا بریں ڈویژن بنچ نے ورتمان کے مضمون نگار کو ایک سال قید بامشقت اور پانچ سو روپیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید سخت اور اڑھائی سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے جذبات اس فیصلہ پر مسلمان خوش ہو گئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو بہت سے لوگوں نے مبارکباد کے تار بھی دیے۔ مگر اس مرد باکمال کی بلند پروازی کی شان ہی الگ تھی۔ اپنے آقا کی محبت میں سرشار دیوانہ وار ناموس رسالت کے قیام پر کمر بستہ اور انتھک مقبول محنت کرنے والا یہ وجود تو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو دُنیا میں قائم کرنے اور آپؐ کے مقام محمود کو دکھانے کے لیے الگ ہی طور سے بیتاب تھا۔ آپ نے مبارکبادوں کے پیغامات کے جواب میں فرمایا: ’میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا،اپنے سردار حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا۔ میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ میں دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ بلکہ میں اگلے پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دی جائے ......کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جِلا دینے کے لیے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لیے۔ وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لیے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لیے۔ غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے۔ نہ اس کی موت میں ۔ پس میں اپنے نفس میں شرمندہ ہوں کہ اگریہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بدبختی کی مہر انہوں نے اپنے ماتھوں پر لگائی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی تھی توکیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے؟ کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پاکر ابدی زندگی نہ پاتے؟ اور اس صداقت کا ان تک نہ پہنچنامسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے؟ پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہاسلام کے خلاف موجودہ شورش درحقیقت مسلمانوں کیتبلیغ میں سستی کا نتیجہ ہے۔ قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے، نہ دل کا اور میرے لیے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپؐ کی محبت قائم نہ ہوجائے‘۔ (الفضل19اگست 1927ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 607-606) ناموس پیشوا یان مذاہب کے تحفظ کے لیے نیا قانون شیطانی طاقتوں کے اس طرح فتنہ اور فساد کی آگ بھڑکانے کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں حکومتی سطح پر کنٹرول کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ انگریزی کو متعدد بار یہ توجہ دلائی تھی کہ ایک ایسا قانون ہونا چاہیے جو اس طرح فتنہ و فساد کرنے کی کوششوں کا بھی سدّباب کرنے والا ہو۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں : ’1897ء میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فتن کو دور کرنے کے لیے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہیے لیکن افسوس کہ لارڈالجن نے جو اس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی۔ اس کے بعد سب سے اوّل 1914ء میں مَیں نے سراڈوائر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فتن کے دور کرنے کے لیے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے ملک میں امن قائم نہ ہوگا۔ انہوں نے مجھے اس بارہ میں مشور ہ کرنے کے لیے بلایا لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دودن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب امام جماعت احمدیہ فوت ہو گئے۔ اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا۔ چنانچہ وہ جماعت کے لیے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا۔ میں سر اڈوائر سے مل نہ سکااور بات یونہی رہ گئی۔ اس کے بعد 1923ء میں مَیں میکلیگن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں انہوں نے یہ معذرت کردی کہ اس امر کا تعلق گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لیے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد میں نے پچھلے سال ہزایکسیلینسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا اور باوجود وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں گے غور نہیں کیا۔ میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا اور تمام حکام اعلیٰ سیاسی لیڈروں ، اخباروں ، پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سربرآوردہ لوگوں کو جاچکا ہے اور کلکتہ کے مشہور اخبار"بنگالی"نے جو ایک متعصب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کردہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ سرمائیکل اڈوائر اور ٹائمز آف لنڈن کے مسٹر برائون نے ان تجاویز کو نہایت ہی ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سربرآوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ لیکن افسوس کہ ان حکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی جس کا نتیجہ وہ ہوا جو نظر آرہا ہے؛ ملک کا امن برباد ہوگیا اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد حضور نے حکومت اور مسلمانوں کو مروجہ قانون کی چار واضح خامیوں کی طرف توجہ دلائی۔ 