(عربو ں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات، گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکرم ابو محمد عبد اللطیف صاحب(2) قسطِ گزشتہ میں ہم نے مکرم ابو محمد عبد اللطیف صاحب کے ایمانی سفرکا ایک حصہ نذرِ قارئین کیا تھا۔ اس قسط میں ان کے اس سفر کے باقی واقعات بیان کئے جائیں گے۔ وہ بیان کرتے ہیں : خاندان کی مخالفت کے پیشِ نظر میں نے جہاں اپنی اہلیہ کو یہ کہا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ کی مخالفت کے بالمقابل صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہا ں میں نے اپنے رشتہ دارو ں سے بھی کہا کہ ہماری ایک اپنی دنیا ہے، اپنا گھر ہے اور سب سے الگ ماحول ہے۔ آپ جب چاہیں ہمارے گھر تشریف لائیں ،ہم آپ کی خدمت کریں گے، اور آپ اپنے گھرو ں میں جو چاہیں کہتے پھریں لیکن ہمارے گھر میں بیٹھ کر احمدیت اور بانیٔ احمدیت کے خلاف ہتک آمیز باتیں کریں گے تو میں اسے ہر گزبرداشت نہیں کرو ں گا۔ دستور صدابندی کا سامنا مَیں نے قبولِ احمدیت کے بعد اپنے علاقے میں اپنے احمدی ہونے کا اعلان کردیا اور کبھی اپنے ایمان کو چھپایا نہیں۔ نیز جوبھی احمدیت کے خلاف بات کرتا میں خود اس تک پہنچ کراس کے اعتراضات کا جواب دیتا اورجماعت کے موقف کی وضاحت کرتا تھا۔ یہ بات دیکھ کر میرے علاقے کے مولویو ں کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ انہو ں نے کہا کہ یہ’’ کافر وضال‘‘ اب لوگو ں کے ایمان کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ اور ایسے خیالات پھیلا رہا ہے جو ہمارے موروثی عقائد کے خلاف ہیں ، لہٰذا اس کا سدّباب ازبس ضروری ہے۔ میری اہلیہ کے ایک رشتہ دار وکیل ہیں اور اپنی خباثت کی وجہ سے بہت مشہور ہیں انہو ں نے اپنے دل کی بھڑاس یو ں نکالی کہ میرے خلاف عدالت میں کیس دائر کردیا جس میں میرے بارہ میں یہ کہا گیا کہ یہ شخص اسلام سے مرتد ہو کر کسی نئے دین کی تبلیغ کر رہا ہے، لوگو ں کے صحیح اسلامی عقائد کواستخفاف کی نظر سے دیکھتا اورخلافِ حق عقائد وامور کی علی الاعلان تبلیغ سے علاقے کے مسلمانو ں کو شدید ابتلاء میں ڈالنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ لہٰذااس شخص کو روکا جائے اور اسلامی قانون کے مطابق اسے سزادی جائے۔ مجھے عدالت میں بلایا گیااوروہیں پر گرفتاری کی خبر سنائی گئی۔ میں نے کہا کہ مجھے وکیل رکھنے کی اجازت دی جائے تا وہ آپ کے کیس کا جواب دے سکے۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اور یو ں مجھے اسی وقت جیل میں ڈال دیا گیا۔ مَیں آنًا فانًاہونے والے ایسے سلوک کی توقع نہ رکھتا تھا، بلکہ جو شخص بھی مجھے جانتا تھا اسے اگرمیری قید کے بارہ میں بتایا جاتا تو وہ کبھی بھی اس خبر پر یقین نہ کرتا کیونکہ میری شخصیت اور کردار کے پیش نظر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں کسی روز جیل کی سلاخو ں کے پیچھے ہو ں گا۔ یہ دن میرے لئے اس قدر مشکل تھے کہ شاید عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہاتھ میں ہتھکڑیا ں اور پاؤ ں میں بیڑیا ں عجیب عجیب تہمتیں لگا کر قید کر نے کے بعد مجھے خطرناک ثابت کرنے کے لئے یہ حربہ بھی استعمال کیا گیا کہ جیل کے اندر ہی میرے ہاتھو ں میں زنجیریں اور پاؤ ں میں بھاری بیڑیا ں ڈال دی گئیں۔ پھر مجھے ایک جیل سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں منتقل کیا جاتا رہا۔ ان جیلو ں کے درمیان دو سے تین گھنٹے کا بس کا سفر تھا جو میں بیڑیا ں پہنے گزارتا لیکن میں اس انوکھے سفر کی ان عجیب گھڑیو ں کو دعاؤ ں ،استغفار اور درود شریف سے معطّر کرتا رہتا۔ ثبات قدمی کی للّہی توفیق یہ محض اور محض خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان حالات میں بھی صبر کی طاقت اورتوفیق عطا فرمائی۔ میرے جیل میں جاتے ہی میری اہلیہ کے بھائی آئے اور میری اہلیہ کو زبردستی اپنے گھر لے گئے۔ وہا ں اسے کہا گیا کہ تمہارا خاوندکافر ہوگیا ہے اور ہم تمہاری اس سے طلاق کی کارروائی کرنے جارہے ہیں۔ میری اہلیہ نے کہا کہ کل تک ابو محمد تمہاری نظر میں سب سے افضل انسان تھا، کل تک تم اس پر فخر کرتے تھے۔ لیکن آج وہ تمہاری نظر میں دنیا کا خراب ترین انسان بن گیا ہے۔ جبکہ میں نے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ ہا ں اگر کوئی تبدیلی ہے تو وہ بہتری کی تبدیلی ہے ، وہ فکری اعتبار سے اور اپنے نیک اعمال کے لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔ ایسے شخص کو کافر کہنے والو ں کوتو خود ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ بہر حال انہو ں نے میری اہلیہ کی ایک نہ مانی اورمیری اہلیہ کی مرضی کے بغیر ہی عدالت میں قاضی سے اس کے نکاح کے فسخ کرنے کی درخواست دے دی۔ اس درخواست پر کوئی کارروائی تو نہ ہوئی تاہم اسے جج کے سامنے میرے خلاف گواہی کے طورپر استعمال کیا گیا۔ میرے خلاف گواہی دینے والو ں کے ساتھ میرا ایک سگا بھائی بھی آیا۔ میرے لئے یہ دیکھنا شاید ناقابل برداشت تھا کہ میرا سگا بھائی اس وقت میرے خلاف گواہی دینے آیا جب میں ہاتھو ں میں ہتھکڑیا ں اور پاؤ ں میں بیڑیا ں پہنے کھڑا تھا۔ میں تصور بھی نہ کرسکتا تھاکہ میرے بھائیو ں میں سے بھی کوئی ایسا کرے گا۔ لیکن یہ حقیقت تھی جو میری آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کرمیرے سامنے کھڑی تھی۔ ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی اور خود سہارا دیا اور میں کسی لمحے بھی تحقیقات کے دوران نہ گھبرایا، نہ خوفزدہ ہوا۔ بلکہ جب بھی مجھ سے سوال کیا جاتا کہ تم قادیانی ہو؟ تو میں بڑے وثوق ، اعتماد، اور بہادری سے جواب دیتا کہ الحمد للہ میں احمدی ہو ں۔ خدا کے فضل سے میں نے سوالات کے جواب میں وہی کچھ کہاجو خدا کو راضی کرنے والا تھا۔ گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم جب مجھے جیل میں ڈالنے کا حکم صادر ہوا تو میرا ایک بھائی آیا اور مجھے کہنے لگا کہ کچھ ہو ش کے ناخن لو، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ احمدیت چھوڑ دو لیکن خدا کا واسطہ دے کر یہ کہتا ہو ں کہ بے شک جھوٹے طور پر ہی سہی یہا ں عدالت میں یہ کہہ دو کہ تمہارا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ، تاکہ اس قید سے چھوٹ جاؤ اور بعد میں بے شک خود کو احمدی کہتے رہو۔ میں نے کہا کہ مجھ سے جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ میں نے جو حق اور سچ قبول کیا ہے وہ اتنا کمزور نہیں کہ اسے جھوٹ کا سہارا دینا پڑے۔ پھر جھوٹ تو شیطان سے آتا ہے ، میں شیطان کی بجائے خدا تعالیٰ سے اس کی مدد کا طالب ہو ں۔ پھریہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھو ں احمدیو ں کا مسئلہ ہے۔ میں تمہارے کہنے پر جھوٹ بول کر ان سب کے سر نہیں جھکا سکتا۔ یہ بھی یاد رکھو کہ احمدی اور غیر احمدی میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ احمدی کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ یہ تمہارا کیسا اسلام ہے کہ جسے تم کافر کافر کہہ کر پکار رہے ہو وہ توجان پر کھیلنے کو تیار ہے لیکن سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہا مگر تم بار بار اس ’’کافر‘‘ کو جھوٹ کی تلقین کرنے کے بعد بھی پکّے مسلمان ہو ؟! کاسۂ دروغ میں رہائی کی بھیک میرے دفاع کے لئے بعض افرادِ جماعت کی مدد سے مقامی وکیل رکھا گیا۔ وہ مجھ سے ملنے آیا اور میرے کیس کی تفصیل پوچھنے کے بعدمجھ سے ایسے امور پر مبنی بیان دینے کا کہا جن کا حقیقت سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ دوسرے لفظو ں میں اس نے مجھے صاف جھوٹ بولنے کا مشورہ دیا۔ میں نے کہا کہ تمہیں جماعت نے وکیل کیا ہے اور ہماری جماعت وہ ہے کہ ہمارے امیر المومنین افراد جماعت کو سچ بولنے اور سچ پر قائم رہنے کی تلقین فرماتے ہیں جبکہ تم مجھے سراسر جھوٹ بولنے کی ترغیب دے رہے ہو۔ وکیل صاحب : تم کس امیر المومنین کی بات کر رہے ہو؟ ابو محمد : حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی جو امام جماعت احمدیہ اور حضرت امام مہدی کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ وکیل صاحب : خلافت حضرت علی ؓ کے بعد ختم ہو گئی تھی اور ان کے بعد کسی کو امیر المومنین کہلانے کا حق نہیں ہے۔ تم کس دنیا میں رہ رہے ہو۔ ان باتو ں کو چھوڑو اور اگر جان بچانی ہے تو جیسے میں کہتا ہو ں ویسے بیان دو۔ ابو محمد : کیا تم نے جماعت احمدیہ کے بارہ میں پڑھا ہے؟ اس کے نفی میں جواب دینے پر میں نے کہا کہ میں تمہیں کتابیں دو ں گا۔ پہلے تم جماعت کے بارہ میں پڑھو پھر میری وکالت کرنا۔ اس نے کہا کہ مجھے اس جماعت کے بارہ میں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا پھر مجھے کاسۂ دروغ میں ملنے والی رہائی قبول نہیں ہے۔ مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے نہ تمہاری وکالت کی، اور نہ تمہارے مشورو ں کی۔ میں تو سچ بولو ں گا۔ نیز میں نے اسے کہا کہ اگر میں نے تمہیں اگلی تاریخ پرکمرۂ عدالت میں دیکھا تو میں جج صاحب سے کہو ں گا کہ یہ شخص مجھے جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے۔ چنانچہ وہ ڈر کر دوڑ گیااورپھر میری درخواست پر دوسرا وکیل رکھا گیا جسے میں نے پہلی ملاقات میں ہی کہہ دیا کہ آپ کو ایک شرط پر میری وکالت کے لئے رکھا جائے گا اور وہ یہ ہے کہ ہر بات میں سچائی کو مدّ نظر رکھا جائے گا۔ اگر سچائی کی شرط آپ کو قابل قبول ہے تو آپ میرے وکیل ہیں ورنہ کل دستبردار ہونے کی بجائے آج ہی اپنی راہ لیں۔ عصمت وایمان کے محافظ شروع شروع میں مجھے انفرادی جیل میں رکھا گیا اور مجھے کہا گیا کہ تمہیں دوسرے قیدیو ں کے ساتھ اس لئے نہیں رکھا جارہا تا تم اپنے گمراہ کن خیالات سے دیگر قیدیو ں کے دماغ بھی خراب نہ کردو۔ مَیں حیران تھا کہ ان قیدیو ں میں چور اور بٹمار بھی تھے ، ان میں زانی اور فحشاء میں ملوّث بھی تھے، ان میں قاتل و سفّاک بھی تھے۔ جیل والو ں کو ان سے کوئی خطرہ نہ تھا کہ وہ ا پنے گندے خیالات دوسرو ں میں پھیلادیں گے۔ اگر خطرہ تھا تو مجھ سے کہ کہیں میں اس قماش کے قیدیو ں کو امام الزمان علیہ السلام کی آمد کے بارہ میں نہ بتا دو ں۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہ۔ بالآخر انہو ں نے مجھ سے عہد لیاکہ میں کسی قیدی سے اپنے عقائد کے بارہ میں بات نہیں کرو ں گا۔ اور اس عہد کے بعد مجھے دیگر قیدیو ں کے کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ تمہارا کفر اس کے اسلام سے بہتر ہے!!! اسی عرصہ میں جیل میں ایک چینی شخص بھی کسی جرم کی پاداش میں لایا گیا۔ تمام قیدی حسب ِ معمول ناچ گانے میں مصروف تھے جبکہ میں ایک طرف ہو کر بیٹھا ذکر الٰہی کررہا تھا۔ چینی قیدی میرے پاس آکر بیٹھ گیا اورکچھ دیر کے بعد کہنے لگا کہ سب قیدی ناچ رہے ہیں آؤ ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہاکہ میں رقص نہیں کرتا۔ میں یہا ں ذکر الٰہی کرتا ہو ں اور نماز پڑھتا ہو ں۔ اس نے کہا اچھااگر یہ بات ہے تومیں تمہارے ساتھ بیٹھتا ہو ں اوروقت بِتانے کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ تم مجھے کچھ عربی سکھاؤ اور میں تمہیں کچھ چینی زبان سکھاتا ہو ں۔ چنانچہ اس نے مجھے چینی زبان کے بعض ابتدائی فقرے سکھائے۔ جب میری باری آئی تو میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کلمہ شہادت سکھاتا ہو ں۔ اس نے بڑی خوشی سے اسے قبول کیا اورچونکہ تھوڑی بہت عربی جانتا تھا اس لئے بڑی جلدی صحیح پڑھنا بھی شروع کردیا۔ شاید ہماری آواز جیل کے دروازے پر کھڑے گارڈ تک بھی پہنچ گئی اور وہ فورًا ہمارے قریب آکر کہنے لگا کہ تم کیا کررہے ہو؟ میں نے کہا تمہیں اس سے کیا غرض ؟ جاؤ اپنا کام کرو۔ لیکن لگتا ہے وہ ہماری باتیں سن چکا تھا۔ چنانچہ اس نے چینی قیدی کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہیں کلمۂ شہادت پڑھا کر جو مسلمان کررہا ہے اس کی بات نہ سنو، بلکہ اپنے کفر پر ہی قائم رہو کیونکہ تمہارا کفر اس کے اسلام سے ہزار درجے بہتر ہے۔ پسِ دیوارِ زنداں میری طبیعت ایسی ہے کہ گند کو دیکھ کر بھی الجھن محسوس ہو تی ہے او رجسم پر خارش کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن جس جیل میں مجھے منتقل کیا گیا شاید وہ گندگی میں پہلے نمبر پر تھی۔ ہر طرف گند بکھرا ہوا۔ ٹائلٹس اتنے گندے کہ بو سے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ چند روز کے مقابلہ کے بعد بالآخر میری جسمانی قوت مدافعت جواب دے گئی اور مجھے الرجی اور خارش شروع ہو گئی، جسم پر دانے بن گئے اوران پر شدید خارش کرنے کی وجہ سے جسم پر زخم ہونے لگے۔ جیل میں مجھے اس کے علاج کے لئے ایک کریم دی گئی جس سے خارش کا حملہ کچھ دیر کے لئے کم ہوجاتا تھا۔ لیکن مسلسل گندگی میں رہنے کی وجہ سے یہ الرجی میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی بہت علاج کروایا لیکن وقتی افاقہ ہوتا اورچند دنو ں کے بعد ہی خارش دوبارہ عود کرآتی۔ پھر ایک سال بعد اس سے معجزانہ طور پر چھٹکارا حاصل ہو گیا۔ اس کا بیان اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ ……………… (باقی آئندہ)