{ 2015ء میں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}قارئین الفضل کی خدمت میں ماہ ستمبر، اکتوبر 2015ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے متعددواقعات میں سے بعض واقعات کا خلاصہ پیش ہے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ وامان میں رکھے، اسیران کی رہائی اورشریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین ………………… ربوہ میں ختم نبوّت کانفرنس ربوہ (چناب نگر)؛ 29-30اکتوبر2015ء: مورخہ 29اور30 ؍اکتوبر کے روز غیر احمدی ملّاؤں کو ربوہ میں ایک اشتعال انگیز کانفرنس کرنے کی انتظامیہ سے اجازت اوربھرپور تعاون ملنے پر ملّاؤں نے کانفرنس کی۔اس کانفرنس میں مخالفینِ احمدیت ملّاؤں نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف حسبِ معمول زہرمیں بجھی ہوئی تقاریر کیں اور جماعتِ احمدیہ کے بزرگان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والے ملّاؤں میں مولوی فضل الرحمٰن (جمعیتِ علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ) قاری محمد حنیف جالندھری، عبدالرؤف فاروقی، عزیز الرحمٰن جالندھری ، اللہ وسایااور قاضی احسان احمد آٖ ف کراچی شامل ہیں ۔ ملّاں فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’پاکستان مٹھی بھر قادیانیوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اکھنڈ بھارت کا خواب قادیانیوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ ‘ دیگر ملاّؤں نے کہا ’قادیانی وہ خنجر ہیں جو مسلمانوں کی پیٹھ میں انگریزوں نے گھونپا۔ قادیانی پوری دنیا سے ڈالر اور پاؤنڈ لے کر پاکستان کو بدنام کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ قادیانی نام نہاد حقوقِ انسانی کی تنظمیوں کے سہارے سے 1974ء کی قانونی ترامیم اور 1984ء کے صدارتی آرڈیننس کو ختم کرانا چاہتے ہیں ۔ جیلوں میں موجود تمام گستاخانِ رسول کو پھانسی دی جائے جبکہ عاشقِ رسول ممتاز قادری کو رہا کیا جائے۔ قادیانیوں نے ہتکِ رسول کے قانون کو اتنا کمزور کروا دیا ہے کہ ابھی تک کسی ایک بھی گستاخِ رسول کو موت کی سزا نہیں دی گئی۔‘ وغیرہ مزید برآں ملّاں نے درج ذیل بیانات بھی دیے ۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آپریشن ’ضرب عضب‘ کے نام پر مذہبی تعلیمات، اسلامی اقدار اور علمائے کرام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ۔ آج کے دور میں امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ ۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے سفراء کے ذریعہ دنیا بھر کے ممالک میں عقیدہ ٔ ختمِ نبوّت کو فروغ دے اور قادیانیوں کے منفی پراپیگنڈا کا سدِّ باب کرے۔ ۔ جہاد پاک فوج کا ماٹو ہے۔ کیونکہ قادیانی جہاد کو نہیں مانتے اس لئے انہیں فوج سے خارج کیا جائے۔ ۔ قادیانی بیوروکریٹ ہمارے ایٹمی راز باہر منتقل کر رہے ہیں جیسا کہ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے ایٹمی راز اپنے مغربی آقاؤں کو فراہم کیے تھے۔ ۔ سکولوں اور کالجوں کے داخلہ فارمز میں ختمِ نبوّت کے عقیدہ پر مشتمل ایک ’بیان حلفی‘ شامل کیا جائے۔ عقیدۂ ختمِ نبوّت کو ملکی تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ ۔ اگر گورنر سلمان تاثیر کے خلاف گستاخیٔ رسول کا مقدّمہ درج کر دیا جاتا توعاشقِ رسولؐ ممتاز قادری کے جذبات میں آ کر اسے قتل کرنے کی نوبت ہی نہ پہنچتی۔ ہم ملک کو سیکولر اسٹیٹ نہیں بننے دیں گے۔ ۔قادیانی ملک و قوم کے غدار ، صیہونی اور مغربی طاقتوں کے پروردہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں ۔ قادیانی بیوروکریٹ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اسلامی مملکت ہونے اور اس کے قیام کے پیچھے کارفرما آئیڈیالوجی کو مسخ کر کے اسے ایک سیکولر اسٹیٹ بنا دیا جائے۔ ۔ قادیانی رسائل و اخبارات اسلامی اصطلاحات کا استعمال کر کے مسلمانوں کی دلآزاری کا باعث بنتے ہیں ۔ ان پر پابندی لگائی جائے۔ جس طرح ختمِ نبوّت کا عقیدہ اہم ہے اسی طرح یہ عقیدہ بھی انتہائی اہم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پرموجود ہیں اور آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ ۔ علّامہ اقبال نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔اس کے مطابق قادیانی ملک و ملّت کے غدار ہیں ۔ مزید برآں ملّاؤں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ احمدی بچوں ، نوجوانوں ، بزرگوں ، بچیوں اور خواتین کی ذیلی تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اس کانفرنس میں جو ریزولیوشنز پاس کی گئیں ان میں درج ذیل بھی شامل تھیں : ۔اسلامک آئیڈیالوجی کونسل کی تجویز کردہ گستاخِ رسول کی شرعی سزا ملک میں نافذ کی جائے۔ ۔آپریشن ’ضربِ عضب‘ کے تیسرے مرحلے کا آغاز قادیانیوں کی عبادت گاہوں سے کیا جائے۔ ۔قادیانیوں کی دہشتگرد تنظیم خدام الاحمدیہ پر پابندی لگائی جائے۔ ۔قادیانیوں کو زیرِ نگرانی رکھا جائے۔ دوہری شہریت کے حامل قادیانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ۔کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ میں بھی مذہب کا خانہ ہونا چاہیے تا کہ ہر شخص مسلمان اور غیر مسلم کی پہچان کر سکے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مذکورہ بالا رپورٹ کے مندرجات اس کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز سے لئے گئے ہیں ۔ اس کانفرنس میں جو تقاریر ہوئیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ اشتعال انگیز، غیرحقیقی، خلافِ واقعہ، غیر اخلاقی، جھوٹ اور افتراء اور قابلِ اعتراض مواد پر مشتمل تھیں ۔ ………………… پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک رہنما دہشتگرد اور فرقہ واریت کے علمبردار ملاّؤں کا ہمرکاب سرگودھا:ضلع سرگودھا کے پاکستان مسلم لیگ۔ نواز گروپ کے نائب صدر اور سابق ایم این اے ملک اسلم کچھیلا نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے نام ایک خط تحریر کیا۔ اس خط کے کچھ حصے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔ ۔قادیانیوں کو ضیاء الحق کی جاری کردہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ 298-B اور 298-Cکے تحت تین سال قید اور پچاس ہزار روپے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ۔’قادیانی اپنی عبادتگاہوں اور اسّی ہزار قبروں کے کتبوں پر کلمہ لکھ کر قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتے ہوئے پاکستان کا نام بدنام کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں ۔ ‘ ۔’ اس معاملہ کے بارہ میں DCOاور DPO چنیوٹ سے رابطہ کیا گیااور پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کو اطلا کی گئی۔ انہوں نے ایک ہفتہ کے اندر اندر ضروری کارروائی اور مولانا محمد اکرم اور الیاس چنیوٹ (ممبر صوبائی اسمبلی) کے رپورٹ دینے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ ایک سال سے اس بارہ میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘ یہاں یہ ذکر کرنا انتہائی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ واریت پھیلانے والے ان نفرت کے بیوپاروں کو پاکستان مسلم لیگ۔ نواز گروپ کے اعلیٰ ضلعی عہدیداروں کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے۔ملّاں محمد اکرم جس کا اس خط میں ذکر کیا گیا ہے ایک بدنامِ زمانہ مولوی ہے جس کی نفرت انگیزی کی بِنا پر اس کا داخلہ پاکستان کے متعدد شہروں میں ماہ محرّم کے دوران ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔جبکہ ملّاں الیاس چنیوٹی کھلم کھلا مخالفِ احمدیت ہے جو پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے ٹکٹ پر پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی کی رکنیت رکھتا ہے۔ ۔محمد اسلم کچھیلا اپنے خط میں مزید لکھتا ہے ’31؍ اکتوبر 2015ء کو چناب نگر میں ایک ختمِ نبوّت کانفرنس ہو رہی ہے جس میں لاکھوں مسلمان شامل ہوں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی طرح قانون کی خلاف ورزی یا امنِ عامہ میں نقص واقع ہو۔ اس لئے قادیانیوں کو حکم دیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچنے کے لئے قانون کی پاسداری کریں ۔