اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… وقف جدید ۔ ایک لازوال تحریک روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25جولائی 2011ء میں مکرم واحد اللہ جاوید صاحب کے قلم سے وقف جدید کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ 9جولائی 1957ء کی عیدالاضحی احمدیوں کے لئے ایک نئی شان سے آئی جب خطبۂ عید میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نئے نظام ’’وقف جدید‘‘ کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا: ہمارے نوجوان افریقہ کے جنگلات میں بھی کام کر رہے ہیں۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مَیں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں تحریک جدید کے ماتحت وقف کرتے ہیں، وہ اپنی زندگیاں براہ راست میرے سامنے وقف کریں۔ وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں۔ ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیںہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے۔ فرمایا: دیکھو ہمت والے لوگوں نے پچھلے زمانے میں بھی کوئی کمی نہیں کی۔ یہ دیو بند ایسے ہی لوگوں کا قائم کیا ہوا ہے۔ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒ کی ہدایت کے ماتحت یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور آج سارا ہندوستان ان کے علم سے منور ہو رہا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 27دسمبر 1957ء کو جلسہ سالانہ کے دوسرے روز وقف جدید کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے مبلغین کا جال پھیلا دیا جائے اور دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو یاد کان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میںرہ کر قرآن و حدیث پڑھانے کا کام کرتا رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ایک د فعہ اورنگزیب عالمگیر کو اس کے ایک مصاحب نے ڈرتے ڈرتے اطلاع دی کہ بادشاہی مسجد کا کچھ حصہ جل گیا ہے۔ یہ سن کر اورنگزیب بہت خوش ہوا اور سجد ہ میںگر کر خدا کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کی سعادت بخشی ہے۔ اورنگ زیب نے بتایاکہ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کس طرح مسجد کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالوں جبکہ مسجد مکمل ہے اور مزید تعمیر کی گنجائش ہی نہیں ہے۔آج اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کر دیا ہے کہ اس کار خیر میںشریک ہوسکوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اب زمانہ ہے کہ ہر گائوں میں، ہر قصبہ میں اور ہر شہر میں اور وہاں کی ہر مسجد میں ہمارا مربی اور معلم ہونا چاہئے اور اس کے لئے بہرحال جماعت کو مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی… اپنے بچوں کی قربانیاںکرنی پڑیں گی تاکہ اس کے لئے پیش کریں ، وقف بھی کریں۔ لیکن یہ سب ایسے ہونے چاہئیں کہ جو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوں۔ صرف آدمی نہیں ہم نے بٹھانے بلکہ تقویٰ پر قائم آدمیوںکی ضرورت ہے ۔‘‘ اس وقت 300سے زائد معلمین وقف جدید کے ماتحت خدمت دین کر رہے ہیں۔ ا ن واقفین زندگی کی قربانیاں، کوششیں اور تکالیف ازدیاد ایمان کا باعث بن رہی ہیں۔ مثلاً ایک معلم صاحب نے بتایاکہ اُن کی پہلی تقرّری نگرپارکر میں تھی۔ وہاں کے حالات ایک ایسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیںکہ اس ترقی یافتہ دَور میںتصور بھی ناممکن ہے۔ ایک جھونپٹری میں رہائش تھی۔ پانی کا وجود کوسوں دور تھا۔ ایک گھڑے پانی کے لئے تقریباً 20کلومیٹر سفر کرنا پڑتا تھا۔ گویانصف سے زائد دن پانی کے حصول میں صَرف ہوتا تھا۔ موصوف تمام راہ لوگوں کو ملتے، سلام کرتے اور اللہ کا پیغام دیتے اور اس طرح پانی لے کر واپس آ جاتے۔ رات کو اللہ کے حضور پیش ہو جاتے اور گریہ و زاری کرتے۔ وہاں ہندوئوں کی آبادی تھی وہ خیال کرتے تھے کہ یہ احمدی ہے اور ہمارا دھرم بھرشٹ کرنے آیا ہے۔ لہٰذا اس سے الگ تھلگ ہی رہو؟ معلم صاحب پریشان تھے کہ کوئی بھی تو پاس نہیںآتا۔ بات سننا تو درکنار دیکھ کر ہی رستہ بدل جاتے ہیں۔ رات کو جو آہ و زاری کرتے تھے اس کو سن کر ایک شخص آہی گیا اور معلم صاحب سے پوچھا ’’بیٹا! تمہیں گھر یاد آتا ہے؟ ’نہیں‘ معلم صاحب نے جواب دیا۔ پھر تمہیں یار دوست یاد آتے ہیں؟ ’نہیں‘ ۔ اچھا تو گائوں یاد آتا ہے؟ اس کا بھی نفی میں جواب سن کر وہ شخص جھنجلا گیا اور پو چھا کہ پھر تم رات بھر ررُیاں کیوں نکالتے ہو؟ یعنی رات رات بھر روتے کیوں ہو۔ معلّم صاحب نے بڑی مشکل سے اس آدمی کو یقین دلایا کہ یہ سارا رونا دھونا ان کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کر لیں اور جنت میں جائیں دوزخ سے بچ جائیں۔ جب اُس شخص کو آپ کی بات کا یقین آ گیا تو گھر گیا اور دودھ کا ایک گلاس آپ کے لئے لایا۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ آج خدا کے فضل سے ایک بڑی جماعت وہاں قائم ہے۔ اور وہاں سے معلمین اور مربیان تیار ہو کر دیگر مقامات کے لئے جارہے ہیں۔ ایک اور معلّم صاحب نے بتایا کہ جب وہ نگرپارکر گئے ہیںتو کچھ خوف سا محسوس ہوا کہ ہر طرف سانپ اور بچھو پھر رہے ہیں، زندگی کیسے گزرے گی؟ چارپائی سے اترنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ انہوںنے ایک و قت میں پانچ پانچ بچھو بھی دیکھے۔ آخر کار سوچا کہ مَیں خدا کی خاطر وقف ہوں اگر ڈرتا رہا تو کام کیسے کروں گا؟ دل کو مضبوط کیا کہ اگر موت مقدّر ہے تو قبول ہے۔ ایسی جگہ پر جائے نماز بچھایا جہاں یہ سانپ بچھو کثرت سے نظر آیا کرتے تھے۔ جہاں خطرہ تھا، گھاس بھی بڑی بڑی تھی۔ وہاں نوافل پڑھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا حوصلہ دیا کہ دل سے خیال تک نکل گیا کہ یہاں سانپ اور بچھو ہوتے ہیں۔ پس آج وقف جدید کے واقفین زندگی کی کوششوں سے روحانی ویرانے آباد ہورہے ہیں۔ …٭…٭…٭… حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28جولائی 2011ء میں محترمہ تنرئین احمد صاحبہ کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ (مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خانصاحب کے قلم سے) شامل اشاعت ہے۔ یہ مضمون ’’احمدیہ گزٹ‘‘ امریکہ جون و جولائی 2003ء میںشائع ہوا تھا جو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے حوالہ سے ایک خصوصی اشاعت تھی۔ مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے خسر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ہمیشہ میرے دل میں ایک خاص مقام حاصل رہے گا۔ میری دعا ہے کہ وہ ساری اچھی باتیں جو میں نے آپ سے کئی سالوں میں سیکھیں انہیں اپنی زندگی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بنا لوں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کے بابرکت خاندان میں میرا رشتہ ہوا تو وہاں پر میرے لئے بہت سے نئے چہرے اور بہت سی نئی باتیں تھیں جن کے ساتھ مجھے مطابقت کرنا تھی۔ مَیں زیادہ اردو نہیں بول سکتی تھی۔ کیونکہ مَیں امریکہ میں پلی بڑھی تھی اس لئے مجھے زیادہ تر انگریزی زبان ہی آتی تھی۔ جب بھی آپ بات کر رہے ہوتے تو اس چیز کو یقینی بناتے کہ میں آپ کی بات سمجھ گئی ہوں خواہ ساری بات آپ کو دوبارہ انگریزی میں بتانا پڑتی۔ اس طرح ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اردو بہتر ہوتی گئی لیکن اس کے باوجود اگر آپ خیال کرتے کہ ممکن ہے میںکسی بات کو سمجھ نہیں پائی تو میرے لئے دوبارہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کر دیتے۔ آپ دانشمندی، عاجزی، رحمدلی، دیانت و صداقت اور محبت، سب صفات پر مشتمل حیرت انگیز شخصیت تھے۔ آپ کی فراست اور دانش مجھے ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتی۔ کسی صورت حال کا تجزیہ کرنے، اس کے مثبت اور منفی پہلو پر نظر رکھنے، اس کے دُور رس اثرات اور اس کی باریکیوں کو بھانپ لینے کی آپ کی صلاحیت حیرت انگیز تھی۔ لیکن اپنے علم اور تجربہ کے باوجود آپ ہمیشہ کھلے دل سے دیگر احباب کے مشوروں اور جائزوں پر دھیان دیتے۔ عجز و انکسار آپ کی شخصیت کا مرکزی نقطہ تھا۔ انتہائی منکسرالمزاج شخص تھے۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے پوتے تھے اور اپنے طور پر زبردست صاحبِ اثر و رسوخ تھے لیکن جب آپ لوگوں سے معاملہ کرتے، خواہ وہ امیر لوگ ہوتے یا غریب لوگ، وہ مرد یا عورتیں یا بچے ہوتے آپ اُن سب کے ساتھ انتہائی فروتنی اور بردباری سے پیش آتے۔ آپ کسی کو یہ محسوس نہ ہونے دیتے کہ وہ کسی لحاظ سے کم اہمیت کا حامل ہے۔ کسی قسم کا تصنّع نہ کرتے۔ آپ سراسر حقیقت پسند اور تقویٰ کی دولت سے مالا مال شخصیت تھے۔ آپ اکثرہمیںیہ بات سناتے کہ جب آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کی تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے گھرمیںکوئی ایسی (شان و شوکت والی) چیز نہ رکھو جو کسی غریب آدمی کو مرعوب کر دے اور آپ کے پاس مدد کے لئے آنے میں حائل ہوجائے۔ آپ کی دانشمندی اور فروتنی کی صفات کو غمگساری کے وصف نے چار چاند لگا دئیے تھے۔ جماعت اور اس کے کارکنان کے لئے آپ کی دردمندی، نیز اپنے دوستوں اور اپنے اہلِ خانہ کے لئے غمگساری قابل رشک تھی۔ آپ دوسروں کو ذرا سی بھی تکلیف دینے سے بہت پریشان ہوجاتے تھے لیکن اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے آپ خود کتنی تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ کسی قریبی عزیز کی بیماری میں اُس کا غیرمعمولی خیال رکھتے اور پسندیدہ غذا، دوائیں اور دیگر ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لئے باقاعدہ کوشش کرتے۔ دیانت اور راستبازی آپ کی زندگی میں ایک مستقل قرینہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ اس بارہ میں بہت محتاط رہتے تھے کہ آپ کا کوئی عمل کسی شخص کے لئے کسی طور پر بھی اعتراض کا کوئی موقع مہیا نہ کرے۔ آپ کا تقویٰ آپ کے ہر عمل کا نگران رہتا۔ گھر میں جماعتی امور کے لئے جو ٹیلی فون کی لائن تھی اُس سے بعض دفعہ کوئی انجانے میں ذاتی کال ہوجاتی تھی لیکن آپ ایسی تمام کالز کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے کر اس بات کو یقینی بناتے کہ ان Calls کی رقم جماعت سے وصول نہ کی جائے۔ خلافت سے آپ کی محبت کا جذبہ ہر چیز پر حاوی تھا۔ اپنی لمبی علالت کے دوران اکثر شدید درد میںمبتلا رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک د فعہ آپ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ حالت بہت تشویشناک تھی اور آپ بات کرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے تھے۔ ہم آپ کے پاس کھڑے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میرے میاں ظاہر احمد نے فون اٹھایا۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا فون تھا وہ آپ کا حال دریافت فرما رہے تھے۔ آپ کی صحت کے متعلق حضورؒ کو کچھ تفصیل بیان کرنے کے بعد میاں ظاہر احمد نے فون آپ کو دے دیا۔ ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اور آواز میں درد کی ذرّہ سی بھی رمق ظاہر کئے بغیر آپ نے کہا: ’’السلام علیکم‘‘۔ اسی کھنکھناتے ہوئے لہجے میں جو آپ کی صحت کی حالت میںہوتا تھا۔ چہرہ مسکراہٹ سے کھل اٹھا۔ وہ اپنے پیارے حضور سے باتیں کر رہے تھے اور اس لمحے دنیابھر کا درد آپ کے ولولہ و شوق کو ماند نہیں کر سکتا تھا۔ اہل خانہ کے ساتھ آپ کا پیار کبھی بھی باتوں کی حد تک نہیںتھا بلکہ آپ کا عمل، مشفقانہ سلوک اور خوبصورت رویّہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ ہم سے متعلقہ چھوٹی چھوٹی باتوں جیسے کہ خاص اہمیت اور خوشی کے دن، سالگرہ کے مواقع اور پسندیدہ کھانوں کو ذہن میں رکھتے۔ اگر کوئی ایسا مضمون آپ کے مطالعہ میں آتا جس کے متعلق آپ سمجھتے کہ یہ میری دلچسپی کا موضوع ہو گا تو وہ مجھے دیدیتے۔ بچوں سے دن بھر کے معمولات کے متعلق دریافت کرتے۔ سکول یا کھیل میں اُن کی عمدہ کارکردگی کی تعریف و تحسین کرتے۔ بچے آپ کے کمرہ سے ہمیشہ خوش اور مسکراتے ہوئے، بسکٹ اور چاکلیٹ پکڑے رخصت ہوتے کیونکہ آپ ہمیشہ ان کی کامیابیوں پر بھرپور خوشی کا اظہار کرتے اور ان کی کمزوریوں پر بے حد ہمدردانہ سلوک روا رکھتے اور ہمیشہ ان میںیہ تأثر اُجاگر کرتے کہ وہ اہم وجود ہیں۔ وفات سے کوئی ایک ماہ قبل آپ ہسپتال میں داخل تھے۔ بچے ان کو وہاں ملنے گئے۔ آپ ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ انہیں قریب بلاکر دونوں کو ایک ایک سو ڈالر دئیے اور کہا کہ وہ جا کر ایسی چیزیں خرید لیںجو واقعی ان کی خواہش اور ضرورت کی ہو۔ عام طور پر تو بچوں کے پاس ایسی اشیاء کی نہ ختم ہونے والی لسٹ ہوتی ہے لیکن اس دن دونوں بچے وہ نقدی گھر لے آئے اور صدقہ دینے کی رقم میں ڈال دی کیونکہ دونوں کی صرف یہ خواہش تھی کہ ان کے دادا صحت یاب ہوجائیں۔ یہ واقعی ہماری خوش قسمتی تھی کہ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب ہماری زندگیوں کا اتنا اہم حصہ تھے۔ ہمیں ہمیشہ ان کی کسک بھری کمی محسوس ہوتی رہے گی۔ معروف شاعر عبدالسلام اسلام صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی وفات پر جو درد بھری نظم لکھی تھی، اس کے دو شعر یوں ہیں؎ باغ احمد کا مہکتا پھول وہ بن کے غنچہ، وہ گُلِ تر چل بسا مثِل ساقی تھا وہ اپنی بزم میں بادئہ الفت لُٹا کر چل بسا