چی پاکیزگی، حقیقی تزکیہ اور دنیا و آخرت کی حسنات اور ترقیات کے حصول کے لئے ایک عظیم الشان الٰہی نظام نماز کس طرح فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے یہ سوال اکثر ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ بھلا محض نماز پڑھنے سے اور مسجد میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرنے سے فحشاء اور منکرات سے انسان کیسے بچ سکتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ بظاہر بڑے نمازی ہوتے ہیں لیکن وہ کئی قسم کی بدیوں اور فحشاء اور ناپسندیدہ باتوں میں ملوّث ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر آج کل کے ملّاؤں کے شر اور فساد تو ایک کھلی حقیقت ہیں جو حسب ارشاد نبوی آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہیں ۔تو پھر قرآن مجید جب کہتا ہے کہ نماز بدیوں سے روکتی ہے تواس کا کیا مطلب ہے اور صلوٰۃ کیسے بدیوں سے روکتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے حضرت مصلح موعود ؓ کا ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں : ’’اسلام کے سارے قانون کوئی نہ کوئی خوبی اپنے اندر رکھتے ہیں ۔وہ صرف حکم کے طورپر نہیں دئیے گئے بلکہ انسانی مقاصد اور ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بعض دفعہ ایک آقا اپنے نوکر کو حکم دے دیتا ہے کہ یوں کرو ۔مگر اس میں کوئی حکمت نہیں ہوتی۔ یا سزا کے طورپر وہ بعض احکام دے دیتا ہے مگر ان کے پس پردہ بھی کوئی حکمت کام نہیں کر رہی ہوتی ۔مثلاً بعض لوگ جب کسی کو سزا دینا چاہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائو ۔اب دیوار کی طرف منہ کر انے میں کوئی حکمت نہیں ہوتی محض دوسرے کی تذلیل مدّنظر ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں جس قدراحکام دئیے گئے ہیں اُن میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے، کوئی نہ کوئی غرض ہے جس کو مدّنظر رکھتے ہوئے وہ احکام دئیے گئے ہیں ۔کوئی حکم نہیں دیا گیا مگر اسی صورت میں کہ اُس کا فائدہ بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور کسی بات سے نہیں روکا گیا مگر اُسی صورت میں کہ اُس کا نقصا ن بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور یہ اسلامی شریعت کی باقی تما م شریعتوں پر ایک امتیازی فوقیت ہے۔ …اسلام نے کوئی حکم بھی ایسا نہیں دیا جس میں کوئی حکمت اور غرض مدّنظر نہ ہو۔ مثلاً نماز کو ہی لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو اُس کے ساتھ ہی اُس نے نماز کا فائدہ بھی بیان کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡھٰی عَنِ الۡفَحۡشَائِ وَالۡمُنۡکَرِ ( عنکبوت: رکوع 5 )نماز انسان کو بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے ۔یعنی نماز میں ایسی تعلیمیں دی گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ اور بلند مقاصد انسان کے سامنے رکھے گئے ہیں کہ اگر انسان صحیح طورپر نماز پڑھے تو یقینا وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائے گا۔ فَاحِشَۃ’‘ کے معنے ہوتے ہیں مَااشۡتَدَّ قُبۡحُہ‘ مِنَ الذُّنُوۡبِ (اقرب)ہر وہ غلطی جو بہت ہی معیوب ہو اور جس کا عیب اتنا ظاہر ہو کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھانے لگ جائیں اور کہنے لگیں کہ دیکھو یہ کتنی بری حرکت ہے ۔ اور مُنۡکَر’‘ کے معنے ہوتے ہیں مَالَیۡسَ فِیۡہِ رِضَی اللّٰہِ مِنۡ قَوۡلٍ اَوۡفِعۡلٍ ( اقرب) ہر ایسا قول یا فعل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو ۔یہ نماز کا فائدہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا۔ اب اگر ہم اور احکام کو جانے دیں اور صرف اسی حکم پر غور کریں تو اس حکم میں ہی ہمیں اسلام کی فضیلت نہایت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے ۔اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں اگر کوئی شخص سچے دل سے نمازیں پڑھے تو وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائے گا۔ ہر مسلمان دن رات میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے اور ہر نماز میں کچھ فرض ہوتے ہیں ، کچھ سُنّتیں ہوتی ہیں اور کچھ نوافل ہوتے ہیں ۔اور پھر تہجد اور اشراق وغیرہ کی بھی نمازیں ہیں ۔ان سب نمازوں میں وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے اور نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ۔ یعنی اے خدا ! میر ی زندگی میں بعض کام بُرے ہوں گے اور بعض اچھے ہوں گے۔ بعض ایسے ہوں گے جو پسندیدہ ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مطابق ہوں گے اور بعض ایسے ہوں گے جو نا پسندیدہ ہوں گے اور اخلاقی معیار سے گِرے ہوئے ہوں گے ۔الٰہی میری دُعا تجھ سے یہ ہے کہ تُو ہمیشہ میرا قدم ایسے راستہ پر رکھئیو جو صراط مستقیم ہو ۔جس پر چلنے کے نتیجہ میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو ۔ کسی قسم کی تعدّی نہ ہو۔کسی قسم کی بے حیائی نہ ہو ۔اور جس پر چل کر میں ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رہوں ۔اب جو شخص دن رات اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا رہے گا اور دُعا بھی سچے دل سے کرے گا وہ برائیوں اور گناہوں میں ملوث ہی کس طرح ہو سکتا ہے ۔ اگر اس کے سامنے شہوات کاسوال آئے گا تو فوراً اُس کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ میں سیدھے راستہ پر چلوں ۔ یعنی شہوات کو پورا کرنے کے جو حلال طریق اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُن کو اختیار کروں ۔ناجائز اور حرام راستہ اختیار نہ کروں ۔کھانے پینے کا سوال آئے گا تو فوراً اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آجائے گا کہ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ( اعراف:رکوع 3)کھائو اور پیو مگر اسراف سے کام نہ لو ۔ معاملات کی طرف آئے گا تو فوراً اس کے سامنے یہ بات آجائے گی کہ میں نے دھوکا باز ی نہیں کرنی ۔دغا اور فریب سے کام نہیں لینا کیونکہ ایسا کرنا ظلم ہے ۔غرض جو شخص یہ سمجھ کر دُعا کر ے گا کہ میں نماز پڑھ رہاہوں ۔ تمسخر نہیں کررہا ۔ہنسی نہیں کر رہا ۔دین سے تلعّب نہیں کر رہا وہ کھانے پینے کے معاملات میں ، دوستوں کے تعلقات میں ، بیوی بچوں سے سلوک کرنے میں ،شہریت کے حقوق اور فرائض ادا کرنے میں ،غیر ممالک اور اقوام سے تعلقات رکھنے میں ہمیشہ یہ غور کرتا رہے گا کہ میں وہ راستہ اختیار کروں جو سیدھا ہے اور جس میں کسی قسم کی کجی نہیں پائی جاتی ۔آخر جو شخص خدا سے کچھ مانگے گا وہ خود اُس کے مطابق عمل کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہو گا؟ کیا کوئی شخص کبھی یہ دُعا کیا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے ہیضہ ہو جائے ؟ وہ کیوں یہ دعا نہیں کرتا؟ اس لئے کہ وہ ہیضہ کو بُرا سمجھتا ہے ۔اگر وہ اچھا سمجھتا تو اللہ تعالیٰ سے ضرور مانگتا ۔پس وہی چیز انسان اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جسے وہ اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے۔ اور جب وہ کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو لازمًا اُس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرے گا ۔ پھر یہیں تک بس نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ الٰہی مجھے سیدھے راستے پر چلا بلکہ وہ ساتھ ہی یہ دُعا بھی کرتا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ۔ الٰہی میر ی یہی خواہش نہیں کہ تُو مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔بلکہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ تو مجھے اُن لوگوں کے راستہ پر چلا جو تیرے دربار میں خاص طور پر مقرّب ہیں ۔ میں عام لوگوں کے راستہ پر بھی نہیں چلنا چاہتا ۔