‘ موصوف اس خط میں ایک طرح سے انتظامیہ کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اس کانفرنس میں ’لاکھوں ‘ مسلمانوں کی شمولیت کے بعد کسی بھی قسم کے جھگڑے کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کانفرنس میں آج تک زیادہ سے زیادہ دس ہزار کے لگ بھگ لوگ ہی شامل ہو سکے ہیں ۔ لیکن یہ تعداد بھی اتنی بڑی ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے ربوہ جیسے پُر امن شہر کا سکون کانفرنس کے دنوں میں برباد ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں کی پچانوے فیصد احمدی آبادی رکھنے والے شہر میں موجودگی ہی خطرے کی گھنٹی بجائے رکھتی ہے۔ ویسے بھی اتنی بڑی تعداد میں بیرونی شہروں سے لوگوں کا ربوہ میں اکٹھے ہونے اور وہاں پر احمدیت مخالف کانفرنس کرنے کی کوئی جائز وجہ سمجھ نہیں آتی! اس کانفرنس کے انعقاد پر حکومتِ وقت کو از خود نوٹس لے کر اس پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ مزید برآں محمد اسلم کچھیلا نے جس لیٹر پیڈ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو یہ خط تحریر کیا ہے اس کے مطابق موصوف ۔اپنے آپ کو ’اسیرِ ختمِ نبوّت‘ کہلواتے ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر سرگودھا بھی ہیں اور ۔ضلع سرگودھا کی ’امن کمیٹی‘ کے ممبر بھی ہیں ۔ ………………… جان بچانے کی خاطر ہجرت ماڈل کالونی، والٹن روڈلاہور؛ 28؍ ستمبر2015ء: یہاں کے ایک احمدی زاہد محمود قریشی مرحوم نے وفات کے بعد بیوہ، تین بیٹیاں اور ایک بیس سالہ بیٹا طاہر محمود سوگوار چھوڑے۔ یہ لوگ ایک طویل عرصہ سے اس گھر میں مقیم تھے۔ ان کے گھر ایک نامعلوم شخص نے ایک دھمکی آمیز خط پھینکا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا کہ ’ہم ایک ایسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جن کا مشن قادیانیوں کو ختم کرنا ہے۔ تمہارے گھر کے تمام احمدی ہمارے علم میں ہیں ۔ اگر تم اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی ہو تو دس لاکھ روپے کا انتظام کرو۔ ہم رقم کے وصول کرنے کے طریقہ کے بارہ میں تمہیں جلد آگاہ کریں گے۔‘ اس پر طاہر محمود پولیس اسٹیشن اس امر کی ایف آئی آر درج کروانے کے لئے گئے۔ پولیس نے اس واقعہ کی کوئی ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے اس کا اندراج روزنامچہ میں کر کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔کچھ روز بعد یکم اکتوبر کو ایک نامعلوم فون کال موصول ہوئی جس میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا رقم کا انتظام ہو گیا ہے؟ طاہر محمود کا جواب نفی میں تھا۔ کسی متوقع حملہ سے بچاؤ کی خاطر طاہر محمود اپنے گھر والوں کے ہمراہ اس علاقہ سے دُور کسی مقام کی طرف ہجرت کر گئے ہیں ۔ ………………… عبادت کی ادائیگی میں مشکل تتلے عالی، ضلع گوجرانوالہ؛ اکتوبر 2015ء: گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تتلے عالی کے تین احمدیوں یعقوب احمد، صابر احمد اور اویس احمد کے خلاف غیراحمدی مخالفین نے پولیس میں ایک درخواست دائر کی۔ انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ لوگ ایک گھر کو عبادتگاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔ ’چونکہ قانون کے مطابق یہ لوگ غیرمسلم ہیں اس لیے یہ اسلامی طریق پر عبادت نہیں کر سکتے۔‘ ان کے مطابق کوئی سادہ لوح مسلمان غلطی سے ان کی وجہ سے قادیانی ہو سکتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ’احمدیوں کو ایسی تمام حرکات سے روکنا چاہیے جو خلافِ قانون اور خلافِ اسلام ہیں ‘۔ درحقیقت احمدیوں نے اپنی مسجد کی تعمیر یہاں 2004ء میں شروع کی تھی جو کہ مخالفین نے انتظامیہ کی مدد سے رکوا دی تھی۔ اس خوف سے کہ مخالفین اسے سِیل کروا دیں گے احمدیوں نے اس عمارت کو گھر میں تبدیل کر کے اسے وہاں کے مبلغ کی رہائش کے لیے استعمال شروع کر دیا۔ جماعتِ احمدیہ کے نمائندگان پر مشتمل ایک وفد انتظامیہ سے ملا اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ یہ گھر عبادتگاہ کے طور پر استعمال نہیں کیاجا رہا۔ (باقی آئندہ)