1۔موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم گردانتا ہے جو فسادات کی نیت سے کوئی مضمون لکھے۔ براہ راست توہین انبیاء کو جرم نہیں قرار دیتا۔ 2۔اس قانون کے تحت صرف حکومت ہی مقدمہ چلا سکتی ہے۔ 3۔اس قانون میں یہ اصلاح کرنا ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک قانونی کارروائی نہ کی جائے جب تک کہ اصل مؤلّف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بشرطیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو۔ 4۔یہ قانون صوبائی ہے لہٰذا اصل قانون یہ ہونا چاہیے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبائی حکومت ضبط کرلے تو باقی صوبائی حکومتیں بھی قانوناً پابند ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں اس کتاب کی طباعت یا اشاعت بند کردیں بلکہ بہتریہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی حکومت کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کردے جس کا سب صوبوں پر اثر ہو۔ (الفضل 19اگست 1927ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ611-610) ہندوستان سے یہ آواز بلند کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لندن کے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے۔ کے ذریعہ انگلستان میں بھی کوشش کرکے وہاں کے پریس میں بھی موجودہ قانون کے ناقص اور نامکمل ہونے کے حوالہ سے آواز بلند کی۔ پارلیمنٹ میں بھی بعض ممبروں نے یہ معاملہ رکھا۔ اسی مقصد کی خاطر 13اگست 1927ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شملہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے نہ صرف حکومت کو ملکی اور جدید قانون کی ضرورت کا قائل کرنے کی کوشش کی بلکہ اسمبلی کے مسلمان ممبروں سے تبادلہ خیالات کے علاوہ ہندو لیڈروں سے بھی اپنے مجوزہ مسودہ قانون پر گفتگو فرمائی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مشہور لیڈر جناب محمد علی جناح (قائد اعظم)، مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذ یڈنٹ اسمبلی، سرعبدالقیوم صاحب، خان محمد نواز خان صاحب، مولوی محمد شفیع صاحب داودی اور مولوی محمد عرفان صاحب گاہے گاہے آ پ کی فرودگاہ پر تشریف لائے اور انہوں نے اس کے تمام پہلوؤں پر گھنٹوں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا اور آپ کے مسودہ کی نہ صرف تائید کی بلکہ تعریف بھی۔یہ مسودہ شائع ہوا تو ہندوستان ٹائمز نے اسے نہایت اہم اور ضروری قرار دیا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی اس شبانہ روز جدوجہد کا اثر یہ ہوا کہ قیام شملہ کے صرف نو دن بعد حکومت ہند نیا قانون اسمبلی میں پیش کرنے پر رضامند ہوگئی۔ چنانچہ 22اگست 1927ء کو شملہ سے یہ سرکاری اعلان ہوا کہ مذاہب کی توہین یا دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے شرانگیز مضامین کی افسوسناک اشاعت کے پیش نظر حکومت ہند نے موجودہ قانون کی دفعات کو محض اس لیے بنظر امعان ملاحظہ کیا کہ ان میں سے کسی کو قوی بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن قانون پر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس قسم کی تحریرات تعزیرات ہند کے باب پانزدہم کی گرفت میں نہیں آتی ہیں ۔ کیونکہ یہ باب محض ان جرائم پر حاوی ہے جو مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی تمام تحریرات دفعہ 153۔ الف تعزیرات ہند کے رو سے قابل مواخذہ ہیں کیونکہ ایسا تو بہت شاذو نادر ہوتا ہے کہ اس سے دو مختلف جماعتوں کے درمیان نفرت و حقارت کے جذبات کو ترقی دینے کی کوشش کا اظہا ر نہ ہوتا ہو۔لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ طریقہ ایسے افعال کو قابل مواخذہ قرار دینے کے لیے ایک ٹیڑھا سا طریقہ ہے جنہیں خود ہی مورد تعزیر ہونا چاہیے عام اس سے کہ ان افعال سے مختلف جماعتوں کے درمیان منافرت و مغایرت کے جذبات کو ترقی ہوتی ہے یا نہیں ۔ لہٰذا حکومت ہند نے فیصلہ کرلیا ہے کہ لیجسلٹیو اسمبلی میں فوراً ایک مسودہ قانون پیش کر دیا جائے تاکہ تعزیرات ہند کے باب پا نزدہم میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ ہو جائے جس کے رو سے کسی مذہب کی عمداً توہین یا توہین کی کوشش یا ملک معظم کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا مجروح کرنے کی کوشش کو بذات خود ایک جرم قرار دیا جاسکے۔ اس دفعہ کو کتاب الآئین پر لانے کے لیے ضابطہ فوجداری میں بھی بعض ترمیمات کی جائیں گی جو اس اجلاس میں پیش ہوں گی۔ (الفضل 30اگست 1927ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 613-612) چنانچہ اسمبلی نے اس معاملے کے پیش ہونے پر ایک نئی دفعہ کا اضافہ منظور کر لیا اور پیشوا یان مذہب کی عزت کے تحفظ کا قانون پہلے سے بھی زیادہ معین صورت اختیار کر گیا۔ آج جبکہ علم اور سائنس کا دَور ہے اور دُنیا بھر کے پڑھے لکھے اور دانا اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیشوایان مذاہب نے اپنے اپنے دور میں انسانیت کے لئے بہت عظیم خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اور ان خدمات کے اثرات ختم نہیں ہوگئے بلکہ آج بھی دُنیا ان ثمرات سے مستفید ہورہی ہے۔ آج کی مہذب دُنیا پر بہت بڑھ کر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ ان محسنانِ اقوام عالم کی عزت اور ناموس کو پہچانیں اور اس کے لیے سنجیدہ ہوجائیں اور عالمی سطح پر پیشوایان مذاہب کی خدمات کے اعتراف میں کم از کم ان کی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لیے قانون منظور ہو تاکہ مذہب کی تبلیغ یا آزادی اظہار کے نام پر پاکوں کے اس گروہ پر کوئی شیطانی وار نہ کرسکے۔ اس طرح نہ صرف تہذیب اور تمدن کے دائرہ میں رہتے ہوئے اظہارِ حق اور آزادیٔ رائے میں بھی آسانی ہوگی بلکہ مذہبی منافرت اور مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی پر بھی بہت حد تک جائز اور ناقابل اعتراض کنٹرول ہوسکے گا۔ امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے اس طرف بنیادی راہنمائی فرمادی ہے۔ اگر اس کی طرف توجہ کی جاتی تو بہت سے فتنوں اور فسادوں سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ امن عالم کے لیے سنجیدہ طبقات کو مذہبی منافرت کے قلع قمع کے لیے حضرت بانی سلسلہ کے روشن کردہ اس چراغ سے جلد از جلد دُنیا کو منور کرنا چاہیے۔ انہی وجودوں نے انسان کو حیوان سے ممتاز کیا اور انہی کی وجہ سے انسانیت کا قیام ہوا۔ ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اجراء تحفظ ناموس رسالت کی خاطر شروع کیے گئے سلسلہ تحریکات کے ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ملت کی راہنمائی کرتے ہوئے جو جو ولولہ انگیز اقدام 1927ء میں اٹھائے تھے ان کا تسلسل نہ صرف 1927ء میں جاری و ساری رہا بلکہ 1928ء اور 1929ء میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر جلسوں کی صورت میں نقطہ عروج تک پہنچتا ہوا دکھائی دیا۔ ہندوؤں کی طرف سے اس جائز مطالبہ اور اچھے قانون کے سامنے آنے پر بھی احساس شرم جاگنا تو درکنار ظلم میں مزید بڑھنے کے مناظر کثرت سے سامنے آنے لگے اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ اس صورتِ حال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے نئے ولولے سے اور نئی حکمت عملی سے کام شروع کردیا۔ نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ انٹر نیشنل سطح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کے حالات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر احسانات کے تذکروں کے لیے"سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم "کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ اس وسیع پروگرام کالائحہ عمل بھی آپ نے خود تجویز فرمایا۔آپ نے اصولی راہنمائی دیتے ہوئے فرمایا: ’’لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی جرات اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں ۔ اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پراس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لیے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کردے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیز ہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لیے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اہم شعبوں کولے لیا جائے۔ اور ہرسال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سارے ملک میں شورمچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہوجائیں ‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 30-29) آپ فرماتے ہیں : ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اسی طرح حملے کیے جاتے ہیں ایسے حملوں کے دفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں ۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد 11صفحہ 362) اس وسیع پروگرام کے لائحہ عمل میں آپ نے: 1۔ 1928ء کے جلسوں کے لیے درج ذیل تین عناوین تجویز فرمائے۔ i۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنی نوع انسان کے لیے قربانیاں ii۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی۔ iii۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا پر احسانات۔ 2۔ایک ہزار مقامات پر جلسہ کرنے کے لیے ایک ہزار فدائی مقررین کا مطالبہ جو ایک ہزار مضامین تیار کرسکیں ۔ 3۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات چونکہ عالمی ہیں اس میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اگر رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کچھ کہنا چاہیں تو ضرور موقع دیا جائے۔ 4۔جو مضامین آئیں ا ن میں اول دوم سوم پوزیشنز پر آنے والوں کو انعامات دیئے جائیں ۔ ان جلسوں کے لیے 17جون کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس روز ہندوستان کے طول و عرض میں 1419مقامات پر جلسے ہوئے۔(لیکچراروں کی رہنمائی کے لیے 72صفحات پر مشتمل الفضل کا خاتم النبیین نمبر 7000کی تعداد میں شائع ہوا) ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کیا۔ قادیان کے ممتاز احمدی علماء اور سکالرز مختلف مقامات پر تقاریر کرنے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بذات خود قادیان کے عظیم الشان جلسہ میں شمولیت فرماکر اڑھائی گھنٹے تک"دنیا کا محسن"کے عنوان پر ایک تقریر دل پذیر فرمائی۔ جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمانوں کے علاوہ سینکڑوں معزز مشہور غیر مسلم لیڈروں نے تقریر یں کیں اور دنیا کے سب سے بڑے محسن، سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت و اخلاص کا اظہار کیا۔ یہ ایک ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل دیکھنے کو نہ ملا تھا۔ ان جلسوں کاایک بڑا فائدہ یہ ہواکہ پبلک پریہ بات کھل گئی کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناپاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ سماٹرا، آسٹریلیا، سیلون، ماریشس، عراق، ایران،عرب، دمشق (شام)، حیفا (فلسطین)، گولڈ کوسٹ (غانا)، نائیجیریا، جنبحہ، ممباسہ (مشرقی افریقہ) اور لندن میں بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے ہوئے۔ اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے۔ جلسوں کی کامیابی پر تبصرے اخبار مشرق گورکھپور نے اپنی 21جون 1928ء کی اشاعت میں لکھا۔ ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس لیے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہاں سردار کون ومکان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے … بہرحال 17جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرز ا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں کہ اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو چار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کرسکتی۔ (بحوالہ الفضل 29جون 1928ء ) اخبار مخبراودھ نے انسان اعظم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر شاندار لیکچراور ہندوستان کے جلسے کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں لکھا۔ دور حاضرہ کے مسلمانوں میں جماعت احمدیہ ایک پُرجوش جماعت ہے جس کے زبر دست لیکچروں کی آواز یورپ سے امریکہ تک گونج رہی ہے اور یہ ہر موقع پر معترضین اسلام کی تسلی کرنے کو آمادہ رہی ہے۔ اس طبقہ نے بحث و مباحثہ کے ضمن میں بہترین خدمات انجام دیے ہیں اور علم کلام میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے کسی انصاف پسند کو انکار نہیں ۔ کچھ دنوں سے غیر اقوام کے مقررین اور جرائد ورسائل نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے جلسوں میں ایسے حالات بیان کرتے ہیں جس کا مستند تواریخ میں پتہ نہیں اور اپنے اخبارات میں ان غلط روایات پر الٹی سیدھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا لٹریچر ناآشنا ہے۔ جماعت احمدیہ نے اس بات کا بیڑ ہ اٹھایا کہ 17جون کو ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں کے عام جلسے کیے جائیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شاندار لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں نہ صرف ہر فرقہ اسلامیہ کے ممتاز افراد شریک ہوں بلکہ غیر مذاہب کے اشخاص کو بھی دعوت دی جائے۔ (الفضل 3جولائی 1928ء ) اخبارکشمیری لاہور نے اپنی 28جون 1928ء کی اشاعت میں 17جون کی شام کے عنوان سے یہ تبصرہ شائع کیا۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ قادیان کی یہ تجویز کہ 17جون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کیے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب، امن پسند، صلح جُو غیر مسلم اصحاب نے 17جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ 17جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بیک وقت و بیک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیات اقدس، ان کی عظمت، ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پرہندو، مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہوجائے۔ 17جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لیے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھرتھی۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کرکے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کررہے تھے۔ بلکہ بعض ہندو لیکچر ارتو بعض منہ پھٹ معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی بدلائل قاطعہ دے رہے تھے۔ (بحوالہ الفضل 10جولائی 1928ء ) اردو اخبارناگپور نے 5جولائی 1927ء کو جماعت احمدیہ کی قابل قدر خدمات"کی سرخی دے کر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔ جماعت احمدیہ ایک عرصہ سے جس سرگرمی سے اسلامی خدمات بجا لارہی ہے وہ اپنے زرّیں کارناموں کی بدولت محتاج بیان نہیں ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں جس عمدگی کے ساتھ اس نے تبلیغی خدمات انجام دیں اور دے رہی ہے سچ یہ ہے کہ یہ اسی کاکام ہے۔پچھلے دنوں جبکہ یکایک شدھی کا ایک طوفان عظیم امنڈ آیاتھا اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ گاؤں کے گاؤ ں مسلمانوں کو متاثر بناکر مرتد کرلیا تھا۔ یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات انجام دیں اور کامیابی حاصل کی کہ دشمنان اسلام انگشت بدندان رہ گئے۔ اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہوگئے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ جس ایثار و انہماک سے یہ مختصر سی جماعت اسلام کی خدمت انجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلاشبہ اس کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ پچھلے دنوں اس کی یہ تحریک کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر 17جون کو ہندوستان کے ہر مقام پر عام مجمع میں جس میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل ہوں تقریریں کی جائیں اور جس کے لیے اس نے صرف تحریک ہی پیش نہیں کی بلکہ صد ہا روپے بھی خرچ کرکے مقررین کے لیے ہزار ہا کی تعداد میں لیکچر ز طبع کر اکر مفت تقسیم کیے۔ اور جس کا اثر یہ ہو ا کہ 17جون کو مسلم اور غیرمسلم دونوں جماعتوں نے شاندار جلسے کرکے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال حسن و خوبی سے اظہار خیالات کیے ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس تحریک پر آئندہ بھی برابر عمل کیاگیا تو یقینا وہ ناپاک حملے جوآج برابر غیر مسلم اقوام ذات فخر موجودات پر کرتی رہتی ہیں ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے اور وہ ناگوار واقعات جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اس مبارک تحریک کی بدولت نیست ونابود ہوجائیں گے۔ (بحوالہ الفضل 17جولائی 1928ء) اور بھی سنجیدہ حلقوں نے اپنے اپنے اختلافات بھلا عشقِ رسول کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ان بے نظیر اقدامات کی دل کھول کر تعریف کی۔ جن اقدامات کی وجہ دنیا بھر میں عموما اور ہندوستان بھر میں خاص طور پر تمام مذاہب کے لوگ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں یک زبان اور رطب اللسان ہوگئے تھے اور ہمارے آقا کی عظمت کردار کے حوالہ سے عام آدمی کے علم صحیح میں اضافہ ہوا تھا۔ یہ مبارک سلسلہ 1929ء میں بھی جاری رہا۔ 1930ء میں اندرون و بیرون ملک پُرشوکت جلسے منعقد ہوئے اور 26اکتوبر 1930ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قادیان میں عرفان الٰہی اور محبت باللہ کے عالی مرتبہ پر پُرمعارف تقریر فرمائی جس پر رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور 8نومبر 1931ء کو بریڈ لاہال میں حضور رضی اللہ عنہ نے لَقَدۡ جَاء َ کُمۡ رَسُوۡ لٌ مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ کی نہایت ہی لطیف تفسیر کرتے ہوئے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ ایسی خصوصیات بیان فرمائیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم منفردویکتا تھے۔ان ہر دوسالوں میں الفضل خاتم النبیین نمبر بھی شائع ہوئے۔ اب تو جلسہ ہائے سیر ۃ النبی کا یہ مبارک سلسلہ الحمدللہ ساری دنیا میں پھیل چکا ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی سطح پر جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد ہوتے ہیں ۔ یومِ پیشوایان مذاہب 1939ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دیرینہ خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کامیاب انعقاد اور ان کے جاری ہوجانے کے بعد سال میں ایک دن کو پیشوایان مذاہب کے طور پرمنانے کا اعلان فرمایا۔جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنے اپنے مذہب کے بانی کی پاکیزہ سیرت و سوانح بیان کریں ۔ اس سلسلہ میں پہلا جلسہ 3دسمبر 1939ء کو منعقد ہوا جس میں غیر مسلم معززین نے شمولیت کر کے اپنے بزرگ رہنماؤں کی سیرت بیان کی۔ اس جلسہ میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایمان افروز بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے اور آج ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے پلیٹ فارم سے پیشوایان مذاہب کے جلسے منعقد ہوتے ہیں ۔ اللہ اقوام عالم کو پیشوایان مذاہب کے مقام کو سمجھنے اور ان کی ناموس کی پاسداری کی توفیق دے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی عزت و ناموس سے ہی انسانیت کی عزت اور ناموس ہے۔ (ماخوز از تاریخ احمدیت جلد 4 و جلد 5)