میں درمیانی درجہ کے لوگوں کے راستہ پر نہیں چلنا چاہتا بلکہ میں اُن اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش رکھتا ہوں جنہوں نے تجھ سے انعامات حاصل کئے اور جو منعم علیہ گروہ میں شامل ہوئے ۔دوسری جگہ اللہ تعالیٰ منعم علیہ گروہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔اُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡھِمۡ مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّھَدَٓائِ وَالصَّالِحِیۡنَ ( نساء: رکوع 9) یعنی منعم علیہ گروہ وہ ہے جس میں نبی، صدیق ،شہید اور صالح شامل ہیں۔ پس یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے بدی سے بچا ۔یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے نیکی کی توفیق عطا فرما بلکہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑوالی نیکی دے ۔یا اللہ مجھے اُسی طرح گناہ سے بچا جس طرح تُو نے نوح ؑاور یعقوب ؑ اور یوسف ؑ اور دوسرے انبیاء کو بچا یا ۔یہ کتنا بلند مقام ہے جس کو حاصل کرنے کی دُعا سکھائی گئی ہے اور کتنا جوش ہے جو اس میں پایا جاتا ہے ۔اگر کوئی شخص سچے دل سے نماز پڑھتا ہے تو لازمی طور پر وہ اس مقام کے حصول کے لئے کچھ تو جدّوجہد کرے گا ۔اور جب وہ جدّو جہد کرے گا تو لازمی طورپر وہ اُن دوسروں کی نسبت جن کے دلوں میں یہ جوش نہیں پایا جاتا بہتر حالت میں ہوگا۔اور اس دُعا کے نتیجہ میں وہ ہر قسم کی بدیوں سے بچ جائے گا ۔اور ہر قسم کی نیکیوں کو حاصل کر لے گا۔ پھر ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کیا کریں کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ اے خدا ! ’’ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اے خدا ہم تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح اگلی آیت میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے کہ اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۔ اے خدا ہم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔ اب نماز میں دُعا مانگنے والا شخص تو ایک ہوتا ہے مگر وہ بار بار ہم کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے اے خدا ’’ ہم‘‘ تیری عبادت کرتے ہیں ۔ہم تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ ہم تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہم کو سیدھے راستہ دکھا ۔ ہمیں غور کر نا چاہیے کہ اس سے کیا مراد ہے اور کیوں ہمیں بار بار’ہم‘ لفظ استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ہے؟اگر ہم سوچیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یا تو اس سے ساری دنیا کے لوگ مراد ہیں ۔یا سارے مسلمان مراد ہیں ۔ یا سارے شہر والے مراد ہیں ۔ یا سارے محلہ والے مراد ہیں۔ یا اپنی حکومت کے سب افراد مراد ہیں۔ بہر حال جب ایک شخص نماز میں ’ہم‘ کا لفظ استعمال کرے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی دعامیں اُن لوگوں کو بھی شریک کرتا ہے جو اس کے علاوہ ہیں ۔وہ نماز میں بڑے جوش اور درد سے یہ دُعا کر رہا ہوتا ہے کہ الٰہی! ہماری مدد کر ۔الٰہی! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔الٰہی! ہمیں بدیوں سے بچا۔ الٰہی! ہمیں اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی توفیق عطا فرما۔ اور اُس کے پاس کھڑا ہوا ایک دوسرا شخص یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ نماز جلدی ختم ہو تو میں گھر جائوں۔ میں نے جانوروں کو چارہ ڈالنا ہے ۔یا میری بیوی بیمار ہے اُس کے لئے ڈاکٹر سے دوائی لانی ہے ۔ وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی توجہ کسی اور طرف ہوتی ہے۔ اگر اُس کے ساتھ کھڑا ہونے والا مومن بندہ اپنی دعا میں اُسے بھی شریک کر رہا ہوتا ہے جسے نماز کا کچھ بھی خیال نہیں ہوتا، جسے نماز میں بھی خدا یاد نہیں آتااور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! تواسے بھی ہدایت دے یا اللہ! تو اس کے سینہ کو بھی نیکی کے لئے کھو ل دے۔ پھر جب ہم نماز میں ’ہم ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں ہمارے محلہ والے بھی شریک ہوتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ محلہ والوں میں سے چند آدمی تو نماز کے لئے مسجد میں آجاتے ہیں لیکن باقی آدمی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور پھر اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ کوئی شخص قسم کھا کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں نے چار آنے کو یہ چیز لی تھی جو سوا چار آنے کو فروخت کر رہا ہوں اور صرف ایک پیسہ نفع لے رہا ہوں ۔ حالانکہ اُس نے وہ چیز صرف ڈیڑھ آنہ میں لی ہوتی ہے اور اُس کا کہنا کہ میں نے چار آنہ کو یہ چیز لی تھی محض جھوٹ ہوتا ہے ۔کوئی شخص کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص گھی ہے حالانکہ اُس گھی میں اُس نے خود چربی ملائی ہوتی ہے۔غرض اُس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی خداتعالیٰ کی خشیت نہیں ہوتی ۔مگر ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ہیں تو کہتے ہیں اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ خدا یا! ہمارے محلہ کے وہ آدمی جو غلطی سے نماز میں نہیں آئے اور جو جھوٹ بول بول کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں تو اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں سیدھے راستہ پر چلا۔ اگر کوئی شخص اس طرح غور کرکے نماز پڑھے تو اس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کس قدر بڑھ جائے گی ۔ اُن کی اصلاح کا جذبہ اُس کے دل میں کس قدر ترقی کر جائے گا اور وہ کس قدر تڑپ رکھے گا کہ سب لوگ راہ راست پر آجائیں اور ہر قسم کی بدیوں اور گناہوں سے محفوظ ہو جائیں ۔ پھر جو شخص اپنے ہمسایوں اپنے محلہ والوں اور اپنے شہر والوں کے لئے اس طرح دُعائیں کرے گا ضروری ہے کہ اس کی یہ دعائیں کسی دن قبول ہو ں اور اُن کو ہدایت میسر آجائے ۔ آخر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ دعا کبھی قبول نہیں ہو سکتی ۔اگر اس دعا نے قبول ہی نہیں ہونا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا ہمیں سکھائی کیوں ؟ اس کا سکھا نا بتا تا ہے کہ یہ دعا قبول ہونے والی ہے ۔اور جب یہ دعا قبول ہونے والی ہے تو ضروری ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں کسی دن دوسرے کو ہدایت میسر آجائے ۔کبھی کسی واعظ کا وعظ سن کر ہدایت حاصل ہو جاتی ہے ۔اور کبھی گھر میں کوئی مصیبت آتی ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے ۔بہر حال کسی نہ کسی ذریعہ سے جب بھی دوسرے شخص کو ہدایت میّسر آئے گی تو چونکہ یہ ہدایت اس دعا کے نتیجہ میں ہو گی اس لئے نماز صرف نماز پڑھنے والے کو ہی بدیوں سے روکنے والی نہیں ہوگی بلکہ دوسروں کو بھی بدی اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے والی بن جائے گی ۔ پھر اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡھٰی عَنِ الۡفَحۡشَآئِ وَالۡمُنۡکَرِ میں صلٰوۃ کے معنے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ہیں وہاں اس کے ایک معنے دعا کے بھی ہیں اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز جو ہم نے تمہیں سکھائی ہے اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے ۔ اگر عبادت مراد لو تو جب کوئی شخص اخلاص اور محبت سے خداتعالیٰ کی درگاہ میں بار بار جائے گا تو لازمی طور پر وہ کوشش کرے گا کہ میں بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے الگ رہوں اور اس طرح نماز اُسے گناہوں سے محفوظ کرنے والی بن جائے گی۔اوراگر دعا مراد لو تب بھی نماز انسان کو فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہے کیونکہ نماز میں بار بار یہ دعائیں آتی ہیں کہ الٰہی مجھ پر بھی رحم فرما۔ میرے ہمسایہ پر بھی رحم فرما ۔میرے اہل ِ ملک پر بھی رحم فرما۔ میرے دوستوں اور عزیزوں پر بھی رحم فرما ۔ اگر ساری عمر میں ایک دفعہ بھی یہ دعا قبول ہو جائے تو کم از کم اس کے ذریعہ ایک آدمی تو ضرور ہدایت پا جائے گا ۔اور اس طرح یہ نماز جہاں خود اُس کی ذات کے لئے ہدایت کا موجب ہو گی وہاں دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہدایت کا موجب بن جائے گی اور انہیں فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہوگی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ساٹھ کروڑ مسلمان سچے دل سے نماز یں پڑھنے لگ جائیں ۔اور ایک شخص کی دعا سے ایک شخص کو ہی ہدایت میّسر آجائے ۔تب بھی ساٹھ کروڑ مسلمان اس دعا کی بر کت سے ایک ارب بیس کروڑ بن جاتے ہیں ۔اور اسلام کے غلبہ اور اُس کی شوکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی ۔ اس موقعہ پر بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم تو نمازوں میں دعائیں مانگتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دعا کا قصور نہیں ۔دعا مانگنے والے کا قصور ہے ۔وہ مانگ یہ رہے ہوتے ہیں اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَ نۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ۔مگران کے دلوں میں دعائوں کی قبولیت کا کوئی یقین نہیں ہوتا۔اور جب انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہی نہ ہو تو وہ انہیں دے کیوں ؟ جب آپ ہی وہ اللہ تعالیٰ پر بدظنی رکھتے ہوں اور جب آپ ہی وہ اُس کی طاقتوں کے منکر ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کو قبول کیوں کرے؟ اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہؓ نے بھی یہی کہا تھا کہ الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔مگر اس کے نتیجہ میں سارا عرب مسلمان ہو گیا۔سارا شام مسلمان ہوگیا ۔ سارا فلسطین مسلمان ہو گیا ۔سارا مصر مسلمان ہو گیا ۔سارا ایران مسلمان ہو گیا ۔آخر فلسطین اور شام اور مصرا ور ایرا ن اور عراق کے لوگوں کو اس زمانہ کے لوگوں سے کوئی علیحدہ دماغ تو نہیں ملا ہوا تھا۔ جو بدیاں آج یورپ اور امریکہ میں پائی جاتی ہیں وہی اُن لوگوں میں پائی جاتی تھیں ۔پھر اُن لوگوں کو کیوں ہدایت ملی ؟ اسی لئے کہ اُس زمانہ میں مسلمان نمازیں پڑھتے تھے تو وہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری دعائوں کو سُننے والاہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دل میں درد بھی اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کو خداتعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہو۔ فرض کرو ایک شخص پر ڈاکو حملہ کرتا ہے اور وہ اُس سے ڈر کر بھاگتا ہے اور اپنی حفاظت اور بچائو کے لئے ایک مکان کے پاس پہنچ کر دستک دیتا اور زور زور سے مالک مکان کو آوازیں دیتا ہے توجس درد سے وہ اُس وقت یہ کہہ رہا ہوگا کہ خدا کے واسطے دروازہ کھولو وہ بالکل اَور قسم کا ہوگا ۔ لیکن اگر وہی شخص بھاگتے ہوئے ایک چٹان کی طرف چلا جاتا ہے اور یونہی اُ س ڈاکو کو ڈرانے کے لئے آوازیں دینا شروع کر دیتا ہے کہ دروازہ کھولو تو چونکہ وہ جانتا ہوگا کہ اس جگہ کوئی آدمی نہیں اس لئے باوجود اس کے کہ وہ کوشش کرے گا کہ زور زور سے آوازیں دے اور ڈاکو پر اثر ڈالے کہ میں کسی آدمی کو اپنی مدد کے لئے بلا رہا ہوں پھر بھی اس کی آواز میں درد نہیں ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہوگا کہ یہاں آدمی کوئی نہیں ۔ میں محض ڈرانے کے لئے یہ شور مچا رہا ہوں ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس اخلاص سے نمازیں پڑھتا ہے کہ واقعہ میں خدا میری دُعائوں کو سن رہا ہے تو اُس کے اندر جو درد اور جوش پیدا ہو گا وہ اُس شخص کے اندر کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو محض بناوٹ اور ریاء کے لئے نمازیں پڑھتا ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی قدرتوں پر کوئی یقین نہیں رکھتا‘‘ ۔ (تفسیر کبیر سورۃ المومنون زیر آیت 63 ۔ جلد 6 صفحہ187- 191 ) ……………… (باقی آئندہ)