( ازکتاب ’ الہام،عقل،علم اور سچّائی‘ مصنّفہ :حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ )صوفی ازم تصوف ترکی، ایران اور دریائے آمو سے مشرق کے علاقہ میں ، جو تاریخی طور پرماورائالنہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خاصا مقبول تھا۔ سابقہ سوویت یونین میں رہنے والے بہت سے مسلمان باشندے تصوف کے بہت دلدادہ تھے۔ تصوف نے پہلے روس کے زارو ں اور پھر اشتراکیت کے دور میں ان علاقو ں میں اسلام کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تصوف جس بات پر شدت سے زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب کی ظاہری یا صوری ہیئت کے پس پردہ ایک مصنوعی حقیقت بھی ہوا کرتی ہے جو الہام اور اس کی روح سے عبارت ہے۔ صوفیاء کے نزدیک اس روح کو ظاہر پر ہر صورت میں فوقیت حاصل ہونی چاہئے۔ اس روح سے مراد صوفیاء کی آخری منزل ہے جس تک پہنچنے کے لئے تمام مذاہب کوشا ں ہیں۔ یہ آخری منزل عشق الٰہی اور تعلق باللہ کی ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک مذہب کی ظاہری شکل و صورت پر کاربند رہتے ہوئے یا اس کے بغیر اگر انسان کسی نہ کسی طرح اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے تو مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور یہی اس کا منتہیٰ اور مقصود ہے۔ تاہم سب صوفیاء نے ظاہر کو کلیۃً ترک نہیں کیا بلکہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق شریعت کے تحت زندگیا ں بسر کرتے چلے گئے۔ لیکن وہ اپنی تمام تر کوششیں ظاہری عبادات میں صَرف کرنے کی بجائے شب و روز اللہ تعالیٰ کی بعض خاص صفات کے ورد میں مشغول رہتے تا کہ ان کی تمام تر توجہ ذکر الٰہی پر مرکوز رہے۔ کبھی کبھی تو یو ں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ ریاضتیں آہستہ آہستہ یوگا کی ان کسرتو ں کی ہمشکل ہو گئی ہو ں جن کا ذکر ہندومت کے باب میں کیا گیا ہے۔ بعض اوقات صوفیاء کرام نے ذکر کے نئے سے نئے طریقے اور انداز ایجاد کر لئے جو ہوتے ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے بہت دُور چلے گئے۔ تاہم ان صوفی فرقو ں کے پیروکار قرآنی تعلیمات سے بھی شدت کے ساتھ وابستہ رہے۔ اس طرح مسلم دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں تصوّف کے نئے مکاتب جنم لیتے رہے۔ اس بحث سے مراد یہ نہیں ہے کہ تصوف کے ارتقا اور تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے یا مختلف صوفی فرقو ں کے ان باہمی اختلافات پر بحث کی جائے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ لیکن ایک فرق جو اسلامی تصوف کو اس سے ملتے جلتے دیگر مذاہب کے صوفیانہ مسالک سے ممتاز کرتا ہے وہ صوفیائے اسلام کا وحی کے جاری رہنے اور تعلق باللہ پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ درحقیقت تمام معروف صوفیاء کرام کا دعویٰ ہے کہ ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مستقل تعلق قائم ہے۔ چنانچہ ان کے بہت سے الہامات و کشوف مختلف مستند کتب میں درج ہیں۔ البتہ صوفیاء کرام میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہو ں نے اسلام کے بنیادی اصولو ں سے کلیۃً اپنا تعلق توڑ دیا۔ ان کے نزدیک مذہب کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان کی خدا کی طرف رہنمائی کرے۔ اس لئے ان کے نزدیک وہ لوگ جو یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں ان کے لئے رسمی عبادات بیکار محض ہیں۔ انہو ں نے کچھ ایسی ذہنی اور روحانی ریاضتیں متعارف کروائیں جن کے بارہ میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس رابطہ کو بعض اوقات انسان کے فنا فی اللہ ہونے کے احساس کا نام دیا جاتا ہے۔ تصوف کے اس مکتبۂ فکر میں موسیقی اور نشہ کی لت نے جلد ہی راہ پالی اور ان لوگو ں کو حقیقت سے دُور سراب اور خود فریبی کی دنیا میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ تاہم تمام صوفیانہ تحریکات نے اپنے سفر کا آغاز بدعات سے نہیں کیا اگرچہ بالآخر وہ اپنے انحطاط کے دَور میں اس راہ پر چل نکلیں۔ تصوّف کے چار مستقل مشہور و معروف سلسلے ہیں جو مرورِ زمانہ کے ساتھ شریعت کی راہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ لیکن جہا ں تک ان کے بزرگ بانیو ں کا تعلق ہے قرآن وسنت کے ساتھ ان کی وفاداری ہمیشہ مسلّم اور شک و شبہ سے بالا رہی ہے۔ یہ بڑے سلسلے چشتیہ، سہروردیہ، قادریہ اور نقشبندیہ ہیں جو آگے کئی ذیلی فرقو ں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہ سب کے سب حصول حق میں آسانی کے لئے زہد و ورع اور نفس کشی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ آغاز میں صوفیاء کی یہ ریاضتیں روایتی اسلامی عبادات کا متبادل نہیں سمجھی جاتی تھیں بلکہ نوافل کے طور پر ادا کی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ خالق و مخلوق کے باہمی تعلق کا صوفیانہ تصور ایسے فلسفیو ں سے متاثر ہونے لگا جن کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر بعض صوفی سلسلو ں میں کلاسیکی یونانی فلسفہ کے اثرات صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ بعض صوفی فرقو ں نے وحدت الوجود کا یونانی نظریہ ایک ترمیم شدہ صورت میں اختیار کر لیا اگرچہ بعض نے اس کی شدید مخالفت بھی کی۔ وحدت الوجود کے مخالفین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک واضح اور بیّن حدِّفاصل موجود ہے۔ اگرچہ مخلوق خالق کی مظہر ہے اور اس پر اس کے خالق کی چھاپ کے نقوش ثبت ہیں تاہم مخلوق کو خالق کی ذات میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کے بالمقابل بعض دوسرے مسالک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی مظہر ہے اس لئے خالق اور مخلوق کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ان کے خیال میں مخلوق کو خالق سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خداتعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی اس فطرت سے الگ نہیں کیا جا سکتا جس پر اس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا دونو ں کے درمیان کوئی حدِّفاصل نہیں کھینچی جا سکتی۔ چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا۔ اس کے باوجود مادہ کے قدرتی خواص میں اللہ تعالیٰ کی آزادانہ مرضی کارفرما ہے۔ بادی النظر میں کائنات کا یہ تصور مکمل طور پر وحدت الوجود کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے یعنی خدا سب کچھ ہے اور سب کچھ خدا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وجود کے خارج میں بھی ایک مقتدر اور بااختیار ہستی موجود ہے جو بنی نوع انسان سے بذریعہ الہام مخاطب ہوتی ہے، اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی اور اس کی رہنمائی فرماتی ہے۔ مسلمان صوفیاء وحدت الوجود کے اس روایتی نظریہ کے برعکس خدا کی الگ ذات پر یقین رکھتے رہے ہیں جو خالق ہے اگرچہ اس کا عکس مخلوق میں نظر آتا ہے۔ جہا ں تک صوفیاء کرام کے مزاج کا تعلق ہے وہ تندو تیز مباحثو ں کی طرف بہت کم راغب ہوئے۔ وہ اپنے عقائد کے اظہار میں معتدل رہے اور مخالفانہ رائے کو صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن یہ بات کٹّرمُلاّئو ں کے بارہ میں نہیں کہی جا سکتی جو رفتہ رفتہ حسد میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ اس لئے اکثر صوفی فرقو ں کو انتہا پسند مُلّائیت کے ہاتھو ں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مُلّائو ں کی طرف سے اکثر جوابی تحریکیں اٹھتی رہیں اور وقتاً فوقتاً ہر صوفی فرقہ کو شدید جارحیت کے مراحل میں سے گزرنا پڑا۔ اور وہ صوفی حضرات جو وحدت الوجود کے عقیدہ سے وابستہ رہے خاص طور پرانتہا پسند علماء کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے۔ یہا ں تک کہ بعض اوقات تو وہ موت کے سزاوار بھی ٹھہرے اور بڑی سفّاکی سے قتل کئے گئے۔ ان کا یہ احتجاج کہ ان کا وحدت الوجود کا فلسفہ کبھی بھی خالقِ مطلق کی الگ ذات کے موجود ہونے کے خلاف نہیں رہا، کسی کام نہ آیا اور ان کی اس بنا پر شدید مذمت کی گئی کہ وہ خدا کی خدائی میں شرکت کے مدعی ہیں۔ الغرض نام نہاد کٹّر علماء کی طرف سے ان لوگو ں پر طرح طرح کا ظلم وستم روا رکھا گیا۔ خدائی کے دعویٰ کا الزام لگا کر ان صوفیاء سے جو سلوک کیا گیا اس کی ایک موزو ں مثال مشہور صوفی منصور الحلّاج کے واقعہ میں ملتی ہے۔ ان صوفیاء پر اس قسم کے الزام لگائے گئے کہ گویا وہ بذات خود خدائی کے دعویدار ہیں۔ منصور الحلّاج کو اس جرم میں سولی پر لٹکایا گیا کہ وہ وجد کی کیفیت میں اَنَاالْحَقَ ، اَنَا الْحَق کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ کٹّر مُلّائو ں نے اس سے یہ مراد لی کہ وہ خود خدائی کے دعویدار ہیں۔ حالانکہ انہو ں نے روحانی سرور کی کیفیت میں اپنی ذات کی مکمل نفی کا اعلان کیا تھا۔ اس سے مراد صرف یہ تھی کہ وہ لاشیء محض ہیں۔ اور جو کچھ بھی ہے فقط خدا کی ذات ہے۔ منصور الحلّاج موت کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر سر بلند کئے بے خوف وخطر سولی پر چڑھ گئے۔ اور سبّ وشتم کے اس طوفان میں ’اَنَاالْحَقَ ، اَنَا الْحَق ‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے۔ متوقع موت کا خوف ان کے عزم کو ذرہ بھر بھی متزلزل نہ کر سکا اور نہ ہی گالی گلوچ کا شور ان کے نعرہ کو دبا سکا۔ خارجی کائنات ایک حقیقت ہے یا محض ایک تخیّل؟ اس نظریہ پر مبنی ایک نئے صوفی فرقہ نے جنم لیا۔ درحقیقت یہ ایک صدیو ں پرانا مسئلہ تھا جسے افلاطون اور ارسطو نے بھی حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن نہ اس وقت اس کا کوئی حل نکل سکا اور نہ ہی بعد کے صوفیاء کسی منطقی نتیجہ پر پہنچ سکے۔ فلسفیو ں میں اب بھی یہ بحث اسی شدت سے جاری ہے اور کوئی ہمعصر فلسفی اس سے صرفِنظر نہیں کر سکتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسانی ذہن کی شمولیت کے بغیر زمان و مکان کا ادراک ممکن نہیں۔ دیوانہ کو اپنا تخیّل اتنا ہی معروضی اور حقیقی نظر آتا ہے جتنا کسی سائنس دان کو قوانین قدرت کا مشاہدہ۔ ان زاویو ں سے دیکھا جائے تو یہ مسائل لاینحل معلوم ہوتے ہیں۔ مزید برآ ں خارجی کائنات کے متعلق ہر شخص کا تاثر دوسرے سے مختلف ہے۔ تاہم ہمارے اردگرد موجود اشیاء اور ان کی خصوصیات کا ادراک بالعموم ایک سا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر لوگ کسی عام شے مثلاً کرسی یا میز کی ماہیت کے بارہ میں تو اتفاق کریں گے لیکن اور بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جن کے بارہ میں ضروری نہیں کہ وہ متفق ہو ں۔ مثلاً مختلف حسِّ بصارت رکھنے والو ں کو ایک ہی چیز کا رنگ مختلف نظر آئے گا۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ تمام انسانی استعدادیں ہر ایک میں یکسا ں ہو ں۔ قوتِ شامّہ ایک سی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہر شخص کا گرمی سردی کا احساس بھی مختلف ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف مزاجو ں اور مختلف جسمانی حالتو ں کے حوالہ سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ کوئی معروضی حقیقت انسانی ذہن میں موجود کسی بھی موضوعی حقیقت سے مکمل طور پر متفق دکھائی نہیں دیا کرتی۔ المختصر، ضروری نہیں کہ موضوعی تاثرات زمینی حقائق کی ہو بہو عکاسی کرتے ہو ں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض طبقو ں کے نزدیک دیکھنے والا کبھی بھی کامل یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ اس لحاظ سے انسانی تجربہ جس تشّکک اور اشتباہ سے دوچار ہے اور جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، صوفیاء کے ایک ایسے فرقہ کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا جس نے اشیاء کے خارجی وجود کو یکسر مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ابدی حقیقت محض ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس کی کوئی معروضی حیثیت نہیں۔ کچھ صوفی جو اُن سے بھی زیادہ انتہا پسند تھے، انتہا پسندی میں اس سے بھی آگے نکل گئے۔ انہو ں نے مادی اشیاء کے وجود کا سرے سے ہی انکار کر دیا یہا ں تک کہ وہ اپنے مادی وجود سے بھی انکار کر بیٹھے۔ چنانچہ ایک علمی تحریک جو شروع تو اس لئے ہوئی تھی کہ حقائق الاشیاء کا لطیف درلطیف ادراک کر سکے بالآخر ایک گونہ دیوانگی کا شکار ہو گئی۔ تاہم اس دیوانگی میں ایک عجیب سحر تھا جس نے اپنے وقت کے علماء اور منطقیو ں کو بھی مسحور کر دیا۔ اس فرقہ کے ایک مشہور صوفی رہنما کے بارہ میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ بعض سرکردہ علماء سے مناظرہ کے لئے اسے بادشاہ کے دربار میں طلب کیا گیا لیکن حاضرین کی حیرت اور جھنجھلاہٹ کی انتہا نہ رہی جب بحث کا نتیجہ ان کی توقعات کے بالکل برعکس نکلا۔ سوال و جواب کے آغاز ہی میں یہ دبستانی علماء حواس باختہ ہو گئے اور دلائل کے لئے ہاتھ پائو ں مارنے لگے مگر بَن نہ آئی اور کوئی بھی اس صوفی کی ماورائی اور باریک منطق کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اس موقع پر بادشاہ کو ایک عجیب خیال سوجھا۔ اس نے فِیل خانہ کے مہاوت کو حکم دیا کہ سب سے خونخوار ہاتھی کو محل کے احاطہ میں لایا جائے۔ یہ ہاتھی دیوانگی کا شکار تھا جو شاید صوفی کی دیوانگی سے کسی طور کم نہ تھی۔ اگر فرق تھا تو صرف اتنا کہ صوفی صاحب تو فقط خارجی اشیاء کے وجود کے منکر تھے جبکہ ہاتھی خارج کی موجودات کو تباہ کرنے کے درپے تھا۔ چنانچہ ایک طرف تو صوفی صاحب کو کھلے میدان میں لاکھڑا کیا گیا اور دوسری جانب ہاتھی کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ صوفی صاحب حواس باختہ ہو کر اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بادشاہ اپنے محل کے جھروکہ سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ صوفی کو یو ں بھاگتا دیکھ کر بولا: صوفی صاحب! آپ کو اس موہوم ہاتھی کو دیکھ کر بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو محض آپ کے تصور کا واہمہ ہے۔ صوفی بولا، بھاگ کون کمبخت رہا ہے۔ یہ بھی آپ کے تصور کا واہمہ ہے۔ اس طرح صوفی کو خطرناک صورت حال سے چھٹکارا تو مل گیا لیکن یہ بحث آج بھی بڑے زور شور سے جاری ہے۔ (باقی آئندہ)