سچی پاکیزگی، حقیقی تزکیہ اور دنیا و آخرت کی حسنات اور ترقیات کے حصول کے لئے ایک عظیم الشان الٰہی نظام انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جمیع جانورو ں سے بدتر ہے اور شَرُّالۡبَرِیَّۃِہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ کے ایک خط کے جواب میں خشوع خضوع کے ساتھ اور محنت اور مشقّت اٹھا کر اعمال صالحہ اور عبادات بجا لانے کی اہمیّت کو یو ں بیان فرمایا۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں : ’’قبض اور بے مزگی اور بے ذوقی کی حالت میں مجاہداتِ شاقّہ بجا لا کر اپنے مولا کو خوش کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مجاہد ہ جس کے حصول کے لئے قرآن شریف میں ارشادو ترغیب ہے اور جو مورد کشود کارہے وہ مشروط بہ بے ذوقی و بے حضوری ہے۔ اور اگر کوئی عمل ذوق اور بسط اور حضور اور لذت سے کیا جائے اس کو مجاہدہ نہیں کہہ سکتے اور نہ اس پر کوئی ثواب مترتّب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خود ایک لذت اور نعیم ہے اورتنعُّم اور تلذَّذ کے کامو ں سے کوئی شخص مستحق اجر نہیں ہوسکتا۔ ایک شخص شربتِ شیریں پی کر اس کے پینے کی مزدوری نہیں مانگ سکتا، سویہ ایک نکتہ نہایت باریک ہے کہ بے ذوقی اور بے مزگی اور تلخی اور مشقّت کے ختم ہونے سے وہیں ثواب اور اجر ختم ہو جاتا ہے اور عبادات، عبادات نہیں رہتیں بلکہ ایک روحانی غذا کا حکم پیدا کرلیتی ہیں۔ سو حالت قبض جو بے ذوقی اور بے مزگی سے مراد ہے یہی ایک ایسی مبارک حالت ہے جس کی برکت سے سلسلہ ترقیات کا شروع رہتا ہے۔ ہا ں بے مزگی کی حالت میں اعمالِ صالحہ کا بجا لانا نفس پر نہایت گرا ں ہوتا ہے مگر ادنیٰ خیال سے اس گرانی کو انسان اُٹھا سکتا ہے۔ جیسے ایک مزدور خوب جانتا ہے کہ اگر میں نے آج مشقّت اُٹھا کر مزدوری نہ کی تو پھر رات کو فاقہ ہے اور ایک نوکر یقین رکھتا ہے کہ میں نے تکالیف سے ڈر کر نوکری چھوڑ دی تو پھر گزارہ ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح انسان سمجھ سکتا ہے کہ فلاح آخرت بجز اعمالِ صالحہ کے نہیں اور اعمال صالحہ وہ ہو ں جو خلافِ نفس ہو ں اور مشقّت سے ادا کئے جاویں۔ اور عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل سے جس کام کے لئے مصمّم عزم کیاجاوے اس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے۔ سو مصمّم عزم اور عہدواثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور نماز میں اس دعا کو پڑھنے میں کہ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الخ) بہت خشوع اور خضوع سے زور لگانا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے۔ انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جمیع جانورو ں سے بدتر ہے اور شَرُّالۡبَرِیَّۃِہے۔ وقت گزر جاتا ہے اور موت در پیش ہے اور جو کچھ عمر کا حصہ ضائع طور پر گزر گیا وہ ناقابل تلافی اور سخت حسرت کا مقام ہے۔ دعا کرتے رہو اور تھکو مت۔ لاَ تَیۡۡأَسُواۡ مِن رَّوۡحِ اللّہِ (یوسف: 88 )۔ ( مکتوبات احمد جلد3صفحہ6-61) ………………………… تعدیل ارکان اور اطمینان سےنماز کو ادا کرنا نماز کی شرط ہے اسی طرح ایک اور موقع پرحضور علیہ السلام نے حضرت منشی صاحب کے نام اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’تعدیل ارکان اور اطمینان سے نماز کو ادا کرنا نماز کی شرط ہے جس قدر رکوع سجود آہستگی سے کیا جاوے وہی بہتر ہے۔ اسی طرح پر پڑھنے سے نماز میں لذّت شروع ہو جاتی ہے۔ سو یہ بات بہت اچھی اور نہایت بہتر ہے کہ رکوع سجود بلکہ تمام ارکان نماز میں تعدیل و اطمینان اور آہستگی سے رعایت رکھی جاوے۔ اگر نماز تہجد میں تکرار سے یہ دعا کرو۔ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ تو یہ طریق نہایت اقرب دل پر نورانی اثر ڈالنے کے لئے ہے۔ ‘‘ (مکتوبات احمد جلد3صفحہ 62-63) ………………………… سورۃ فاتحہ کی برکات کو حاصل کرنے کا طریق حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحبؓ چونکہ ایک سجادہ نشین کے بیٹے تھے اور عملیات اور چلّہ کشیو ں کو ہی معراج سلوک و معرفت یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہو ں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس زمانے میں جب کہ ابھی آپ بیعت بھی نہیں لیتے تھے سورۂ فاتحہ کے برکات اور فیوض کو بطور منتر حاصل کرنے کے لئے اجازت چاہی، جیساکہ آج کل کے مروّجہ پیرو ں اور سجادہ نشینو ں میں یہ طریق جاری ہے۔ مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جب تک انسان اس روح کو اپنے اندر پیدا نہ کر لے جوسورۂ فاتحہ میں رکھی گئی ہے محض منتر جنتر کے طور پر پڑھنے سے وہ برکات حاصل نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نیحضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب ؓ کے نام اپنے مکتوب گرامی محرّرہ 7مارچ 1885ء میں تحریر فرمایا: ’’ آپ نے جو سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی اجازت چاہی ہے یہ کام صرف اجازت سے نہیں ہو سکتا بلکہ امر ضروری یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضمون سے مناسبت حاصل ہو۔ جب انسان کو ان باتو ں پر ایمان اور ثبات حاصل ہوجائے جو سورۃ فاتحہ کا مضمون ہے تو برکات سورۃ فاتحہ سے مستفیض ہوگا‘‘۔ (مکتوبات احمد جلد3صفحہ91-92) …………………………… دو پسندیدہ اعمال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 21جنوری1892ء کو حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اعمال پر نہایت درجہ اپنی محبت ظاہر فرمائی ہے وہ دو ہیں ایک نماز اور ایک جہاد۔ نماز کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قُرَّۃُ عَیۡنِیۡ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے اور جہاد کی نسبت فرماتے ہیں کہ میں آرزو رکھتا ہو ں کہ خداتعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جاؤ ں اور پھر زندہ کیا جائو ں اور پھر قتل کیا جائو ں اور پھر زندہ کیا جائو ں اور پھر قتل کیا جائو ں۔ اِس زمانہ میں جہاد کی صُورت سو اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمۂ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفو ں کے الزامات کا جواب دیں۔ دین متین اسلام کی خوبیا ں دُنیا میں پھیلاویں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں۔ یہی جہاد ہے جب تک خداتعالیٰ کوئی دوسری صورت دُنیا میں ظاہر کرے۔ اور نماز اپنی اُسی پہلی حالت پر ہی چاہئے کہ نماز میں خداتعالیٰ سے ہدایت چاہیں اور اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کا تکرار کریں خواہ گنجائش وقت کے ساتھ وہ تکرار سو مرتبہ تک پہنچ جائے۔ سجدہ میں اکثر یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ … الخ بتمامتر عجز کہا کریں۔ مگر نماز کی قنوت میں عربی عبارتیں ضروری نہیں۔ قنوت اُن دعاؤ ں کو کہتے ہیں جو مختلف وقتو ں میں مختلف صورتو ں میں پیش آتی ہیں سو بہتر ہے کہ ایسی دعائیں اپنی زبان میں کی جائیں۔ قرآن کریم اورادعیہ ماثورہ اسی طرح پڑھنی چاہئیں جیسا کہ پڑھی جاتی ہیں مگر جدید مشکلات کی قنوت اگر اپنی زبان میں پڑھیں تو بہتر ہے تا اپنی مادری زبان نماز کی برکت سے بے نصیب نہ رہے۔ قنوت کی دعاؤ ں کا التزام حدیثو ں سے ثابت ہوتا ہے۔ بعض پانچ وقت کے قائل ہیں اور بعض صبح سے مخصوص رکھتے ہیں اور بعض ہمیشہ کے لئے اور بعض کبھی کبھی ترک بھی کر دیتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ قنوت مصائب اور حاجات جدیدہ کے وقت یا ناگہانی حوادث کے وقت ہوتا ہے۔ چونکہ مسلمانو ں کے لئے یہ دن مصائب اور نوازل کے ہیں اس لئے کم سے کم صبح کی نماز میں قنوت ضروری ہے۔ قنوت کی بعض دعائیں ماثور بھی ہیں مگر مشکلات جدیدہ کے وقت اپنی عبارت میں استعمال کرنی پڑیں گی۔ نماز کو مغز دار بنانا چاہئے غرض نماز کو مغز دار بنانا چاہئے جو دعا اور تسبیح، تہلیل سے بھری ہوئی ہو۔ اور دعا اور استغفار اور درود شریف کا التزام رکھنا چاہئے اور ہمیشہ خداتعالیٰ سے نیک کامو ں اور نیک خیالو ں اور نیک ارادو ں کی توفیق مانگنی چاہئے کہ بجز اس کی توفیق کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ہستی سخت ناپائیدار اور بے بنیاد ہے غفلت اور غافلانہ آسائش کی جگہ نہیں۔ ہر یک سال اپنے اندر بڑے بڑے انقلاب پوشیدہ رکھتا ہے۔ خداتعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہئے اور ہراسا ں اور ترسا ں رہنا چاہئے کہ وہ ڈرنے والو ں پر رحم کرتا ہے اگرچہ وہ گنہگار ہی ہو ں۔ اور چالاکو ں اور خود پسندو ں اور ناز کرنے والو ں پر اُس کا قہر نازل ہوتا ہے اگرچہ وہ کیسے ہی اپنے تئیں نیک سمجھتے ہو ں ‘‘۔ ( مکتوبات احمد جلد3صفحہ9-10) ………………………… اپنی عبادتو ں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدو ں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستارو ں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8ستمبر 2006ء میں احباب جماعت کو نمازو ں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ایسے لوگ عطا فرماتا رہا ہے اور فرما رہا ہے جو ستارو ں کی طرح چمکتے ہوئے لوگو ں کی ہدایت کا باعث بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نظارہ جماعت کے ایسے برگزیدہ لوگو ں کے بارے میں دکھایا تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ میں نے دیکھا کہ رات کے وقت میں ایک جگہ بیٹھا ہو ں (رات کا وقت ہے میں ایک جگہ بیٹھا ہو ں ) اور ایک اور شخص میرے پاس ہے۔ تب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا بہت سارے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں۔ تب میں نے ان ستارو ں کو دیکھ کر اور انہی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ’’آسمانی بادشاہت‘‘پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازے پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے۔ جب میں نے کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میرا ں بخش ہے۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آ گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک شخص ہے مگر اس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا۔ اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ آسمانی باشاہت سے مراد سلسلے کے برگزیدہ لوگ ہیں۔ جن کو خدا زمین پر پھیلا دے گا۔ اور اس دیوانے سے مراد کوئی متکبر مغرور متمول یا تعصّب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے خدا اس کو توفیق بیعت دے گا۔ پھر الہام ہوا لَا تَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا گویا میں کسی دوسرے کو تسلّی دیتا ہو ں کہ تُو مت ڈر۔ خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ (بدر جلد 2نمبر45مورخہ8؍نومبر 1906ء صفحہ3۔ ا لحکم جلد 10نمبر38مورخہ 10؍ نومبر 1906ء صفحہ1) پس آج رُوئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعائو ں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتو ں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدو ں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستارو ں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں۔ جنہو ں نے پہلو ں سے مل کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بننا ہے اور آسمانی بادشاہت کو پھر سے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ ہر دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’پیر بنو۔ پیر پرست نہ بنو‘‘اور ’’ولی بنو۔ ولی پرست نہ بنو۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خاتم الاولیاء اور خاتم الخلفاء کی پیروی کرتے ہوئے اپنی عبادتو ں کو سنوارتے ہوئے، قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے چلے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کرلیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے۔ کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقعہ بہرحال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعائو ں میں خاص تاثیر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے۔ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل میں پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقّت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ182) (باقی آئندہ)