مسلم سپین کا مکتبۂ فکر اس بحث کا ذکر گزر چکا ہے کہ تجربہ و مشاہدہ اور الہام دونوں میں سے کس کو فوقیت حاصل ہے۔ بعض مفکرین وحی کو منطق پر ترجیح دیتے ہیں اور بعض اس کے برعکس خیال کرتے ہیں۔ ابن رشد نے جو مغرب میں Averroes کے نام سے معروف ہیں اور عظیم ترین مسلمان مفکرین میں سے ایک ہیں ، یہ خیال پیش کیا کہ مندرجہ بالا نظریات متوازی سچائیوں پر مبنی ہیں۔ لہٰذا ان پر الگ الگ غور کرنا چاہئے۔ الہامی سچائی کو من وعن قبول کرنا چاہئے جبکہ مشاہدہ اور تجربہ کو مشاہدہ اور تجربہ کی حد تک رکھنا چاہئے۔ ان کے نزدیک الہام اور تجربہ کے مابین ربط تلاش کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی اس امر کی ضرورت ہے کہ دونوں میں متناقضات تلاش کئے جائیں اور ان کے حل کیلئے سرگردان ہوا جائے۔ یہ وہ دور تھا جب ہسپانیہ میں مسلمان سائنسدان سائنس کے میدان میں تیزی سے ترقی کر رہے تھے اور انہیں اس امر کی پروا نہیں تھی کہ پرانے مکاتبِ فکر کے بعض مذہبی علماء ان کے خلاف بدعتی یا ملحد ہونے کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔ ابن رشد نے غالباً بہتر یہی سمجھا کہ وہ ان تنازعات میں نہ الجھیں مبادا یہ امر سائنسی ترقی کی راہ میں حائل ہو جائے۔ انہوں نے مذہب اور سائنس میں تضادات ابھرنے کے خدشہ کے پیش نظر اس بحث میں الجھنے سے عملاً گریز کیا۔ ایک سچے مسلمان اور صداقت کے غیر جانبدار متلاشی سائنسدانوں کی حکمت عملی ہسپانیہ میں ایک لمبے عرصہ تک مذہب اور سائنس کی ترویج میں ممد رہی۔ الہامی اور مشاہداتی سچائی کے مابین موجود اس مزعومہ تضاد کے خطرہ سے کبھی بھی کھل کر مقابلہ کی نوبت نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی فوقیت کا معاملہ سنجیدگی سے زیرغور نہیں آیا۔ عدم تصادم کی یہ حکمت عملی جو ہسپانیہ میں صدیوں تک غالب رہی ابن رشد ہی کی مرہون منت ہے۔ بعد کے واقعات کی روشنی میں اس مسئلہ کے ممکنہ پہلوؤں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ابھی اس قسم کے مسائل کو سلجھانے کاوقت نہیں آیا تھا۔ اس امر کا امکان بہرحال موجود تھا کہ حقائق کا ادراک ناقص ہو یا محض جزوی بلکہ عین ممکن تھا کہ یہ ادراک سرے سے ہی غلط ہو۔ مثال کے طور پر ازمنۂ وسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کا تصور کائنات قرآن کریم اور احادیث پر مبنی نہیں تھا بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ تصور زیادہ تر اپنے دور کی مروّجہ جہالت کا آئینہ دار تھا۔ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، مذہبی علماء اپنے نظریات کو عین اسلام سمجھتے تھے اور انہیں حتمی قرار دیتے تھے۔ حالانکہ امرِواقعہ یہ تھا کہ علومِ متداولہ کے حوالہ سے حقیقی قرآنی نظریات کی تفہیم ان کی بساط سے باہر تھی۔ ہسپانیہ میں سائنسدانوں اور مذہبی علماء کے مابین اس قسم کے موضوعات پر کسی مکالمہ یا گفتگو کا سراغ نہیں ملتا۔ ان دونوں گروہوں میں علمی تبادلہ خیال کیلئے کوئی ادارہ یا مرکز نہیں تھا اور نہ ہی اپنے اپنے نظریات کی تقابلی خوبیوں کے بارہ میں کوئی مناظرہ یا مباحثہ ممکن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہسپانیہ میں گیلیلیو کا کوئی پیش رو پیدا نہ ہو سکا جسے صداقت اور زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا۔ سائنسدانوں کو جب بھی اپنے ہمعصر علماء کے سامنے حق کو حق کہنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مذہبی علماء کے سامنے کسی قسم کی وضاحت پیش کرنے کی کوشش تک نہیں کی اور نہ ہی یہ بات ثابت کرنا ضروری سمجھی کہ ان علماء کی پیش کردہ قرآنی تشریح غلط اور معروف سائنسی حقیقتوں سے متصادم ہے۔ نتیجۃً دو متوازی تحریکوں کا ارتقا ہوا جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئی۔ بالآخر اسلامی سوچ نے فلسفیانہ اور سائنسی طرز فکر سے بالکل علیحدہ راستہ اختیار کر لیا۔ وہ دو ایسی ندیوں کی طرح تھے جو ایک دوسرے میں مدغم ہو ئے بغیر متو ازی بہ رہی ہوں۔ چنانچہ اندلس کے مسلمان سائنسی تحقیق کے اکثر میدانوں میں دوسرے اسلامی ممالک سے سبقت لے گئے۔ ایک خوش کن بات یہ بھی تھی کہ ہسپانیہ نے نسبتاً ایک طویل پر امن زمانہ پایا جس میں وہ چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے بیرونی حملہ آوروں کی دست برد سے محفوظ رہا۔ اسلامی تاریخ کا یہ اندلسی دور صحیح معنوں میں عقلیت پسندی کا زرّیں دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اندلس سے مسلمانوں کے خروج کے ساتھ ہی ان کی علمی برتری کا عظیم الشان عہد ختم ہو گیا اور اہل ہسپانیہ کے اسلام کے ساتھ ہر قسم کے روابط منقطع ہو گئے۔ اگر دنیا میں کہیں علم ودانش اور سائنسی ترقی کازوال ہوا تو یہ المیہ اندلس کی سرزمین پر ہوا۔ یہ کیا ہی دردناک واقعہ تھا۔ اندلس کے جنوبی کنارے سے مسلمانوں کے خروج کے ساتھ ہی وہاں سے دانائی، علم ودانش، انصاف پسندی، سچائی اور روشنی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ غالباً صدیوں تک کیلئے رخصت ہو گئی لیکن روشنی کے اس سیلابِ تُند نے ان مسلمان جلاوطنوں کا ساتھ نہ دیا اور ہسپانیہ ایک بار پھر قبل از اسلام کی سی جہالت کی تاریکی میں ڈوب گیا۔ ان دنوں دیگر اسلامی ممالک کی حالت بھی کچھ اس سے بہتر نہیں تھی۔ وہاں تاریکی اندر ہی اندر سے پھوٹ رہی تھی۔ مذہبی تعصبات، ہٹ دھرمی، تنگ نظری، نخوت، خود پسندی اور باہمی حسد کی آگ کے شعلے جہنم کی آگ کی طرح بھڑک رہے تھے۔ ایک گونہ دھوئیں کا بادل تھا جو پھیلتے پھیلتے آسمانی نور کے رستے میں حائل ہو گیا۔ اِس بڑھتی ہوئی گھٹاٹوپ تاریکی میں زمین چھپ سی گئی اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے سائے اور بھی گہرے ہوتے چلے گئے۔ جہاں تک شمالی یورپ کے باشندوں کا تعلق ہے یہ ایک بالکل مختلف داستان ہے۔ ہسپانیہ کے لوگوں نے جو کھویا تھا وہ ان لوگوں نے پالیا اور کیا ہی خو ب پایا! وہی ملکہ ازابیلہ اور بادشاہ فرڈیننڈ جنہوں نے مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کیا تھا، متعصّب اور متشدّد پادریوں کے روزافزوں رسوخ کے زیر اثر، اپنے غیظ و غضب کارخ یہودیوں کی طرف موڑ دیا اور جس طرح اندلس کے جنوبی دروازوں سے مسلمانوں کو باہر دھکیل دیا گیا اسی طرح شمالی سپین سے یہودیوں کی بھاری اکثریت کو ملک بدر کر دیا گیا۔ ان میں بڑے بڑے علماء، فضلاء، سائنسدان اور عظیم دانشور بھی تھے جو کئی ایک شعبوں میں صاحب کمال تھے۔ انہوں نے سات صدیوں پر محیط مسلم حکومت کے سنہری دور میں متعدد فنون پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ انہیں صنعت و حرفت، تجا رت، سائنسی تحقیق، فنِ تعمیر، سنگ تراشی اور جر ّاحی جیسے شعبہ ہائے زندگی میں کمال حاصل تھا۔ ان سب کو ایک منظم اور مستقل اذیت ناک منصوبہ کے تحت تمام املاک سے بے دخل کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو اندلس سے علم کی روشنی جنوبی فرانس بلکہ اس سے بھی آگے تک لے کر گئے۔ ارسطو اور افلاطون کا فلسفہ ہسپانیہ کے مسلمان فلسفیوں کے ذریعہ یورپ تک پہنچنا شروع ہوا۔ اس وقت حاذق طبیب ابن سینا کے کمالِ طب اور دنیوی اور مذہبی فلسفہ اور سائنس کواپنی ذات میں یکجا کرنے والے ابنِ رُشد کی دانشمندی نے یورپ کے تاریک افق کو روشن کرنا شروع کر دیا۔ یہودیوں کے اس اخراج کے باعث یہ علوم عام ہو گئے اور ان کے مختلف یورپین زبانوں میں ترجمے کئے جانے لگے۔ درحقیقت انہی لوگوں نے یورپ میں علم و حکمت اور آگہی کے نئے دور کی داغ بیل ڈالی جو یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے نام سے موسوم ہے۔ عالَم اسلام کی حالتِ زار ہسپانوی دَور کے بعد کے زمانہ پر نظر ڈالی جائے تو تمام عالم اسلام ہمیں علمی پژمردگی کے المناک اندھیروں میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد دیگر مسلم ممالک نے بھی سائنسی علوم میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور تحقیق و جستجو کا وہ شوق جاتا رہا جسے خود مسلمانوں نے فروغ دے کر کمال تک پہنچایا تھا۔ یہ افسوسناک رجحان نہ صرف سائنس بلکہ مذہب کیلئے بھی بیحد نقصان دہ ثابت ہوا اور امت مسلمہ تفرقہ کا شکار ہو کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو گئی یہاں تک کہ توحیدِ خالص کا عظیم عقیدہ بھی خودکشی کے اس رجحان کی زد میں آ گیا۔ توحید باری کے تصور میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک خدا کی بجائے مختلف خداؤں کی باتیں کر رہے ہوں۔ ان کی علمی پیاس تو کم نہ ہوئی لیکن ترجیحات بدل گئیں۔ اگرچہ موضوعِ بحث تبدیل ہو گیا مگر خیر و شر سے متعلق بحث کا سلسلہ پورے جوش و خروش سے جاری رہا۔ بایں ہمہ یہ سوالات بھی وہی تھے جنہوں نے انہیں صدیوں سے مضطرب کر رکھا تھا۔ سنجیدہ اور بنیادی نوعیت کے عملی مسائل کی بجائے وہ فروعی فقہی مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔ مثلاً یہ کہ کوّے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ اس سوال پر مخالف آراء رکھنے والوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان مسائل پر جو تندوتیز مباحثے ہوئے وہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ ان کی ذہانت کو اس اعتبار سے داد دینا پڑتی ہے کہ وہ رائی کا پہاڑ بنا سکتے تھے۔ لیکن یہ خراج تحسین اس امر کا غماز ہے کہ ان میں عقلِ سلیم نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ ان کی اس قسم کی موشگافیوں کو زیادہ سے زیادہ لایعنی اور بے مقصد دانشوری کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ چند ایک بے کار قسم کے سوالات بھی تھے جو ان لوگوں کے نزدیک بے حد اہم تھے۔ ذہنوں کے اضطراب اورمشتعل جذبات کے ہاتھوں خاک و خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ مثال کے طور پر ایک بیہودہ امر اور بے مصرف سوال یہ بھی تھا کہ اگر ایک کتا کنوئیں میں گر جائے تو اس میں سے پانی کی کتنی بالٹیاں نکالی جائیں کہ باقی ماندہ پانی وضو کے قابل ہو جائے۔ یہ وہ ’اہم ترین‘ سوال تھا جو اس دور کے علماء کرام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ یہ محض کتے پرہی موقوف نہ تھا بلکہ اگر کوئی مخالف علماء کے فتویٔ کفر کی زد میں آیا ہوا مولوی کنوئیں میں جا گرے تو ذرا سوچئے کہ مسئلہ کتنی سنگین صورتِحال اختیار کر جاتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علم ریاضی کے کسی پیچیدہ کلیہ کے مطابق پانی کو پاک کرنے کیلئے کتنی بالٹیاں نکالی جائیں۔ بہت سے اس کنوئیں کو مٹی سے پاٹنے کو ترجیح دیتے اور نتیجۃً یہ کنؤاں مولوی صاحب کا مقبرہ بن کر رہ جاتا۔ یہ وہ دور تھا اور یہ وہ نا قابل یقین کہانیاں ہیں جن کی دیواریں تشدد اور عدم برداشت کے جنون پر استوار تھیں۔ بظاہر یہ کہانیاں عجیب و غریب دکھائی دیتی ہیں تاہم انہیں سراسر جھوٹ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دور کا علمِ فقہ دیوانگی کاشکار ہو کر رہ گیا تھا۔ فقہاء ایسی بے معنی اور لغو بحثوں میں پڑے ہوئے تھے جن کی وجہ سے نماز جیسا مقدس مذہبی فریضہ بھی گویا ایک مذاق بن چکا تھا۔ نماز کی دوسری رکعت میں قعدہ کی حالت میں مسلمان ہمیشہ تشہّد پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ تشہّد پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں جبکہ بعض ایسا نہیں کرتے۔ اس دور کے فقہاء میں اس مسئلہ پر بھی شدید اختلاف پایا جاتا تھا اور وہ اس مظلوم انگلی کو سزا دینے پر تلے ہوئے تھے جو ان کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنی تھی۔ ان کا متفقہ فتویٰ تھا کہ ان کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے والی اس غریب انگلی کو خواہ وہ اٹھے یا نہ اٹھے، بہرحال کاٹ دیا جائے۔ ماسوا اس کے ان میں ہر بات میں اختلاف تھا۔ ان حالات میں دوسرے مسلک کی مساجد میں جانا خطرہ سے خالی نہ تھا جہاں داخل ہونا تو یقینا کوئی مسئلہ نہیں تھا، اصل مسئلہ تو باہر نکلنے کا تھا۔ کیونکہ عین ممکن تھا کہ باہر آتے ہوئے خداتعالیٰ کی عطاکردہ پانچ انگلیوں میں سے ایک کم ہو چکی ہو۔ تیسرا فروعی نوعیت کا مسئلہ "آمین"کہنے سے متعلق تھا جو امام کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کہی جاتی ہے۔ بنیادی بحث یہ تھی کہ آمین بالجہر کہنی چاہئے یا زیرِلب۔ عین ممکن تھا کہ ایک ایسی مسجد میں جہاں آمین بالجہر کہنا سنگین جرم سمجھا جاتا تھا بلند آواز میں آمین کہنے والوں کو زد و کوب کیا جائے۔ اسی طرح آمین بالجہر کہنے والوں کے درمیان آمین زیر لب کہنا بھی کچھ کم اشتعال انگیز نہ تھا۔ ان مذہبی اختلافات میں سے جس مسئلہ نے خطرناک صورت اختیار کی وہ قرآن کریم کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ تھا۔ مخالفانہ نظریات رکھنے والے بلا شک و شبہ گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ اتفاق یعنی چانس پر منحصر تھا۔ اگر بادشاہِ وقت قرآن کریم کو مخلوق نہ ماننے والوں کا حامی ہوتا تو مخالف عقیدہ رکھنے والے نہ صرف قتل کر دئیے جاتے بلکہ گھروں میں زندہ جلا دئیے جاتے۔ اگر دوسروں کی قسمت یاوری کرتی تو تشدد کرنے والے خود تشدد کا شکار ہو جاتے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ لوگ جنہیں فوت اور دفن ہوئے عرصہ گزر چکا تھا ان کی قبریں اکھیڑ کر نعشیں باہر نکالی گئیں اور انہیں سر عام پھانسی دی گئی تا کہ وہ لوگ جو زندہ ہیں اس سے عبرت پکڑیں۔ لیکن اس صورت حال سے کیا نتیجہ نکل سکتا تھا؟ ہنڈولے کے اس کھیل میں کون محفوظ تھا اور کون غیر محفوظ۔ یہ ایک لاینحل سوال تھا۔ البتہ جو بھی ان فضول جھگڑوں میں اتنی سنجیدگی سے حصہ لیتے ان کی زندگی بہرحال اس دنیا میں جہنم بن کر رہ جاتی۔ یعنی جس جہنم سے ان کے مخالفین انہیں ڈرایا کرتے تھے اس کامزہ وہ اسی دنیا میں چکھ لیتے تھے اور انہیں مو ت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ازمنۂ وسطیٰ کی صدیوں پر محیط تاریکی کے مہیب سائے دور دور تک پھیلنا شروع ہوئے یہاں تک کہ دنیائے اسلام جو عرب کے ریگزاروں سے طلوع ہونے والے آفتاب عالمتاب کی بدولت تاریکی سے نکل کر روشنی میں آن کھڑی ہوئی تھی ایک بار پھر جہالت کے عمیق گڑھے میں جا گری۔ اسلام کا تصور تناظر اور زوایۂ نگاہ کے بدلنے سے تاریک اور اداس راتوں میں دور کائنات میں نظر آنے والے جھلملاتے اور رنگ بدلتے ستاروں کی مانند بدلنا شروع ہو گیا۔ اسلام کی پہلی سی شان و شوکت اورقوت باقی نہ رہی۔ علم و آگہی کے دو بڑے راستے جو جہالت کی تاریکی کو روشنی میں بدل سکتے تھے بظاہر ہمیشہ کیلئے مسدود ہو گئے۔ نہ تو بصیرت کی پہلی سی سچائی اور صفائی رہی اور نہ ہی آسمان سے کسی وحی کے اترنے کی امید! ان پر یہ دونوں دریچے بند ہو گئے۔ کتنا ہی المناک انجام تھا! تاہم کچھ صدیوں کے بعد دنیوی علوم کا سورج ایک بار پھر طلوع ہونا شروع ہوا لیکن اس مرتبہ یہ سورج مغرب سے نکلا۔ مشرق سے تعلق رکھنے والے روشنی کے میناروں نے اس امید پر مغرب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ شاید انہیں اس روشنی کی ایک جھلک نظرآجائے جو انہوں نے صدیوں پہلے خود مغرب کو عطا کی تھی۔