’’الفضل‘‘ کا کام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا، خلیفۂ وقت کی آواز ان تک پہنچانا، نیز جماعتی ترقی اور روزمرّہ کے اہم جماعتی حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے جماعتی مراکز کی رپورٹیں چھپتی ہیں جن سے مبلغین اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ ’’الفضل‘‘ میں مختلف موضوعات پر اہم اور مفید معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں جو احباب جماعت کی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی دینی، اخلاقی اور علمی تعلیم و تربیت کا سامان کرتے ہیں ۔ الفضل کا مطالعہ بہت سی بھٹکی روحوں کی ہدایات کا ذریعہ بھی ہے۔ ’’الفضل‘‘ تاریخ احمدیت کا بنیادی مأخذ ہے۔ اب تو بہت سے ممالک سے جماعت کے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں ۔ لیکن ماضی میں ’’الفضل‘‘ ہی تھا جس نے جماعتی ریکارڈ اور تاریخ جمع کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ آج کے جدید دَور میں انٹرنیٹ پر بھی بے شمار لوگ اس کا مطالعہ کرلیتے ہیں لیکن وہ لوگ جنہیں یہ سہولت میسر نہیں یا وہ اس کا استعمال نہیں جانتے اور وہ چھپے ہوئے اخبار ہی کا مطالعہ کرتے ہیں ایسے قارئین کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ الفضل کی صدسالہ جوبلی کے موقع پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کا محبت بھرا خصوصی پیغام پیارے قارئین الفضل السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ کو جاری ہوئے سو سال پورے ہورہے ہیں ۔ الحمدللہ۔ محترم ایڈیٹر صاحب نے اس موقع پر ’’الفضل‘‘ کے خاص نمبر کے لئے مجھ سے پیغام بھجوانے کی درخواست کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت ہر لحاظ سے بہت بابرکت فرمائے اور اس کی تیاری میں حصہ لینے والوں اور مضمون نگاروں کی خدمات قبول فرمائے۔ آمین یہ دَور دَورِ آخرین ہے۔ قرآن کریم کی پیشگوئی وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ کے مطابق دَور آخرین کتب و رسائل کی نشرواشاعت کا دَور ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے عہد مبارک میں 1913ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے استخارہ کرکے ’’الفضل‘‘ کا اجراء فرمایا۔ پہلے ہندوستان سے اور پھر تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے باقاعدگی سے شائع ہونے والا جماعت کا یہ ایک قدیم اور اہم اخبار ہے۔ اس کا آغاز بڑی قربانیوں سے ہوا۔ اس کے اجراء کے وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک زمین عنایت فرمائی۔ حضرت امّ ناصرؓ نے اپنے دو زیورات پیش فرمائے جس میں سے ایک انہوں نے اپنے لئے اور ایک ہماری والدہ حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے استعمال کے لئے رکھا ہوا تھا۔ اسی طرح حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بھی نقد رقم اور زمین پیش فرمائی۔ ’’الفضل‘‘ کا کام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا، خلیفۂ وقت کی آواز ان تک پہنچانا، نیز جماعتی ترقی اور روزمرّہ کے اہم جماعتی حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہے۔ چنانچہ ا س میں حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات اور ارشادات شائع ہوتے ہیں ۔ خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات اور تقاریر وغیرہ شائع ہوتی ہیں اور یہ خلیفۂ وقت اور احباب جماعت کے مابین رابطے اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے جماعتی مراکز کی رپورٹیں چھپتی ہیں جن سے مبلغین اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ ’’الفضل‘‘ میں مختلف موضوعات پر اہم اور مفید معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں جو احباب جماعت کی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی دینی، اخلاقی اور علمی تعلیم و تربیت کا سامان کرتے ہیں ۔ الفضل کا مطالعہ بہت سی بھٹکی روحوں کی ہدایات کا ذریعہ بھی ہے۔ ’’الفضل‘‘ تاریخ احمدیت کا بنیادی مأخذ ہے۔ اب تو بہت سے ممالک سے جماعت کے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں ۔ لیکن ماضی میں ’’الفضل‘‘ ہی تھا جس نے جماعتی ریکارڈ اور تاریخ جمع کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ دَور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دَور ہے۔ ہر طرف آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ ضمیر کی باتیں ہورہی ہیں مگر اس ترقی یافتہ دَور میں بھی ’’الفضل‘‘ پر کئی قسم کی قدغنیں ہیں ۔ اخبار میں دینی اصطلاحات وغیرہ کی اشاعت پر بہت سی پابندیاں ہیں ۔ اس کے سو سالہ سفر میں اخبار کی انتظامیہ پر متعدد مقدمات بنائے گئے۔ مختلف انداز میں ہراساں کیا گیا۔ ان نامساعد حالات اور پابندیوں کے پیش نظر توقفات بھی آئے اور اخبار کو بند بھی کرنا پڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ وقتی مشکلات اور دقتوں کو دُور فرماتا رہا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلفائے احمدیت کی راہنمائی میں نہایت حکمت عملی اور خوش اسلوبی سے جماعت نے اسے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کی اپنوں اور غیروں میں نہایت اعلیٰ پہچان ہے۔ اس کے قارئین میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں ایک کے بعد اگلے شمارے کا بڑی بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ اگرچہ آج کے جدید دَور میں انٹرنیٹ پر بھی بے شمار لوگ اس کا مطالعہ کرلیتے ہیں لیکن وہ لوگ جنہیں یہ سہولت میسر نہیں یا وہ اس کا استعمال نہیں جانتے اور وہ چھپے ہوئے اخبار ہی کا مطالعہ کرتے ہیں ایسے قارئین کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میری طرف سے تمام قارئین اور الفضل کی انتظامیہ اور کارکنان کو الفضل کے سو سال پورے ہونے پر مبارکباد۔ اللہ تعالیٰ سب کے علم و عمل میں برکت بخشے اور ایمان و ایقان میں بڑھائے۔ آمین والسلامخاکسار مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس لندن 4-11-12