مجھے دین کے ظاہری اور باطنی علوم دئیے گئے ہیں اورمجھے صُحُفِ مُطَہَّرَہ اور جو اُن میں ہے کا علم دیاگیاہے۔اُس شخص سے زیادہ بدبخت اورکوئی نہیں جومیرے مقام سے بے خبرہے اور میری دعوت اورمیرے کھانے سے مُنہ موڑتا ہے۔ مَیں از خودنہیں آیابلکہ میرے ربّ نے مجھے بھیجا تا کہ مَیں اسلام کی حفاظت کروں اور اس کے معاملات اور احکام کی پاسداری کروں ۔ ’’اورجب اُن سے کہا جاتاہے کہ اُس شخص پرجسے اللہ نے مبعوث فرمایاہے ایمان لاؤ اوراُس کے علم پربھی ایمان لاؤ جواُس (خدا)نے اسے عطافرمایا ہے تووہ کہتے ہیں ،کیاہم اُس پرایمان لائیں جو اس سے قبل ہمارے علماء کی مخالفت کرتارہاہے خواہ اُن کے علماء خطاکار ہی ہوں ۔دراصل یہ ایسے لوگ ہیں جو دنیوی زندگی پر مطمئن ہوچکے ہیں اور انہیں (آخرت کا) ڈرنہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ تُو فرستادۂ خدا نہیں ،لیکن جس دن یہ ظالم،اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے تب اُنہیں معلوم ہوگا کہ ظالموں کاکیساانجام ہوتاہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ مَن گھڑت ہے۔ ہرگز ایسی بات نہیں البتہ اُن کے اعمال(بد)نے اُن کے دلوں پر زنگ لگادیاہے چنانچہ وہ مخالفت میں بڑھ گئے ہیں اوروہ غورسے دیکھنے والے نہیں ۔ حقیقتاً ان کا علاج یہ ہے کہ وہ رات کی گھڑیوں میں نمازوں کے لئے اٹھیں ،اوراپنے کمروں میں خلوت نشین ہو جائیں ، اوردروازے بندکرلیں اورآنسو بہائیں ،اور اپنی نجات کے لئے بے چین ہوں اور عاجزی اختیار کرنے والوں کی سی نمازپڑھیں اور تضرع کرنے والوں کی طرح سجدہ کریں ،شاید اللہ اُن پررحم فرماوے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والاہے۔ اوریہ کیفیت انہیں کہاں نصیب ہوسکتی ہے جبکہ وہ خشیت و گریہ وزاری کی بجائے ہنسی اوراستہزاء کو اختیار کرتے ہیں اورشدید تکذیب کرتے ہیں ۔ اُن کو دور سے پکاراجاتاہے جس کے نتیجہ میں پکار کا ایک حرف بھی اُن کے کانوں سے نہیں ٹکراتا۔ اور وہ اُن مصائب کو نہیں دیکھتے جوملّت پر وارد ہیں ، اورنہ اُن زخموں کو جودین کو کافروں کے ہاتھوں پہنچے ہیں ۔ان ایّام میں اسلام کی حالت اُس شخص کی طرح ہے جو سب مَردوں سے بڑھ کر خوبصورت، قوی،حسین اورخوبرو تھا پھر زمانے کی گردش نے بکثرت رونے کے سبب اس کی آنکھوں کو کمزور کردیا اوراُس کے رخسار پر چھائیاں ڈال دیں ۔ اوردانتوں پرجمی ہوئی زردی اور دانتوں کو بدنما بنادینے والی بیماری نے اس کے دانتوں کی سفیدی کو زائل کردیا۔پس اللہ نے اِرادہ فرمایاکہ وہ اس زمانہ پراس رنگ میں اپنا کرم فرمائے کہ اسلام کا حُسن وجمال اوراُس کی چمک دمک اُس کے پاس واپس لوٹ آئے۔اورلوگوں میں مخلصین کی روح باقی نہ رہی تھی نہ صالحین کاصدق اورنہ ہی انقطاع الی اللہ کرنے والوں جیسی محبت۔انہوں نے اِفراط و تفریط سے کام لیا اور دہریوں کی مانند ہوگئے اوران کااسلام محض چند رسوم ہیں جنہیں انہوں نے بصیرت، معرفت اورآسمان سے نازل ہونے والی سکینت کے بغیر اپنے آباء سے اخذ کیاہے۔ پس میرے ربّ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ وہ اپنی ہستی پرمجھے دلیل ٹھہرائے اورمجھے اپنے لطف وجُود کے باغ کاایک شگفتہ خوش رُو پھول بنائے۔ پس میں آیااورمیرے ذریعہ سے اُس کی راہ ظاہر ہو گئی اوراس کی راہنمائی واضح ہوگئی۔اورمجھے اس کے گمنام گوشے معلوم ہوگئے اورمیں نے اس کے گھاٹوں پر ورود کیا۔ یقیناآسمان اورزمین بندتھے لیکن میرے آنے سے وہ کھول دئیے گئے اورطلباء کو میرے علوم کے ذریعہ سکھایاگیا۔پس میں ہدایت میں داخل ہونے کادروازہ ہوں ،اورمَیں وہ نور ہوں جوراہ دکھاتاہے اورخوددکھائی نہیں دیتا۔ مَیں رحمان کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہوں اورعطا کرنے والے والے خدا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہوں ۔ مجھے دین کے ظاہری اور باطنی علوم دئیے گئے ہیں اورمجھے صُحُفِ مُطہرہ اور جو ان میں ہے کا علم دیاگیاہے۔اُس شخص سے زیادہ بدبخت اورکوئی نہیں جومیرے مقام سے بے خبرہے اور میری دعوت اورمیرے کھانے سے مُنہ موڑتا ہے۔ مَیں از خودنہیں آیابلکہ میرے ربّ نے مجھے بھیجا تا کہ مَیں اسلام کی حفاظت کروں اور اس کے معاملات اور احکام کی پاسداری کروں ۔ مجھے اس وقت نازل کیا گیا جب سوچیں ختم ہوچکی تھیں اورخواہشات منتشر ہوچکی تھیں اورظلمت کو اختیار کر لیاگیاتھا اور روشنی کوچھوڑ دیا گیاتھا۔ اورتو مشائخ اور علماء کو برہنہ تن، ننگے بدن شخص کی طرح دیکھتاہے۔ اُن کے پاس قرآن کے چھلکے اورفرقان کے ایک باریک ریشہ کے سوا کچھ نہیں ۔اُن کا دودھ خشک ہوچکاہے اور ان کا قیمتی موتی ضائع ہوگیاہے۔اِس کے باوجود اُن کی جہالت اور عیوب کی بدبوکے ساتھ تکبرکی شدت مجھے تعجب میں ڈالتی ہے۔وہ سچے کوگالی دے کراور تکذیب اورعظیم بہتان باندھ کر اذیّت دیتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اس (ایذا) کا اجرجنت نعیم ہے حالانکہ وہ (صادق) اُن کی طرف اس لئے آیاتھاکہ وہ اُنہیں خنّاس سے بچائے اورلوگوں کو اونگھ سے چھٹکارا دے۔ وہ مراتب کے دلدادہ ہیں اورعلیم اور حساب لینے والے (خدا) کو چھوڑرہے ہیں ۔خدائے رحیم کی طرف سے آنے والے سے منہ پھیررہے ہیں حالانکہ وہ اُن کے پاس رحیم خدا کی طرف سے آیاہے اوروہ اس طرح آیاہے جیسے ہمدردی کرنے والے بیمار کے پاس آتے ہیں ۔وہ اُس (صادق) پرسنگدلی سے لعنت بھیجتے ہیں ۔ یہ وہ صلہ ہے جووہ اُس ہمدردی کرنے والے کو دے رہے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ بادشاہوں کے ہاں بڑے بڑے مناصب سے عزت دئیے جائیں ، حالانکہ اُن کویہ حکم دیاگیاتھا کہ وہ اس کمینی دنیا کے تعلّقات کو مستردکردیں اورروشن دین کے رستے میں حائل روکوں کو دورکر دیں ۔ وہ خواہشات کی طرف شترمرغ کی سی تیزی سے دوڑتے ہیں اور ان (خواہشات) کو انہوں نے اپنی قیام گاہ بنا لیاہے انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ وہ دنیا سے مسافرکی طرح گزریں اوراپنے آپ کو ایک غریب الوطن عاجز کی مانند رکھیں ،لیکن تُوآج انہیں دیکھتا ہے کہ وہ حُکّام کے حضورعزت کے خواہشمند ہیں حالانکہ حقیقی عزت توعلّام خداکی جناب سے ملتی ہے۔ اورجب ہم لوگوں کورحمان کے دن(اللہ کی نعمتوں اور عذاب کے دن)یاد دلاتے ہیں اور انہیں شیطان سے اللہ کی جانب کھینچتے ہیں تو اچانک ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھیڑئیے کی طرح ہم پر حملہ کردیتے ہیں اور سانپ کی طرح ہمیں اپنی پُھنکارسے خوفزدہ کرتے ہیں ۔وہ کبھی بھی ہماری مجلس میں صحیح نیت اور سچے اِرادے سے نہیں آئے پھر بھی وہ باخبر عالم کے اعتراض کرنے کی طرح اعتراض کرتے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کاکیا حال ہے؟اورکس چیز نے ان کوبھڑکنے والی آگ برداشت کرنے کی طاقت دی۔وہ دنیا سے سیر نہیں ہوتے اوراُن کے دل میں اُس کی محبت جاگزین ہے اوراُس کے ساتھ ہی اُن کادین سے بہت کم حصہ ہے۔ وہ غیر المغضوب علیھم پڑھتے ہیں مگررحمن کی ناراضگی کی راہ پر چلتے ہیں گویا انہوں نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ جزا دینے والے (خدا) کی طرف سے آنے والے کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اورمَیں اُن کے پاس آنے والے حق کے انکارپر آہیں بھرتاہوں اور وہ اندھے پَن کے باعث مجھے کافرقرار دیتے ہیں ۔ وائے تعجب یہ کیسی عقل ہے؟ اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے اوروہ میرے دکھ اورغم کی سوزش کوخوب جانتا ہے۔وہ اپنے ربّ سے میری بیخ کنی کی دعا مانگتے ہیں اور جومیرے دل میں ہے اُسے وہ نہیں جانتے۔ اوراُن کی دعااندھی اونٹنی کے قدم مارنے کی طرح ہے۔ پس وہ جو میرے لئے آفت اور مصیبت چاہتے ہیں انہیں پرلوٹادی جائے گی۔ کیا ان کی دعا ایک ایسے شجرۂ طیّبہ کے متعلق قبول ہوسکتی ہے جو رحمن کے ہاتھ سے لگایاگیاہے۔تاہرپرندہ جو اُس کاسایہ چاہتاہے اس پر پناہ لے اورایک بھوکے کی طرح اُس کاپھل چاہتا ہے۔ اور شیطان صفت شِکرے سے اَمان چاہتاہے۔کیا وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ؟ہرگزنہیں ۔یہ تووہ لوگ ہیں جودنیا کی سرسبزی ،شادابی اورچمک دمک پر راضی ہو چکے ہیں اوراس کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اس اژدھے سے جو مصیبت اُن پرآئے گی اُس سے وہ غافل ہیں ۔ وہ دنیاوی خواہشات کے حصول کے موقع پر خوشیاں مناتے ہیں اوراس کا ذکرنخوت اورفخریہ الفاظ میں کرتے ہیں ۔مگرزندگی کے چلے جانے اوراُخروی مدارج سے محروم ہونے پر وہ کوئی درد محسوس نہیں کرتے۔یقینادنیاملعون ہے اورجواس میں ہے وہ بھی ملعون ہے۔اس کا ظاہر شیریں اوراس کا اندرونہ زہرہے۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 23 تا 29)